اردو کےادیب اورنثرنگار- قسط:12 – اردو کے تین نقاد :- محسن عثمانی ندوی

Share
پروفیسر محسن عثمانی ندوی

قسط : 12

اردو کےادیب اورنثرنگار
اردو کے تین نقاد

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

اردو کے ادیب اور نثر نگار ۔گیارھویں قسط کے لیے کلک کریں

خواجہ احمد فاروقی (۱۹۱۷۔۱۹۸۵)

خواجہ احمد فاروقی نے کم لکھا ہے لیکن جو کچھ لکھا ہے بہت غور وفکر اور توجہ کے ساتھ لکھا ہے ، ان کا وطن مرادآباد تھا ، ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی ، پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئے اور حلیم مسلم کالج کانپور میں اردو کے استاد کی حیثیت سے کام کیا ،پھر وہ دہلی کالج آگئے اور یہاں انھوں نے اردو کا باقاعدہ شعبہ قائم کیا ، اور پھر دہلی یونیورسٹی میں شعبہء اردو میں صدررہے۔

ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’کلاسیکی ادب‘‘ کے نام سے ۱۹۵۳ میں شائع ہوچکا ہے ، اس کے بعد ’’میر تقی میر ۔ حیات و شاعری‘‘ کے نام سے کتاب لکھی جس پر انھیں ساہتیہ اکیڈمی انعام ملا ، ’’ذوق و جستجو ‘‘ اور ’’چراغ رہ گزر ‘‘ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ہیں ، انھوں نے اپنی کتاب ’’یاد یار مہرباں ‘‘ میں بزرگوں اور دوستوں کے سوانحی حالات قلم بند کئے ہیں ، ’’اسلامک کلچر ‘‘حیدرآباد’’فکر و نظر‘‘ علی گڑھ کے اڈیٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا ہے ۔
میر تقی میر پر خواجہ احمد فاروقی نے بڑی توجہ اور محنت سے کام کیا ہے ، اور عہد میر کے تاریخی حالات قلم بند کئے ہیں ، اور اس عہد کے تہذیبی پس منظر کو بھی اجاگر کیا ہے ، ان کے تنقیدی مضامین اکثر تاثراتی تنقید معلوم ہوتے ہیں ، مثال کے طور پر میر تقی کے بارے میں وہ لکھتے ہیں ’’ان کا ہر آنسو ایک شعر ہے اور ہر مصرع ایک خون کی بوند، ان کا دل مضغہء گوشت نہیں سوز عشق کا آتش کدہ ہے ‘‘ فارسی ادب کے مطالعہ نے خواجہ احمد فاروقی کے کلاسیکی ذوق کو نکھار دیا ہے

احتشام حسین (۱۹۱۲۔۱۹۷۲ء)

