طلاق : اسلام کے جامع نظام کا مظہر
مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ دار العلوم حیدرآباد
E-mail:
07207326738 Mob:
حالیہ دنوں طلاق کا مسئلہ ملک کے منظر نامے پر چھایہ ہوا ہے ،ملک کے وزیرا عظم نے عورتوں کو انصاف دلانے کا بیڑا اٹھایا ہے، اس لئے وہ اپنے بیانات میں بار بار طلاق کا تذکرہ کرتے ہیں، مودی جی کے ساتھ ساتھ یوپی کے وزیر اعلی یوگی جی نے بھی طلاق کا راگ الاپنا شروع کر دیا ہے –
مجھے ان دونوں حضرات پر کوئی تعجب نہیں ہے اس لئے کہ یہ حضرات اسلامی نظامِ زندگی سے نا واقف ہیں ، اسلام کی خوبی ، جامعیت و ابدیت سے لا علم ہیں، اسلامی قانون زندگی سے اچھی طرح متعارف نہیں ہیں ،اور تھوڑا آگے بڑھ کر یہ حضرات یکساں سول کوڈ کے حامی اور وکیل ہیں پورے ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنا چاہتے ہیں اس لئے بھی مسلمانوں کے عائلی مسائل میں ترمیم و تبدیلی کی بات کرتے ہیں ۔
لیکن حیرت ان مسلم دانشوروں پر ہوتی ہے جو اپنے آپ کو تجدد پسند مسلمان سمجھتے ہیں ، عصری دانش گاہوں میں اعلی کرسیوں پر بیٹھے ہیں اور اس طرح کے عائلی مسائل میں کود کر اپنے تجدد پسندی کا ثبوت پیش کرتے ہیں اور اسلام کی من مانی تعبیر و تشریح کرتے ہیں ، میری ملاقات ہندوستان کی ایک مرکزی یونیورسٹی کے ایک قابل اور ذہین ترین شخص سے ہوئی جو ایک اسکول کے ڈین بھی ہیں انہوں کے مسئلہ طلاق پر گفتگو شروع کر دی، وسعت مطالعہ اور اسلام کے بارے میں ہمہ دانی کا اندازہ لگائیے ، کہنے لگے جب قرآن نے تین طلاق دینے سے منع کر دیا ہے پھر اگر کوئی تین طلاق دیتا ہے تو قرآن کی خلاف ورزی ہوئی اس لئے وہ طلاق نہیں واقع ہونی چاہئے جیسے قرآن نے بلا وضو نماز پڑھنے سے منع کر دیا ہے اب اگر کوئی بغیر وضو نماز پڑھتا ہے تو اس کی نماز نہیں ہوتی ہے ، میں نے جواباً عرض کیا بندوق میں گولی ہوتی ہے بلا ضرورت اس کا استعمال کرنا منع ہے لیکن اگر کوئی بلا ضرورت بندوق چلا دے تو سامنے والے کو گولی لگے گی یا نہیں ؟پھر اگر بندوق میں تین گولی ہو اور وہ تینوں ایک ساتھ نکلے تو سامنے تین گولی سے مرے گا یا ایک سے؟کسی کو ناحق قتل کرنے کو قرآن نے سختی سے منع کیا ہے؛ لیکن اگرکوئی شخص ناحق قتل کردے تو قتل ہوگا یا نہیں ؟اسی طرح شریعت نے تین طلاق دینے سے منع کیا ہے لیکن کوئی بے وقوف شریعت کی ہدایت پرعمل نہ کرے اور تین طلاق دے دے تو تین طلاق واقع ہو جائے گی واضح رہے کہ قرآن میں تین طلاق کی ممانعت کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ؛بلکہ قرآن میں تو اس کی صراحت ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین تیسری طلاق دے دے تو اب وہ عورت اس کے لئے حلال نہیں رہتی ہے اس کی مزید وضاحت آگے پیش کی جائے گی ۔
