دنیائے خلیج میں اُردو کا ارتقا اوراس کا درخشاں مستقبل -: نعیم جاوید

Share


انشائیہ
دنیائے خلیج میں اُردو کا ارتقا اوراس کا درخشاں مستقبل

نعیم جاوید
دمام ۔ مملکتِ سعودی عرب
Email:
Web: www.hadafgroup.com

ادب ایک کھلا خط ہے جو لمحہ موجود میں لکھا جاتا ہے لیکن یہ’’ نامہ نور‘‘ آنے والے زمانوں کے نام ہوتا ہے۔ اگر میں یوں کہوں کہ ’’ادب اِجارہ نہیں اَمانت ہے‘‘۔ اس لئے ’’امانت‘‘ جب تک لوٹائی نہ جائے ’’خیانت ‘‘کے خدشات میں گھری رہتی ہے۔ اب آئیےخلیج کی جولانگاہِ ادب میں ہجرت کی گھڑیوں کی نادر نگارشوں کو دیکھتے ہیں جس میں پورےآفاق کا درد سمٹ آیا ہے۔

دراصل ادب کے وہ استقبالیہ نغمے ہیں جو مہاجروں نے گنگنائے تھے۔ خلیج میں آبادمہاجر ذہنوں کی تمناوں کی ترسیل کرتی تحریریں؛ بہتر مستقبل کی روشن دستاویزیں بن گئیں۔ ہجرتوں کے ہنگام میں ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ اُردو زبان کامکمل ملفوظی نگارخانہ خود غالب قوموں کی ہجرتوں کی کمائی ہے ، ترکوؔں کا شکوہ، ایرانیوؔں کا جمال، عربوں ؔکے لسانی نور کے ساتھ ساتھ جگ بھر کی زبانوں کا یہ ’’خریطہ جواہر ‘‘ہے جو سنسکرت کے قواعد کے کینڈے پر اپنے رنگ روپ کو نک سک سے سنوار رکھا ہے۔ اُردو اب کسی چھوٹےسے خطہ و قبیلہ کی زبان نہیں رہی ۔ بلکہ پورے آفاق میں پھیلے ہوئے انسانوں کے دلوں کی دھڑکن ہے۔

اُردو والوں کے آگے چاہے صحرا ئے خلیج کے پر ہول سناٹے ہوں ۔ ملکوں کی تقسیم در تقسیم کا ہنگامہ ہو یا مغرب کی برفیلی وادیوں میں ہجرتوں کے سلسلے ہوں۔ہر مہم پر اُردو تہذیب کو ہر اول دستہ کے کمان دار میسر آئے جنھوں نے مہمات کی زندگی جی کر ہمیں جگ جیتنے کے گر سکھا ئے۔ان کی تمنا شائد افصح العرب و العجم ﷺ کے نقوش ِپا کی چاندنی تلاش کرنی تھی جنھوں نے کہا تھا۔ ’’اناالنبی الملہمہ۔ میں مہمات کا نبی ۔ I am the prophet of expeditions ہوں
پھر ان مہم جووں نے بڑے جتن سے ویرانے آباد کرڈالے ۔ پھر وہاں اُردو کے زمزموں سےماحول گونج اُٹھا۔ اول تو پردیس کے پڑاو میں‘ نہ قلم کار کےجذبات کے سوتے سوکھتے ہیں اور نہ اس کی متاعِ تخلیق لٹتی ہے۔ دوسری طرف کبھی بھی اُردو والوں کا شمار زبان کے اعتبار سے بے خانما بنجاروں اور بھٹکے ہوئے مسافروں کے قافلوں میں نہیں رہا بلکہ یہ تو زبان کےقلم رو میں خیال کے سفیر رہے۔

تاریخ کی وہ ساعتیں کتنی خوش کن تھیں جب خلیج کے طول عرض میں ہندو پاک کی سخن پرور شخصیات نے پڑاو ڈالا تھا۔ پھر انھوں نے اپنے ہالہءنور میں سخن شناسوں کو دہائیوں تک روشن رکھا۔یہ وہ اُردو والے تھےجن کو تجارت کی بھٹیوں کے آہن گروں نے ان کی فسان فکر پر پیہم ضربیں بھی لگائیں۔ یہ ہزار بار ٹوٹےاور ریزہ ریزہ ہوئے لیکن فسان ِزبان کے گرد اپنے جذبوں کی مقناطیسیت سے چمٹے رہے۔ اپنے سے بہتر شخص کو اپنا رہنما کیا۔یہی وہ لوگ تھے جو پابندیوں کے علی الرغم اداروں کی تاسیس کی، اپنے اپنے حلقہ احباب کولے کر اُردو کی محفلیں برپا کیں اسے ترقی دیں اورنئے لکھنے والوں کے مربیّ بنے ۔