احتشام حسین ایک ایسے بلند مرتبہ دانشور اور نقاد تھے جو زندگی بھر ادبی حسن کی دریافت اور حسن کمال کی جستجو میں ایک دیر یاب منزل کی طرف رواں دواں رہے ، احتشام حسین شاعر بھی تھے اور افسانہ نویس بھی، انھوں نے سفر نامے لکھے اور ترجمہ کے فن پر عبور کا ثبوت دیا ، علم لسانیات میں مفید اضافے بھی کئے لیکن ان کو اصلا ایک بڑے تنقید نگار کی حیثیت سے یاد رکھا جائیگا ، ان کا وطن اعظم گڑھ تھا ، ہائی اسکول انھوں نے اپنے وطن میں پاس کیا ، پھر الہ آباد یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری لی ، ۱۹۳۶ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی ، پھر وہ لکھنؤ یونیورسٹی میں لکچرر ہوئے پھر ریڈر ہوئے ، پھر بعد میں الہ آباد یونیورسٹی میں پروفیسر منتخب ہوئے اور صدر شعبہء اردو کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ، انھوں ادب کی دنیا میں پہلے ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے قدم رکھا اور ۱۹۴۴ میں ’’ویرانے‘‘ کے نام سے ان کے افسانوں کا مجموعہ شائع ہوا ، اس کے بعد ان کے تنقیدی مضامین پے در پے شائع ہوئے ’’تنقیدی جائزے ‘‘’’روایت اور بغاوت‘‘’’ادب اور سماج‘‘’’تنقید اور عملی تنقید‘‘’’ذوق ادب اور شعور ‘‘’’عکس اور آئینے ‘‘اور ’’اعتبار نظر‘‘ ان کی گرانقدر تصانیف ہیں ، انھوں نے اردو تنقید کو ایک نئے افق سے روشناس کیا ، ’’ساحل اور سمندر‘‘ ان کا دل چسپ اور معلوماتی سفر نامہ ہے ، انھوں نے ایک انگریزی کتاب کا ترجمہ ’’ہندوستانی لسانیات کا خاکہ‘‘ کے نام سے شائع کیا اور علم لسانیات میں اضافہ کیا ، انھوں کلام جوش کا انتخاب بھی شائع کیا اور ’’آب حیات ‘‘کی تلخیص بھی کی ، ’’اندھیری راتیں ‘‘ احتشام حسین کے ڈراموں کا مجموعہ ہے ، اور ’’سلک گہر‘‘ نظموں کا انتخاب ہے ، انھوں نے اردو ادب کی تنقیدی تاریخ بھی لکھی ہے ، ایک نقاد کی حیثیت سے وہ اردو ادب میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں ، انھوں نے اردو تنقید کو وزن اور وقار عطاکیا ، احتشام حسین کے تنقیدی تصورات میں مارکسی خیالات کی گونج سنائی دیتی ہے ، لیکن انھوں نے قدیم ادبی سرمایہ سے محبت اور اس کے احترام میں کوئی کمی نہیں کی ہے ، وہ جمالیاتی اور تاثراتی تنقید کے قائل نہیں ہیں ، احتشام حسین کی تنقیدیں ایک طرف سماجی علوم سے مربوط ہیں تو دوسری طرف اپنے دور کی جمالیات سے بھی ان کا رشتہ استوار نظر آتا ہے ، احتشام حسین کا انداز نظر اور اسلوب بیان علمی رنگ میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے اس لئے کبھی کبھی بعض اہل ادب ان کی تحریروں میں خشکی اور بے کیفی محسوس کرتے ہیں ، در اصل احتشام حسین مصنوعی نگینوں سے آب و تاب حاصل نہیں کرتے ہیں اور مرصع سازی اور مینا کاری سے گریز کرتے ہیں ، وہ مارکسی تنقید سے وابستہ رہے ، لیکن ان کی تحریریں ان کی ذہنی بالیدگی اور رچے ہوئے تنقیدی شعور کی آئینہ دار ہیں ۔

آل احمد سرور (۱۹۲۱۔۲۰۰۲)

