اصفاد اور صاحبِ اصفاد:امام قاسم ساقی -: ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری عمری

Share


اصفاد اور صاحبِ اصفاد : امام قاسم ساقی

ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری عمری
صدرِ شعبۂ اردو ، گورنمنٹ ڈگری کالج، رائے چوٹی
موبائل: 9441905026
ای میل:

امام قاسم ساقی سے میرے مراسم و تعلقات ایک طویل عرصے پر محیط ہیں۔ ان سے میرے تعلقات محض علم و ادب کی بنیاد پرقائم ہیں۔ ان میں والہانہ شوق اور ادب سے اشتیاق پایا جاتا ہے۔ ان میں کسبِ علم و اکتسابِ فن کا ذوق و شوق جنون کی حد تک موجود ہے۔ ان سے میرے تعلقات میں ہمیشہ دھوپ چھاؤں کا گزر رہا ہے،لیکن ان تعلقات میں خلوص کی حدت و تمازت اور مہر و محبت کی لطافت و برودت ہمیشہ شامل رہی ہے۔ انہوں نے شارق جمال ناگپوری سے شرفِ تلمذ حاصل کیا اورعتیق احمد عتیق سے مشورۂ سخن کیا۔ پھراپنے طور پر مختلف شخصیات سے استفادہ کیا۔

اصفاد ۔ امام قاسم ساقی کی چوتھی تصنیف ہے۔ 2006ء ؁ میں غزلوں کا ایک مجموعہ ’’آبشارِ سخن‘‘ شائع ہواجسے خاطر خواہ پذیرائی حاصل ہوئی ۔ دوسرا شعری مجموعہ ’’ فکر و فن کے پھول‘‘ کے نام سے 2009 ؁ء میں منظر عام پر آیاجو اردو دوہوں اوردوہوں میں مختلف ہئیتی تجربات پر مشتمل ہے۔ 2014ء ؁ میں تنقیدی مضامین کا ایک مجموعہ ’’تاسیس ‘‘ شائع ہوا۔
تیسرا شعری مجموعہ جو اس وقت میرے پیش نظر ہے ، اس کا نام اصفاد ہے۔ عربی الاصل لفظ ’اصفاد‘ کا متبادل ہتھکڑی ہے۔لفظ ہتھکڑی بھی زنجیر، طوق اور سلاسل و اغلال کے قبیلۂ الفاظ سے ہے اور قید و بند اور گرفتاری کی علامت ہے۔ گویا مجموعۂ کلام کا یہ نام بجائے خود ایک استعاراتی پس منظر رکھتا ہے۔ چوں کہ ’اصفاد‘ میں اصنافِ سخن کا تنوع ملتا ہے اور اس میں منظومات، رباعیات اور ماہیے ، ہائیکو اور تنکاجیسی اصناف پر طبع آزمائی کی گئی ہے،چناں چہ ان ہی اصنافِ سخن ہی کے تعلق سے لفظ ’اصفاد ‘کو ایک وسیع تر مفہوم میں استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ امام قاسم ساقی نے مختلف شعری اصناف پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے اپنی دانست میں انہیں ہتھکڑیاں پہنانے کی کوشش کی ہے۔ اس میں نظمیں بھی ہیں اور آزاد نظمیں بھی، دوہے بھی ہیں اور ماہیے بھی، تنکا بھی ہے او ر ماہیہ گیت بھی ہیں، رباعی بھی ہے اورثلاثی بھی۔ بزعمِ خویش انہوں نے مختلف اصنافِ سخن پر اپنی گرفت کو مضبوط اور بندش کو مستحکم کرنے اور اس کافنی مظاہرہ کرنے کے لیے اس مجموعۂ کلام کو شعوری طور پر اصفاد کے نام سے موسوم کیا ہے۔ان کا یہ خیال بھی ہمارے لیے قابلِ قبول ہونا چاہیے ، کہ کسی مجموعۂ کلام کا نام شاعر کے معہودِ ذہنی اور غورو فکر کا غماز ہوتا ہے۔ یہ کسی تخلیق کار کا پہلا حق ہے کہ وہ اپنی تخلیق کو کس طرح اور کس نام سے موسوم کرتا ہے۔
