امجد حیدرآبادی : دکن کا بے مثال شاعر
سید وسیم اللہ
نظام آباد
موبائل : 9848991888
اردو شاعری میں غزل‘ مثنوی‘ قصیدہ‘ مرثیہ‘ قطعات‘ رباعیات وغیرہ کا جب ذکر آتا ہے تو غزل کے ساتھ ہی آپ کے ذہن میں میر ،آتش، مومن، غالب ، مثنوی میں میر حسن اور دیا شنکر نسیم ، قصیدہ میں سودا اور ذوق ِمرثیہ نگاری میں انیس اور دبیر اور رباعی میں صرف امجد حیدرآبادی کا نام آتا ہے ۔
امجد حیدرآبادی پر گفتگو کرنے سے پہلے ہم ایک نظر صنف رباعی پر ڈال لیتے ہیں َ۔ رباعی ان سارےاصناف میں جن کا ذکر پہلے آچکا ہے سب سے زیادہ مشکل صنف ہے۔ اس میں صرف چار مصرعوں میں ایک پورے خیال کو اپنی معنویت اور شعریت کے ساتھ نظم کرنا پڑتاہے جو کہ ایک نظم کا متقاضی ہوتا ہے اس صنف کے لۓ اساتذہ نے جو حدود مقررکی ہیں ان کا تتبع بھی ضروری ہے۔ رباعی کے لۓ بحر خزج مخصوص کی گئ ہے وہ زحافات ملاکر چوبیس بحروں تک پہنچتی ہے اور حشو و عروض و ضرب ملاکر چھیانوے تک۔ رباعی گوئ حد درجہ مشکل فن ہے نہ صرف ہیئت کے لحاظ سے بلکہ مفرد مواد کے لحاظ سے بھی۔ رباعی کہنے کے لۓ بڑی بالغ نظری کی ضرورت ہےجب تک شاعر تفکر کا عادی نہ ہو جب تک وہ اپنے ذاتی مشاہدات و تجربات سے نتائج استنباط کرنے کی صلاحیت نہ پیدا کرے جب تک اسے زباں و بیاں پر مکمل دسترس اور پوری قوت نہ حاصل ہوجاے وہ رباعی اور اچھی رباعی نہیں لکھ سکتا حقیقت یہ ہے کہ شعر مفرد کے بعد یہ نظم کا مختصر ترین ڈھانچہ ہے اور ایک کامیاب رباعی میں ایجاز و اختصارکی وجہ سے اور اس کے پر مغز اور تفکر سے مملو موضوع و مضمون کی بناء پر جو دیر پا حسن و تاثر دل آویزی و دلنشینی کیف و سرخوشی اور نشہ و سرور پیدا ہو جاتا ہے وہ اکثر بڑی نظموں میں اطناب سے بات کو پھیلا کر کہنے سے اور ایک ہی خیال کو بار بار دہرانے سے معدوم ہوجاتا ہے
جوش ملیح ابادی نے ‘رباعیاتِ محروم’ کے دیباچہ میں لکھا ہے
"رباعی کہنا بڑا مشکل ہے یہ وہ کمبخت صنفِ سخن ہئ کہ بڑے بڑے بہادروں کو سپر انداختہ کردیتی ہے اور کافر صنف بڑے بڑوں کے بھی قابو میں اس وقت تک نہیں آتی ہے جب تک کہ زمانے کی سرد و گرم ہوائیں شاعر کی حساس و مفکر زندگی کے تقریباً چالیس پچاس ورق نہیں الٹ دیتی ہیں”۔
ایک اور دیباچہ ( ‘رعنایاں’ ،برج لال رعنا )مین لکھتے ہیں
"رباعی ایسی کمبخت چیز ہے جو ‘ سارا جوبن گھالے تو ایک بالک پالے’ کی طرح چالیس پچاس برس کی مشاقی کے بعد کہیں جاکر قابو میں آتی ہے”۔
اسی مجموعہ میں تلوک چند محروم نے لکھا ہے
"مسلم ہے کہ رباعی لکھنے کے لۓ کافی مشقِ سخن اور پختگئ عمر کی ضرورت ہے اور یہی وجہ ہے کہ عام طور پر شاعر کی زندگی میں رباعی نویسی کا دور آخر میں آتا ہے”۔
بقول مولوی حبیب الرحمٰن خان شروانی (مقدمہ ‘کلیات خواجہ عزیز لکھنوی )
‘اصناف سخن میں سب سے زیادہ مختصر رباعی ہے جو سب سے مشکل ہے دیکھو صدیوں کے دوران میں صرف چار پانچ ہی استادِ رباعی گزرے ہیں ۔ حضرت ابو سعیدابوالخیر، شیخ الاسلام انصاری ، عمر خیام ، سحابی مخفی۔ دل چاہے تو سرمد کو بھی یاد کرلو اس نے بھی ایک لطف پیدا کیا ہے”۔
اردو شاعری میں بہت کم شاعر گزرے ہیں جو خالص رباعی گو ہوں اس سلسلہ میں صرف امجد حیدرآبادی کا نام لیا جا سکتا ہے ۔
اور بقول سلام سندیلوی اس کے لۓ نظر کی وسعت اور شعور کی پختگی کی ضرورت ہے- طاطبائ کا خیال ہے کہ رباعی کی بحر اس قدر مشکل ہے کہ اساتذہ بھی اس سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے ہیں جس کی مثال انہوں نے غالب کی رباعی ‘دل رک رک کر بند ہوگیا غالب ‘ سے دی ہےکہ اس مصرعہ میں دو حرف زائد ہو گۓ ہیں ،
موجودہ دور کی رباعی میں عموماً مصرعہ اول، دوم اور چہارم ہم قافیہ ہوتے ہیں مگر سوم ہم قافیہ نہیں ہوتا ہےلیکن کبھی کبھی چاروں مصرعہ ہم قافیہ بھی مل جاتے ہیں مثلاً حالی کی ایک رباعی دیکھۓ –
صحرا میں جو پایا اک چٹیل میداں
برسات میں سبزے کا نہ تھا جس پہ نشاں
مایوس تھے جن کے جوتنے سے دہقاں
یاد آے ہمیں قوم کے ادبار کی شاں
رباعی میں خاص بات یہ ہوتی ہے کہ اس کے تین مصرعوں میں تین باتیں کہی جاتی ہیں اور چوتھے مصرع میں تینوں مصرعوں کا نچوڑ رکھ دیا جاتا ہے۔ یہی مصرع سارے مضمون کا ماحصل ہوتا ہے اسی لۓ چوتھا مصرع ہمیشہ تینوں مصرعوں کی بہ نسبت زوردار ہوتا ہے-مولانا وحید الدین سلیم نے ‘افاداتِ سلیم میں رباعی کی تعریف یوں کی ہے:
"چاروں مصرعوں میں کوئی مضمون اس انداز سے بیان کرنا کہ سامعین پر اس کا اثر ہو، ایک ہنر ہے۔ اس میں کوئی مصرع بیکار اور براۓ بیت نہ ہونا چاہۓ اور چوتھا مصرع خاص کر پہلے والے مصرعوں سے زیادہ شان دار اور اہم ہو، یہ مصرعہ ایسا ہونا چاہۓ کہ سننے والے کے دماغ میں اس کی گونج دیر تک باقی رہے،”
جس طرح قصیدہ کے لۓ پرشکوہ اور شاندار الفاظ، غزل کے لۓ نرم و نازک اور شیریں الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح رباعی کے لۓبلیغ اور سادہ و پرکار الفاظ ضروری ہیں۔
رباعی گو شاعر کو سب سے پہلے الفاظ پر قابو حاصل ہونا چاہۓ ،دوسرے طرز بیان پر تیسرے جو مضمون وہ نظم کر رہا ہو وہ اس کے ذہن میں بالکل صاف اور واضح ہو اور چوتھی اور اہم خوبی یہ ہونی چاہۓ کہ اس کو رباعی کی تمام بحروں کا علم اور قابو ہو۔
