علم حدیث کا نیر تاباں
حضرت مولانا محمدانصار صاحب مدظلہ
شیخ الحدیث دارالعلوم حید رآباد
مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ دار العلوم حیدرآباد
E-mail:
07207326738 Mob:
اسلاف کی زندگی ، ان کی روشن تعلیمات ،ان کے انمٹ نقوش ، دین کے سلسلے میں ان کی جہد مسلسل ، ایثار و قربانی اور فخر و استغناء کے معجون سے تیار ان کی پاکیزہ سیرت ، شب بیداری و آہِ سحر گاہی سے مزین ان کی زندگی کے شب و روز ،تقوی و طہارت اور تواضع و مسکنت سے لبریز ان کا ظاہر و باطن، عام مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ،کامیابی کی شاہ کلید ،ترقی کا زینہ ، اور روشن مستقبل کے ضامن ہوتے ہیں-
اس لئے اسلاف اور اکابرِ امت کی زندگی کو اجاگر کرنا ، ان کے مشن اور ان کی باکمال زندگی کو تحریر کی روشنی دینا ایک انقلابی عمل ہے ،تاکہ تاریک راہوں پرموت و زیست کا سفر طے کرنے والے ،منزل کے متلاشی مسافر اس روشنی میں اپنا سفر بہتر سمت میں طے کر سکیں ،اسلاف کی بامقصد اور کر دار و عمل سے بھر پور سفرِ حیات کو تحر یر کی زندگی دینے کا یہی مقصد ہوتا ہے ،تاکہ بعد کے مسافر انِ راہِ رو، ان کی رودادِ زندگی پڑھ کر اپنا قبلہ درست کرسکیں ، اور ان کے عزم و حوصلہ ،استقامت و جوانمردی ،ریاضت و مجاہدہ،اور کٹھن راستے کی پگڈنڈیوں پر کامیابی کے ساتھ گزرجانے کے ان کے کامیاب تجربے سے بعد کے رہ گزر بھی حوصلہ کی بلندی حاصل کر سکیں ۔
عام طور پر قابل تقلید لوگوں کے حالات اس وقت قلم بند کئے جاتے ہیں جب کہ ان کی زندگی کا سفر تمام اور ان کے علم و عمل کا چراغ گل ہوچکا ہوتا ہے ،ان کی حیاتِ مستعار کی کمر ٹوٹ چکی ہوتی ہے ،ظاہر ہے کہ کارواں کے پیچھے رہ گئے لوگ ان کو دیکھنے کی صرف حسرت کرسکتے ہیں ، ان کے متعلق لکھی ہوئی باتوں کو نسخۂ حیات تصور کرسکتے ہیں،لیکن اگر ان کی زندگی میں ہی ان کے کامیاب سفر کا تذکرہ کر دیا جائے ،علم و عمل اور فکر و نظر کے روشن مینار سے لوگوں کوواقف کرا دیا جائے تو لو گ ان کے چہرے کی تابانی،عمل کی جولانی ،کردار کی روانی ،حوصلے کی بلندی ،عزم و استقلال کی پختگی ،اور تقوی و طہارت کی پاکیزگی دیکھ سکتے ہیں، ان کی صحبت حاصل کرکے کامیابی کا گُر تلاش کرسکتے ہیں ،مشکل مسائل اور کٹھن گھڑی میں ان کی دعاؤں اور مفید مشوروں سے حالات سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں اس لئے بزرگوں کا تذکرہ جس طرح ان کی زندگی کے اختتام کے بعد ہوناچاہئے اسی طرح ان کی زندگی کے چراغ جلتے وقت بھی ہونا چاہئے ،عربی و اردو ادب کے معروف قلم کار حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب استاذ ادب عربی دارالعلوم دیوبند و ایڈیٹر ماہ نامہ الداعی عربی نے ایک جگہ لکھا ہے
