یوم مئی – یومِ مزدور
محمد رضی الدین معظم
سیل: +914069990266, 09848615340
مئی کی پہلی تاریخ کو یوم مئی کہا جاتا ہے۔ یہ دن عالمی پیمانے پر مزدوروں اور محنت کشوں کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ پچھلے نوے برسوں سے زیادہ عرصے سے یہ دن ساری دنیا میں بڑے جوش و خروش اور احترام سے منایا جاتا ہے ۔ گرچہ ہمارے ملک میں بھی یہ دن ایک عرصے سے منایا جارہا ہے‘ لیکن اس کے اسباب اور اس کی تاریخی اہمیت سے بہت کم لوگ آشنا ہیں۔ یہ دن دراصل امریکہ کے ان مزدوروں کی یاد میں منایا جاتا ہے‘ جنہیں ۱۸۸۶ء میں سرمایہ داروں کی بربریت کا شکار بنایا گیا اور جنہوں نے ظلم و استبداد کا سامنا کرتے ہوئے بڑی بہادری کے ساتھ اپنی جانوں کی قربانیاں دیں۔ اسی لئے آج کے روز ساری دنیا کے انسانیت نواز‘ حق پسند اور انسانی مساوات کے اصول پر یقین رکھنے والے لوگ عہد کرتے ہیں کہ وہ بھی کمزوروں اور مظلوموں پر ہورہے جبر و استبداد اور مزدوروں کے استحصال کا خاتمہ کرنے کے لئے پوری جدوجہد کریں گے۔
یوم مئی کی کہانی کا آغاز ۱۷ اکتوبر ۱۸۸۴ء سے ہوتا ہے۔ اس روز امریکہ کے مزدوروں کی ایک بہت بڑی تنظیم نے جس کا نام فیڈریشن آف آرگنائزڈ ٹریڈس اینڈ لیبر یونینس آف یونائٹڈ اسٹیٹس اینڈ کناڈا تھا۔ اپنے چوتھے کن ونشن میں ایک قرار داد منظور کی‘ جس کے ذریعے انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ مزدوروں کے کام کے روزانہ اوقات ۸ گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ قرار داد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر امریکی سرمایہ داروں اور مل مالکوں نے دو سال کے دوران ۸ گھنٹے کے روزانہ اوقات کا نفاذ نہیں کیا‘ تو پہلی مئی ۱۸۸۶ء سے امریکہ کے مزدور پورے ملکی پیمانے پر ہڑتال کا سلسلہ شروع کردیں گے۔
درحقیقت ۱۸۶۵ء کی امریکی خانہ جنگی کے بعد مزدوروں کے کام کے اوقات اس درجہ بڑھا دیئے گئے تھے اور ان کی مزدوری اس قدر کم کردی گئی تھی کہ وہاں کے محنت کش عوام پریشان تھے۔ ملک کی ساری زمینیں‘ جنگلات‘ معدنیات کے ذخیرے اور کل کارخانے سب ان کے قبضہ میں چلے گئے تھے۔ انہوں نے حکومت پر بھی قبضہ کرلیا تھا اور اپنے منافع میں اضافہ کی خاطر انہوں نے مزدوروں کا منظم طور پر استحصال شروع کررکھا تھا۔ اس مقصد کے لئے ان کے پاس پالے ہوئے غنڈوں ‘ بدمعاشوں اور گرگوں کی پوری فوج تھی‘ جسے Pikerton Gang کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔
جیسے جیسے مزدوروں کا استحصال بڑھتا گیا‘ ویسے ویسے انہیں منظم کرنے کی کوشش بھی تیز تر ہوتی گئیں۔ اس لئے فیڈریشن آف آرگنائزڈ ٹریڈس اینڈ لیبر یونینس آف یونائٹیڈ اسٹیٹس اینڈ کناڈا نے جب ۱۸۸۴ء میں اپنی پوزیشن کسی قدر مضبوط کرلی تو مطالبہ کیا کہ مزدوروں کے کام کے اوقات گھٹا کر آٹھ گھنٹے کئے جائیں۔ یہ مطالبہ چونکہ امریکہ کے تمام محنت کشوں کے دلوں کی آواز تھی‘ اس لئے وہاں کے مزدوروں نے باالعموم اور وہاں کے دانشوروں نے باالخصوص اس کا پوری طرح خیر مقدم کیا۔ امریکہ کے شعراء نے ۸ گھنٹے کے کام کے عنوان پر بہتیری نظمیں لکھیں ‘ افسانہ نگاروں نے افسانے ‘ ناول نگاروں نے ناولیں اور ادبیوں نے بہت سارے مضامین لکھ کر مزدوروں کی اس مانگ کا ساتھ دیا۔ عوام میں یہ مطالبہ کس حد تک مقبول ہوگیا تھا۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود مل مالکوں نے ایٹ آورس سگار ۔ ایٹ آورس ہیٹ اور ایٹ آورس پیگ کے نام سے بہت ساری چیزیں بنا ڈالیں تھیں‘ جنہیں عوام بڑے شوق سے خریدتے تھے۔ آٹھ گھنٹے کام کے عنوان سے لکھی گئی نظمیں بچے بچے کے زبان پرتھیں۔
مزدوروں کی اس جائز مانگ کی تکمیل کے لئے دو سال کا وقفہ دیا گیا تھا‘ لیکن امریکہ کے مل مالکوں نے اس مانگ کو حقارت کے ساتھ ٹھکرادیا۔ چنانچہ پہلی مئی ۱۸۸۶ء سے امریکہ میں ہڑتال کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ اس روزامریکہ کے تقریباً ۵ لاکھ مزدوروں نے کام بند کردیئے۔ ہڑتال کا اثر شکاگو‘ نیویارک‘ بالٹی مور‘ واشنگٹن ‘ سن سنائی اور ٹپس برگ جیسے شہروں میں شدت سے محسوس کیا گیا۔
اس تحریک میں شکاگو کے مزدور پیش پیش تھے‘ ان کی قیادت امریکہ کے نامی مزدور رہنما اگسٹ سپائز‘ مائیکل شیب فیلڈن‘ پیرسن‘ اڈولف فشر جارج انجیل‘ لوئس لنگ اور سکرینی کررہے تھے۔ انہوں نے مزدوروں کو منظم کرنے اور ان کی تحریک کو آگے بڑھانے میں نمایاں رول ادا کیا تھا۔ پہلی مئی ۱۸۸۶ء کو شکاگو کے لگ بھگ ۳ لاکھ ۵۰ ہزار مزدوروں نے ہڑتال کیا اور ۸۰ ہزار مزدوروں نے ایک زبردست جلوس بھی نکالا۔ اگرچہ مزدوروں کے احتجاج کا طریقہ انتہائی پرامن تھا‘ لیکن ہڑتال کی اس قدر کامیابی کو دیکھتے ہوئے امریکی سرمایہ داروں کے مخصوص اخبار ’’شکاگو میل‘‘ نے اپنے اداریئے میں ہڑتال کی مذمت کرتے ہوئے مزدور رہنما پیرسن اور اسپائز کے خون کا مطالبہ کیا۔ سرمایہ داروں میں ہڑتال سے ایک قسم کی کھلبلی مچ گئی تھی اور وہ کسی بہانے کی تلاش میں تھے تاکہ مزدوروں سے بدلہ لے سکیں۔ دو دنوں بعد یعنی ۳۰ مئی ۱۸۸۶ء کو ایک ایسا موقع ہاتھ آگیا۔ شکاگو کے مضافاتی علاقے میں میک سیرا مک بارویسٹر ورکس نامی ایک کارخانہ کے مزدور پچھلے کئی ہفتوں سے ہڑتال پر تھے۔ تین مئی کو انہوں نے کارخانے کے نزدیک ایک میٹنگ کا اہتمام کیا‘ جسے ان کے رہنما آگسٹ اسپائز نے خطاب کیا۔ اتفاق سے مالکوں کے گرگوں نے اسی وقت میٹنگ پر حملہ کردیا۔ جب مزدوروں نے دفاعی کوششیں شروع کیں‘ تو پولیس نمودار ہوئی اور اس نے فائرنگ شروع کردی۔ جس سے سینکڑوں مزدور زخمی اور کئی موت کے شکار ہوگئے۔ آگست اسپائز نے یہ سارا خونی تماشہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور انتہائی غم و غصہ کی حالت میں واپس لوٹے ۔ دوسرے روز یعنی ۴ مئی ۱۸۸۶ء کو شکاگو کے ہے مارکیٹ اسکوائر پر ایک احتجاجی جلسہ بلایا گیا جس میں ہزاروں مزدوروں نے شرکت کی۔ میٹنگ کو خطاب کرنے کے لئے آگست اسپائز ‘ پیرسن‘ سمویل فیلڈن جیسے رہنما آئے۔ فیلڈن اس میٹنگ میں شریک ہونے کے لئے اپنی بیوی اور بچوں کے ہمراہ آئے تھے۔ جلسہ کافی دیر تک چلتا رہا۔ پولیس کا عملہ وہاں موجود تھا۔ شکاگو کے میئر کارٹر ہریس نے میٹنگ کی کارروائی پرامن طور پر چلتے ہوئے دیکھ کر پولیس کیپٹن جون بون فیلڈ کو ہدایت دی کہ وہ اپنے عملے واپس بھیج دے اور وہ خود مطمئن ہوکر واپس چلے گئے۔ جب آخری مقرر فیلڈرن تقریر کررہے تھے تو پولیس کیپٹن جون بون فیلڈ ان کے پاس پہنچااور میٹنگ کو غیر قانونی قرار دے کر روکنے کی کوشش کی۔ اچانک وہاں پر ایک بم پھٹا اور پھر بھگدڑ مچ گئی۔ پولیس کے عملوں نے دھواں دھار گولیاں چلانا شروع کیا اور تھوڑی ہی دیر میں سارا ہیمارکیٹ اسکوائر مزدوروں کے خون سے سرخ ہوگیا۔ مرنے والوں میں سارے مزدور تھے ‘ سوائے ایک ڈیگون نامی پولیس سرجنٹ کے۔
واقعہ کے فوراً بعد سبھی مزدور رہنماؤں کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان لوگوں پر پولیس سرجنٹ ڈیگون کے قتل کا الزام تھا۔ ان تمام لوگوں پر جعلی مقدمہ چلایا گیا۔ انسانی تاریخ میں اس قسم کے واقعات کم گذرے ہیں۔ بجائے اس کے کہ سینکڑوں مزدوروں کی موت پر اظہار افسوس کیا جاتا اور پولیس والوں سے میئر کی بات نہ ماننے کی باز برس کی جاتی آٹھوں اہم مزدور رہنماؤں کو ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت جیل کی کوٹھریوں میں بند کردیا گیا۔
امریکی حکومت اس وقت کس درجہ سرمایہ داروں اور مل مالکوں کے مٹھی میں تھی‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مقدمے کی کارروائیوں کے سارے طریقے تبدیل کردیئے گئے۔ ۲۱ جون ۱۸۸۶ء سے مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی۔ مقدمہ کے دوران اس بات کا قطعی پتہ نہ چل سکا کہ بم کس نے پھینکا اور مزدور رہنماؤں نے کس طرح ڈیگون کی موت کا پلان بنایا۔ موقعہ واردات پر صرف تین رہنما موجود تھے‘ یعنی آگست اسپائز ‘ پیرسن اور فیلڈن ۔ اگر ان کے ارداے ٹھیک نہیں ہوتے تو وہ بیوی اور بچوں کے ہمراہ نہ آتے۔ میئر کے بیان کے مطابق وہ جلسہ انتہائی پرامن تھا ‘ پھر بھی ۱۹؍اکتوبر ۱۸۸۶ء کو جج جوزف ای گیری نے آٹھوں رہنماؤ ں کی پھانسی کا فیصلہ سناکر ساری دنیا کو حیرت و استعجاب میں ڈال دیا۔
جج کے اس فیصلہ نے ساری دنیا کے دانشوروں کے ضمیر کو جھنجھوڑ ڈالا۔ نہ صر ف امریکہ بلکہ فرانس ‘ ہالینڈ‘ روس ‘ اٹلی اور اسپین کے تمام لوگوں نے اس فیصلہ کو انتہائی غلط اور جابرانہ قرار دیا۔ صوبے کے گورنر کے پاس ٹیلی گراموں اور خطوں کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا ۔ انہوں نے عوام کو مطمئن کرنے کے لئے فیلڈن اور بائیکل شب کی سزاؤں کو تاعمر قید میں تبدیل کردیا مگر ان دونوں رہنماؤں نے اس تبدیلی کو ماننے سے انکار کردیا۔ انہوں نے اپنے اپنے مراسلہ میں گورنر کو لکھا۔