اردو کے شعراء نے عام طور پر خیام ہی کی پیروی کی لیکن موجودہ دور میں انیس نے اسے مرثیہ کا رنگ دیا ،اکبر و حالی نے اس میں ملی و قومی اصلاح کا اضافہ کیا۔ امجد ، شہید وغیرہ نے مختلف النوع مضامین کا اضافہ کیا جب کہ فراق نے روپ نگار اور حکایات جسم کا اور جوش نے جمالیات ،شبابیات کا۔جمیل مظہری اور آنند نرائن ملا نے اس صنف میں قومیت اور سیاسی رنگ کا اضافہ کیاہے۔ اس صنف میں تمثیل نگاری کا پہلا اور کامیاب تجربہ ڈاکٹر صفدر آہ نے کیا اور سلام سندیلوی نے اس میں دیو مالائی اور تاریخی تلمیحات کا استعمال شروع کیا ۔
فارسی میں تقریبا ہر مشہور شاعر نے اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے لیکن کسی کو وہ مقام نصیب نہ ہوا جو عمر خیام اور سرمد کےلۓمخصوص ہے۔اردو میں ہر بڑے شاعر نے رباعیاں لکھی ہیں۔
تم نے کبھی جام و سبو دیکھا تھا
جو کچھ کہ نہیں ہے روبرو دیکھا تھا
ان باتوں کو اب جو غور کرے اے درد
کچھ خواب سا تھا جو کبھو دیکھا تھا
افسوس کریموں میں نہیں یہ دستور
مفلس پہ کرم کرکے نہ ہوویں مغرور
لپکتا ہے اگر شاخ ثمردار کا ہاتھ
پھل دے کے وہیں آپ کو کھینچے ہے دور
رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے
کرتا ہے تہی مغز ثنا اپنی آپ
جو ظرف کہ خالی ہے صدا دیتا ہے (انیس)
ہم بند کۓ دل کے تقاضوں کی دکان
تم قلب پہ لادے ہوے اربوں ارمان
تم کثرتِ دولت کی بناء پر ہو گدا
ہم قلت حاجات کے بل پر سلطان (جوش)
رباعی لکھنا ایک طرح واجبات میں داخل تھاکیونکہ مرثیہ نگاری کی ابتداء اسی سے کی جاتی تھی لیکن امجد حیدرابادی کو جو مقام حاصل ہوا وہ کسی دوسرے کو نہ مل سکا ۔ آپ کی رباعیوں میں سرمد کا رنگ پایا جاتا ہے بقول قادر بلگرامی :
امجد برباعی است فرد امجد
کلک امجد کلید گنج سرمد
گفتم کہ بود جواب سرمد امروز
روح سرمد بگفت امجد امجد
امجد حیدرابادی نے اپنی رباعیات میں قرآنی آیات کی تفسیریں کی ہیں ۔
و تعز من تشاء و تذل من تشاء کی تفسیر
ہر ذرہ پر فضل کبریا ہوتا ہے
اک چشم زذن میں کیا سے کیا ہوتا ہے
اصنام دبی زباں سے یہ کہتے ہیں
وہ چاہے تو پتھر بھی خداہوتا ہے
حسب اللہ نعمل الوکیل
ہر چیز سب سبب سے مانگو
منت سے خوشامد سے ادب سے مانگو
کیوں غیر کے آگے یاتھ پہیلاتے ہو
بندے ہو اگر رب کے تو رب سے مانگو
کفر عنا سیاتنا
یو دامن مدعا بھرنے والے
قرآن کی طرح دل میں اترنے والے
دل سے مرے دور کر دے باطل خطرات
کعبے کو بتوں سے پاک کرنے والے
امجد حیدرابادی نے چونکہ رباعی گو کی حیثیت سے شہرت پائی اس لۓ عام طور ان کے دوسرے اصناف میں مہارت اور کاوشوں پر نظر نہیں جاتی۔ آپ نے اپنی شاعری کا آغاز پندرہ برس کی عمر میں کیا آپ کا پہلا شعر تھا۔
غم نہیں گر چہ دشمن ہو گیا ہے آسماں اپنا
مگر یارب نہ ہو نا مہرباں وہ مہرباں اپنا
آپ نے حبیب کنتوری سے اردو شاعری میں اصلاح لی اور فارسی میں علامہ ترکی سے۔ ان کا سارا کلام رود موسیٰ کی طغیانی میں ضائع ہوگیا ۔ امجد حیدرابادی نے کافی نظمیں بھی لکھی ہیں پہلی نظم دنیا و انسان ہے مدینہ کی جوگن میرا ‘رام کہیں ہے گزاردے‘ میگزرد‘ تو پی کہے سو کون بہت زیادہ مشہور ہویئں ۔ میگزرد سے چند بند ملاحظہ کیجۓ
راہ خدا میں زندگی مستعار دے
چھٹنے سے پہلے ہی جامہ ہستی اتاردے
بہر رفاہ خستہ دلاں اشتہار دے
نمدیدہ دل کے کان میں امجد پکاردے
تھوٹی سی رہ گئ ہے اسے بھی گزاردے
مانا کہ غم میں حد سے سوا مبتلا ہے تو
بیکس ہے تو فقیر ہے تو بے نوا ہے تو
کیوں جامع مستعار سے اے دل خفا ہے تو
اے رونے والے موت کو بھولا ہوا ہے تو
تھوٹی سی رہگئ ہے اسے بھی گزاردے
عمر ایک دن ہو کہ سو سال گزرجاتی ہے
دوش پر کملی ہو یا شال گزرجاتی ہے
گو امیروں کی بہ اقبال گزرجاتی ہے
بیکسوں کی بھی بہرحال گزرجاتی ہے
از ہو سہا بگزر یا گزر میگزرد
تو پی کہے سو کون
جو بے آرام ہو اور اس کو بے آرام کرتا ہے
رموز خاص عشق و عاشقی کیوں عام کرتا ہے
سر بازار نام یار کیوں بدنام کرتا ہے
کسی کا راز کیوں کمبخت طشت از بام کرتا ہے
کاٹوں تیری چونچ پپیہے ڈاروں واں پرنون
میں پی کی اور پی میرا تو پی کہے سوکون
مدینہ کی جوگن امجد حیدرابادی کی نعتیہ نظموں میں ایک اہم اضافہ ہے کیونکہ اسکی دو ایسی خصوصیات ہیں جو کبھی بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی ہیں جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہوتا ہے ایک عورت کی زبان سے عشق رسولؑ کے جذبات پر مشتمل ہے ۔ ہندی گیتوں میں جوگن کا جو مخصوص تصور ہے جواپنے پیا کی کھوج میں بن بن گھومتی ہے اور اس کے ہونٹوں پر برہا کے دکھ کا احساس ہوتا ہے مدینہ کی جوگن بھی مقامی شاعری کے اپنے عناصر سے ظہور پذیر ہوی ہے عورت کی زبان سے حب رسولؑ کا اظہار عربی فارسی اور امجد سے پہلے اردو نعت گوئ میں نہیں ملتا۔ اس نعت کے ہندی عناصر اور ڈرامائ انداز نے اسے پر کیف اور موثر بنادیا ہے
امجد حیدرابادی کا مسدس قیامت صغرا جو رود موسیٰ کی طغیانی پر ہے ان کی اپنی آپ بیتی ہے ۔
1908ء میں رودِ موسٰی کی طغیانی میں آپ کا مکان تباہ ہوگیا جو موسٰی ندی کے قریب تقریباً ساٹھ گز کی دوری پر تھا اور وہیں کہیں تھا جہاں اب سٹی کالج کی عمارتیں ہیں۔ اس طغیانی میں نہ صرف آپکا مکان تباہ ہوا بلکہ آپکی والدہ، بیوی اور اکلوتی بچی بھی اس طغیانی کی نذر ہوگۓاور خود انکی جان بھی بڑی مشکل سے بچ پائی۔