زندوں پر لکھنا بعض اعتبار سے مردوں پر لکھنے سے زیادہ کار آمد ہے کہ ان کے فضائل سے زندہ رہتے ہوئے آگاہی کے بعد باتوفیق لوگ ان کے جیتے جاگتے کردار ،ان کی خوبی سے، بھر پور شخصیتوں ،ان کے رفتار و گفتار اور اکتسابات کے رویوں سے فائدہ اٹھانے سے محروم نہ رہیں گے کہ زندہ کی زندگی کا زندہ کردار مردہ کے ماضی کے بے جان کردار سے زیادہ مؤثر اور فعال ہے اس لئے زندوں پر لکھنا غالباً مردوں پر لکھنے سے زیادہ مفید ہے۔
آج میں ایسی ہی ایک پاکیزہ اوصاف کی حامل شخصیت کا تذکرہ کرنے جارہاہوں جن کی زندگی کا سورج ابھی غروب نہیں ہوا ہے ،ان کی زندگی کے چراغ کا تیل اگر چہ کم ضرور ہوچکا ہے ،لیکن اس کی لو کی مدھم نہیں ہوئی ہے ،اس کی روشنی میں کمی نہیں آئی ہے ،ان کے روشن چراغ سے نصف صدی سے علم و ادب کے شیدائی ، اور راہِ ہدایت کے مسافر روشنی حاصل کر رہے ہیں یہ چراغ مسلسل جل کر نہ جانے کتنے حق کے متلاشی کو رشنی فراہم کر رہا ہے ،اپنی روشنی سے پورے ماحول کو منور کر رہاہے ،اس روشنی سے اپنے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں اور بے گانے بھی ،دوست بھی دشمن بھی ،بڑے بوڑھے بھی ،اور معصوم ننھے بچے بھی ، مرد بھی عورتیں بھی ،یہ چراغ نہ تو کبھی شکوہ کرتا ہے اورنہ ہی حرف تنقید زبان پر لاتا ہے ، نہ ہی داد کا طالب ہے اور نہ دولت و شہرت کی اس میں چاہت ہے بس ایک ہی بات ان کی زبان پر ہے
اپنا تو کام ہے کہ جلاتے چلو چراغ
رستے میں خواہ دوست کہ دشمن کا گھر ملے
تقریب اس کی یہ ہوئی کہ جب میں ۲۰۱۱ء میں تدریس کے لئے دکن کی معروف درسگاہ دارالعلوم حید رآباد آیا تو یہاں میں نے ایک شناسہ سے ملاقات کی یہ تھے ہمارے مشفق حضرت مولانا محمدانصار صاحب، وطنی تعلق کی بنا پر ان سے پہلے سے ہی واقف تھااور کبھی کبھار راستے میں چلتے پھرتے ان سے ملاقات بھی ہو جاتی تھی ؛لیکن ،علاقہ کہ دوسرے بزرگوں کی طرح ان سے مانوس نہیں تھا ؛بلکہ زمانہ طالب علمی میں اپنے بعض ساتھیوں سے ان کی سخت مزاجی کو سن کر ان سے تھوڑا دور ہی تھا ؛لیکن جب دارالعلوم حید رآباد میں ان سے ملاقاتیں ہوئیں اور ان کو قریب سے دیکھنے اور سفر و حضر میں ان کو برتنے کا موقع ملا تو سابقہ خیال پر پشیمانی ہوئی، اپنے بعض دوستوں سے اس کا تذکرہ بھی کیا ۔
درمیانہ، بلکہ اٹھتا قد ، گندمی رنگ ،سادہ لباس ، اکثر لنگی میں ملبوس ، سر پر سنتی زلفیں اور اس پر سر سے چپکی ہوئی ٹوپی ،کندھے پر عام طور رومال، نگاہیں پست ،آگے کی طرف جھک کرتیزی کے بڑھتا ہوا قدم ،مسکراہٹ اور خندہ پیشانی کے ساتھ ملنے والوں سے ان کا برتاؤ یقیناًایک متبع سنت کی تصویر ہمارے سامنے پیش کرتی ہے ۔