ہاں! ناموں کا گوشوارہ طوالت مانگتا ہے اس لئےصرف ان کی آفریدہ دنیا کا ذکر کرنا چاہونگا۔جس کے ثبوت میں آج بیش بہا شعری مجموعے، بہترین آپ بیتیاں، فکاہیہ مضامین کے مجموعے، افسانوں کا انتخاب اور معیاری مجلّوں کی کہکشاں موجود ہے جو اُردو کی ان نورپیکر شخصیات کے وجود کی سمت اشارہ کرتیں ہیں۔
دنیائے خلیج میں رہتے ہوئے انھوں نے اُردو ادب کو ایسے نبھایا کہ’’ خواب رہن رکھ کر روٹی نہیں کمائی‘‘ بلکہ ہجرتوں کے آزار سہتے ہوئے اس یقین کے ساتھ زندہ رہے کہ ’’خیال بانٹنا ہی کمال بانٹنا ہے‘‘۔کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ادب تخلیق کرنا دراصل اپنے تجربات کو واردات پھر واردات کو یادگار واقعات بنانے کا عمل ہے ۔جس کی غایت ِاولی خود کو دریافت کرنا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ ادب کامنصب کتھارسس ہے۔ یہ عمل حدود و ثغور کا پابند نہیں ہوتا۔ اپنی تہذیب سے گہرے احترام کے سبب امکانات میں رچی ہوئی رجائیت نے انھیں خطہ خلیج کے ادب زار میں زندہ رکھا ۔ہاں! وہ زمانہ ورقی مجلوں کا تھا ۔برقی مجلوں کا خامہ نور ابھی چمکا نہ تھا ۔تب اکثر کتابوں کے حوالے صرف یاد کی روشن سطح سے دیئے جاتے تھے لیکن آج دیکھو تو! وسائل ہمارے ہاتھ تھامے ہمیں کہکشانوں کی سڑک تک لے آئے ہیں۔
اس سے قبل کہ خلیج میں اُردو زبان کے فروغ کی روشن راہوں کی سمت بڑھیں۔ ایک نظر موجودہ مشکلوں کاجی کڑا کرکے نظارہ کریں۔یہاں میرے احتجاج کی لئے بلند ہوجائے تو ساتھیو! جی بڑا کرکے معاف کرنا۔ورنہ جھرجھر آنسووں سے روتا ہوا ہمارا قاری وسامع اُردوکی دنیا سے بھاگ جائے گا۔