شوال کی آخری رات تھی رات کے آٹھ بجے تک گھر میں پانی گٹھنوں تک پہنچ چکاتھا مگر والدہ پھر بھی مکان چھوڑنے پر تیار نہ تھیں دس بجے تک جبکہ مکان پوری طرح پانی سے محصور ہوچکا تھا آپ نے قریب کے ایک پختہ مکان میں پناہ لی جو پہلے ہی سے متاثرین سے بھرچکا تھا آپکو جس کمرہ میں جگہ ملی تھی اسکی بھی ایک دیوار گر پڑی اور چھت بھی کسی بھی لمحے گر سکتی تھی۔ اس خیال سے کہ کمرے میں دب کر مرنے سے کھلے میدان میں کیوں نہ جان دی جاۓ۔ آپ نے اس کو عمل مین تبدیل کیا اور میدان کی طرف شق شدہ دیوار کے راستے باہر نکلے جونہی آپ نے مکان کے باہر قدم رکھا مکان کی چھت بیٹھ گئ ایک چبوترہ پر پناہ لی لیکن پانی برابر بڑھ رہا تھا اور بارش بھی مسلسل گرج اور چمک کے ساتھ ہورہی تھی ۔باقی روداد ان ہی کی زبانی سنۓ ۔
‘تقدیر مین جب تک ماں بیوی کا ساتھ دینا لکھا تھا ساتھ دے چکے ۔ اب ماں دیکھ رہی ہے بیٹا بہا چلا جا رہا ہے اور جانا بھی کیسا جیسے لڑی کمان سے تیر نکلتا ہے یہاں تک کہ بیتے بہتے ایک درخت کے قریب پہنچ کر اس کی جھکی ہوی ڈالی پکڑلی اور ساتھ ہی پلٹ کر اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا ۔ ہم اس وقت اپنے ساتھیوں سے سو گز دور ہوگۓ تھے ۔ ہم نے وہیں سے چلا کر آواز دی کہ بچی کو کسی بہتے ہوے صندوق میں بند کر کے بہادو۔ ممکن ہو تو میں اس طرف نکال لوں گا۔ اور تم بھی کسی تختے کا سہارا لے کر اپنے آپ کو دریا کی موجوں کے حوالہ کردو۔
حضرت کن فیکون کے تمشے دیکھتے جاۓ۔ اس کہنے کے بعد ہی والدہ کے سامنے مختلف سامانوں کے ساتھ ٹین کا ایک صندوق بھی بہتا ہوا آگیا والدہ نے اس کو پکڑ ہی لیا اور چاہا کہ موسٰی علیہ السلام کی طرح بچی کو صندوق میں بند کرکے بہادیں مگر قسمت کی بات صندوق مقفل نکلا۔ والدہ نے مایوسی کے ساتھ پھر مجھے کار کر کہا بیٹا صندوق کو قفل لگا ہے اور پھر صندوق کو چھوڑ کر ایک بڑی شہتیر پکڑلی اور اپنی بہو کو بھی اس کے تھام لینے کی ہدایت کرکے اپنے آپ کو دریا کے حوالے کر دیا۔ یہ ہولناک نراستہ چند قدم ہی طۓ ہوا تھا کہ بیوی کے ہاتھ سے شہتیر نکل گئ پھر پتہ نہ چلا کہ کیا ہوئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد والدہ بھی نہ سنبھل سلیں شہتیر سے دور جا پڑیں ۔ کبھی ڈوبتی ہیں ۔ کبھی اچھلتی ہیں ۔ کبھی صرف سر کے بال نظر آتے ہیں ۔ کبھی زور کر کے ابھرتی ہیں تو کچھ صورت بھی نظر آجاتی ہے مگر پلک جھپکنے تکپھر ڈوب جاتی ہیں آہ آہ ان تمام طوفانی مناظر میں یہ منظر جو کچھ تھا اس کا اندازہ ہمارے سواے شائد ہی کوئ کرسکے ۔
ہم درخت سے یہ سب حالات دیکھ رہے ہیں م ہر وقت قصد ہوتا ہے کہ پانی میں کود پڑوں ماں تک پہنچ جاؤں مگر دھارے کی مخالف سمت کچھ زور نہ چل سکتا۔
خدا کی قدرت والدہ خود بخود بہےی ہوئ ایک درخت کے قعیب پہنچ گئیں جو ہم سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھا۔ ہم نے فوراً آواز دی ماں تم درخت تک پہنچ گئ ہو ےمھارے سر پر ڈالیاں جھکی ہوئ ہیں فوراً کسی ڈالی کو پکڑ لو۔
ماں نے بیٹے کی آواز سن لی اسی بدحواسی میں ہاتھ بڑھاکر ایک پتلی سی ڈالی پکڑ لیاور ہماری طرف دیکھ کر کہا ” ہاۓ بیٹا میرے دونوں چاند ڈوب گۓ (یعنی بہو اور پوتی ) ہم نے کہا خیر جو ہوا ہوا تم کسی طرح بچ جاؤ”
ماں نے کہا بچی کمر سے بندھی ھوئ ہے جو پانی میں لٹک گئ ہے جس کی وجہ سے میں اوپر ابھر نہیں سکتی۔ ہماری والدہ کی یہی ایک آخری بات تھی جو ہمارے کانوں تک پہنچی۔
اب معلوم ہوا کہ والدہ نے اپنا دوپٹہ نکال کر نصف اپنی اور نصف بچی کی کمر سے باندھ لیا تھا کہ بچی کہیں ہاتھ سے نہ چھوٹ جاۓ۔ انہوں نے بچی کی جان بچانی چاہی مگر بچی پتھر بن کر ان کو ڈبو رہی ہے اب تک تو وہ بچی کو نہیں چھوڑنا چاہتے تھے اب بچی ان کو نہیں چھوڑنا چاہتی ہے ہماری شان بھی اس وقت تصویر لینے کے قابل تھی۔
جس درخت پر ہم چڑھے ہوے تھے اس کو ایک لمبی ڈالی کے سواۓ جو بہت اونچی چلی گئ تھی کوئ اور ٹہنی یا ڈالی نہ تھی جس سے ہماری طرح کئ سانپ اور کنکھجورےلپٹے ہوے تھے ہم اس وقت اس ڈالی پر تکیہ کۓ ہوے اپنی والدہ سے گفتگو کر رہے تھے ۔
والدہ کی مذکور الصدر آخری بات سننے کے بعد وہ ڈالی جو ہماری پشت بان تھی تڑ صۓ ٹوٹ گئ۔ ہم الٹ کر ہانی میں گرے ۔ گر کر پھر جو ابھرے بے ساختہ ہماری زبان سے نکل گیا "اماں میں تو چلا” کاش ہماری زبان بند ہوجاتی۔ ہمارا حلق بیٹھ جاتا کیونکہ اس آواز کے ساتھ ہی گھبرا کر انہوں نےہماری طرف دیکھا اور وہ پتلی سی ڈالی بھی ہاتھ سے چھوٹ گئ۔ ماں کے دو چاندوں کی طرح ہمارا ایک چاند بھی پانی میں ہمیشہ کے لۓ ڈوب گیا ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
طاقت نہیں دست و پا میں بے زور ہوں میں
پمالِ زمانہ صورت مور ہوں میں
اماں نہ سمجھنا کہ جہاں میں خوش ہوں
تم ہو بے گور، زندہ در گور ہوں میں
ہم ننگِ خاندان۔ خاندان کو ڈبو کر ڈوبتے تیرتے ندی کے زبردست دھارے میں بہے چلے جارہے تھے ۔ دور سے اس قسم کی دو دھاریں نظر آئیں ۔ سیدھے خط کی زبردست دھار بخطِ مستقیم نۓ پل میں پہنچ کر ہر بہنے والے کو ٹھیک موت کے گھاٹ اتارہی تھی۔ دوسری کمانی شکل کی کمزور دھار زنانہ ہسپتال کے جنوبی جانب سےہوتی ہوئ نۓ پل تک جارہی تھی۔ ہم بہتے بہتے ان دونوں دھاروں کو دیکھتے اور سوچتے جارہے تھے کہ اگر سیدھے خط میں جا پڑیظ تو ٹھیک موت کے منہہ میں پہنچ جائیں گے اگر دوسری کمانی دھارے سے گزرتے ہیں تو کچھ نہ کچھ بچنے کی امید ہوسکتی ہے مگر دونوں صورتیں اپنے اختیار سے باہراور امکان سے دور تھیں ۔ بارہ گھنٹے پانی میں رہتے رہتے غوطے کھاتے کھاتے ہاتھ پیؤن شل ہو گۓ تھے جسم کی طاقت بھی دریا برد ہوگئ تھی۔ اسی سوچ سوچ میں بجلی کی رفتار سے محل تقاطع لا تک پہنچ گۓاور وہی ہوا جس کا کھٹکا لگا ہوی تھا۔ یعنی سیدھی دھار میں بہتے چلے۔ موت کا یقین قطعی ہوگیا اِناللہ کہہ کر آنکھیں بند کرلیں ایسے وقت میں خیال آیا کہ نہ معلوم ہماری لاش کدھر بہے؟ کہاں نکلے ؟ کون نکالے؟ ہمارے ویست کوٹ کی جیب میں پاکٹ ہے۔ پاکٹ میں کچھ روپیہ ہے۔ ہم سے مرنے والے کوروپیہ جیب میں رکھ کر مرنا بڑی شرمناک بات ہے لوگ ہماری جیب ٹٹولیں گے۔ روپیہ نکالیں گے ہماری خساست پر نفرت کے ساتھ لعن و طعن کریں گے
