فیس بُک ۔ استحصال کا اہم ذریعہ : – مدثر گل

Share


فیس بُک ۔ استحصال کا اہم ذریعہ

مدثر گل

دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اس گلوبل ویلج میں فیس بکٔ کا کردار بھی کلیدی ہے. اس کے استعمال کرنے والوں کی تعداد اربوں میں شمار کی جاتی ہے. دنیا میں بیک وقت لاکھوں کی تعداد میں اس کے صارفین اکھٹے آن لائن ہوتے ہیں. یہ صارفین سرحدوں کی قید سے آزاد باآسانی ایک دوسرے سے روابط بھی قائم کر لیتے ہیں. کچھ روابط تو اتنے مضبوط بن جاتے ہیں کہ وہ مستقل بنیادوں پر قائم رکھنے کے لیے رشتے داری میں بدل جاتے ہیں.
ان تمام دیگر پہلوؤں کے باوجود اسکی ایک خطرناک حقیقت بھی ابھر کر سامنے آ رہی ہے. وہ حقیقت ‘انتہا پسندی’ ہے. جس طرح باقی عوامل میں فیس بک دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹز کی نسبت پیش پیش ہے ٹھیک اسی طرح یہ انتہا پسندی کو تیزی سے فروغ دینے میں سرفہرست ہے.
شاید یہ بات اتنی آسانی سے ہضم نہ ہو مگر کسی کو تو آخر کار اس حقیقت سے پردہ اٹھانا ہی ہو گا. چونکہ فیسبک تقریباً تمام ممالک میں یکساں مقبول ہے تو اس تناظر میں پہلے دوسرے ممالک کا احوال پہلے بیان کیے دیتا ہوں. دنیا کے سب سے بڑے دو جمہوری ملکوں میں اس کے خلاف پہلی دفعہ آواز اٹھائی گئی. امریکہ جو کہ دنیا کہ ہر ملک کا ہمسایہ بھی ہے اور ایک ضروری برائی بھی۔۔۔۔۔اس نے واضح الفاظ میں آواز اٹھائی کہ فیس بک لوگوں کی رائے بدلنے میں اور انتہا پسندی کی جانب مائل کرنے میں کافی زیادہ کردار رکھتی ہے. لیکن اس وقت اس کو صرف سیاسی بیان بازی سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا. مگر جب الیکشن کا رزلٹ سب کے سامنے آ گیا تو وہ چونکا دینے والا تھا. الیکشن نتائج کے بعد انتہا پسند لوگوں کی حکومت آنے کے بعد اس موضوع پر بات کرنے والا کوئی نہ تھا. درحقیقت دوسرے ممالک میں یکساں حقوق کی بات کرنے والے جمہوری ملک میں فیس بک پر چلنے والی زبردست مہم نے تمام سروے, تمام دعوے الٹ کر رکھ دئیے اور ایک غیر مقبول سیاست داں ایک بڑے ملک کا سربراہ بن گیا.
امریکہ کے بعد میں اگر انڈیا کی بات کروں تو دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں انتہا پسند جماعت کو تقریباً بھارت کی ہر ریاست میں اکثریتی نمائندگی حاصل ہو گئی اور سب سے بڑے انتہا پسند شخص کو ملک کا وزیراعظم بنا دیا گیا.
فرانس کے حالیہ انتخابات میں بھی فیس بک پر اسی طرح کے الزامات سننے میں آرہے ہیں. موجودہ وقت میں وہاں دو انتہا پسند سیاسی لیڈروں کے درمیان مقابلہ چل رہا ہے. فرانس میں فیس بک کے اس پہلو کو ‘جھوٹی خبروں’ کے پھیلاؤ کا نام دیا گیا ہے. برطانیہ کا یورپی یونین سے علیحدگی کا کارنامہ بھی اسی انتہا پسندی کی مثال ہے.
اپنے ملک پاکستان میں بھی اس کا اثر اکثر اوقات دیکھنے کو ملتا رہتا ہے. حالیہ دنوں تشدد کی کئی تازہ لہریں دیکھنے کو ملی ہیں. کبھی یونیورسٹیوں میں پڑھے لکھے نوجوان لسانی بنیادوں پر باہم کتھم کتھا ہیں تو کبھی فیس بک کی پوسٹ اور کمنٹس پر انسانیت کی انتہائی نچلے درجے پر تذلیل کی جاتی ہے. ابھی دو دن پہلے کوئٹہ میں اسی فیس بک کی بنائی پوسٹ کو شئیر کرنے پر توہین رسالت کا مقدمہ درج ہونے کے باوجود اشتعال انگیز ہجوم نے ایک معصوم بچے کی جان لے لی.
آپ سوچ رہے ہونگے کہ فیس بک پر انتہا پسندی اگر ہو رہی ہے تو اس میں اس سماجی ویب سائٹ کا کیا کردار ہے! تو سنئیے….
فیس بُک آپ کے سامنے وہی پوسٹیں لاتی ہے جس طرح کی آپ پہلے لائک کر چکے ہوں. ینعی آپ اگر تھوڑا سی بھی انتہا پسندی کی طرف مائل ہیں اور ایک آدھ اس طرح کی پوسٹ لائک کی ہے تو پھر ہمیشہ اسی طرح کی پوسٹیں آپ کی آنکھوں کے سامنے آئیں گی.آپ غور کریں کے اگر آپ کچھ تصویریں لائک کرتے ہیں تو آپ دوبارہ جب بھی آن لائن ہوں گے تو اس طرح کی تصویریں نئی اور پرانی تاریخوں کے ساتھ آپ کے سامنے آئیں گی. اسطرج اگر ویڈیوز پسند کی ہوں تو زیادہ ویڈیوز ہی سامنے آئیں گی.یہ تو اس ویب سائٹ کا خود کار سسٹم ہے کہ جو جس پٹری (اچھی یا بری) پر جا رہا اسی پر مزید اس کو سہولت دیتے جاؤ. اس کے علاوہ بھی فیس بک کا ایک نظام موجود ہے.
فیس بُک انتظامیہ جس کا ہیڈ کواٹر امریکہ میں ہے اور ‘سب سٹیشنوں’ میں بھارت دوسرے نمبر پر ہے اس کے اندر تقریباً 30,000 لوگ کام کر رہے ہیں. اب اگر فیس بک نے جس چیز کو پرموٹ کرنا ہو وہ مواد بار بار صارفین کی نظروں کے سامنے سے گزاریں گے. اگر آپ غور کریں تو کچھ پوسٹیں ابھی نئی نئی ہوں گی مگر نظر نہیں آئیں گی مگر کچھ پرانی تاریخوں والی پوسٹیں سامنے آئیں گی. صارفین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ اس طرح کے ہتھکنڈے کچھ مفاد حاصل کرنے کے لیے بھی بڑھتے جا رہے ہیں.
بحثیت ایک سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیسبک کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے مواد پر گہری نظر رکھے جس کی وجہ سے لوگ انتہا پسندی کی طرف مائل ہو رہے ہیں اور ایسے مواد کو بروقت تلف کرے. اگر فیسبک نے اپنی یہ ذمہ داری پوری نہ کی تو ایک وقت آئے گا کہ اس آگ میں فیسبک خود بھی جل جائے گی.

Share
Share
Share