اصفاد میں پابند نظمیں ، آزاد نظمیں، دوہے، ماہیے، ہائیکو، ماہیہ گیت ، رباعیات اور تنکا وغیرہ پر طبع آزمائی کی گئی ہے۔ ابتداء میں نظمیں ہیں جن کا رنگ ، ڈھنگ الگ ہے۔ بقیہ کلام کا انداز اور ڈھب الگ ہے۔دونوں کی لفظیات میں بھی بیّن فرق ہے۔ طرزِ اظہار اور تخلیقی آفاق بھی مختلف ہیں، جس سے یہ متبادر ہوتا ہے کہ اس عمل میں شاعر کی اپنی شعوری کوشش بھی شامل ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ تخلیقی عمل میں کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں، جس میں شعور اور تحت الشعور میں موجود تجربات و مشاہدات اور ماحول و توارث وغیرہ تو شامل ہوتے ہی ہیں، اس کے علاوہ ردِ عمل ، تاثیر و تاثر اور وقتی انفعال و غیرہ بھی تخلیقی عمل پراثرانداز ہوتے ہیں۔
اصفاد میں مختلف اصناف میںآزاد نظمیں،ہائیکوز، ماہیہ و ماہیہ گیت، دوہا و تنکا ، رباعی و ثلاثی وغیرہ شامل ہیں۔ ان اصناف کومتفرق ناموں سے موسوم کیا گیا ہے۔جیسے اصفاداگر نظمیں ہیں تو ہائیکوزکو صد رنگ کا نام دیا گیا ہے۔ رباعیات کو عسجدِ سخن کا نام دیا گیا ہے تو ماہیئے کا نام اجتہادرکھا گیا ہے۔
مذکورہ تمام اصناف میں فنی خصوصیات اور محاسن تو ہیں ہی، لیکن مختلف اصناف کی حدود و قیود اور شرائطِ عروض کو بھی ملحوظ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ البتہ ہائیکو کے بارے میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ انہوں نے جاپانی صنف ہائیکو میں پانچ ۔سات ۔پانچ سلیبل کی قید کو اپنے طورپرتبدیل بھی کیا ہے اور دوہے کے اوزان (دوہا چھند ) میں ہائیکوز کہے ہیں۔ آپ چاہیں تو اسے ایک نئے تجربہ کا نام دے سکتے ہیں۔
ساقی کے کلام میں جس چیز نے مجھے متوجہ کیا اور جو روایات کی پاسداری کے ساتھ منجملۂ لوازم بھی ہے کہ انہوں نے تقریباً تمام اصناف میں حمدیہ ونعتیہ کلام کو شامل کیا ہے۔ ہماری ادبی روایات رہی ہے کہ حمد، نعت، منقبت اور مناجات کے بعدہی شاعر کے نفسِ مضمون کا مرحلہ آتا تھا۔
امام قاسم ساقی پر ماحول اور حالات نے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں، انہوں نے اپنے حساس مزاج اور زود اثر طبیعت کی وجہ سے اپنے احساس کی دنیا کو رنگا رنگ تأثرات کی آماجگاہ بنا دیا ہے اور یہ رنگ ان کے کلام میں جلوۂ صد رنگ کی ضمانت بن گئے ہیں۔ان کے پاس موضوعات کا کسی قدر تنوع بھی ملتا ہے۔ فکر کی بالیدگی ، ادراک کی پختگی اور ان کے شعور کی سطحِ مرتفع ان کے کلام میں نمایاں ہے۔ تاہم ان کے کلام میں موجود داخلیت بھی گویا فنکار کی ذات ہی کا اظہار ہے۔ ان کے ہاں ماحول اور حالات کے زیر اثر پیدا ہونے والی انفعالی کیفیات اور تاثیر و تاثر کی فراوانی کو بھی نشان زد کیا جا سکتا ہے۔ سماج کے غیر معتدل رویے، اناپیکر کھردری شخصیات ، ان کا درشت برتاؤ،کبر و غروراور نخوت ورعونت کے حامل افراد، فخر و مباہات اور افتخار مآبی کا اسیر ادبی ماحول، منافقانہ و مخاصمانہ فضا ء، ہمہ دانی کا ادعاء،ہمچو ما دیگرے نیست کاماحول ، تفاخر اور تعلّی جو محض شاعرانہ نہ ہو کر دوسروں کی تحقیر و استخفاف اور تذلیل و استہزاء پر منتج ہو ۔ اورایسا ماحول شاید ہر جگہ پایا جاتا ہو ۔ یا ایسے غیر ادبی اور غیر سنجیدہ ماحول کا ادراک صرف حساس اشخاص ہی کو ہوتا ہوگا، لیکن داخلیت اور احساس وانفعال کی شدت کے حامل فنکاروں پر ان عناصر اور عوامل کے کچھ ایسے شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں، جن کی تحلیلِ نفسی اور نفسیاتی تجزیہ ہمیں ایک نئے جہانِ تعامل اور سماجی بین عمل کی پیچ در پیچ وادیوں تک لے جاتا ہے اور اس سلسلے میں اس میدان کے ماہرین و متخصصین ہی کسی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔ میرا معروضہ یہ ہے کہ صاحبِ اصفاد امام قاسم ساقی بھی اس قاعدۂ کلیہ سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ اب اسے متاعِ احساس کی جلوہ گری کہا جائے یا انفعال و تأثرِ شدید کی کار فرمائی کہ ان کے کلام کا ایک معتد بہٖ حصہ اسی مفروضہ بلکہ قاعدۂ کلیہ کی روشنی میں دیکھا اور پرکھا جانا چاہیے ۔اور خاص طور پر جب کہ خود شاعر کی منشاء بھی یہی ہو۔
آندھرا پردیش کے علاقۂ رائل سیما کا شہر رائے چوٹی جو ضلع کڈپہ میں واقع ہے،میرا آبائی وطن ہے اور جناب ساقی کی جائے سکونت اور وطنِ ثانی۔ ضلع کڈپہ ہے جو ایک تاریخی شہر ہے جہاں ایک اچھا ادبی ماحول پایا جاتا ہے۔اس شہر کو لکھنؤ سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ ادب کے لیے یہ سرزمین مردم خیز ثابت ہوئی۔ ماضی میں خواہ بزمِ ذکی کے وابستگان ہوں یا جدید لب و لہجہ اور ندرتِ فکر کے حامل لہجے گروپ کے شعراء جنہوں نے ادب میں اپنا مقام بنایا ہے، سبھی نے اس شہر کے ماحول کو ادبی بنایا۔ اس خوشگوار ادبی فضاء نے اور یہاں منعقد ہونے والے مشاعروں نے شعراء کی ایک بڑی تعداد پیدا کردی ۔ کڈپہ نے ساقی کو بھی متاثر کیا ہے۔ انہوں نے اپنے تنقیدی مضامین کی کتاب تاسیس میں بھی اس دیار کے شعراء و ادباء کے فکر و فن کو اپنے انتقاد کا موضوع بنایا ہے۔
کڈپہ کی شعری روایات کے تسلسل میں یہاں کے شعراء و ادباء کے فکری و فنی رویے اور اس کے ساتھ شعری ماحول کی لطافتیں اورکثافتیں سبھی شامل ہیں۔ بجا طور پر ساقی کے کلام میں ان تمام پہلوؤں کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ویسے جن حالات اور جس ماحول سے دوچار ہو کر انہوں نے اپنے احساسات کو شعر کی زبان دی ہے،اس طرح کے حالات، ماحول اور اس نوع کے سابقے اور رویے گویا عام ہیں۔ اور یہیں سے ان کے ذاتی تجربات و مشاہدات عموم اور تعمیم حاصل کر لیتے ہیں۔ہر وہ فنکار جو اپنے حقیقی اور مزعومہ کمالات کے باوجود ناقدری کاشکار ہوتا ہے اور اپنی دانست میں اپنے عہد اور ماحول سے شاکی رہتا ہے، بلکہ شکایات کے دفتر رکھتا ہے، وہی ساقی کے کلام کامخاطب، متکلم اور سامع ہے بلکہ خود موضوع بھی ہے۔احساسِ ہمہ دانی ، ادعائے جہل اور تحقیر و استہزاء کا مزاج عام ہے، یہ کسی فرد ، کسی فن،کسی زبان، کسی مقام اورکسی زمانے کے ساتھ نہ تو خاص ہے اور ہی کسی کے ساتھ مخصوص کیا جا سکتاہے۔اور یہ سب جہاں ہوگا ، وہا ں ساقی کے کلام کی معنویت بھی بڑھ جائے گی۔