یہ خیال لفظوں میں بہت دیر میں ادا لیا گیا مگر تصور میں ایک بجلی کی چمک سے زیادہ وقفہ نہ ہوا ۔ خیال کے ساتھ ہی جیب کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔ پاکٹ بھی کچھ جیب سے نکلی ہوی گویا نکلنے کو تیارہی بیٹھی ہوی تھی فوراً ہاتھ آگئ۔ چھوٹی سی سیاہ پاکٹ کو ہاتھ میں لیکر اس زور اور نفرت سے انی میں پھینکا جس طرح کوئ طاعونی چوہئ کو پھینکتا ہو ۔ بچانے والا پاکٹ اندازیکی آڑ میں سب کچھ کر گیا بظاہر ہم اپنے اسی زور کی زد سے اس خوفناک دھارے سے نکل کر دوسری کمزوردھار میں آپڑے اور اسی دھار میں کچھ دور بہنے اور زنانہ ہسپتال کے محاذ میں آنے کے بعد ہسپتال کی بیمار عورتوں نے ہمت کرکے ڈوبتے کو بچالیا ۔ دریا نے بھی روپیہ لے کر جان چھوڑدی/ خدا کرے کہ ملکالموت جان لیکر ایمان چھوڑدے ۔ ہماری طرح صیا جوان ،بچے ،بوٹھے، مرد ،عورتیں کچھ ہم سے دور کچھ نزدیک بہے جارہے تھے ۔ کسی کو کسی سے سروکار نہ تھا ۔ نہ معلوم ہم میں کیا سرخاب کا پر لگا تھا اور ہماری زندگی کی ایسی لیا ضرورت تھی کہ خواہ مخواہ بچالۓ گۓ۔ خدا اس بچنے سے بچاۓ۔
ہر آن مصیبت اک نئ پڑتی ہے
جو پڑتی ہے جان پر کڑی پڑتی ہے
چوٹیں کھاتا ہے شیشئہ دل دن رات
جیسے گھنٹے پہ موگری پڑتی ہے
بے غیرت کی بلا دور۔ ننگ خاندان ۔ خاندان کو ڈبوکر ۔ ؑزیزوں کو کھو کر ۔ ننگے دھڑنگے ۔ بھیانک صورت ۔ ڈراؤنی چہرہ لۓ جل مانس بنے ہوے کنارے تو لگ گۓ۔بہنے والے تو بہہ گۓ ۔ڈوبنے والے ڈوب گۓ اور ایسے گۓ کہ لاشوں تک کا پتہ نہ چلا۔
سیلاب میں جسمِ زار گویا خس تھا
غرقاب محیط غم کس و ناکس تھا
اتنے دریا میں بھی نہ ڈوبا امجد
غیرت والے کو ایک چلو بس تھا
باپ کا وہ قصہ ہوا ۔ ماں کا یہ حال ۔ ایسے برخوردار کی بلند اقبالی میں کس کو کلام ہوسکتا ہے –
کس وقت دل غم زدہ مغموم نہیں
رونے دھونے کی کس گھڑی دھوم نہیں
قبر مادر تو خیر بن ہی نہ سکی
لیکن گورِ پدر بھی معلوم نہیں
مادر کہیں اورمیں کہیں بادیدہ نم
بی بی کہیں اور بیٹی کہیں توڑتی تھی دم
عالم میں نظر آتا تھا تاریکی کا عالم
کیوں رات نہ ڈوب گیا نیر عالم
جب سامنے آنکھوں کے نہاں ہوگۓپیارے
وہ غم تھا کہدن کو نظر آنے لگۓ تارے
امجد حیدرابادی نے رباعیوں کی طرح اپنی غزلوں میں بھی حقیقت صداقت اور معرفت کا رنگ ہی چھوڑا ہے
ہوں تو کیا کیا نظر نہیں آتا
کوئ تم سا نظر نہیں آتا
ڈہونڈتی ہیں جسے مری آنکھیں
وہ تماشا نظر نہیں آتا
جو نظر آتے ہیں نہیں اپنے
جو ہے اپنا نظر نہیں آتا
آپ کی ایک نعتیہ غزل کافی مشہور ہے
کس چیز کی کمی ہے مولا تری گلی میں
دنیا تری گلی میں عقبیٰ تری گلی میں
جام سفال اس کا تاج شہنشہی ہو
آجاے جو بھکاری داتا تری گلی میں
تصوف کے رنگ میں ایک غزل
بندے کی معیت میں مولا نظر آتا ہے
قطرے کی حقیقت میں دریا نظر آتا ہے
اے دیر و حرم والو دیکھو مری آنکھوں سے
دل کافر و مومن کا کعبہ نظر آتا ہے
کس طرح نظر آے وہ پردہ نشیں امجد
پردہ کے بعد اور اک پردہ نظر آتا ہے
امجد حیدرابادی نے غالب کی زمینوں پر کافی طبع آزمائ کی ہے ۔
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھرنہ آے کیوں
نالہ جاں خستہ جیں عرش بریں پہ جاے کیوں
میرے لۓ زمین پر صاحب عرش آے کیوں
درد منت کش دوا نہ ہوا
کام کب حسب مدعا نہ ہوا
اس کے فضل وکرم سے کیا نہ ہوا
تضمین ایک مشکل فن ہے اس میں دو خصوصیات کا ہونا ضروری ہے ایک سخن فہمی اور دوسرے فنی مہارت ۔تضمین درحقیقت شعر کی تشریح ہوتی ہےجو صرف تین یا چار مصرعوں میں بیان کرنی ھوتی ہے۔ اس صنف کو بھی امجد حیدرابادی نے نہایت خوبی سے نبہایا ہے ۔حافظ کے ایک شعر کی تضمین دیکھۓ
چھپایا لاکھ مگر چھپ نہ سکا عشق کا راز
تمام حالت دل تاڑ ہی گۓ دم ساز
تیری خطا نہ مرا جرم اے بت طناز
ترا صبا و مرا اک دیدہ شر غماز
اگر نہ عاشق و معشوق راز دارانند
میرا کا ایک بھجن
فناے تیرگی شب سے ہو نور سحر پیدا
فروغ صبح مٹ جاےتو ہوی انوار خود پیدا
بدل جاے اگر قطرہ کی حالت ہو گہر پیدا
ملے جب خاک میں دانہ تو برگ و بر پیدا
لکڑی جل کوئلہ بھۓ اور کوئلہ جل بھۓ راکھ
میں پاپن ایسی جلی نہ کوئلہ بھئ نہ راکھ
امجد حیدرابادی نے قطعات بھی کافی لکھے ہیں لیکن یہ سب چھوٹے چھوٹے ہیں لیکن ایجاز بیانی کا شاہکار ہیں
غم کے ہاتھوں ہے روز بربادی ۔۔ عمر بھر بے شمار موتیں ہیں
موت میں ایک بار مرنا ہے ۔۔ زندگی میں ہزار موتیں ہیں
لاکھ اپنی طرف سے تم تدبیر کۓ جاؤ ۔۔ آخر وہی ہونا ہے جو اس کی مشیت ہے
تم ساتھ رہو اس کے جو ساتھ تمہارے ہے ۔۔ غیروں کی معیت تو میت کی معیت ہے
میں اس دریاے موجوں میں ۔۔ مانند حباب ابھر رہا ہوں
ہر سانس میں پھانس کی کھٹک ہے ۔۔ پھر بھی جینے پر مر رہا ہوں