آپ کا آبائی وطن صوبہ بہار کا معروف شہر بھاگلپور ہے ، بھاگلپور ریلوے اسٹیشن سے مغرب کی جانب پانچ کیلو میٹر دوری پر ایک زرخیز و مردم خیز علاقہ چمپانگر ہے جہاں علماء و حفاظ کی الحمد للہ بہت کثرت ہے ،آپ کی ولادت اسی قصبہ کے ایک دیندار گھرانے میں ہوئی آپ کے والد بزرگوار نیک صوم و صلاۃ کے پابند انسان تھے، آپ چار بھائی ہیں جس میں تین بھائی عالم ہیں ،عالم کیا ہیں ،بلکہ سب علامہ ہیں ، آپ سے بڑے بھائی مولانا اکرام صاحب ؒ جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل میں شیخ الحدیث تھے، ایک عہد کو آپ نے فیض پہنچایا ، ہندوستان کے علاوہ پورپی ممالک ، افریقی بر اعظم اور ایشیا کے اکثر ملکوں میں ان کے حاشیہ نشین اور فیض یافتگان موجود ہیں ،آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے کے معروف مدرسہ اصلاح المسلمین میں حاصل کی ثانوی تعلیم کے لئے ایک سال مفتاح العلوم مؤ میں گزارا یہاں آپ نے مفتی نظام الدین صاحب ؒ اعظمی سے جو بعد میں دارالعلوم دیوبند کے مفتی اعظم کے نام سے مشہور ہوئے شرف تلمذ حاصل کیا ، اس کے بعد آپ نے دارالعلوم دیوبند کا قصد کیا اور وقت کے اساطین اور جبال العلم کی حاشیہ نشینی حاصل کی ،آپ نے یہاں شیخ العرب و العجم شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کے سامنے زانوئے ادب طے کیا اور درس نظامی کی آخری کتاب بخاری شریف مکمل پڑھنے کا شرف پایا ، فراغت کے بعد آپ نے مزید دو سال علوم و فنون میں گزارے ۔
تدریسی زندگی :آپ کی زندگی میں علم و ادب کے متلاشی کے لئے عبرت و نصیحت کے بہت سے پہلو ہیں،جس سے وہ اپنی زندگی کا رخ طے کرسکتے ہیں ، اپنے حوصلے کو بلند، ارادے کو مضبوط کرسکتے ہیں آپ نے فراغت کے بعد اپنے اساتذہ کے مشورہ سے تدریسی زندگی کا آغاز کیا ،اکابر کی تاریخ میں یہ بات ملتی ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کے مشورے کے پابند ہوا کرتے تھے ،اساتذہ نے جہاں اور جو پڑھانے کے لئے بھیج دیا بخوشی چلے گئے نہ کبھی حالات کی سنگینی کا شکوہ کرتے تھے اور نہ ہی کتاب اور تنخواہ کے ناموافق ہونے کا ،اب یہ صفت ختم ہوتی جارہی ہے اب طلبہ اپنے اساتذہ سے مشورہ تو ضرور کرتے ہیں؛ لیکن اچھی اور معیاری جگہ کے لئے اسی لئے اگر جگہ موافق نہ ہو تو یا تو جاتے نہیں ہیں یا جلد ہی واپس آجاتے ہیں ،حضرت مولانا میں اکابر کی یہ خصوصیت پائی جاتی ہے ،انہوں نے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی ؒ کے مشورے سے آسام کے مدرسہ عالیہ سے شروع کیا ،اور دوسال