افسانہ-
بلاعنوان –
مدثرگل
کل اس نے مجھے ایک تصویر واٹس ایپ کی۔ وہ دبئی پہنچ چکی تھی جو نہ کبھی اس کی منزل تھی اور نہ ہی ایسا خواب اس نے کبھی دیکھا تھا۔ جو تصویر اس نے مجھے بھیجی تھی ایک ایکویریم کی تھی۔ پشت کیے ہوئے تھوڑا اونچا ہونے کے لیے پنجوں پر کھڑی نجانے کس ایک خاص مچھلی کو دیکھ رہی تھی.
نوری جس کا پورا نام کبھی نورین تھا۔ میں اسے پچھلے تین سال سے جانتا تھا۔ زمانے کی ستائی ہوئی اس نوری کی کہانی بھی دوسروں سے مختلف نہ تھی۔ بلند و بانگ غیرت کے دعوئے کرنے والا یہ معاشرہ اس کے لیے رسوائیوں کا ذریعہ بنا۔ والد کی وفات کے بعد گھر میں کمانے والا کوئی نہ تھا۔ شروع وقت میں ان کی کی کوئی مدد کرتا بھی تو دکھلاوے کی خاطر تھوڑی بہت۔ جس سے ان کی اتنی مدد نہ ہوتی جتنی وہ شہرت کما لیتا۔ آہستہ آہستہ یہ سلسلہ بھی کم ہوتا گیا۔ نوری کی بہن کی جب شادی ہورہی تھی تو اس نے دیکھا کہ کوئی بھی اس کی بہن کو قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہ تھا۔ کیونکہ ان کا کوئی بھائی نہیں تھا۔ تینوں ماں بیٹیاں اتنی استطاعت نہیں رکھتی تھیں کہ جہیز کا سامان بنا سکیں۔ نوری کی بڑی بہن کی شادی بہت مشکل سے ایک شرابی سے ہوئی جو اکثر اس پر بلاوجہ تشدد کرتا رہتا تھا۔
ناقص غذاؤں اور بڑی بہن کی غیر سکون زندگی کی وجہ سے اب اس کی ماں کی طبیعت بھی اکثر خراب ہی رہتی تھی۔ ان حالات کو دیکھ کر نوری نے نوکری کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان میں ایک جوان اور خوبصورت لڑکی کو پرائیویٹ نوکری تلاش کرنے میں اتنی دقت تو نہ آئی مگر نوکری کی آڑ میں ہر کوئی اس کی عزت کو بے آبرو کرنا چاہتا تھا۔ اسی وجہ سے وہ تقریباً پانچ جگہ سے نوکری چھوڑ چکی تھی۔ شریف سے شریف تر اور نیک سے نیک تر بھی کچھ دنوں بعد اپنی شرافت کا لبادہ اتار دیتا اور بدی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتا۔
آخر کار نورین وقت کے ہاتھوں ہار گئی۔ چند لفظوں کی وجہ سے اسلام سے خارج کر کے بے دردی سے مار دینے والے اسلامی معاشرے میں اس کے لیے تو دور تک کسی ایک بھی اسلامی بھائی نے غیرت نہ دکھائی۔ ماں کی حالت اور اپنے اچھے مستقبل کے لالچ میں( جو کہ پیسے کے ساتھ مشروط ہے) وہ کب نورین سے نوری بن گئی پتہ ہی نہیں چلا۔
صرف وہ نوری بنی مگر اس کو نوری بنانے والا حاجی تو حاجی ہی رہا, چوھدری کی پگڑی بھی نہ اتری, مولانا کا ایمان بھی سلامت رہا, اس کا طالب بھی طالب علم ہی رہا اور اس کو روندنے والا استاد بھی حیا کا درس دیتا رہا…… سارے ویسے کے ویسے رہے مگر وہ ایک لڑکی سے طوائف بن گئی۔ وہی معاشرہ جس نے فاقوں کے ذریعے ایک لڑکی کو لڑکی نہ رہنے دیا آج اسے مختلف القابات سے پکار رہا تھا اور خود وہیں معزز کا معزز۔
اس کے ایک جاننے والے عیاش نے اس پر ایک کمال مہربانی کی کہ اسے دبئی کا ویزہ دلوادیا اور کسی بار میں اس کی نوکری کا بندوبست بھی کروادیا۔ جہاں پر اس کو کافی معقول پیسے مل جاتے جن میں سے وہ اپنی ماں کے لیے بھی بہت کچھ بھیج دیتی۔
نوری کے اس پیشے میں صرف وہی نورین سے نوری بنتی تھی۔ وہاں پر جانے والا کوئی بھی نورا نہیں کہلاتا تھا۔ اس کو یاد تھا کہ اس کی بڑی بہن کی شادی کے وقت ذات برادری کا بہت عمل دخل تھا جس کی وجہ سے رشتہ ملنے میں بہت دقت آئی تھی۔ مگر یہاں تو کبھی کسی نے اس کی ذات برادری نہیں پوچھی تھی۔ یہاں پر تو سب ایک ہی ذات کے لوگ تھے۔ ایک ہی مادر ذات کے لوگ۔ جو پہلے اس کو مجبوراً اس راہ پر لے آئے اور پھر نفرت کا نشان بنا دیا۔ ایک مجبور لڑکی کو طوائف کا نام دے دیا گیا۔ مگر ان مجبور کرنے والوں کو کوئی بھی نام نہیں دیا گیا۔ جن کی وجہ سے ایک عام زندگی گزارنے والی لڑکی اس دلدل میں پھنس گئی جہاں پر وہ ان مچھلیوں کی طرح زندہ تو ضرور تھی مگر صرف نمائش اور ضرورت کے لیے۔