امجد حیسرابادی کو اصناف سخن پر کافی دسترس تھی جس کا ثبوت ہم کو ان کے کلام میں مل جاتا ہے آپ نے ‘مثلث ‘ ببی لکھے ہیں اور’مستزاد’ بھی ۔مثلث کی ایک مثال دیکھۓ
شاعری مٰن مجھے سعدی کا مماثل سمجھو – ہے میرا مثل کہیں
ساری دنیا میںفقط اک مجھے قابل سمجھو – میں ہوں استادِ زماں
میری تعریف کرو میری تعریف کرو
اپنے دوست عظمت اللہ خان کے انتقال پر آپ نے ان کا جو مرثیہ لکھا ہےوہ مستزاد مین ہے اور اپنی نظیر آپ ہے
العظمت للہ
تقدیر نے دکھلایا عجب واقعہ جانکاہ – العظمت للہ
بجلی سی گری خرمنِ امید پہ ناگاہ – العظمت للہ
رخصت ہوا دنیا سے عجب دوست ہمارا – تھا آنکھ کا تارا
ہر دوست کا دل شدتِ غم سے ہوا پارا – العظمت للہ
امجد حیدرابادی بنیادی طور پر نعت اور تصوف کے شاعر ہیں آپکی نعت گوئ پر ڈاکٹر ریاض مجید نے اپنے مقالہ اردو میں نعت گوئ میں لکھا ہے
بحیثیت مجموعی امجد کی نعتیہ شاعری صوفیانہ و عارفانہ مسائل ادبی و فنی حیثیت اور اخلاص و تاثیر کے سبب گراں قدر ہے انہوں نے نعتیہ موضوعات کو نکتہ آفرینی سے قلم بند کیا ہے اور ذات رسول اکرم سے اظہار عقیدت و محبت کے لۓسارے فنی محاسن و تشبیہ استعارہ کنایہ وغیرہ کو استعمال کیا امجد کے نعتیہ کلام پر عارفانہ رنگ کے گہرے اثرات ہیں حقیقت محمدی کے اظہار میں انہوں نے کئ ایسے مضامین بیان کۓ ہیں جو بے احتیاطی کے ذیل میں آتے ہیں احد اور احمد بے میم کا تذکرہ کرتے ہوے بعض اوقات ان کے خیالات شریعت کے حدود سے ٹکراتے ہیں مثلا
شکل احمد میں خود احد آیا – ہوا مطلق مقید اظہار
دائر مخفی تھا نقطہ میں – ہوگئ ختم گردش پرکار
بیج بھی وہی شجر بھی وہی – وہی قہار ہے وہی غفار
آپ اپنا پیام پہنچایا – آپ خود اپنا کرگیا اقرار
یار گیا تھا نامہ بر بن کر – خط کے دھوکے میں رہ گۓ اغیار
یہی خیالات دوسری جگہوں میں بھی قلم بند ہوے ہیں مثلا
تردد میں نظر آتےہیں رشتہ یقیں کا – اور کو کیا احمد بے میم کو سجدہ
رخ مہر ہے قد کط شعاعی کی طرح – وہ گلئہ امت میں ہے راعی کی طرح
اس خاتم انبیاء کا آخر میں ظہور – ہر مصرع آخر رباعی کی طرح
صوفی سید رحیم علی ابن سید کریم حسین اپنے وقت کے بڑے نیک اورخدا رسیدہ بزرگ تھے جنہیں یکے بعد دیگرے چار بیویوں سے اکیس ( 21 ) اولادیں ھویں بیس ( 20 )کا انتقال ہوگیا اور اکیسویں امجد حیدرآبادی تھے آپ کا پورا نام سید احمد حسین تھا بچپن ہی میں ۔آپ کی پیدائش 6 رجب 1303ھ مطابق 1886ء بروز دوشنبہ صبح کے وقت حیدرآباد کے محلہ گھانسی میاں بازار میں ہوی۔آپ کے والد کا انتقال آپ کی پیدائش کے چالیسویں دن ہوگیا پ کی تربیت آپ کی والدہ نے کی۔ امجد کو بچپن میں پڑہنے لکھنے کا شوق نہ تھا اور کھیل کود کی طرف مائل رہتے تھے اور بہت شریر بھی تھے ۔ لیکن ایک واقعہ نے زندگی کا رخ بدل ڈالا۔
ایک دن امجد کے مکان کے سامنے سے پالکی میں کوئ امیر جارہا تھا کہاروں کے ساتھ ساتھ پیلکی پکڑے ہوے ایک آدمی بھی دوڑرہا تھا امجد کی والدہ نے یہ دکھا کر پوچھا کہ ان دونوں میں سے تم کیا بننا چیہتے ہو ۔ امجد نے کہا پالکی سوار —- والدہ نے کہا ایسی زندگی تو تعلیم کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی ہے اگر پڑہو گے نہیں تو اسی طرح پالکی کے ساتھ بھاگنا پری گا ۔اس کا امجد کے دل پر بہت اثر ہوا اور انہوں نے پڑھنے کا تہیہ کرلیا –
امجد حیدرآبادی نے تعلیم جامعہ نظامیہ حاصل کی جہیاں ان کےاساتذہ میں مولوی سعید الدین سہارنپوری اور مولوی عبدالوہاب بہاری کے علاوہ آغا سید علی شوستری شامل ہیں۔ جامعہ نظامیہ سے فارغ ہونےکے بعد آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے منشی فاضل کے امتحان میں امتیاز کےساتھ کامیابی حاصل کی۔
امجد حیدرآبادی کی پہلی شادی 1321ھ میں جبکہ آپ کی عمر سترہ اٹھارہ برس تھی محبوب النساء بیگم سے ہوی اس شادی سے ایک لڑکی پیدا ہوی۔ 1326ھ مطابق 1908ء کی طغیانی رود موسیٰ میں آپ کی والدہ بیوی اور بچی کا انتقال ہوگیا۔ دوسری شادی 1333ھ میں اپنے استادمولانا نادرالدین کی لڑکی جمال النساء سے ہوی اور اس بیوی کا انتقال 1347ھ میں ہوا- کوئ اولاد نہ ہوی تیسری شادی1349ھ قمر النسا بیگم سے کی اور ان سے بھی کوئ اولاد نہ ہوئی۔
امجد حیدرآبادی نے اپنی ملازمت کا آغاز بنگلور سٹی ہائ اسکول سے کیا یہ 1325ھ کا زمانہ ہے وہاں سے واپس آنے کے بعد آپ مدرسہ دارلعلوم حیدراباد میں کئ سال تک مدرس رہے آپ کے مشہور شاگردوں میں نصیر الدین ہاشمی بھی شامل ہیں۔ بعد میں آپ نے دفتر صدر محاسبی سرکار عالی میں تھرڈ گریڈ سے نوکری شروع کی اور ترقی کرکے مددگار صدر محاسب کے عہدے تک پہنچے اور 1357ھ میں وظیفہ پر سبکدوش ہوے ۔ شوال 1345ھ میں آپ احباب کو حج کے لۓ رخصت کرنے اسٹیشن گے اور ایک رباعی کہی۔
جاتے ہو منہہ موڑ کر باطل سے تم
دامنِ حق اب تمھارے ہاتھ ہے
جاؤ اطمینان سے اے حاجیو
کعبے والا بھی تمھارے ساتھ ہے
اور وہیں مسمم ارادہ کرلیا کہ حج کو جانا ہے اور اس ارادہ کو اگلے سال ہی پورا کرلیا اور اپنی بیگم کے ساتھ حج کی سعادت حاصل کی ۔ اس سفرِ حج مین مولانا عبدالماجد دریابادی آپ کے شریک سفر تھے ۔ امجد حیدرابادی کا انتقال 29 مارچ 1961ء کی رات ہوا ۔ وفات سے دو تین دن پہلے سردی اور بخارمیں مبتلا ہوے اس درمیان آپ کی زبان پر غالب کا یہ شعر بار بار آتا رہا
حد چاہۓ سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گنہگار ہوں کافر نہیں ہو میں