آل احمد سرور نے تنقید کے علاوہ ایک دانشور کی حیثیت سے اور ایک صاحب اسلوب ادیب کی حیثیت سے اور ایک دیدہ ور مصنف کی حیثیت سے اپنا مقام بنالیا ہے اور اردو زبان و ادب کو ان کی تحریروں سے بصیرت اور گہرائی و گیرائی ملی ہے ، انھوں نے تنقید کے نظریہ کو بھی حرارت اور توانائی عطا کی ہے ، حسن کی تلاش اور ہر رنگ میں بہار کے اثبات نے ان کی تحریروں کو دل کشی اور جاذبیت عطا کی ہے ، انھوں نے حسن سے مضبوط پیمانہ وفا باندھا ہے ، اور یہی ان کی تحریر کی سب سے بڑی خصوصیت ہے ، انھوں نے اپنی ادبیت ، شگفتگی اور سحر آفرینی سے اردو کے نثر کے حسن میں اضافہ کیا ہے ، بلاشبہ وہ ان ممتاز مصنفین میں ہیں جن کے اسلوب بیان اور انداز نگارش پر اردو نثر ناز کرسکتی ہے ، بدایون ان کا وطن تھا ، پیدائش پیلی بھیت میں ہوئی تھی ، بدایون کے بعد گونڈا میں انھوں نے تعلیم حاصل کی اور پھر آگرہ کے کالج میں داخلہ لیا ، پھر وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلے گئے ، وہاں سے انھوں نے انگریزی میں اور اردو میں ایم اے کا امتحان پاس کیا اور ہیں شعبہء اردو میں لکچررمقرر ہوئے ، پھر لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہء اردو میں ریڈر مقرر ہوئے ، پھر دوبارہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی آئے اور پروفیسر کے عہدہ پر فائز ہوئے ، وہ شکاگو میں اردو کے وزیٹنگ پروفیسر ہوئے ، وہ ادب میں کسی مخصوص نظریہ کے پابند نہیں رہے لیکن وہ ہر تحریک کے صالح اور صحت مند رجحانات کو اخذ کرنے کے قائل رہے ، ان کی دانست میں ادب کی پہلی اور آخری شرط ادبیت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں ادب میں پہلے ادبیت دیکھتا ہوں بعد میں کچھ اور ۔ اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں ادب کا مقصد نہ ذہنی عیاشی سمجھتا ہوں اور نہ اشتراکیت کا پرچار ، ان کا کہنا ہے کہ جدید دور میں فن کو تہذیبی تنقید کا فرض انجام دینا چاہئے ، ان کا خیال ہے کہ اگر نقاد صرف اخلاقی پہلوؤں کو دیکھتا ہے یا صرف افکار پر توجہ کرتا ہے اور فن کے جادو اور حسن کا راز معلوم نہیں کرتا ہے تو وہ اپنے منصب کو نہیں پہچانتا ہے ، ان کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے قدیم اور جدید تصورات کے تصادم کے اس دور میں ادبی توازن کو برقرار رکھا ہے ، وہ ان لوگوں کے بھی مخالف ہیں جو ماضی سے رشتہ منقطع کرنا چاہتے ہیں ، وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر ادب سے اس کا ماضی چھین لیا جائے تو وہ ایک کٹی ہوئی پتنگ کی طرح بے سمتی کا شکار ہوجائیگا ، آل احمد سرور ترقی پسندی کے عروج کے زمانہ میں بھی زیادہ ترقی پسند نہ ہوسکے ، انھوں نے اپنی انفرادیت کو بر قرار رکھا ، وہ اپنی تنقید کے تیشہ سے بت شکنی سے زیادہ بت تراشی کا کام لیتے ہیں ، وہ تنقید سے ادب کو سڈول ، خوبصورت ، متناسب اور جاذب نظر بنانا چاہتے ہیں ، انھیں اس کا ایقان ہے کہ اچھی تنقید ادب کی طرف مائل کرتی ہے اور وہ خود تخلیقی ہوتی ہے ، ان کے نزدیک بڑی تنقید تخلیقی ادب سیکسی طرح کم تر نہیں ہوتی ، بلکہ خود تخلیق ہوجاتی ہے ۔
آل احمد سرور نے مغربی ادب اور مغربی تنقید کا گہرا مطالعہ کیا لیکن مغربی تنقید کو اردو ادب پر مسلط نہیں ہونے دیا ، انھوں نے اردو تنقید کو نیا ذہن ، نئی فکر ، نئی جہت اور نیا اسلوب عطا کیا ہے ، ان کی بہت ساری تصنیفات ہیں ’’تنقیدی اشارے ‘‘ ’’تنقید کیا ہے ‘‘ ’’نئے اور پرانے چراغ‘‘ ’’ادب اور نظریہ‘‘ ’’عکس غالب‘‘ ’’عرفان غالب‘‘ ’’جدیدیت اور ادب‘‘ ’’تنقید کے بنیادی مسائل‘‘ اور ’’مسرت سے بصیرت تک‘‘ ، ان کتابوں سے ان کے تنقیدی مسلک اور ادبی نظریہ کے بارے میں رائے قائم کی جاسکتی ہے ، انھوں نے شاعری بھی کی ہے ، میر غالب اور اقبال کے ساتھ انگریزی شعراء سے بھی متاثر ہوئے ہیں ، بحیثیت مجموعی آل احمد سرور ایک صاحب طرز ادیب ہیں ۔ عبارتوں کو دل فریبی اور رعنائی عطا کرنے میں بہت کم ہم عصر ان کی سطح کو پہنچ سکتے ہیں ۔

Share
Share
Share