افسانہ – نقاد -:- عبدالعزیز ملک

Share


افسانہ – نقاد

عبدالعزیز ملک
لیکچرار اردو ،
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد

وہ طویل عرصے کے بعد جب آج یونیورسٹی میں داخل ہوا تو اندر کی دنیا ہی بدلی ہوئی تھی۔وہ دس سال پہلے یہاں ایم اے کا طالبِ علم رہ چکا تھا ۔ وہ دن جو اس نے یونیورسٹی میں اپنے ہم جماعت اور اساتذہ کے ہمراہ گزارے تھے ،وہ اس کے شاندار ماضی کے شجر کی ٹہنیوں کی مانند تھے جن سے وہ اب بھی بیٹھا کبھی کبھارلطف کا رس کشید کیا کرتا تھا۔

وہ تمام حسین لمحات جو ذہن کے نہاں خانوں میں کہیں گم ہو گئے تھے ،ماضی کے جھروکوں سے اس کے شعور میں ایک ایک کر کے داخل ہونے لگے ۔صدر دروازے سے شعبہ تک کے سفر میں کئی خیالات لاشعور سے شعور کی سطح پر نمودار ہوئے اور پھر غائب ہوگئے۔اسے یاد آیا کہ وہ ان سرسبز اور دلفریب لانوں میں اپنی ہم جماعت لڑکیوں کے ہمراہ بیٹھا کرتا تھا ۔وہ انھیں سر ریاض کے مضمون کی امتحانی مشقیں تیار کروایا کرتا تھا ،چلتے چلتے اُسے یہ بھی یاد آیا کہ امتحان کے دنوں میں تو اس کے گرد جمگھٹا مزید بڑھ جایا کرتا تھا اور کبھی کبھار جب اس کا ہاتھ مریم کے ملائم ہاتھ سے بے دھیانی میں ٹکرا جاتا تو اس کے لمس کا احسا س اُسے تا دیر محسوس ہوتا رہتا۔مریم کے لمس سے زیادہ تو عظمیٰ کی آواز اُسے اچھی لگتی تھی ۔جس دن وہ آنکھوں میں سرمہ ڈال کے آتی اُس دن تو وہ اسے اور بھی بھلی لگتی تھی ۔اس کی آنکھوں میں خا ص طرز کا خمار عیاں ہوتا جس کی مستی میں وہ ڈوب سا جاتا۔ اس کی خواہش ہوتی تھی کہ سب اُٹھ کر چلے جائیں اور وہ عظمیٰ سے تادیر باتیں کرتا رہے۔
اپنی ہم جماعتوں کی خدمت بجا لانے میں اسے کبھی بوجھ محسوس نہیں ہوا تھابلکہ اِس سے تو اُسے خاص طرز کی لذت محسوس ہوتی تھی۔اس کے دوست اس کا اس سلسلے میں مذاق بھی اُڑایا کرتے تھے لیکن اُسے اُن کی ذرا بھر پرواہ نہیں ہوتی تھی۔
وقت نے کروٹ بدلی اور ایم اے کے بعد وہ ایک نجی کمپنی میں ملازم ہو گیا لیکن اس نے ادب سے رشتہ نہ توڑا۔شروع شروع میں تو اس نے علاقائی اخبارات میں لکھنا شروع کیا لیکن بعد ازاں جب اس کی مقبولیت بڑھی توملک کے مؤقر جرائد بھی اُسے اپنے صفحات پر جگہ دینے لگے۔افسانہ ، ناول اور تنقید اس کے مرغوب موضوعات تھے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے افسانے اور تنقیدی مضامین ادب کے سنجیدہ حلقوں میں زیر بحث آنے لگے اور عصرِ رواں کے نامور ناقدین اس کی تحریروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ جس کمپنی میں اس کی ملازمت تھی ،وہاں سے وہ بطورِ خاص وقت نکال کر شہر کے علمی و ادبی مجالس میں شرکت کرتا ۔ جدید فکری مباحث سے ہم آہنگ رہنے کے باعث تنقیدی آرا میں دوسروں سے برتری لے جاتا ۔ جب بھی وقت ملتا ادبِ عالیہ کا مطالعہ کرنا اس کی فطرتِ ثانیہ بن چکا تھا۔اس کی گفتگو میں مقامی ادب سے لے کر بین الاقوامی ادیبوں کے فن پاروں کے حوالے موجود ہوتے جو اس کی تبحرِ علمی کی دھاک بٹھانے میں دیر نہ لگاتے۔’’جیفری چاسر‘‘ سے لے کر ’’ایملی برونٹے‘‘ اور ’’والٹر سکاٹ ‘‘سے لے کر ’’حوزے سارا ماگو‘‘کی تحریروں کے اقتباسات اُسے ازبر تھے اور دلیل میں پختگی کی خاطر وہ انھیں برجستہ استعمال کر جاتا ۔برمحل اور بر وقت گفتگو کا ملکہ اسے قدرت کی طرف سے عطا ہوا تھا، یہی وجہ تھی کہ تحریر کے ساتھ ساتھ تقریر میں بھی وہ خاص مہارت رکھتا تھا ۔
کُچھ روز قبل اس کی فکشن کی شعریات پر کتاب منظرِ عام پر آئی جس نے اس کے علمی اور ادبی قد میں مزید اضافہ کر دیا تھا ۔ملک کے نامور ادبا نے ادبی جرائد میں اس پر تبصرے تحریر کیے۔ شہر کی ثقافتی اور ادبی تنظیموں نے اس کتاب کی فکر نمائی کی ۔اخبارات میں کالم تحریر ہوئے۔سال ڈیڑھ کے عرصے میں ملکی جامعات کے نصاب میں مجوزہ کتب کی فہرست میں اس کتاب کو شامل کر لیا گیا ۔اس دوران میں اس کی ایک اور کتاب بھی شائع ہو گئی جس نے اس کے علمی اور ادبی قد کو مزید تقویت بخشی۔یہی وجہ تھی کہ اتنے عرصے بعد آج اس کے اپنے شعبے نے اسے اعزازی لیکچر کے لیے دعوت دی تھی ۔ صدرِ شعبہ کا ارسال کردہ دعوت نامہ جب اسے موصول ہوا تو اس کا دل بلیوں اُچھلنے لگا ، اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ ہوا میں اُڑ رہا ہو۔پورا شہر اسے اپنی اُڑان کی زیریں سمت محسوس ہوا اور وہ چیخ چیخ کر بتا تا رہا کہ دیکھو مجھے اس مادرِ عملی میں گفتگو کا موقع ملا ہے جو میری تربیت گاہ ہے۔ خیال ہی خیال میں وہ پورے شہر کا چکر لگاآیا۔
دعوت کے موصول ہونے سے لے کر لمحۂ موجود تک وہ خوش گوار حیرت میں مبتلا تھا۔ اسے اپنے خیالات کے اظہار کی اتنی خوشی ہو نہ ہو ،اس بات پر خوشی ضرور تھی کہ وہ ان دنوں کی یاد تازہ کرے گا جب وہ طالبِ علم تھا۔ وہ طلبا و طالبات کو یونیورسٹیوں کی روشوں پر چلتے پھرتے ، باتیں کرتے، ایک دوسرے کے ساتھ چہلیں کرتے اورزندگی سے لطف کشید کرتے دیکھے گا۔ اس کا لیکچر تو دن بارہ بجے بعد شروع ہونا تھا لیکن وہ ایک گھنٹا قبل ہی یونیورسٹی چلا آیا تھا تاکہ یونیورسٹی میں گھوم پھر کراُن جگہوں کو یاد کر سکے جہاں اس کی زندگی کے دو قیمتی سال دفن تھے ۔وہ صدر دروازے سے چلتا چلتا ،یادوں میں گم سم ،کتب خانے کے اس لان تک چلا گیا جہاں وہ ایم اے سال اول کے ابتدائی دنوں میں بیٹھا کرتا تھا ۔اس نے جب لان کو بغور دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ اس کی ہئیت خاصی حد تک بدل گئی ہے۔ وہ درخت جو اس وقت بہت چھوٹے ہوا کرتے تھے اب گھنے اور سایہ دار درختوں میں بدل گئے تھے ۔ ان درختوں تلے بیٹھنے کو پتھر کے بینچ گاڑھ دیے گئے تھے،جن پر اِکا دُکا طالبِ علم بیٹھے، دنیا و ما فیہا سے بے خبر، اپنے اپنے موبائل فون پر متنوع مشاغل میں غرق تھے ۔ اب تو لان میں پھولوں کی کیاریوں کا اضافہ بھی ہو گیا تھا جن کے رنگ برنگ پھول ،وہاں بیٹھنے والوں پر خوشگوار احساس مرتسم کر رہے تھے ۔