قارئین !آئیے اسلام کے نظام طلاق کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہیں ،اسلام کی آمد سے پہلے زمانہ جاہلیت میں طلاق کا رواج تھا ،لیکن نہ اس کی کوئی حد مقررتھی اور نہ ہی کوئی عدد، اس لئے ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دیتا پھر اس سے رجوع کرلیتا وہ اس کی بیوی ہو جاتی اور جب کوئی شخص اپنی بیوی کو پریشان کرنا اور تکلیف دینا چاہتا تو طلاق کا سہارا لیتا چنانچہ وہ اس کو طلاق دیتا پھر جب اس کی عدت پوری ہونے لگتی تو رجوع کرلیتا پھر اس کو طلاق دے دیتا پھر عدت کے ختم ہونے پر رجوع کر لیتا اور یہ سلسلہ چلتا رہتا اس طرح وہ عورت نہ تو شوہر والی ہوتی اور نہ آزاد ہوتی کہ دوسری شادی کر سکے ،اسلام کے آنے کے بعد ایک مرتبہ ایک انصاری صحابی نے اپنی بیوی سے غصے میں کہا کہ تمہیں لٹکا کر رکھ دوں گا ، نہ تمہیں بیوی بناؤں گا اور نہ ہی آزاد کروں گا ،اس کی بیوی نے پوچھا وہ کیسے اس نے جواب دیا کہ تمہیں طلاق دے دوں گا پھر عدت پوری ہونے سے پہلے رجوع کر لوں گا پھر طلاق دوں گا اسی طرح کرتا رہوں گا،وہ عورت آپ ﷺ کی خدمت میں شکایت لے کر آئی اس موقع پر قرآن کریم کی آیت نازل ہوئی ، جس میں عورتوں کے ساتھ ہو رہے ظلم و نا انصافی کو ختم کرتے ان کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کیا گیا اور الطلاق مرتان کہ کر طلاق کی تحدید کر دی گئی کہ صرف دو مرتبہ طلاق دے کر رجوع کرسکتے ہو تیسری طلاق کے بعد رجوع کا اختیار ختم ، غور کیجئے اسلام سے پہلے طلاق کے سلسلے میں عورتوں کے ساتھ جو ظلم ہو رہا تھا اسلام نے طلاق کی حد بندی کر کے عورتوں کے ساتھ ہورہے ظلم و نا انصافی کا مداوا کیا ہے ۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ سب سے پہلے طلاق کا استعمال حضرت اسمعیل علیہ السلام نے کیا ، اس کے بعد حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں تورات میں طلاق کا حکم نازل ہوا کہ طلاق کے بعد جب تک عورت دوسری شادی نہ کرے وہ اپنے شوہر کے لئے حلال ہے جب دوسری شادی کر لے تو پہلے شوہر کے لئے ہمیشہ کے لئے حرام ہوگئی ، اس کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے طلاق کا دوسرا قانون نازل ہوا جس میں نکاح کے بعد مطلقاً طلاق دینے سے منع کر دیا گیا یعنی کسی عورت سے شادی کے بعد اس سے علیحدہ ہونے کی کوئی صورت نہیں ہے ، غور کیجئے طلاق کے دونوں نظام میں تنگی اور دشواری ہے اس کے بعد اسلام کا نظام طلاق نازل ہوا جو کہ امت وسط اور امت معتدل ہے اس لئے اسلام کا نظامِ طلاق بھی بالکل معتدل اور انسانی مزاج سے ہم آہنگ ہے ،اس میں طلاق دینے کی بھی گنجائش ہے اور طلاق کے بعد دوبارہ نکاح بھی جائز ہے اگر عورت دوسرے مرد سے نکاح کر لے پھر پہلے مرد سے نکاح کرنا چاہے تو دوسرے مرد کے طلاق دینے یا وفات پاجانے کے بعد یہ بھی درست ہے ۔
