تدوین اور تدوینِ متن کی روایت
فرہاد احمد فگارؔ
اردو ادب میں دیگر کئی اصطلاحات کی طرح ’’تدوین ‘‘کا لفظ بھی عربی زبان سے لیا گیا ہے۔نورُ اللغات کے مؤلف ،نور الحسن نیئر کے مطابق تدوین ’’جمع کرنا‘‘یا ’’مرتب کرنا‘‘کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔اسی طرح شان الحق حقی ،فرہنگِ تلفظ میں تدوین کے معانی’’منتشر اجزا کو یک جا کرنا‘‘،’’مرتب کرنا‘‘یا ’’تالیف وترتیب ‘‘ بتاتے ہیں۔اصطلاح میں ’’تدوینِ متن ‘‘کے معانی کسی بھی مصنف کی تصنیف کو اصل حالت لانے کے ہیں۔مصنف اپنی کتاب کی کتابت خود نہیں کرتااس لیے بعض اوقات کاتبین اپنی بساط اور سمجھ کے مطابق کتابت کرتے ہوئے غیر دانستہ طور پر کچھ غلطیاں بھی کر جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ مرورِ زمانہ کے ساتھ جب کتاب کے کئی ایڈیشنز شائع ہو جاتے ہیں تو ہر دفعہ چھوٹی چھوٹی غلطیاں ہوتے ہوتے کتاب میں بے شمار اغلاط جمع ہو جاتی ہیں۔متن میں جملے اور الفاظ میں رد و بدل ہو جاتا ہے ،بعض اوقات ناشر بھی اس میں اپنی سمجھ یا سہولت کے پیشِ نظر تبدیلی کر دیتا ہے۔مثال کے طور پرمصنف نے کہیں لفظ’’متشاعرہ‘‘استعمال کیا جس کا پتا ناشر کو یا کمپوزر کو نہیں ہوا تو اس نے اپنے تئیں اسے درست کر کے ’’شاعرہ‘‘ بنا دیا اور غلطی ہو گئی۔ایک خاص مدت (۵۰ سال تقریباً)گزرنے پر کتاب چھاپنے کے حقوق ہر ایک اشاعتی اِدارے کو مل جاتے ہیں جس سے ایک ہی کتاب کئی اِدارے شائع کرتے ہیں اور یوں اپنے مالی فائدے کے لیے متن کی صحت کا خیال کیے بنا کتاب کو اغلاط سے پُر کر دیتے ہیں۔مصنف کے لکھے کو کچھ کا کچھ بنا دیا جاتا ہے ،اشعار کے الفاظ کو بدل کر مصرع غیر موزوں کر دیا جاتا ہے جب کہ نثر میں بھی کئی طرح کے الفاظ اور جملے بدل دیے جاتے ہیں۔
رہا سوال متن کا کہ متن کیا ہے؟ ہر وہ تحریر یا تصویر جو معنی رکھتی ہو اور جس کی تفہیم ممکن ہو’’متن‘‘ کہلاتی ہے جس کو انگریزی میں Text کہا جاتا ہے متن کی تعریف کے ضمن میں ڈاکٹر خلیق انجم ’’متنی تنقید‘‘میں رقم طراز ہیں:’’متن کے لیے ضروری ہے کہ وہ تحریر ہو ۔۔۔یہ تحریر کاغذ پر مطبوعہ ہویا غیر مطبوعہ،مختلف دھات کے ٹکڑوں ،مِٹی یا لکڑی کی بنائی ہوئی لوچوں،پتوں اور پتھروں یا چمڑے ،چٹانوں کسی بھی چیز پر ہو سکتی ہے۔‘‘اس تعریف کے تناظر میں ہر وہ چیز متن ہے جو تحریری صورت میں ہو وہ نظم بھی ہو سکتا ہے اور نثر بھی،سیکڑوں برس قدیم بھی ہو سکتا ہے اور عہدِ جدید کا بھی،کئی سو صفحات پر مشتمل بھی ہو سکتا ہے اور مختصر ترین بھی،ان تمام باتوں سے صرفِ نظر ہر لکھی ہوئی چیز ’’متن‘‘ہے۔
شان الحق حقی اپنی تالیف فرہنگِ تلفُّظ میں ’’متن ‘‘ کامطلب ’’اصل عبارت‘‘یا’’کسی کتاب ،مضمون یا دستاویز کے اصل الفاظ‘‘ لکھتے ہیں۔ متن کی تدوین اصطلاح میں’’تدوینِ متن‘‘کہلاتی ہے۔تدوینِ متن سے مراد کسی بھی وجہ سے تحریف شدہ یا بگڑے ہوئے متن کو اصلی حالت میں واپس لانا ہے۔انگریزی زبان میں تدوینِ متن کے لیے’’ Textual Criticism‘‘ کی اصطلاح رائج ہے۔اردو میں تدوینِ متن کے علاوہ اس کے لیے’متنی تنقید‘‘اور’’ترتیبِ متن‘‘کی اصطلاحات بھی مستعمل ہیں۔