بعد آسام کے معروف مدرسہ دارالعلوم باسکنڈی چلے گئے اور چھ سال تک علوم و فنون کی کتابیں پڑھائیں پھر ناغا تحریک کی وجہ سے آسام کا راستہ مخدوش ہو گیا تو استاذ محترم کے مشورے سے یوپی کے شہر بارہ بنکی میں روشنی کا نیا چراغ روشن کیا اس کے علاوہ مختلف مدارس میں علوم نبوت کے متوالوں کی تشنگی دور کرتے رہے بالآخر اپنے علاقے میں تاریکی اور بے دینی کی فضا محسوس کی اور کوئی روشن چراغ دکھائی نہ دیا ؛بلکہ سب ٹمٹماتے چراغ تھے جس لو بہت مدھم تھی اس لئے انہی لو کو تیز کرنے کے لئے علاقہ میں خدمت شروع کی لیکن یہاں بھی زیادہ خدمت مقدر نہ تھی اس لئے ۱۹۸۵ء میں دکن کے بافیض ادارہ دارالعلوم حیدر آباد میں استاذ حدیث کی حیثیت سے جلوہ افروز ہوئے اور فی الحال شخ الحدیث کے منصب پر فائز ہیں مولانا نے مختلف مدارس میں تدریسی فرائض انجام دی ہے اس سے ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ حالات سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ استقامت کے ساتھدین کی خدمت میں لگے رہنا چاہئے اللہ تعالی راستے کھول دیتے ہیں آج کل فضلاء مدارس دو تین مدارس بدلنے کے بعد مدارس کی لائن سے بد دل ہو جاتے ہیں اور تدریسی ذمہ داریوں سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں جو ایک لمحۂ فکریہ ہے ۔
علم حدیث کا روشن چراغ:
دارالعلوم دیوبند کی علمی کوکھ سے پیدا ہونے والے ،ملک وملت کی تعمیر و ترقی میں خاص طور پر نبوی تعلیمات کے فروغ دینے او رعلم حدیث کی خدمت گاروں میں ایک ممتاز نام آپ کا بھی ہے آپ ۱۹۶۱ء سے علم حدیث کی شمع روشن کئے ہوئے ہیں گو یا نصف صدی سے زائد عرصے سے آپ کو خدائے واحد نے حدیث اور درس حدیث سے وابستہ کر رکھا ہے یہ آپ کی سعادت مندی اور خوش نصیبی کا ایک بڑا حصہ ہے آپ نے پوری زندگی حدیث کی شمع روشن کی، اس عرصے میں بے شمار لوگوں نے آپ سے روشنی حاصل کی ،فیض پایہ ،جینے کا سلیقہ اور ادب کا قرینہ سیکھا ،میں جب بھی آپ سے ملنے گیا تو آپ کوحدیث و شروحاتِِ حدیث کے ڈھیر میں مستغرق پایا ،آپ بلند پایہ محدث اور شراح حدیث کے اقوال کے حافظ ہیں ،شروحاتِ حدیث کے کثرت مطالعہ کی وجہ سے حدیث میں آپ کو درک اور ملکہ حاصل ہے ۔
کامیاب مدرس :آپ خالص مدرس اور کامیاب مدرس ہیں ، آپ نے اپنی زندگی کا مشغلہ اور جینے کا مقصد تعلیم و تدریس اور خدمت دین کو بنا رکھاہے اور جو چیزیں اس میں رکاوٹ بن سکتی ہیں اس سے کوسوں دور ہیں ،آپ نے وعظ و نصیحت اور تحریر و کتابت سے بھی فاصلہ بنائے رکھا ہے ،تاکہ مکمل یکسوئی کے ساتھ حدیث کا مطالعہ ہو اور حدیث کی دقیقہ سنجی اور محدثین کی نکتہ آفرینی سے اپنے تلامذہ کو مستفید کرسکیں ، آپ ایک کامیاب اور مقبول و محبوب استاذ ہیں ، بچے حد درجہ آپ سے محبت کرتے ہیں ، اس کی خاص وجہ یہی ہے کہ آپ نے درس و تدریس کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے ایک شخص پچاس سال سے حدیث پڑھانے میں مشغول ہو تجربہ کا ربتائیں گے کہ اب ان کو مطالعہ کی ضرورت نہیں ہے، لیکن آپ آج بھی اتنی ہی تند دہی اور لگن سے مطالعہ کرتے ہیں جس طرح آپ جوانی میں کرتے ہوں گے حتی کہ جمعرات و جمعہ کی شب میں بھی آپ کتب حدیث کی ورق گردانی میں مصروف رہتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ مطالعہ ہی آپ کی غذا ہے اور کتب بینی ہی آپ کی دوا ہے ، کثرت مطالعہ کے ساتھ ساتھ درس کو کامیاب بنانے کے لئے جن اوصاف کی ضرورت ہے آپ ان تمام چیزوں کو بروئے کار لاتے ہیں اسباق و اوقات کی پابندی کا آپ بہت خیال رکھتے ہیں دیر حاضری اور غیر حاضری آپ کے نزدیک گناہِ محض ہے جس کا آپ بھو ل کربھی ارتکاب نہیں کرتے ہیں ،یہی وجہ ہے آپ تعلیم کے ایام میں کبھی بھی کسی قسم کاسفر نہیں کرتے ہیں ،ایک مرتبہ ا واقعہ ہے آپ گھر سے سبق پڑھانے کے لئے تشریف لارہے تھے راستے میں ایک گڈھے میں گرگئے جس سے آپ کا پاؤں زخمی ہوگیا ، خون بہنے لگا،لیکن آپ اس وجہ سے فوراً ڈاکٹر کے یہاں نہیں گئے کہ اس دن کا سبق کا ناغہ ہو جائے گا پہلے آپ نے سبق پڑھایا پھر ڈاکٹر کے یہاں تشریف لے گئے ،اسباق کی ایسی پابندی اس دور میں مفقود ہوتی جارہی ہے ،مختلف کتابوں او رشروحات کا خوب مطالعہ ،پھر اس کو اپنے ذہن میں مستحضر کرکے ترتیب دینا ،وقت پردرسگاہ میں حاضری ، اور بلا ناغہ درس دینا اور طلبہ کی سطح پر اتر کرکلام کرنا یہ وہ اوصاف ہیں جس نے آپ کو کامیاب مدرسین کی صف کا امام بنا دیا ہے ، یہ چیزیں ظاہری طور پر مؤثر ہوتی ہیں؛ لیکن دل کی گہرائیوں میں اترنے کے لئے ایک اور شئی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہے خون جگر اور اخلاص حضرت مولانا کے یہاں نہ خون جگر کی کمی ہے اور نہ ہی اخلاص جیسی گنج گراں مایہ کی ۔
اخلاق و اوصاف :
آپ محنت و جفاکش، خود داری و غیر ت مندی ، نفاست و فراست جیسے بلند اوصاف سے متصف ہیں ، اپنا کام ہمیشہ خود کرتے ہیں آج جب کہ آپ ستر سال کے پیرِ مغاں ہیں پھر بھی گھر کے باہر اور اندر کی تمام ضرورتیں از خود پوری کرتے ہیں ، طبیعت کے بڑے نفیس ہیں، صفائی ستھرائی کا خاص اہتمام کرتے ہیں ،مہمان نواز اور دل نواز ہیں ، مہمان جب کبھی آجائے پیشانی پر شکن نہیں آنے دیتے ، مہمان دور کاہو یا قریب کا ہر ایک کی ضیافت کرتے ہیں اور دل کھول کرتے ہیں ، عین کھانے کے وقت اگر مہمان آجائے یا بے وقت کوئی مہمان آجائے اس سے بھی خندہ پیشانی سے مل کر اس کے کھانے کا نظم کرتے ہیں ، کوئی شخص بھی کسی کام سے آجائے آپ مایوس واپس نہیں کرتے ہیں ، اللہ تعالی نے آپ کی زبان میں بلا کی تاثیرر کھی ہے آپ کی تعویذ بہت مفید اور مؤثر ہوا کرتی ہے اس لئے لوگ آپ سے کثرت سے رجوع ہوتے ہیں اور ہر کوئی با مراد لوٹتا ہے ۔