ہم میں سے اکثر قلم کار جو شعرو نثر لکھ رہے ہیں وہ ؛مطالعہ ، مشاہدہ ،مباحثہ سے محروم ہیں۔ ہماری سپاٹ تحریروں کے بھدّے نقوش، لفظوں کے غنائی حسن سے بے نیازشعر،ہچکیاں لیتی ہوئی نثر جس میں نہ توکہاوتوں کی کاٹ نہ فصاحت کا فسوں ہے، نہ ادبی صنتعوں کا سنگھار، نہ دانش کا نورہے، نہ حسنِ فطرت کاصدرنگ پرتو بلکہ خودکار ناصحانہ نثر سے اُوبا ذہن اب ادب سے عبَا کرنے لگا ہے۔اکثر قصرخیال پر آویزاں تحریریں آڑھی ترچھی لکھیریں لگتی ہیں۔ اور متن کی دیواروں پر بے ہنگم جملوں کی استرکاری سےدیوارگریہ کا گمان ہوتا ہے ۔ جس میں کئی زندہ امکانات چنوادیئے گئے ہوں۔خیال کے قامت ِزیبا پر کوتاہ اظہارکا پھٹا لباس؛ برہنہ گوئی سے کم حیاباختہ نہیں ہے۔ اکثرشاعروں کی غزلوں کے بدن ٹٹولیئے ندرت و فن کی سوکھی ہڈیاں تک نہیں ملتیں۔اُن کی بیاضوں میں پیاز کے چھلکوں سے اَٹے شعر درشعر ہماری قوتِ شامہ سے شعور تک شراروں سے جھلساتے ہیں۔
اب ایک نظر امکانات کی وسعتوں پر ڈالتے ہیں جہاں خلّاق ذہنوں سے ایسے ادبی ہنگاموں کی یک رنگی کے علاوہ بہت کچھ ممکن ہے۔ جگ جیتنے کی راہیں دیکھیں کہاں کہاں روشن ہیں۔خلیج کے اسکولوں میں پہنچ کر ہم بڑی آسانی سے نئی نسلوں کے ساتھ اُردو میں فنِ تمثیل کی دلاوری سے دل جیت سکتے ہیں۔ اظہار ِفن کی دنیا میں مائیم ، پائنٹو مائیم ،ٹایبلو ، مونولاگ، ڈارموں،بچوں کے بیلے اور عکس و آواز کی ساحرانہ پیش کش کی اثرپذیری پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ اُردو ریڈینگ کے اور اُردو املا کے مقابلے۔ اشعار کے حسن انتخاب،پینٹینگز کی نمائش، نوجوانوں میں شخصیت سازی کے ورکشاپس ، مزاحیہ کہانیاں کے اجلاس،محفل ِلطیفہ ،مباحثے، مذاکرے، برٹل بریخت کے نکڑناٹک کے سادہ و پر اثر وسیلے کو اپنانے والا اظہار ِفن کا سحر تو حواس پر چھا جاتا ہے۔ ایساہنر؛دھڑکنیں تھام لیتا ہے۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اُردو مشاعروں کی یک رنگ سرگرمیوں میں تنوع پیدا ہوگا۔شعری مجالس کے ہنگاموں کی رونقیں ہمیں فریبِ وسعت میں ڈال رہی ہیں۔ زمانے کے بدلتے تیور و تقاضو ں میں پیش پیش تہذیبی نمائشوں کو سمجھنا اور اس کو مٹھیوں سے بھینچ لینا اشد ضروری ہے۔ ورنہ ان محاذوں کی تمام چوکیاں ہم اُردو دشمن تہذیب کے حوالے کردیں گے۔ ہمارے اظہار کے کل کائینات ہمارے ہاتھوں سے چھوٹ کر گلّے باز شاعروں تک کھسک رہی ہے۔اس انتخاب کی رہ گزر میں چند غیر مطمئن ثقاتِ ادب ضرور آئیں گے۔ ان سے الجھے بغیر اُردو کو ان مہمات سے جوڑنا ہوگا۔ اور یہ سب کچھ خلیج میں ممکن ہے۔’’ ادارہ ھدف‘‘ ان تمام محاذوں پر اپنے بھر پور قدم اٹھا چکا ہے۔
ایک محاذ رومن کی رنگ رَلیوں میں لت پت ان نوجوانوں کا ہے جو اُردو کو رومنؔ میں لکھتا ہے۔ اور بریلؔ تحریر کی طرح چشم بصیرت سے معذور انگریزی حروف ٹٹول ٹٹول کر اُردو کی آواز کھرچ کھرچ کرنکالتا ہے۔ یہ املا کا مسلہ کرنے والے اُردو کی غم گساری کا مصنوعی بھرم رکھتے ہیں۔ان کے ادبی مذبح خانے میں جو نثر کی اُجھڑی پھیل رہی ہے اس سے تعفن بھی اُٹھ رہا ہے اوریہ بصری آزار بھی جان لیوا ہے۔اس ’’بے ادب ‘‘ٹولے پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
خلیج کے مہاجر مکینوں پر سماج کے رسوم اور رواجوں کا بار نہیں ہے۔ ان کو کسی دُور کے دوست و رشتہ دارکی شادی سے جڑے ہنگاموں میں مہندی کی رسم سے ولیمہ کی ہلچل سے گزرکر بچہ کی نام رکھائی تک شرکت سے قدرت نے آزاد رکھا ہے۔یہ مجہول رسوموں کی چھوٹ ہم سب کو وافر وقت عطا کرتی ہے۔ یہہ وقت کا راس المال ادب کو مطلوب ہے۔ اسی سرمائے سے اظہار کی مہم جوئی میں حوصلوں اور تمناوں کی نقش گری ممکن ہے۔بس تھوڑی سی کوشش کی شرط پر زیادہ نتائج کی ضمانت یقینی ہے۔
زبانوں کی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اہل نظر ایسی ہی مشکل گھڑیوں میں اپنے راستے کی پہاڑیوں پرجھلمل دیپ جلاتے ہیں تو آفاق روشن ہوجاتے ہیں۔
ہمیں اولین مرحلے پر صحراکے پٹرول سے خوش حالیاں اور ریت سے گردو غبار کے ساتھ عربی شاعری کے چشمہ صافی سے زم زم سا عربی ادب؛ اُردو والوں کو پہنچانا ہوگا۔ منڈیوں میں چندحواس باختہ عربوں کے بگاڑکے فسانے تو ہم نے بہت سنائے لیکن ان کی مہمانوں کی تکریم ہمارے فن کا موضوع نہیں بنی۔ ان کی خداترسی، ان کا اپنے بزرگوں اورپاکیزہ اقدار سے اُنس ہماری نگاہوں سے اوجھل رہا۔ایسے کئی موضوعات ہماری جولانگاہِ شوق کو آواز دیتے ہیں۔
ساتھ ساتھ خلیج میں اُردو کا گمشدہ قاری جو شاپنگ مالس میں گنڈولے ٹٹولتے رہتا ہےاورجدید مینابازاروں میں بہلتا مرستا رہتاہے۔ اُسے یہاں ہندو پاکی کی حکومتوں کی بے اعتنائی پر چھاتی پیٹنے کی فرصت بھی نہیں۔ اس کی خوابیدہ حمیت اُردو کےمد پر سالانہ ایک ڈالر و درہم بھی خرچ کرنے پر آمدہ نہیں کرتی۔ یہ اُردو کا وہ نادان بچہ ہےجسے کوئی ہتیارایا بھیڑیا لوریاں سنتے ہوئے ماں کے آنچل سے گھسیٹ کر اٹھا لے گیا ہو اور اسےاپنی پہچان بھلا کر بازاروں میں بیچ آیا ہے۔سلیمان خطیب ؔ نے کبھی زرکی منڈیوں میں دختر کشی پر کہا تھا کہ ؎