اور تدفین دوسرے دن احاطہ درگاہ حضرت خاموش شاہ میں عمل میں آئی
آمجد حیدرابادی کا حلیہ ان ہی کی زبانی سنۓ
"ہمارا رنگ گندمی ہے وہ گندم جسکی بدولت باوا آدم جنت سے دنیا میں اور ہمارےبابا دنیا سے جنت میں بھیجے گۓ۔ قد دو گز سے دو انچ کم ۔ سر بڑا استری کا آدھا نمبر ۔ فراخ پیشانی ۔ بھوں ۔ آنکھ ۔ کان ۔ ناک متوسط نہ بڑے نہ چھوٹے ۔ رخسار کسی قدر دبے ہوے۔ مختصرسی داڑھی نور و ظلمت کا نمونہ ۔ سینہ چوڑا ۔ کمر سینہ سے پانچ انچ کم۔ جسم موٹا نہ دبلا ۔ مذبذب بین ذالک قوی۔ ابتدائ جوانی سے اب تک ایک حال پر بال برابر فرق نہیں ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جو پتھر ہم سے اس وقت نہیں اٹھ سکتا تھا اب بھی اسی طرح نہیں اٹھ سکتا”۔
امجد کی غذا کافی سادہ تھی اور کوئ وقت بھی مقرر نہ تھا جب مل جاتا کھالیتے تھے سگریٹ زیادہ پیتے تھے اور کہتے تھے یہ میرا پچاس ساٹھ سال کا ساتھی ہے ۔
نماز کے سختی سے پابند تھے اکثر با جماعت ادا کرتے تھے قرآن پابندی سے تلاوت کرتے اور خاص خاص باتیں حاشیہ پر نوٹ کرتےاور کوئ قرآنی رموز منکشف ہوجاتا تو رباعی بھی موزوں ہوجاتی ۔ روزوں کے بھی بہت پابند تھے
امجد حیدرابادی کافی پرگو شاعر تھے آپ کے حسب ذیل مجموعہ شائع ہوچکے ہیں
1 بچپن کے زمانے کی اردو فارسی رباعیاں ۔ 1324ھ
2 ریاض امجد پہلا حصہ ۔ 1341ھ
3 ریاض امجد دوسرا حصہ ۔ 1341ھ
4 رباعیات امجد پہلا حصہ ۔ 1344ھ
5 خرقہ امجد (سی پیوند) ۔ 1352ھ
6 رباعیات امجد دوسرا حصہ ۔ 1354ھ
7 نذر امجد ۔ 1355ھ
8 رباعیات امجد تیسرا حصہ ۔ 1375ھ
امجد حیدرابادی کو نظم کے علاوہ نثر پر بھی کافی عبور تھا آپ کی حسب ذیل نثر کی کتابیں شائع ہو چکی ہیں
1 سلم الاخلاق ۔ اخلاق جمال کا ترجمہ ۔ 1347ھ
2 حج امجد ۔ 1347ھ
3 جمال امجد ۔ 1348ھ
4 حکایات امجد ۔ 1353ھ
5 گلستان امجد ۔ ترجمہ گلستان سعدی ۔ 1354ھ
6 میاں بیوی کی کہانی ۔ 1360ھ
7 ایوب کی کہانی ۔ 1367ھ
8 پیام امجد ۔ 1368ھ
ادارہ ادبیات اردو کے علمی و ادبی رساہ سب رس کے لۓامجد حیدرابادی نے ایک رباعی کہی تھی جو اس کے ابتدائہ پر شائع ھوتی تھی ۔
یہ تحفہ ہے لا جواب از بس لے لو
مرغوب دل ہر کس و نا کس لے لو
سب کا لینا تو امر نا ممکن ہے
سب میں بہتر یہ ہے کہ سب رس لے لو
31 جنوری 1955ء کو ادارہ ادبیات اردو کی جانب سے امجد کا جشن الماس( ڈائمنڈ جوبلی) منایا گیا جس میں نہ صرف ہندستاں کی جامعات ،ثقافتی ادارے بلکہ ایران کے نمائندوں نے بھی شرکت کی اس جشن میں جوش ملیح آبادی نےکہا اپنا مقالہ "یہ ازلی بت پرست امجد کی محبت میں گرفتار” پڑھا
ادب اس دنیا کے طاق کی شمع طور اور زندگی کے تاج کا کوہ نور ہے لیکن اس غیر حساس دنیا میں جس چیز کی طرف سب سے کم توجہ مبذول فرمائ جاتی ہے وہ یہی بد بخت ادب ہے اور خصوصیت کے ساتھ آج کل جب کہ پیر زن سیاست تمام انسانی عظمتوں کے موتیوں کو زندگی کےہر گوشے سے چن چن کر اپنے ہار ھوندہ چکی ہے اور ارباب اقتدار کے کرسیوں کے طواف کے خاطر تمام انسان کارواں در کارواں چلے آرہے ہیں کسی کو اس بات کی فرصت نکالنے کا وقت نہیں مل رہا ہے کہ وہ بارگاہِ ادب کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی دیکھے اور ان آفاق شکار حضرات کی خلوتوں مین دوزانو ہو کر بیٹھے جوجو اپنے انفاس کی ترازو میں نفاق کو تولتے اور انی پلکوں کی لرزش سے کائنات کے عقدے کھولتے ہیؐ ۔ سمعتیں ابھی تک اس قدر موٹی اور کھوٹی ہیں کہ وہ ادیبوں اور شاعروں کے دلوں کیان دھڑکنوں کو سن نہیں سکتیں جن میں شعریت کی موسیقی جھولا جھولتی اوراپنی تانوں پرکائنات کی روح کو رقص پرمجبورکردیتی ہے۔
سیاست کے منبر و محراب کی تقریریں بڑے شوق سے سنی جاتی ہیں حالانکہ وہ تمام تقریریں مرے ہوۓ جانوروں کی ہڈیوں کی طرح سخت اور ریتے ہوۓ شیشم کے برادے کے مانند خشک ہوتی ہیں لیکن ایک کان بھی ایسا نہیں ملتا جو اس پر آمادہ ہو کہ اپنے پیمانے میں شعر و موسیقئ کا شہد گھولے اور اس سے اپنی بصیرت کی آنکھیں کھولے کس سے کہا جاۓ کہاس کرہ ارض پر اگر کوئ حقیقی اور پائیدار عظمت پائ جاسکتی ہے تو وہ صرف عظمتِ شاعرانہ ہے اور یہ وہ عظمت ہے کہ دنیا کی تمام عظمتیں اس کے قدموں پر سربسجود نظر آتی ہیں لیکن اس کا کیا علاج کہ شاعر اپنی موت کےبعد اپنی زندگی کا آغاز کیا کرتا ہے اور شہرتِ شعرم بہ گیتی بعدِ من خواہد شدن کے سہارے اپنی درماندہ زندگی کی شامِ امید کے چراغ جلاتا رہتا ہے پھر بھی اپنی زندگی کی درماندگی کے باوجود جب وہ یہ نعرہ بلند کرتا ہے کہ
گداۓ میکدہ ام لیکِ وقتے بیں
کہ ناز بر فلک وحکم بر ستارہ کنم
تو اس زمین کے تمام ذرے اور آسمان کے تمام تارے اس دعوے کی تصدیق کتے اور بہ بانگ دہل کہتے ہیں کہ اس آواز ہر جو ایمان نہیں لاتا وہ کافر ہے۔
مجھے کامل یقین ہے کہ بہت ہی کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ شاعری ایک نہایت دردناک عمل کا نام ہے اور یہ عمل اس قدر صعوبت انگیز ہےکہ اگر پہاڑوں اور آسمانوں پر اسے نازل کیا جاۓ تو ان کی ریڑہ کی ہڈی ٹوٹ کر رہ جاۓ۔
تخلیق ادب و شعر کے کرب کو بیان کے سانچے میں ڈھالا نہیں جاسکتا اور اگر اسے بیان کرنے کی سعی کی جاۓ گی تو الفاظ سے خون ٹپکنے لگے گا۔
ہر سانس میں ہوتے ہیں دل وجاں غربال
ہر آن میں ہوتے ہیں لاکھوں مہ و سال
اس کرب کی شرح غیر ممکن ہے ندیم
جس کرب کے ساتھ صرف بنتا ہے خیال