ایک درخت کے نیچے طلبا و طالبات کا گروہ گپ بازی میں مشغول تھا ۔وہ خراماں خراماں ان کے قریب پہنچ گیا ،اُسے اندازہ ہوا کہ وہ امتحانی مشقیں تیار کرنے میں مگن ہیں ۔ یکدم اس کے دماغ نے پیچھے کی جانب جست بھری اور وہ ماضی کے سمندر میں غوطہ زن ہو گیا ۔ اُسے اپنے ایم ۔اے کا دور یاد آیا کہ وہ بھی اسی طرح لانوں میں بیٹھ کر اپنے ہم جماعتوں کے ہمراہ امتحانی مشقیں تیار کروایا کرتا تھا ۔ اُسے ایک ایک کر کے تمام ہم جماعت یاد آنے لگے،جن کے ساتھ یونیورسٹی اوقات میں وہ اپنا بیشتر وقت گزارا کرتا تھا ۔ وہ ابھی ماضی کے سمندر کی شناوری میں محو ہی تھا کہ اُسے سامنے بینچ پڑا دکھائی دیا ۔ وہ جاکر اس بینچ پر براجمان ہوگیا۔طلبا و طالبات اس سے بے خبر اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہے۔ کچھ دیر وہ ارد گرد کے مناظر میں کھویا رہا ۔ درختوں کا گھنا سایہ اُسے سکون مہیا کر رہا تھا ۔کبھی کبھی ہو اکا سرد جھونکا پھولوں کی خوش بو سے معطر اس کے مشامِ جاں کو مہکا جاتا ۔ آسمان پر اب ہلکے ہلکے بادل نمودار ہو نے لگے تھے اور دھوپ جس میں پہلے بھی شدت کچھ زیادہ نہیں تھی ، مدھم پڑ گئی تھی۔درختوں پر بیٹھاچڑیوں کا غول ایک دوسرے سے یوں چہلیں کر رہاتھا کہ اسے کچھ فاصلے پر بیٹھی امتحانی مشق بناتی طالبات اور غول کے مابین مماثلت محسوس ہونے لگی۔اسی دوران میں اُس نے اپنے جیب میں ہاتھ ڈالا اور سگریٹ کا پیکٹ باہر نکالا ۔ اچانک اسے خیال آیا کہ وہ شہر کے ایک معزز ادارے میں موجود ہے جہاں سگریٹ پینا اس کے آداب کے خلاف ہے۔اور اُس نے وقت ضا ئع کیے بغیر اسے دوبارہ اپنی جیب میں ٹھونس لیا۔وقت کاٹنے کے لیے اس نے ہاتھ میں پکڑی سائنسی تاریخ کے موضوع پر کتاب کھولی اور اس کا مطالعہ شروع کر دیا ۔ آج کل وہ اسی طرز کی کتب کا شائق تھا ۔ وہ سائنسی اور فلسفیانہ موضوعات کو ادبی تنقید میں بڑی چابک دستی سے استعمال کر جاتا تھا ۔اسی سبب لوگ اس کی تبحرِ علمی کے قائل تھے ۔وہ کچھ دیر کتاب پڑھنے میں مشغول رہا ۔ کتاب کے مطالعے کے دوران میں اس کا دھیان لاشعوری طور پر طلبا کی جانب مبذول ہوگیا ۔وہ تنقید ہی کے موضوع پر امتحانی مشق تیار کرنے میں مگن تھے۔ اس نے ان کی گفتگو پر کان دھرا تو اسے محسوس ہوا کہ وہ ژاک دریدا کے ’’ساخت شکنی ‘‘ کے تصور کو سمجھنے کی کوشش میں مغز ماری کر رہے ہیں ۔حال ہی میں اس کی جو کتاب منظرِ عام پر آئی تھی وہ بھی جدیدمعاصر تنقید کے منظر نامے کا احاطہ کرتی تھی اور اس کتاب میں اس نے اس تصور پر بڑی مفصل بحث کی تھی ۔اُسے دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی جہاں ان کے پاس اور متعدد کتب اس موضوع پر تھیں وہیں اُس کی کتاب سے بھی اِستفادہ کیا جا رہا تھا ۔
