آتش دان ‘ جلتے سلگتے گاؤں کی داستان :- جاوید احمد شاہ

Share


آتش دان
جلتے سلگتے گاؤں کی داستان

مبصر: جاوید احمد شاہ
Email:

قمر جمالی کا شاہکار ناول ’’ آتش دان ‘‘ جملہ ۲۵۳ صفحات اور ۳۲چھوٹے چھوٹے ابواب پر مشتمل ایک انقلابی ناول ہے۔آتش دان کا بیرونی حصہ قاری کو جاذب نظر بناتا ہے اور جتنا خوبصورت اس ناول کا باہری پہلو ہے اتنا ہی اس کا اندرون قاری کے ذہن و دل کو متاثر کر تا ہے نیز یہ کہ اس ناول سے انسان کا اندرونی آتش دان جو ہر انسان کی سرشت میں فطری طور پر موجود ہوتا ہے وہ ہر آن جلتا رہتا ہے۔’آتش دان ‘‘کی شروعات قمر جمالی نے ایک نثری نظم سے کی ہے جس میں زندگی اور وقت باہم متصادم نظر آتے ہیں اور وقت ہر چیز اور ہر شئے کو عبور کرکے انسان کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے جس میں انسان بہت سے مراحل اور مشکلات و مصائب سے گزر کر زندگی کی باریک حقیقتوں سے آشنا ہوتا ہے جو اس کی زندگی کو تجربہ خیز بناتی ہے۔نظم اس پیرائے سے بْنی گئی ہے کہ ہر لفظ میں زندگی کی کشمکش کا درد چھپا ہوا ہے۔
قمر جمالی نے جس موضوع کا انتخاب کیا ہے اس سے ان کی تعمیریت کا جذبہ صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے۔’’آتش دان ‘‘موضوع کے لحاظ سے ترقی پسند نظریے کا حامل ہے اگرچہ ناول کی شروعات داستانی انداز سے ہوتی ہے مگر اس کا مرکزی خیال جس کے ارد گرد یہ ناول گردش کر رہا ہے وہ مظلوم عوام پر ڈھائے ہوئے ستم ہیں۔جس کے مناظر اس ناول میں بڑی روشنی کے ساتھ پیش کئے گئے ہیں۔ظلم کی بھٹی جب معصوم عوام کے لئے تیار کی جاتی ہے تو وہا ں سے مظلوم عوام جل کر نہیں بلکہ پختگی اور عزائم کے ساتھ نکلتے ہیں جن کے دلوں میں ایک سوزش اور شور انگیزی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہوتی ہے۔یہ شورش اور سوزش انہیں اس قابل بناتی ہے کہ بڑی سے بڑی سلطنت کا تختہ پلٹ سکتی ہے۔مظلوم عوام کی مثال اس جوالے کی طرح ہے جو خاموشی سے زمین کی تہوں سے دن رات گزرتا رہتا ہے مگر جب اس پر pressureآجاتا ہے تو یہ خاموشی لاوے کی شکل اختیار کرکے تباہی مچا دیتی ہے۔مذکورہ ناول میں بھی وہی لوگ موضوع بحث بنے ہوئے ہیں جو خاموشی سے ظلم سہتے رہتے ہیں مگر ان کے اندر کے لاوے جب بھڑک اٹھے تو ’میر مدار‘اس چھپے لاوے کے لئے ایک راستے کا کام فراہم کرتا ہے جہاں سے یہ لاواSVFکی شکل میں پھٹ کر راجیشور ریڈی کی انانیت اور سلطنت کے چیتھڑے اڑاتا ہے۔آتش دان زندگی کے رزمیہ ہی کو پیش نہیں کرتا بلکہ رزمیہ کے ساتھ ایک نظریہ اور فلسفہ کو بھی پیش کرتا ہے۔ یہ ناول ایک مزدور کے روز مرہ اور اس کی عام زندگی جو اسی کشمکش میں گزرجاتی ہے کہ کب اس کا نفس روٹی کے ٹکڑے سے سیر ہو جائے۔ناول میں ایک خاص قبیل کے افراد کے ارد گرد قصہ کاتانا بانا بناگیا ہے اور اسی طرح کے کردار اس میں ہر جگہ ملتے ہیں۔اگرچہ یہ ایک مشکل کام تھا مگر مصنفہ کی جہدو جگر کاوی نے اسے سہل ثابت کیا۔ انہوں نے ایک مخصوص طبقے کے مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے اور ہر تکنیک کو بخوبی استعمال میں لایا۔ناول کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ وہ زندگی کے رزمیہ کو پیش کرے اور یہ بات ا س ناول میں موجود ہے۔اس کے علاوہ اس ناول کا خاصہ یہ ہے کہ انسان دوسروں کے لئے جیے اور یہی انسانیت کی معراج بھی ہے ۔
’’آتش دان‘‘ کا پلاٹ بہت ہی عمدہ‘ گتھا ہوا اور مربوط ہے۔ایک کے بعد دیگرے واقعات آخر تک قاری کے تجسس اور دلچسپی کو برقرار رکھتے ہیں، ان میں باہم ربط معلوم ہوتا ہے۔اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ دادی کے انتقال کے بعد پلاٹ کا بہاؤ تھم جائے گا مگر پھر خواب کے ذریعے اس میں دوبارہ سے وہ بہاؤ نظر آتا ہے اور کہانی اختتام پذیر ہوتی ہے۔ یہی اچھے فن اور فنکارکا شاہکار ہوتا ہے کہ وہ بات میں بات پیدا کرکے کہانی کے تانے بانے کو سلجھاتا ہے۔ ’’ آتش دان‘‘ میں قمرجمالی نے پلاٹ کی تنظیم و ترتیب میں فنکارانہ صلاحیتوں کا مسلّم ثبوت دیا ہے۔دادی،شہباز ،میر مدار، راجیشور ریڈی،شیونارائین اور خان بہادر یہ سب اس ناول کے اہم کردار ہیں جن کے ارد گرد اس ناول کا تانا بانا بناگیا ہے اوران سب کا آپس میں گہرا تعلق ہیں۔ سب سے بڑا خاصہ ان کرداروں کا یہ ہے کہ یہ حقیقی جیتے جاگتے اور متحرک معلوم ہوتے ہیں۔ اس ناول کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں ایک بھی کردار رومانی نہیں ہے۔ایک کردار بھی نسوانی نہیں ہے ،سوائے دادی کے جو بچپن سے ہی ایک فرشتہ کی طرح اعصاب پر سوار رہتی ہے۔یہ ایک بڑی بات ہے کہ ایک خاتون کے ذریعے لکھا گیا ناول خاتون کرداروں سے محروم ہے۔لیکن یہ محرومی اس ناول میں تازگی کا احساس دلاتی ہے اور یہ بھی کہ مزاحمتی اور احتجاجی ناول کے تقاضے عام ناولوں کے مقابلے مختلف ہوا کرتے ہیں۔ شہباز خان’’ آتش دان‘‘ کا مرکزی اور اہم کردار ہے ۔ وہ ایک جاندار ، متحرک اور جیتا جاگتا کردار ہے۔ اس میں زندگی کی حرارت شروع سے آخر تک ملتی ہے، اس میں عزم و ہمت اور برائی کو ختم کرنے کا حوصلہ بھی ہے۔ اگر اس کردار میں ڈر اور خوف ہوتا اور ظلم کے خلاف لڑنے کا حوصلہ نہ ہوتا تو اس کی دادی کا خواب شرمندۂ تعبیرنہ ہو پاتا اور نہ ہی راجیشور ریڈی کی سیاسی چکّی میں صدیوں سے گھسے پٹے عوام کو اپنا حق مل پاتا۔شہباز خان ہی دادی اور مظلوم عوام کے مابین ایک پل کا کام دیتا ہے اسی کردار کی وجہ سے ناول میں تجسس قائم رہتا ہے۔اس کے علاوہ شہباز خان ہر آنے والے دور کے نوجوان کے لئے ایک ایسی علامت ہے۔جو ہوا کے رخ کوموڑنے کا عزم رکھتی ہے اور بڑے سے بڑے طوفان خیز آندھیوں کو بھی موڑنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔سورج پور آبی تنازعہ جو برسوں سے پڑا ہوا تھا ، اس مسئلہ کو حل کرنے کے کیے شہباز خان نے جی جان سے محنت کی اور آخر کار وہ دن آگیا جس دن اسے اپنی اس محنت کا پھل بھی حاصل ہوا۔ جو ندی سورج پور کے مظلوم کسانوں کی زمینوں کو کسی زمانے میں سیراب کرتی تھیں ، آج شہباز خان کے ذریعے پھر سے اس ندی کا رخ سورج پور کی طرف موڑ دیا گیا اور مظلوم کسانوں کی برسوں کی تمنا پوری ہو گئی۔ شہباز خان اس ناول کا وہ متحرک کردار ہے جس کا سوز دروں یا اندر کاآتش دان اس کے ہر مقصد پر غالب ہو جاتا ہے حتیٰ کہ زندگی پر بھی اور تب تک تھمنے کا نام نہیں لیتا ہے جب تک آرزؤں کے سمندر کو عبور نہیں کرتا اور کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتا۔’’آتش دان‘‘ کا ایک اور اہم کرداردادی کاہے یہاں بطور علامت استعمال کیا گیاہے۔دادی علامت ہے ماضی کی ،ماضی جو شہباز خان کے جذبہ دروں یا ان کے اندرونی آتش دان کو کھبی بھی ٹھنڈ اہونے نہیں دیتایہاں تک کہ وہ انقلاب کی منزلوں کوچھو جاتا ہے۔اس کردار میں ہر انسان کے لئے ایک پیام ہے کہ ہر وہ جذبہ ہر وہ چیز جو اپنے ماضی سے متصل رہتا ہے اسے مستقبل کے مراحل اور منزلیں طے کرنے میں دشواری نہیں ہوتی۔چونکہ ماضی اس کا سہارا بن کر اسے ان چیزوں کو عبور کرنے میں آسانی فراہم کرتا ہے۔بس جونہی کوئی انسان ماضی کے پنّوں سے کٹ جاتا ہے تو اسے انقلاب کی راہوں کو عبور کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔جو قوم یا گروہ اپنے ماضی سے کٹ کر الگ ہو جاتی ہے اس کی ہستی صفحہ قرطاس سے مٹ جاتی ہے یہی ازل سے وقت کا دستور رہا ہے۔دادی جو شہباز خان کا ماضی ہوتا ہے اسے بحر انقلاب کو عبور کرنے میں تساہل عطا کرتی ہے اگر وہ اْس جذبہ ماضی کو فراموش کرتا شاید مزدوروں اور ان تشنہ لب کسانوں کو کبھی بھی اپنا کھویا ہوا حق نہ ملتا۔یہی ماضی شہباز خان کے اندر جذبہ انقلاب کو بھڑکا دیتا ہے اور اسے عزائم کی بھٹی میں کندن بنا کے چھوڑ دیتا ہے۔انسان میں جب عزائم و حوصلہ بیدار ہو جائے تو یہ ہواؤں کا رخ جس سمت چاہے موڑ سکتا ہے۔عزم و حوصلہ کے بغیر انسان کی مثال خس و خاشاک کی سی ہوتی ہے۔جو ہواؤں کے زور سے جدھر چاہے بہہ سکتا ہے۔ دادی کا کردار دادی کے انتقال کے بعد بھی ہر جگہ ناول میں بصورت جذبہ وخیال متحرک رہتا ہے۔یہی اس ناول کا شرط اولین ہے جو اس کے انہماک کا سب سے بڑا سبب ہے۔جوں جوں وقت گزر جاتا ہے تہذیب وتمدن ،طور طریقے ، نقش ونگار اور درو دیوار بھی بدلتے ہیں ۔دادی کا جو کردار مصنفہ نے مذکورہ ناول میں پیش کیا ہے وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ دادی محبت ، خدمت ،خلوص کا پیکر تھیں۔دادی کا تخت خالی ہونا ایک بلیغ اشارہ ہے پرانے رسم ورواج، طور طریقے تہذیب وتمدن کا مٹ جانا۔’’میر مدا ر‘‘اگر چہ اس ناول کا مفلس اور لاچارکردار ہے مگر اس میں ہمت ،حوصلہ اور عزائم کی لہریں ہمیشہ مضطرب رہتی ہیں۔