’’یا تو میں مجرم ہوں یا بالکل بے قصور ہوں۔ یقیناًمجرم ہوں تو مجھے موت کی سزا دی جائے اور اگر آپ کی دانست میں بے قصور ہوں تو یقیناًمیں مکمل آزادی کا مستحق ہوں۔‘‘
انگلینڈ‘ فرا نس اور امریکہ کے سبھی بڑے مفکروں‘ادیبوں اور دانشوروں نے جن میں جان برناڈ شا اور ولیم مورس بھی شامل تھے۔ اس فیصلہ کے خلاف زبردست احتجاج کیا اور ان مزدور رہنماؤں کوچھوڑدینے کا مطالبہ کیا۔ مگر ان تمام لوگوں کے جذبات کو نظر انداز کرتے ہوئے ۱۱ نومبر ۱۹۹۶ء کو پیرسن‘ اسپائز ‘ فشر اور ایخینل کو پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ آسکر ن پھانسی دیئے جانے سے پہلے مردہ پائے گئے۔
مقدمہ کے دوران آگسٹ اسپائز نے کہا تھا:
’’اگر میں اپنی محافظت میں کچھ کہنا چاہتا ہوں تو اس سے آپ پر الزام آتا ہے ۔ مجھ پر لگائے گئے الزامات کے اسباب آپ کی بے انصافیوں کی داستان ہیں۔ اگر حق کے لئے لڑنے کی سزا موت ہے تو میں بخوشی اس سزا کو بھگتنے کے لئے تیار ہوں۔ بلائیے اپنے جلادوں کو اور حکم دیجئے کہ وہ جلد سے جلد مجھے پھانسی دیں۔‘‘
جس وقت پھانسی کا پھندا اسپائز کی گردن میں ڈالا جارہا تھا تو اس نے بڑے سکون و اطمینان کے ساتھ کہا تھا۔
’’ایک وقت ایسا آئے گا‘ جب ہماری خاموشی ہماری تقریروں سے زیادہ پر اثر اور لوگوں کے دلوں کو زیادہ سے زیادہ متحرک کرنے والی ہوگی۔ موت کی سزا مجھے بہت ہی پیاری لگ رہی ہے ۔ میری موت میرے اس مشن کو یقیناًکامیاب بنادے گی جسے میری زندگی کامیاب نہ بنا سکی۔‘‘
انسانی تاریخ میں موت سے کھیلنے والے ایسے کتنے جیالے ملیں گے ؟ موت کے وقت ایسے کلمات کتنے لوگوں کی زبان پر ہوں گے ؟ حق کے لئے لڑنے والے ایسے جانباز کتنے ہوں گے؟
ان مزدور رہنماؤں کی موت نے ساری دنیا کے لوگوں کے دل دہلا دیئے۔ ساری دنیا کیمزدوروں کو ایک نئے ڈھنگ سے سوچنے کا سلیقہ دیا۔ ان میں ہمت جوش اور ولولے پیدا کئے۔ یہ اسی واقعہ کا نتیجہ تھا کہ روس‘ چین اور دیگر ممالک میں مزدوروں نے اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ساری دنیا کے لوگوں کو ایک نئے انقلاب کا منتظر بنادیا۔
دسمبر ۱۸۸۸ء میں امریکن فیڈریشن سینٹ لوئس کی کانفرنس میں یہ فیصلہ کیا کہ پہلی مئی ۱۸۹۰ء سے سارے امریکہ میں ہر سال یوم مئی منایا جائے گا۔ ۱۸۸۹ء میں دوسری عالمی مزدور تنظیم نے اعلان کیا کہ پہلی مئی ۱۸۹۰ء سے ساری دنیا میں یوم مئی کے منانے کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ اس روز ساری دنیا میں یہ عہد کیا جائے گا کہ مزدوروں کے استحصال کا خاتمہ کیا جائے‘ قانون کے ذریعہ ان کے کام کے اوقات متعین کئے جائیں اور نوکری کی شرطوں میں مناسب تبدیلی لائی جائے۔
———
Md.Raziuddin Moazzam
Hyderabad – Deccan