ہندوستان میں ہندؤوں کے یہاں طلاق کا کوئی تصور نہیں تھا ان کے یہاں اصول یہ تھا کہ ماں کے یہاں سے لڑکی کی ڈولی اٹھتی ہے اور شوہر کے گھر سے ارتھی اٹھتی ہے ،اس نظام میں بہت تنگی تھی جس کا نتیحہ یہ ہوتا تھا کہ اگرشوہر کو بیوی پسند نہیں ہے یا مرد اس عورت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا ہے تو اسے زہر دے کر یا اسے جلا کر اس سے آزادی حاصل کرتا تھا اور اگر عورت آزاد ہونا چاہتی تو خود کشی کرکے یا جرأت مند عورت ہوتی تو شوہر کا کام تمام کر کے آزادی حاصل کر تی تھی اس تنگی سے نکلنے کے لئے ۵۵ ۱۹ء میں ہندو میرج ایکٹ بنا اورطلاق کا قانون بنایا گیا اور آج بھی اس قانون میں اتنی خامیاں ہیں کہ ایک عورت طلاق لینا چاہے تو اس کے لئے اتنا وقت چاہئے کہ عورت کی جوانی کورٹ کے در و دیوار کی نذر ہو جاتی ہے ۔
اسلام میں طلاق کا تصور:
شادی کے ذریعہ دو اجنبی ازدواجی بندھن میں بندھ جاتے ہیں اور شیر شکر، ایک جان دو قالب کی طرح محبت و الفت سے رہتے ہیں ، اسلام نے شوہر کو بیوی کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کی اور فرمایا تم میں بہترین انسان وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے ،آپ ﷺ نے حضرت عائشہ اور دیگر ازواج مطہرات سے محبت کا بہترین نمونہ امت کے سامنے پیش کرکے بتایا کہ شوہر کو اپنی بیوی سے خوب محبت کرنی چاہئے اور اس کے حقوق کا مکمل خیال کرنا چاہئے، اسی طرح اسلام نے عورتوں کو بھی ہدایت دی کہ شوہر کے حقوق کی رعایت کر و ، اس کی خدمت کر و ،آپ ﷺ نے فرمایا اگر میں اللہ تعالی کے علاوہ کسی کو سجدہ کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں ک سجدہ کریں ،اسلام نے اس رشتے کو دوام بخشنے کی تلقین اور دائمی الفت و محبت کی ترغیب فرمائی اسی لئے بلا ضرورت مردوں کو طلاق دینے سے منع فرمایا آپ ﷺنے فرمایا اللہ تعالی کو مباح چیزوں میں سب سے ناپسند چیز طلاق ہے ،عورتوں کو بھی بلا ضروت طلاق لینے سے سختی سے منع کیا آپ ﷺنے فرمایا جو عورت بلا وجہ شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گی یعنی ایسی عورت جنت میں داخل نہیں ہوگی ۔
لیکن بعض مرتبہ میاں بیوی دونوں اجنبی ہوتے ہیں ، کبھی تہذیب ، فکر و ذہن اور و رہن سہن میں کافی اختلاف ہوتا ہے ،جس کی وجہ دونوں کے درمیان ناچاکی و نا اتفاقی اور جھگڑے پیدا ہوجاتے اور بسا اوقات نوبت علحدگی تک پہنچ جاتی ہے اس موقع پر قرآن کریم نے بہترین رہنمائی کی ہے کہ پہلے شوہر مناسب انداز میں سمجھائے اس سے کام نہ چلے تو شوہر ہلکے پھلکے انداز میں پٹائی بھی کر سکتا ہے بشرطیکہ اس میں تنبیہ کا پہلو ہو عذاب اور تکلیف دینا مقصود نہ ہو ، اس سے بھی کام نہ چلے تو اس کا بستر الگ کردے ، غیرت مند خاتون کے لئے شوہر سے الگ بستر پر سونا کسی مار سے کم نہیں ہے ان تین مراحل سے شوہر خود گزرے؛ لیکن اگر اس سے کام نہ چل سکے اور ازدواجی زندگی پٹری پر نہ آسکے اور نااتفاقی بڑھتی چلی جائے تو پھر دونوں خاندان کے بزرگ اور سمجھدار لوگ بیٹھ کر دونوں فریق کی بات سنجیدگی سے سنیں اور صلح کی کوشش کریں ،اگر دونوں