ڈاکٹر گیان چند جین کے مطابق:’’اردو میں تدوینِ متن سے زیادہ مقبول اصطلاح ترتیبِ متن ہے،دونوں قریب المعنی ہیں۔ترتیب کے معنی کسی شے کے اجزا کومناسب تقویم وتاخیرسے رکھنا ہے۔تدوین کے معنی متفرق اجزا کو اکٹھا کر کے ان کی شیرازہ بندی کرنا ہے۔۔۔ترتیب ایک عام لفظ ہے اور تدوین کا تعلُق کتابوں سے ہے۔‘‘تدوین کے بارے میں ماہرین کی راے یہ ہے کہ تدوین کوئی علاحدہ علم نہیں ہے بل کہ در حقیقیت یہ ’’تحقیق ‘‘ہی کی ایک شاخ ہے اور مدّون وہی اچھا ہو گا جو قابل محقق ہو گا۔جو مدّون تحقیق سے خاص نسبت نہ رکھتا ہو اس کا تدوین کا کام بھی عمدہ اور معیاری نہیں ہو سکتا ۔ڈاکٹر گیان چند جین لکھتے ہیں:’’تدوین ،تحقیق سے جدافن نہیں۔یہ تحقیق ہی کی ایک شاخ ہے اس کے لیے انھی صلاحیتوں اور ذہنی رجحان کی ضرورت ہوتی ہے جو تحقیق کے لیے درکار ہیں۔اچھے مدّون ،محققین کے سوا کوئی دوسرے نہیں۔‘‘
تدوینِ متن کے درج ذیل چار بڑے زمرے یا دھارے ہیں۔
i: یونانی اور لاطینی نسخوں کی تدوین۔
ii: سنسکرت نسخوں کی تدوین۔
iii: انگریزی ادب بالخصوص شیکسپیئر کی تدوین۔
iv: عربی ،فارسی اور اردو نسخوں کی تدوین۔
یونانی اور لاطینی نسخوں کی بات کریں تو ہومر کی’’ایلیڈ‘‘اور ’’اوڈیسی‘‘ کی تدوین کے ساتھ ساتھ قدیم ڈراموں کی تحریری شکل اس روایت کی ابتدائی صورت نظر آتی ہے۔ان نسخوں کی تدوین پر معروف کتاب ’’A Companion To Classical Texts‘‘ ایف ڈبلیو ہال نے لکھی جسے ۱۹۱۳ء میں اوکسفورڈ پرنٹنگ پریس نے شائع کیا۔اسی طرح سنسکرت کے پرانے نسخوں ’’وید پران‘‘، رامائن‘‘ یا ’’مہابھارت‘‘کا اس وقت دستیاب ہونا تدوینِ متن ہی کی بدولت ممکن ہوا۔سنسکرت میں فنِ تدوین کے حوالے سے ایس ایم کاترے (سمترا منگیش کاترے)نے ’’Introduction To Indian Textual Criticism‘‘نامی کتاب تحریر کی ۔۱۴۸ صفحات پر مشتمل یہ کتاب پونا سے ۱۹۴۱ء میں شائع ہوئی۔ اسی طرح انگریزی کے مصنفین شیکسپیئر اور چاسر وغیرہ کی کتب کی تدوین انگریزی ادب میں فنِ تدوین کی روایت پر دال ہیں۔انگریزی کے مدوّنوں میں میک کریو اور سر ویلیم جی گرِج کے نام معروف ہیں۔
ان زبانوں کے علاوہ ہم جب عربی،فارسی اور بالخصوص اُردُو میں تدوینِ متن یا ترتیبِ متن کی روایت کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ روایت زیادہ قدیم نہیں ملتی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان زبانوں کی قدیم تحقیق میں تدوینِ متن کے لیے کو ئی علاحدہ شعبہ موجود ہی نہیں تھا۔جہاں تک عربی کا تعلُق ہے تو اس میں مغربی اُصولوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تحقیق اور تدوین کے ضابطے مقرر کر دیے گئے تھے۔عربی کی نسبت اردو میں یہ روایت بہت بعد میں پڑی ۔یہاں عالمانہ تدوین کی ابتدا بہر حال حافظ محمود شیرانی اور امتیاز علی خاں عرشی نے کر دی تھی لیکن اس کے اُصول و ضوابط ماأی قریب میں ہی مرتب کیے گئے۔جیسا کہ ڈاکٹر عطش درانی اپنی کتاب جدید رسمیاتِ تحقیق میں لکھتے ہیں:’’اردو میں پہلی بار مخطوطہ شناسی کا کورس جامعہ نئی دہلی میں شروع ہوا تو خواجہ احمد فاروقی نے اس مسئلے پر مضامین لکھنا شروع کر دیے مگر پہلی مبسوط کتاب لکھنا ڈاکٹر خلیق انجم کے حصے میں آیا۔متنی تنقید میں انھوں نے متن کو اُصولوں کی روشنی میں قائم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔اسی بنیاد پر ڈاکٹر تنویر احمد علوی کی کتاب اُصولِ تحقیق وترتیبِ متن سامنے آئی اور یوں اس موضوع کی تکمیل ہوئی۔