قومی سمینار
علی جواد زیدی ۔ فن اور شخصیت
علی جواد زیدی نےاپنی زندگی کو قومی ایکتا کے لئے وقف کیا
رپورٹ : عزہ معین
سنبھل
ایم جی ایم پی جی کالج سنبھل میں اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ کے مالی تعاون سے ایک نیشنل سیمنار بعنوان ’’علی جواد زیدی فن اور شخصیت‘‘ ۲ مئی کو منعقد کیا گیا ۔ اس سیمنار میں شرکت کے لئے چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی ccu میرٹھ اردو ڈپارٹمنٹ کے صدر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ علی جواد زیدی کی ادبی خدمات کو ہمیشہ یاد کیا جائیگا کیونکہ وہ جہاں کہیں بھی رہے بھائی چارے اور ہندوستانیت کی پہچان بنے ۔ان کے کارناموں سے ملک کانظام مضبوط ہوا ۔
ادب میں سمجھداری بھری کتابوں کا اضافہ کیا ۔وہ نہ صرف ادیب و مصنف تھے بلکہ آزادی کی لڑائی میں شامل بہادر اور جنگجو مجاہد بھی تھے ۔انھوں نے ’’ شیرازہ ‘‘، ’’العلم ‘‘،’’اکادمی ‘‘ وغیرہ رسائل بھی نکالے ۔انھوں نے اپنی شاعری سے آزادی کی جدو جہد کو تیز کیا ۔ا ن کا کام مرثیے کی صنف میں بھی ناقابل فراموش رہا ۔قصیدہ نگاران اتر پردیش کو یکجا کرنے کا کام یادگار رہے گا ۔ان کی خدمات اور ادبی سرگرمیاں انھیں اردو ادب میں ہمیشہ یاد کئے جانے کا سبب بنی رہیں گی ۔انھیں کبھی بھلایا نہیں جا سکتا ۔
اس سیمنار کا آغاز کرتے ہوئے ایم جی ایم کالج کے پرنسپل ڈاکٹر عابد حسین حیدری نے علی جواد زیدی کی شخصیت پر روشنی ڈالی ۔کہا کہ علی جواد زیدی جس عہدے پر بھی رہے وہاں سے انھوں نے اپنے کام کاج اور اخلاق سے ملک و معاشرے کے ساتھ اردو ادب کی بھی خدمت کی ۔ان کے نو شعری مجموعے ہیں ۔ ہندوستانیت کے لئے ہمیشہ کام کیا ۔ملک کے نوجوان طبقے کے لئے انھوں نے اپنے ادب کی تخلیق اس طرح کی کہ آج بھی اس سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ فیض حاصل کر رہے ہیں ۔ اس سیمنار میں علی گڑھ ،مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر صغیر ا فراھیم کو عندلیب شادانی نیشنل اوارڈ ۲۰۱۷ سے نوازا گیا ۔انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ علی جواد زیدی ترقی پسند تحریک کے نمایا شاعر تھے ۔جبکہ ڈاکٹر اسلم جمشید پوری کو مصور سبزواری ۲۰۱۷ نیشنل اوارڈ سے نوازا گیا ۔اسی موقع پر وضاحت حسین رضوی کو بھی اچھی تخالیق کے لئے اعزازدیا گیا ۔
عزہ معین نے اپنے مقالے میں علی جواد زیدی کی قومی شاعری اور ان کی قومی ہمدردی کو یاد کیا ۔انھوں نے کہا علی جواد زیدی نے ہی ہندوستان کی جدو جہد آزادی کی نظموں کو یکجا کرکے ملک و قوم کے لئے ایسا بیش بہا سرمایہ یکجا کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے کہ آنے والی نسلیں اپنے جذبات اور اپنی تاریخ کو یاد کر سکیں گی ۔ نہ صرف عہدحاضر میں معاشرتی اصلاح ہوگی بلکہ قدیم احساسات کو اجاگر کرنے کے لئے اس طرح کے سرمائے کو منظر عام پر آنا چاہئے۔ ا س کے علاوہ ایسے ذخائر سے نئی نسلوں کی بھی اصلاح ہو سکتی ہے ۔ سیمنارمیں دیگر مقالہ نگاران نے اپنے معیاری مقالے پیش کئے جن میں ڈاکٹر فرقان سنبھلی لکچرر علی گڑھ ویمنس کالج نے علی جواد زیدی کی کتاب تاریخ مشاعرہ پر روشنی ڈالی ، فرقان مخمور کاکوروی لکھنؤ نے علی جواد زیدی بحیثیت ایڈیٹر کے ضمن میں اپنا مقالہ پیش کیا ،عباس رضا علی گڑھ ،ڈاکٹر شیخ نگینوی ،ڈاکٹر شیزاد احمد ،ڈاکٹر شاداب علیم ،ڈاکٹر کشور جہاں زیدی ، افسانہ نگار یامین سنبھلی ،حاجی تنزیل افسر، گلشن جہاں ،زرقا رحمن وغیرہ نے بھی اپنے قیمتی خیالات پیش کئے ۔ موجود حاضرین میں علی جواد زیدی کے شیدائی دیگر محبان اردو اور کالج کا جملہ اسٹاف فیض یاب ہوا ۔نظامت کے فرائض رضاء الرحمن عاکف سنبھلی لکچرر آٖف ایم جی ایم کالج نے انجام دئے ۔
——
Izza Moin