خاندان کے بزرگ اصلاح کی نیت سے بیٹھیں گے تو اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالی دونوں میں صلح اور خیر کی سبیل پیدا کردیگا ؛لیکن اگر داخلی اور خارجی تمام وششیں ناکام ہو جائیں اور دونوں کی زندگی اجیرن بن چکی ہو ، اور نہ صرف ان دونوں کی، بلکہ دونوں خاندن کے لوگ متاثر اور ذہنی تناؤ کا شکار ہوں اور دونوں کے علحدہ ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ ہو تو پھر قرآن کی ہدایت ہے کہ مرد عورت کو ایک طلاق دے دے ، طلاق کے بعد اگر دونوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو اور دوبارہ ازدواجی رشتہ بر قرار رکھنا چاہیں تو عدت میں بلا نکاح کے رجوع کر سکتے ہیں اور عدت کے بعد دوبارا نکاح کے ذریعہ عورت کو اپنی بیوی بنا سکتے ہیں ، اگر رجوع یا نکاح کے بعد پھر ناچاقی پیدا ہو جائے اور دونوں میاں بیوی علحدہ ہونے ہی عافیت محسوس کریں تو شوہر دوسری طلاق دے سکتا ہے اس کے بعد پھر اگر دونوں باہم مل کر رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع اور عدت کے بعد دوبارا نکاح کر سکتے ہیں اگر دوسرے نکاح کے بعد پھر سے دونوں کے درمیان ان بن ہو جائے اور لڑائی جھگڑے کا بازار گرم رہے اور شوہر کو یقین ہو جائے کہ اس رشتے کو نبھانا ناممکن ہے اوردو با رکے تجربہ سے بھی ثابت ہو جائے علحدہ ہونے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے ؛بلکہ اسی میں دونوں کے لئے خیر ہے تو شوہر عورت کو تیسری بار طلاق دے دے اب دونوں ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئے ہیں رجعت یا نکاح کے ذریعہ اس رشتے کو قائم کرنے کی کوئی صورت نہیں ہے ۔
اسلام نے طلاق کا یہ بہترین نظام دیا ہے جس میں ہر شخص کے لئے عافیت ہے اور رشتہ ازدواج کو دوام دینے کی ہر ممکن کوشش ہے اور اتحاد و صلح کی تمام صورتوں کے نا کام ہونے کی صورت میں جدا ہونے کا راستہ بھی ہے اگر طلاق کے ذریعہ علحدہ ہونے کا راستہ نہ ہوتا تو دونوں کی زندگی عذ۱ب بن جاتی یا پھر یہی ہوتا کہ مرد عورت کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کرتا ، اس کو لٹکا کر رکھتا یا زہر کی گولی دے کراسے دائمی نیند سلا دیتا لیکن اسلام نے ایسا طریقہ دیا جس کے ذریعہ غیر فطری طریقہ سے بچ کر مناسب انداز میں عورت کو آزاد کر سکتا ہے ، بہت سے مسلمان اسلام کے اس نظام طلاق سے متعارف نہ ہونے کی وجہ سے تین طلاق دینے کو ہی طلاق دینا سمجھتے ہیں اس لئے جب کبھی وہ غصہ میں طلاق دینا چاہتے ہیں تو تین طلاق بولتے ہیں ، طلاق کا یہ طریقہ اسلام میں منع ہے اور اس طرح طلاق دینے والا گنہگار ہوتا ہے لیکن چوں کہ تین طلاق واقع ہوجاتی ہے اور دوبا رہ نکاح کا کوئی راستہ باقی نہیں رہ جاتا ہے تو یہی لوگ اسلام اور شریعت پر حملہ شروع کردیتے ہیں ۔