‘‘یہاں یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ مذکورہ دونوں کتب میں ڈاکٹر خلیق انجم کی کتاب نہ صرف تدوینِ متن کے موضوع پر اولین کتاب تھی بل کہ اُصولِ تحقیق کے حوالے سے بھی یہ پہلی باقاعدہ تصنیف سمجھی جاتی ہے۔ ۳۶۷ پر مشتمل یہ کتاب ۱۹۶۷ء میں پہلی مرتبہ انجمن ترأی اردو ہند ،نئی دہلی سے شائع ہوئی بعد ازاں اسے انجمن ترأی اردو کراچی سے بھی شائع کر دیا گیا۔دوسری کتاب ’’اُصولِ تحقیق و ترتیبِ متن‘‘پہلی مرتبہ ۱۹۷۷ء میں طبع ہوئی ۔یہ دراصل ان مضامین کا مجموعہ ہے جو صاحبِ کتاب نے وقتاً فوقتاً مختلف جرائد اور مجلّوں میں لکھے۔ان دو کتابوں کی اشاعت کے بعد اردو میں تدوینِ متن کی باضابطہ طرح ڈال دی گئی۔۱۹۸۲ء میں خدا بخش لائبریری، پٹنہ نے ایک سیمی نار’’تدوینِ متن کے مسائل‘‘میں پڑھے گئے مختلف مقالات کو یک جا کر کے اسی نام سے ایک کتاب شائع کر دی۔اسی سال تدوین کے موضوع پر ایک اور کتاب ’’فنِ خطاطی و مخطوطہ شناسی‘‘شائع ہوئی جو دراصل فنِ تدوین پر دو طویل مقالات ہیں۔اس کے بعد فنِ تدوین کے اُصولوں کے حوالے سے ایک معروف کتاب ’’تحقیق کا فن‘‘منظرِ عام پر آئی ۔ڈاکٹر گیان چند جین کی یہ کتاب ۱۹۹۰ء میں شائع ہوئی جس میں تحقیق کے ساتھ ساتھ فنِ تدوین پر بھی ایک مکمل باب شامل کیا ہے۔سال ۱۹۹۰ء میں ہی ڈاکٹر نورالاسلام صدیقی کی کتاب’’ریسرچ کیسے کریں؟‘‘شائع ہوئی۔نام سے واضح ہے کہ یہ بھی تحقیق کے موضوع پر ہے لیکن اس میں بھی تحقیق کا فن کی طرح تدوین کو بھی زیرِ بحث لایا گیا ہے۔
درجہ بالا کتب نے اردو میں فنِ تدوین کوخاطر خواہ فائدہ پہنچایا۔یہ سلسلہ پھر رکنے نہ پایا اور کئی مزید کتب اسکالرز اور طلبہ کی رہنمائی کے لیے شائع ہوئیں۔رشید حسن خاں اردو کے ایک مشہور و معروف محقق اور مدون ہیں ۔انھوں نے جہاں کئی طرح کی کتابیں مدون کیں وہیں اس اُصول پر ۱۹۹۹ء میں’’تدوین،تحقیق،روایت‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کروائی۔یہ کتاب ان کے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں سے اکثر مضامین فنِ تدوین کے حوالے سے ہیں۔پروفیسر ابنِ کنول کی مرتبہ کتاب’’تحقیق و تدوین‘‘۲۰۰۶ء میں دہلی سے شائع ہوئی ۔اس کتاب میں بھی اسی موضوع پر منعقدہ ایک سیمی نار میں پڑھے گئے مقالات کو یک جا کیا گیا ہے۔اکیس ویں صدی کے ان ابتدائی برسوں میں جہاں ماہرین نے بیش قیمتی کتابیں شائع کروئیں وہیں طلبہ کی نصابی ضروریات کے پیشِ نظر یا پھر تجارتی مقاصد کے حصول کے لیے بھی کچھ کتابیں مرتب کی گئیں۔یہ کتابیں امتحانی نقطۂ نظر سے معاون ہو سکتی ہیں یا ناشر کے لیے معاشی فائدہ دے سکتی ہیں لیکن مستند متصور نہیں ہوتیں۔ان گائیڈبکس میں محمد خالد ندیم کی ’’اُصول تحقیق و تدوین‘‘غلام عباس ماہو کی’’تحقیق و تدوین‘‘اور صفدر علی کی’’اُصول تحقیق و تدوین‘‘مقبول ہیں۔بہ حیثیت مجموعی اگر ہم دیکھیں تو اردو میں تدوین کی روایت قدیم نہیں لیکن ۱۹۶۷ ء میں خلیق انجم کی کتاب شائع ہونے کے بعد یہ روایت مستحکم ضرور ہو چکی ہے۔اس وقت تک اس موضوع پر درجنوں کتب اور سیکڑوں مضامین لکھے جا چکے ہیں۔امید ہے مستقبل میں اس فن میں مزید اضافہ ہو گا اور اردو میں اس فن کو روز بہ روز عروج حاصل ہو گا۔