عبادت و ریاضت:
آپ کی جس صفت نے مجھے بہت متأثر کیا ہے اور آپ کی نمایاں خوبی جس کو ہرملنے والا محسوس کرسکتا ہے وہ تقوی وطہارت کی زینت سے مزین آپ کی زندگی ہے ، آپ کی زندگی خوفِ خدا اور خشیتِ الہی سے معمور ہے ،سنت کی اتباع آپ کی صبح و شام سے ہویدا ہے عبادت و ریاضت آپ کی زندگی کا لازمہ ہے ،آپ صبر و شکر اور تسلیم و رضا کے پیکر ہیں اللہ تعالی نے آپ کو اولاد کی عظیم دولت سے محروم کرکے آپ کے تسلیم و رضاکا امتحان لیا ہے ؛لیکن واقف کار بتائیں گے کہ آپ کبھی بھی اس کا شکوہ کسی کے سامنے نہیں کرتے ہیں ؛بلکہ ہمیشہ خدا کے حکم پر راضی بہ رضا نظر آتے ہیں میں نے یہ بھی دیکھا کہ ایک شخص جو اولاد کی نعمت سے محروم تھا آپ کے پاس دعا کی درخواست لے کر آیا آپ نے اس کو تسلیم و رضا کی اس انداز میں تلقین فرمائی جیسے اس موضوع پر آپ کسی بڑے مجمع سے خطاب کر رہے ہوں ۔
آپ تہجد گزار اور شب زندہ دار ہیں ، قرآن کی تلاوت اور ذکر و اذکار سے آپ کی زبانیں تر رہتی ہیں ، سفر وحضر ہر جگہ نماز ذکر و اذکار آپ کی طبیعت بن گئی ہے جمعہ کے دن عام طور پر صلاۃ التسبیح کا اہتمام و التزام کرتے ہیں ، آپ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے دست حق پر بیعت ہوئے اور ان کے بتائے ہوئے اوراد و وظائف پورے کرتے ہیں ، بعض ذرائع سے معلوم ہوا کہ آپ کو کسی بزرگ سے اجازت و خلافت بھی حاصل ہے لیکن آپ گمنامی کو شہرت پر تر جیح دیتے ہیں ، حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ کا مزاج تھا کہ آپ اپنے آپ کو بہت چھپاتے تھے اس لئے ان کے حالات میں لکھا ہے کہ ایک لنگی پہنتے تھے اور ایک لنگی کندھے پر رکھ لیتے تھے تا کہ کوئی آپ کی شخصیت کا صحیح ادراک نہ کر سکے ، حضرت نانوتوی کے لگائے ہوئے باغ کے بہت سے پھلوں میں یہ خوبی پائی جاتی ہے آپ بھی اسی باغ کے ایک پھل ہیں ؛بلکہ گل سر سبد ہیں ،جن میں اپنے آپ کو چھپا نے کا جذبہ بہت پایا جاتا ہے ، آپ کوشیخ الاسلام سے شرف شاگردی حاصل ہے اس کو شہرت دے کر آپ اپنے لئے بہت کچھ حاصل کرسکتے تھے لیکن جو ہمیشہ اپنے آپ کو فنا کرتا ہو اس کو شہرت و ناموری کی کیا ضرورت آپ کی طبیعت اور مزاج اس شعر کا غماز ہے
اے دل مجھے تشہیر کی لعنت سے بچانا
میں خاک نشیں ہوں مجھے مسند سے بچانا