آج بعض ناعاقبت اندیش ، اسلامی تعلیمات سے نا آشنا ،شریعت کے رموز و اسرار سے ناواقف حکومت کی لے میں لے ملاتے ہوئے کہتے ہیں کہ تین طلاق پر پابندی لگنی چاہئے اگر کوئی اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے تو اس ایک شمار کرنا چاہیے ، میں یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ شریعت ہماری عقل کے تابع نہیں ہے ،بلکہ ہماری عقل کو شریعت کے تابع ہونا چاہیے اس لئے کہ شریعت خدائی قانون کا نام ہے انسانی عقل کی خدائی قانون کے مقابلہ میں کیا نسبت ہے ،؟جب حضور ﷺنے تین طلاق کو تین قرار دیا ہے تو آج مسلمان یا حکومت اس کو ایک کیسے قرار دے سکتی ہے ؟دار قطنی کی روایت ہے ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دے دی آپ ﷺ نے فرمایا تین طلاق تو واقع ہو گئیں اور باقی طلاقیں اس کی گردن پر ظلم کے طور پر ہیں اگر اللہ تعالی چاہیں گے تو اس پر عذاب دیں گے ، دار قطنی کی دوسری روایت حضرت معاذؓ کی ہے حضور ﷺ نے فرمایا جو شخص بدعت کے طور پر اپنی بیوی کو ایک طلاق دے یا دو طلاق دے یا تیں طلاق دے میں اس کو لازم قرار دوں گا ، حضرت ابن عمرؓ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دیا تھا آپ ﷺ نے رجوع کرنے کا حکم دیا انہوں نے رجوع کر لیا اور پوچھا یا رسول اللہ ﷺ اگر میں اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیتا تو کیا میرے لئے رجوع کی گنجائش ہوتی آپ ﷺ نے فرمایا نہیں وہ تم سے جدا ہوجاتی اور تم گنہگا ر ہوتے اس طرح کی بہت سی روایتیں ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین ہیں ۔
تین طلاق کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ تین طہر میں تیں طلاقیں دی جائیں یہ تیں طلاقیں فقہ کی اصطلاح میں طلاق حسن اور طلاق سنی کہلاتی ہیں ، اور اس کا ثبوت قرآن کریم سے ہے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن نے تین طلاق سے منع کیا ہے وہ یا توناواقف ہیں یا دھو کہ دیتے ہیں تین کا ثبوت قرآن و حدیث اور اجماع امت سے ہے، امت کے تمام مکاتب فکر کا اس پر اتفاق ہے اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے تین طلاق کی دوسری صورت یہ کہ ایک ساتھ تین طلاق دی جائے جیسے کہتے ہیں تمہیں تین طلاق یہ تینوں طلاق بھی واقع ہوجاتی ہیں اس پر بھی اہل علم متفق ہیں ائمہ اربعہ کے یہاں اس پر بھی اتفاق ہے سوائے ابن تیمیہ اور موجودہ دور کے اہل حدیث کے اس میں بھی کسی کا اختلاف نہیں ہے سعودی عرب کے ہیئت کبار العلماء نامی کمیٹی نے بھی ایک مجلس کی تین طلاق کو نافذ قرار دیا ہے ،ایک دھوکہ یہ بھی دیا جارہا ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک میں تین طلاق پر پابندی ہے اگر مضمون کے طویل ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو تمام ممالک کے قانون کے الفاظ نقل کرتا ،تمام اسلامی ممالک میں تین طلاق نافذ ہیں ہاں بعض ممالک میں ایک بارگی کی تین طلاق ایک شمار ہوتی ہے لیکن تین طہر کی یا تین مجلس کی تین طلاقیں ان ممالک میں بھی تین ہی ہیں ، تھوڑی دیر کے لئے سوچئے کہ آدمی جب زبان سے تین کا لفظ استعمال کرتا ہے تو اس کو تین ہی کہا جاسکتا ہے اس کو ایک ماننا کون سی منطق ہے ؟۔