کافی دیر سے بحث ومباحثے کی یہ فضا قائم تھی اور وہ اُن کی گفتگو سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔موضوع کا ایک سرا اگر اُن کی گرفت میں آتا تو دوسراپھسل جاتا۔’’ساخت شکنی‘‘ کو سمجھنے کے لیے پہلے لازمی تھا کہ ’’ساختیات‘‘ کو سمجھا جاتامگر اس جانب جانے کو کوئی تیار ہی نہ تھا ۔طلبا و طالبات کاپورا گروہ شارٹ کٹ کی تلاش میں تھا ۔مگر اس سلسلے میں ایسا ممکن نہ تھا ۔کا فی دیر کی ریاضت کے بعد وہ اِدھر اُدھرکی باتوں میں مشغول ہو گئے۔اور ان دانشوروں پر اپنی سطحی رائے دینے لگے جو ان کے کورس میں شامل تھے ۔کسی نے حالی پر پھبتی کسی ،کسی نے اقبال کو بُرا بھلا کہا ، کسی نے غالب کی مشکل پسندی کو نشانہ بنایا ۔۔۔۔۔۔۔۔
دائرے میں بینچ کے سامنے جو لڑکی براجماں تھی وہ گاہے بگاہے اس کو کنکھیوں سے دیکھ لیتا ۔ نہ جانے وہ اسے کیوں اتنی اچھی لگ رہی تھی ، اسے خیال آیا کہ وہ تو اس کی ہم جماعت عظمیٰ کی ہم شکل تھی ،اس کی آنکھوں کے سرمے نے ماضی کے چہرے سے نقاب الٹ دیا اوروہ تخیلات کے محلات میں عظمیٰ کے تحیر آمیز نظارے سے لذت کشید کرنے لگا۔جب سہیلیوں نے اسے عظمیٰ کہہ کر پکارا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کا نام بھی عظمیٰ ہی تھا ، عظمیٰ اُس پوری گفتگو کے دوران میں خاموش بیٹھی تھی ، جیسے اس کا اس ساری بحث سے کُچھ لینا دینا ہی نہیں ۔ اسی کے ہاتھ میں اس کی تحریر کردہ معاصر تنقیدی موضوعات پر مبنی کتاب تھی ۔وہ یکدم اپنی درشت آواز میں بول اُٹھی :
’’یار سمجھ نہیں آتی کہ اس کتاب کے مصنف نے کیا بونگیاں ماری ہیں ۔
کُچھ سمجھ نہیں آرہا ۔۔۔۔۔ بالکل بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
یہ نقاد فن پاروں کی تفہیم کرواتے ہیں یا جناتی زبان استعمال کر کے اپنی علمی برتری قائم کرتے ہیں ۔۔۔۔ ہمیشہ انھیں افلاطون بننے کا شوق ہوتا ہے ۔
اس کتاب کا مصنف ۔۔۔۔ تو مجھے پاگل ہی لگتا ہے ۔ ۔۔۔۔ میرے سامنے آ جائے ناتو۔۔۔۔تو۔۔ !‘‘
’’تو کیا کرو گی ؟‘‘ ساتھ والی لڑکی نے پو چھ لیا ۔
’’تو میں اسے اس درخت سے الٹا لٹکا کر پہلے چھترول کروں گی اور پھر گولی مار دوں گی‘‘
اس کے کانوں نے جب یہ الفاظ سنے تو اس کے ہاتھ میں سائنسی موضوع پرموجود کتاب ، جس کی ابھی تک وہ ورق گردانی میں مصروف تھا ،نیچے گر گئی ۔ عین اُسی لمحے درختوں پر بیٹھاچڑیوں کا غول جھپک سے ہوا میں اُ ڑ گیا اورسارے ماحول پرخاموشی چھاگئی ۔۔۔۔۔۔۔

Share
Share
Share