میر مدار کا کردار عصر نو کے جابر اور ظالم لوگوں کے لئے ایک انتباہ ہے کہ خاموشی اور بیچارگی کا لاوا جب پھٹنے لگتا ہے تو بڑی سے بڑی سلطنت کی کایا پلٹ سکتی ہے اور جب جوشِ جنوں حد سے تجاوز کر لیتا ہے تو ہوش والوں کی عقل ٹھکانے آجاتی ہے۔راجیشور ریڈی مذکورہ ناول کا وہ کردار ہے جو آئے دن اپنے ذاتی اغراض و مفادات کے لئے سیاسی سفاکی اختیار کرکے لوگوں کانہ صرف استحصال کرتے ہیں بلکہ ان کا اپنے حقوق طلب کرنے پر قتل بھی کرتے ہیں۔ مکاری ،دغا بازی ،خون خرابہ اس کی فطرت میں داخل ہے۔آج کے دورمیں ایسے حقیقی کردار سیاسی درباروں میں بے شمار رقصاں ملیں گے جو اپنے ذاتی مفاد کے لئے انسانیت کی بیٹھ پر چھری چلاتے ہیں اور انسانیت کاناحق خون بہاکر اپنی عنادیت کی پیاس بجھاتے ہیں۔ SVF کے نوجوان اورر دیگر مظلوم افراد اشتراکی تہذیب کے نمایاں کردار اس ناول میں پیش کئے گئے ہیں جو ظلم کی چکی میں پس کر فرار کی راہ اختیار کرتے ہیں اور ظلم کے خلاف سر بہ کف قائم ہو جاتے ہیں۔اس تنظیم میں میر مدار کا بیٹا بھی شامل تھا۔اس کے ساتھ ساتھ دیگر افراد جو اس تنظیم میں تھے وہ ظلم وجبر کو ختم کرنے کی ٹھان لیتے ہیں اور وہ اپنے اس منصوبے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ اس ناول میں درویش محمدخان کا کرداران حق گو اور بیباک لوگوں کا آئینہ دار ہے جو حق کو اپنی ذات پر فوقیت دیتے ہیں اور اس کی خاطر اپنی جان نچھاور کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔مجموعی اعتبار سے کردار نگاری میں قمر جمالی کے قلم نے کمال دکھایا ہے۔شہباز خان کے علاوہ ناول میں کئی اورکردار ہیں۔کچھ دور تک پھیلے ہوئے ،کچھ پل بھر کو نظر آکر آنکھ سے اوجھل ہوجانے والے مگروہ کردار لازوال اور حافظے سے کبھی نہ مٹنے والے ہیں مثلاٌ دادی، میر مدار، مولوی رحمت اللہ،درویش محمد خان، شیو نارائن ریڈی،SVF کے نوجوان،راجیشور ریڈی وغیرہ ۔کسی ناول میں کوئی کردار ایک دم سے ہمارے سامنے نہیں آجاتا بلکہ رفتہ رفتہ ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔اچھے کردار وہی ہوتے ہیں جن کے بارے میں ناول کے ختم ہونے تک ہم کچھ نہ کچھ نئی بات معلوم کرتے رہیں۔’’آتش دان‘‘ کا یہی وصف ہے کہ اس میں جو گہرا تجسس نمایاں طور پر ملتا ہے وہ سب اس کے کرداروں کی بدولت ہے۔ہر کوئی کرادار اپنے آنے والے کے لئے ایک معمہ حل کرنے کے لئے چھوڑ تا ہے اور جس کی گتھیاں سلجھانے کے لئے وہ کردار متحرک ہو جاتے ہیں۔مصنفہ نے ناول میں تخلیقی اور معیاری زبان کا استعمال کیا ہے۔ قمر جمالی کا یہ ناول زبان و بیان کے ا عتبار سے ایک خاص معیار کا حامل ہے۔انھوں نے اس ناول کو پیش کرنے کے لیے سادہ اور عام بول چال کی زبان استعمال کی ہے۔جس میں اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان کے الفاظ بھی موقع و محل کے مطابق استعمال ہوئے ہیں۔ان انگریزی الفاظ کی وجہ سے ناول کے لطف میں اضافہ بھی ہوجا تا ہے۔علاوہ ازیں یہ بھی اندازہ ہوجا تا ہے کہ مصنفہ کو اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی پر بھی قدرت حاصل ہے۔