یہاں دو باتیں مزید عرض کرنا چاہتا ہوں ، اسلام نے طلاق دینے سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے، تین طلاق دینے والوں پر آپﷺ نے اپنی شدید نا گواری کا اظہار کیا ہے،یہی وجہ ہے مسلمانوں کے یہاں طلاق کے واقعات دیگر مذاہب کے مقابلے میں کم ہیں اعداد و شمار اس پر شاہد ہیں ، دوسری طرف اسلام نے بیوہ اور مطلقہ سے شادی کے فضائل بیان کئے ہیں اس لئے مسلم مطلقہ اور بیوہ کی دوسری شادی ہوجاتی ہے اور بہت کم عورتیں بغیر شوہر کے ہوتی ہیں اور جو بعض ہوتی ہیں شریعت نے ان کی کفالت کے اصول مقرر کر دئے ہیں جبکہ ہندو اور دیگر مذاہب میں مطلقہ اور بیوہ کی شادی بہت ہی معیوب ہے اس لئے ان کے یہاں ایسی عورتوں کا تناسب بہت زیادہ ہے نیز ہندؤں میں بغیر طلاق کے عورتوں کو چھوڑ دینے کے واقعات بھی بہت پائے جاتے ہیں ،پھر غور کیجئے مسلم خواتین کو انصاف دلانے کے نام پر حکومت کا مسئلہ طلاق میں دخل اندازی کیا حکومت کی بد نیتی کو ظاہر نہیں کرتا ہے ؟کیا یہ اسلامی شریعت میں بے جا مداخلت نہیں ہے ؟کیا یہ مسلم پرسنل لا کو ختم کرنے سازش نہیں ہے ؟پھر مسلمانوں کا اس مہم میں شریک ہونا اور عصری دانش گاہوں کے تربیت یافتہ حضرات کا اس مہم کی تائید کر نا کیا دانش مندانہ فیصلہ ہے ؟ضرورت ہے کہ مسلمان حکومت کی بد نیتی کو سمجھیں اگر واقعتا حکومت مسلم خواتین کے لئے کچھ کرنے کے سلسلے میں سنجیدہ ہے تو بہت سے کام ہیں جو حکومت مسلم خواتین کے لئے کر سکتی ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ مسلمان اسلام کے نظام طلاق کو سمجھیں اور ضرورت پڑنے پر بہت سوچ سمجھ کر اور بڑوں کے مشورے سے صحیح طریقے سے طلاق دیں جس طرح نکاح کرتے وقت خوب معلومات کی جاتی ہے مشورے کئے جاتے ہیں اسی طرح طلاق دیتے وقت بھی رائے مشورہ سے طلاق دیں اور جب کبھی بھی طلاق کی نوبت آئے توایک طلاق دینا چاہئے ،غصے میںآکرایک ساتھ تین طلاق دینا نہ صرف یہ کہ خدا تعالی کی ناراضگی کا سبب ہے ،بلکہ پورے معاشرہ اور سماج کے پراگندہ او ربدنام کرنے کا بھی باعث ہے ، آج ایک شخص بڑی آسانی سے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیتا ہے ایس ایم ایس کے ذریعہ یا واٹس اپ یا میل کے ذریعہ طلاق نامہ بھیج دیتا ہے ظاہر ہے شوہر کے لفظ طلاق بولتے یا لکھتے ہی طلاق واقع ہو جاتی ہے لیکن اس طرح کی حرکت سے سوشل میڈیا پر اسلام دشمن طاقتوں کو اسلام کے خلاف بولنے اور لکھنے کا موقع فراہم ہو جاتا ہے خدا را اپنے اس انداز اور طرز عمل میں تبدیلی لائیے اس طرح کا واقعہ تو ایک دو ہی پیش آتے ہیں اور ہر سماج میں پیش آتے ہیں ؛لیکن اسلام مخالف ذہنیت کو ہنسنے کا موقع مل جاتاہے ۔
—–
Mufti Amanat Ali Qasmi