اور
یہ اپنے ہی خوں میں نہانے والے
یہ تابہ زباں سخن کے لانے والے
واللہ کہ ہیں چشم و چراغ آفاق
یہ فکر کو آواز بنانے والے
فکر کو آواز بنانا ہنسی کھیل نہیں یہ ملکوں کے زیر وزبر اور شمس و قمر کے مسخر کر لینے سے زیادہ کہیں زیدہ کہیں زیادہ مشکل کام ہے اگر دنیا کے تمام فاتحوں، موجدوں ،عالموں اور سائنسدانوں پت تخلیق شعر کا ایک لمحہ بھی طاری کردیا جۓ تو میرا دعوٰی ہے کہ وہ ایک پل کے اندر خون تھوک کر مر جائنگے لیکن یہ صنف اس قدر ازلی بد بخت ہے کہ اس کے سمجھنے اور پرکھنے والے کہیں صدیوں مین پیدا ہوا کرتے ہیں اس لۓ عظمت سخنداں کے چہرے پر نا قدری کی گرد پڑی رہتی ہے اور
کیا خبر یہ ناقداں گل پھول چڑھائیں
خوبانِ صدف عذار، موتی برسائیں
کہتا ہے میرا وطن کہ ازراہ کرم
حضرت اب انتقال فرماجائیں
چنانچہ اس ناقدری اور سرد بازاری کے دور میں جب میں نے یہ سنا کہ میرے دوست حضرت امجد کی حیدرآباد مین جوبلی منائی جارہی ہے تو میرا دل خوشی سع باغ باغ ہوگیا اور
پس از خدمت گزر افتاد بر ما کارواں را
گنگنانے لگا میں آپ تمام حضرات کو مبارک باد دیتا ہوں کہ آپ نے امجد کی جوبلی مناکر اپنے ذوق کی صحت اور اپنے ذہن کی شرافت کا کتنا بڑا ثبوت دیا ہے جس کا ذکر نا ممکنات سے ہے۔
حضرت امجد میرے پرانے دوست ہیں ۔ یہ صحیح ہے کہ وہ اپنے بھولے پن کی بنا پر ایک ایسے جادہ پر گامزن ہیں جس کے دونوں طرف بوڑھی عورتوں کی سی عقیدت رکھنے والے درویشوں کے خیمے نصب ہیں ۔
لیکن اس اختلافِ مسلک کے باوجود جب امجد کی رباعیاں پڑھتا ہوں اور سنتا ہوں تو جھوم جھوم جاتا ہوں ۔ یہ امجد کی شاعرانہ عظمت کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ میں بھی ان کے اشعار پر وجد کرتا ہوں ۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ میں اپنے آپ کو خدانخواستہ کوئ بڑا آدمی سمجھتا ہوں ۔ میرا مقصد اس سے یہ ہے کہ جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں ان کے اشعار کی معنویت سے غیر متفق ہونے کے باوجود میں ان کے اشعار پر سر دھنتا ہوں اور وہ شاعر جو منکر و مخالف کو بھی داد دینے اور قدر کرنے پر مجبور کرے کوئ معمولی شاعر نہیں ہوسکتا۔
اختلاف مسلک کی بناء پر میں نے اکثر چاہا کہ میں ان کے اشعار سے لطف اندوز ہونا ترک کردوں مگر جناب والا جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ مجے اس کا اقرار ہے کہ میں اس پر قادر نہ ہوسکا۔ اور کیسے ہو سکتا
ہم نے برسات کے موسم میں جو چاہی توبہ
ابر اس زور سے گرجا کہ الٰہی توبہ
ایک اچھے شاعر کے دوش بدوش امجد صاحب ایک اچھے اور بہت اچھےانسان ہیں اور ان کیذات میرے قول کی ببانگ دہل تصدیق کرتی ہےـــــــــ یہ میرا دعوٰی ہے کہ اچھا شاعر کبھی براآدمی نہیں ہو سکتا۔ اور جب امجد کی طرف نظر اٹھاتا ہوں تو اپنے دعوے کی تصدیق کو زندہ و مجسم دیکھ لیتا ہوں۔ امجد شاعر ہیں ،انسان ہیں نیک اور رقیق القلب انسان ہیں یہ رقیق القلبی ان کی خوش قسمتی بھی ہے اور بد بختی بھی۔ خوش قسمتی اس لحاظ سے کہ
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
کے دور میں بھی وہ انسان ہیں ،صحیح معنی میں انسان اور بد بختی اس لحاظ سے ہے کہ وہ بےچارے افسانہ وفسوں میں مبتلا ہو کر وہاں پہنچ گۓ ہیں جہاں یہ دردناک آواز گونجا کرتی ہے
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
اس کے علاوہ امجد میں ایک آن بھی ہے ۔ایسی آن کہ اس سن و سال میں بھی محبوبیت پائ جاتی ہے اور شائد حافظ نے انہی کے لۓ کہا تھا
بندہ طلعتے آں باش کہ آنے وارد
یہ بندہ خاکسار اور یہ رند جہاں گرد چونکہ ازلی بت پرست ہے اس لۓ امجد کی محبت میں گرفتار ہو چکا ہے
آرے آرے می کنم با خلق و عالم کارنیست
امجد جس ادا سے آنکھ اٹھاتے اور جس شیرینی سے مسکراتے ہیں اس پر ہزاروں پریزادوں کو قربان کیا جا سکتا ہے اور اس وقت جب کہ وہ میرے سامنے بیٹھے ہوۓ ہیں۔ میں حاضرین کو چیلنج دیتا ہوں کہ
اینست کہ دل بردہ وخوں کردہ بسے را
بسم اللہ اگر تاب نظر ہست کسے را
جوش بر بستر ِ ہوش اس موقعہ پر مولانا عبدالماجد دریابادی نے اپنے پیغام میں کہی
” امجد نامور و ذیشان کے باب میں ماجدِ گمنام و بے نشان کا کچھ عرض کرنا سورج کو چراغ ہے دکھانا ۔شہد کو اور کون سی مٹھاس ڈال کر میٹھا کیا جاۓۓ اور نمک میں کون سی نمکینی ملا کر نمکین بنایا جاۓ۔ وہ میرے افضل التفضیل بڑاۓ نام ہی نہیں زندگی کے ہر صیغہ میں مجھ سے افضل، اکمل، اشرف، اکرم ہیں اللہ ان کی عمر میں کمالات میں کرامات میں زیادہ سے زیادہ برکت عطا فرماۓ۔
اس جلسہ میں ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے امجد کی خدمت میں ایک سپاسنامہ پیش کیا کہ ‘حکیم الشعراء سرمدِ ثانی حضرتِ امجد’ اپنے جواب میں امجد نے کہا
” بسم اللٰہِ توکلت علی اللٰہِ و الحمد للٰہِ علٰی کلِ حال۔
میں اپنے قدر دانوں دوستوں عزیزوں محسنوں کا شکر گزار ہوں اور ان کی اس جدت کا معترف ہوں کہ عام دستور کے خلاف میری قبر پر پھول ڈالنے سے پہلے میری زندگی ہی میں پھولوں کے ہار گلے میں ڈال دۓ اور میری قبر پر شاندار گنبد بنانے سے پہلے مجھ تودہ خاک کو عالم پاک تک پہنچا دیا لیکن پھر بھی یہی کہوں گا
ممکن نیہں کہ فطرتِ اصلی بدل سکے
امجد ہزار پاک ہوا پھر بھی خاک ہے