’’اتش دان‘‘ میں تکنیک کی سطح پر کوئی نیا تجربہ نہیں کیا گیا ہے۔روایتی تکنیک میں ہی ناول کو پیش کیا گیا ہے۔ناول نگار نے زیادہ تر بیا نیہ تکنیک کا استعمال کیا ہے اور کہیں کہیں فلیش بیک کی تکنیک اور ڈرامائی پیش کش سے قصے کو آگے بڑھایا۔قمر جمالی کا ناول’’ آتش دان‘‘ فنی نقطہ نظر سے اپنی مثال آپ ہے۔انھوں نے اس ناول میں اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔جس میں وہ کافی حد تک کامیاب نظر آتی ہیں ناول کے جو بنیادی عنصر ہونے چاہیے قمر جمالی نے ان تمام لوازمات کو اس ناول میں برتا ہے۔زبان وبیان ہو یا تکنیک ناول پڑھنے کے بعد اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ انھوں نے بڑی فن کارانہ چابک دستی سے کام لیا ہے۔کہانی میں ایک جگہ ایساموڑ آتا ہے جب شہباز خان کو ان تمام سوالات کے جوابات خود بخود مل جاتے ہیں جو انھوں نے وقت پر چھوڑے تھے اور وہیں سے اصل قصے کی شروعات ہوجاتی ہے۔جہاں سے اصل قصہ شروع ہوتا ہے وہاں سے کہانی بیانیہ انداز اختیا ر کرلیتی ہے۔ کہانی ابتدا ،وسط اور اختتام کی منزلوں سے گزر کر قاری کے دل پر ایک گہرا تاثرچھوڑ جاتی ہے قمر جما لی نے اس ناول میں کہیں کہیں خود کلامی کی تکنیک کے ذریعے بھی ناول کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ قمر جمالی نے اس وقت مارکسی نظریہ کو احیائے نو بخشا جب ہمارا اردو ادب نئے نظریات کے دھندلکوں میں کہیں گم ہوگیا تھا اور حقیقت نگاری کے بجائے غیر منکشف چیزوں پر زور دیا جاتا تھا۔قمر جمالی کا ناول ’’آتش دان‘‘ اسی فلسفۂ حیات کی ایک عمدہ مثال ہے جس میں زندگی کی پیچیدگیوں کو پیش کیا گیا ہے۔’’آتش دان‘‘میں بھی وہی کشمکش اوروہی مزدوروں کے مسائل کا مظاہرہ ملتا ہے جو آج سے پانچ سات دہائیوں پہلے صفحۂ ادب پر رقصاں ملتے تھے۔ ’’آتش دان ‘‘اسی ادب کی بازگشت معلوم ہوتا ہے۔غرض کہ’’ آتش دان‘‘ میں جاگیر دارانہ ماحول اور معاشرت ،سیاسی اور سماجی صورت حال سے وابستہ تمام واقعا ت و حاد ثات کو بیانیہ تکنیک کے قالب میں ڈھالا گیا ہے اور اس کی پیش کش میں قمر جمالی نے اپنے تجربے ،مشاہدے اور حقیقت پسندانہ نقطۂ نظر سے کام لیا ہے ۔ موضو عات و مسا ئل کی حقیقت پسندانہ عکاسی کی وجہ سے قاری کو پڑھنے کے لیے مجبور کرتا ہے۔ ’’آتش دان‘‘ بلا شبہ عصر حاضر کا ایک اہم ناول ہے، جو قمر جمالی کی تخلیقی صلاحیتوں کی غمازی کرتا ہے۔
——
Jaweed Ahmed Shah
جاوید احمد شاہ
ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو
یونیور سٹی آف حیدر آباد
Email:
cell no: 9086568594

—–
Qamar Jamali

Share
Share
Share