ان کی تربت پہ یہ بھی لکھ دینا
زرپرستوں نے مارڈالا ہے

کل کا مورخ زرپرستی میں ڈوبے مہاجر وں کے سبب خلیج کے قبرستان میں زندہ گاڑی ہوئی اُردو کا لوح ِمزار پڑھ کرکہے گا کہ یہ وہ زمانہ اور وہ نسل تھی جس نے وسائل رکھنے کے باوجود اُردو کو زندہ گاڑ دیا۔یہ اہم سوال ہے جس کاتعلق ہمارے روشن مستقبل سے ہے کہ کہیں آج فراغت ؛ رکاوٹ کا باعث تو نہیں کہیں
خوش حالیاں آزمائشی بدبختیاں تونہیں بن گئیں ہوں ۔جس طرح بچہ بڑا ہوکر ماں باپ کو بھلادیتا ہے کہیں ہم اپنی مادری زبان کو شعوری طور پر بھلانے کا جرم تو نہیں کررہے ہیں۔
ان سوالوں کا جواب مل جائے تو خلیج کے چند لاکھ اُردو بولنے والے ایک دہائی کے اندر اندر اُردو کا عالمی منظرنامہ بدل سکتے ہیں۔
سرسید ؒ نے کہا تھا ’’مغربی قوموں کی ترقی کا راز ان کی تعلیم یافتہ افرادکے ایثار کا نتیجہ ہے ‘‘۔ اب ہمیں اپنے ادبی منصب سے نیچے اترکر نئے لکھنے والے اور عوام میں اُردو تحریر تحریک کو برپا کرنا ہوگا۔
پروفیسر مسعود حسین نے کہاتھا کہ’’ قوموں کی زندگی میں ایسا وقت بھی آتا ہے جب سنگ و خشت سے زیادہ حرف و صوت کے تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔ اب وہ وقت آچکا ہے اور ہم سے فیصلہ کن جواب بھی طلب کرتا ہے۔ اسی جواب سے ہمارا مستقبل روشن ہوگا۔ اسی اقدام میں حیاتِ تازہ کا امکان ہے۔ بقول ندا ؔفاضلی
سر پر زمین لے کے ہواوں کے ساتھ چل
آہستہ چلنے والوں کی باری نہ آئے گی
انسانیت زندہ باد۔۔۔اُردو پائندہ باد۔

Share
Share
Share