آپ بزرگوں دوستوں قدردانوں نے میری حیثیت اور استحقاق سے زیادہ ذرہ نوازی فرماکر مجھ ذرہ بے مقدار کو آفتاب بنادیا۔ میں پہلے ہی سے آفتاب ہوں مگر کیسا آفتاب جو لبِ بام ہے اب ڈوبا یا کہ جب ڈوبا۔ اب چھپا کہ جب چھپا۔ میں بہت دنوں سے’مو تواقبل ان تمو توا’ کے تحت اپنی ایک رباعی کا مصداق بن چکا ہوں وہ رباعی یہ ہے
تو کان کاکچا ہے تو بہرا ہوجا
بدبیں ہے اگر آنکھتو اندھا ہوجا
گالی غیبت دروغ گوئ کب تک
امجد کیوں بولتا ہے گونگا ہوجا
کانوں سے کم سنتا ہوں ۔ آپریشن کے بعد آنکھوں سے کم دیکھتا ہوں لقوے کے بعد زبان سے اچھی طرح بول نہیں سکتا ۔ الحمدللہ علٰی کل حال ۔ ان اعتبارات سے بہت حد تک مر چکا ہوں صرف گڑنا باقی ہے۔ دیکھۓ کب وقت آتا ہے دیکھۓ کب آۓ کس جا آۓ ،کس پردے میں آۓ خستہ جاں امجد کی اک مدت سے بھوکی موت ہے۔
قصہ مختصر مین اپنے محسنوں کے لۓ درگاہ باری تعالٰی میں دعا کرتا ہوںاور جب تک سانس لے رہا ہوں دعا کرتا رہوں گااور پرانی زندگی ختم ہوکر نئ زندگی ملنے کے بعد بھی یہی کہتا رہوں گا
لو تجھ سے لگاۓ مراملنے والا
اپنے کو بھلاۓ مرا ملنے والا
مولا مرے ہر دوست کو اپنا کر لے
تجھ سے ملجاۓ مرا ملنے والا
آمین آمین آمین خدا حافظ۔
واللہ معکم اینماکنتم ط
سےد امجد ھسین امجد حیدرابادی
اکتیس جنوری 1955ء
آغا پورہ حیدراباد دکن
1958ء مین ساہتیہ اکاڈمی حیدرآباد کی جانب سے آپ کی خدمات کے اعتراف کے طور ہر پانچ سو روپۓ پیش کۓ گے اور یہ شائد واحد رقم ہے جو آپکو شاعرانہ خدمات کے سلسلہ میں ملی حالانکہ سرکار نظام مین سارے ہندستان کے شعراء اور ادیب مستفید ہوتے رہے ہیں لیکن امجد کی کبھی بھی پذیرائ نہیں کی گئ ڈاکٹر عبدالحق صاحب (کرنول) نے آپ کی کافی قدردانی کی اور آپ کی مع بیگم ایک ماہ مدراس میں میزبانی کا شرف حاصل کیا۔
امجد کے کلام پر اوروں کی آراء کو پیش کرنے سے پہلے یہ مناسب لگتا ہے کہ خود امجد کی راۓ اپنے کلام پر پیش کدی جاۓ
مجھے ہر قسم کی تعریف کا شایاں سمجھو ۔ میرا ہمسر ہے کہاں
اوج خوبی کا مجھے مہرِ درخشاں سمجھو ۔ مجھ سے روشن ہے زماں
میری تعریف کرو میری تعریف کرو
شاعری مٰن مجھے سعدی کا مماثل سمجھو ۔ ہے میرا مثل کہیں
ساری دنیا میںفقط اک مجھے قابل سمجھو ۔ میں ہوں استادِ زماں
میری تعریف کرو میری تعریف کرو
نظم میں نثر میں تحریر میں تقریر میں ۔ کون ثانی ہے میرا
ہمہ دانی سے مری دنگ ہے سب ہند و عرب ۔ مجھ سا دیکھا نہ سنا
میری تعریف کرو میری تعریف کرو
اب امجد کی زبان میں سرمد سے سنۓ
جب امجد و سرمد میں ملاقات ہوئ ۔ شریدہ سروں میں کچھ عجب بات ہوئ
امجد نے کہا کاش میں سرمد ہوتا ۔ سرمد نے کہا کاش میں امجد ہوتا
امجد کی زبان پر کلامِسرمد ۔ سرمد کی زبان پر کلام امجد
دو شمعوؐ ں میں اک ایک کا پروانہ تھا ۔ دیوانوں میں اک ایک کا دیوانہ تھا
توحید کا ہر ایک نمائندہ تھا ۔ ایک زندۂ جاوید تھا ایک زندہ تھا
سید سلیمان ندوی نے ‘معارف فبروری 1933ء کے شمارہ میں ادبیات کے تحت امجد کا کلام ‘معراج المومنین’حکیم الشعراء امجد حیدرآبادی شائع کیا تھا اس کے تعارف میں لکھتے ہیں ” معارف” کا شیوہ نہیں کہ شاعروں کو خطابات بانٹے لیکن حضرت امجد حیدرآبادی کی نو بہ نو حکمت آموز شاعری نے اس کو اعتراف فضل پر مجبور کیا ہے اور لفظ حکیم الشعراء سے واقعہ کا اظہار کیا ہے۔
وحید الدین سلیم پانی پتی نے اپنے مضمون ‘دکن میں ایک رباعی گو شاعر’ مشمولہ ‘افاداتِ سلیم ‘ میں لکھا ہے
"ان کے پڑھنے کا انداز بھی عجب مستانہ ہے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو خیالات وہ بیان کر رہے ہیں وہ ان کے دل کی آواز ہے امجد شعرگوئ کے وقت خیال کو پیش نظر رکھتے ہیں یہ ان شاعروں میں سے نہیں ہیں جو لفظوں اور محاوروں کے کھلونے تیار کرتے رہتے ہیں ان کے کلام میں جا بجا وہی بجلی کوندتی نظر آتی ہے جو اہل بصیرت کے لۓ ہوشربا ہے۔ وہ شعر اسی وقت کہتے ہیں جب کوئ خیال ان کو اپنے اظہار پر مجبور کرتا ہے پھر وہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتےکہ اس خیال کو کس لباس میں ظاہر کریں خود خیال ہی اپنے لۓ لباس تیار کر لیتا ہے اور اس کو پہن کرآنکھوں کے سامنے جلوہ گر ہوتا ہے ۔قدرتی شاعر کی یہی پہچان ہے۔ ان کی منتخب رباعیاں یقیناًزندہ رہیں گی "
بقول علامہ اقبال "ہر رباعی قابل داد ہے ان کے پڑھنے سے روحانی مسرت حاصل ہوتی ہے”
ان تمام اوصاف شاعری اور نثر نگاری کے باوجود امجد حیدرابادی کو وہ عظمت حاصل نہ ہوسکی جس کے وہ مستحق تھے میں سمجھتا ہوں کہ اس کی دو وجوہات ہیں پہلی یہ کہ آپ کے فن اور شخصیت پر خاطر خواہ کام نہیں ہوا ہے اور یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔اس مضمون کی تیاری میں کافی تلاش کے بعد صرف چند مضامین ملے۔جن کا حوالہ اختمام پر موجود ہے۔
دوسری اہم وجہ میری دانست میں یہ ہے کہ اردو والوں کا مزاج ابھی تک غزلیانہ ہے اور غالب نے بھی کہا تھا
مقصد ہے ناز وغمزہ، ولے گفتگو میں کام
چلتا نہیں ہے دشنہ و خنجر کہے بغیر
ہر چند ہو مشاہدۂحق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
——
اس مضمون کی تیاری میں مرقع سخن سیدمحی الدین قادری زور حیات امجد -محمد جمال شریف
ذکرِ امجد – محمد عمر یوسفی -آجکل دہلی مارچ 1956ء
علی عباس حسینی کا مضمون اردو رباعی مشمولہ نیا دور لکھنؤ سپٹمبر1968ء
ریاض مجید کا مقالہ ‘اردو نعت ‘سے مدد لی گئ ہے
——-
سید وسیم اللہ
ڈری فارم
سارنگ پور
نظام آباد
9848991888