ساقی کے ہاں فنکارانہ چابکدستی کے ساتھ طنز کی زیریں لہر بھی خندۂ زیرلب کی طرح موجزن نظر آتی ہے۔ وہ اپنی نظموں میں ایک ایسی سطح اختیار کرتے ہیں کہ جس کی تہہ تک پہنچنے اور مدعا کو پانے کے لیے غور و فکر اور دقتِ نظر سے کام لینا پڑتا ہے۔ ہر چند کہ یہ شعری رویہ نیا نہیں ہے۔ شعرائے کڈپہ کے ہاں اس نوع کے فکری و فنی تجربات کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ساقی کے ہاں بہت سی ایسی نظمیں ہیں جن میں اشارات و علامات کے ذریعے تعبیر کو نئی سمت دی گئی ہے۔ وہ ادنیٰ سا توقف اور تأمل جسے ترسیل اور ابلاغ کے ایک پُل کی حیثیت حاصل ہے، اس کی تہہ اور کنہہ تک پہنچنے کا عمل ایک طرح کے حظ اورکیف سے دوچار کرتا ہے، جس کے نتیجہ میں اگر مسرت اور بصیرت حاصل ہو تو گویا فنکار کو اپنے فن کا انعام مل گیا۔گوہرِ مراد حاصل ہو گیا۔
امام قاسم ساقی کے ہاں لفظیات کی بڑی نیرنگی اور جلوہ گری پائی جاتی ہے۔ ان کے خیال میں غرابتِ لفظی ، شوکتِ الفاظ اورالفاظ کے استعمال میں نادرہ کاری اور مشکل پسندی ‘ منجملۂ شعری کمالات ہے۔ انہوں نے عمداً اجنبی اور نامانوس الفاظ کے استعمال کو اپنے کلام کی خصوصیت بنایا ہے۔ میرے خیال میں الفاظ جامد نہیں جاندار ہیں۔ ان کے استعمال میں ان کے مزاج اورآہنگ کو ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ الفاظ اپنا ایک معنیاتی سیاق رکھتے ہیں۔ان کاایک تاریخی و تہذیبی پس منظر ہوتا ہے۔ الفاظ کے مدلولات‘ اہلِ زبان کے مختلف النوع استعمالات اور ان کے متعینہ معانی و مفاہیم کے ساتھ ساتھ محلِ استعمال سے مشروط ہیں۔ الفاظ تعبیر ات کے لیے بس ایک ذریعہ اورترسیل کا وسیلہ ہیں، لیکن الفاظ ہی کو اگر اصل مقصوداوربجائے وسیلہ کے مطلوب قرار دیا جائے اور راستے کو منزل متصور کیا جائے تونہ صرف یہ کہ ترسیل کا المیہ پید ا ہو جاتا ہے بلکہ ابلاغ بھی ابہام کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ شاعر اور ادیب کا سارا سروکار الفاظ کے سرمایہ سے ہے جو اس کی فکر اور خیال کے نظام کو اظہار کا قالب عطا کرتے ہیں۔ الفاظ کے استعمال اوران کے برمحل استعمال میں تمام فنکاری پوشیدہ ہوتی ہے۔ عظیم فنکار کسی منفی لفظ کو مثبت معنی دے سکتا ہے اورکسی مثبت لفظ سے منفی پہلو کا استخراج بھی کر سکتا ہے ۔ لفظ صرف اپنے طرزِاستعمال اور محلِ استعمال سے اپنے معنی متعین کر تے ہیں۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ساقی کی چندنظمیں پیش کی جائیں تاکہ لفظیات اور فکر کے سلسلے میں ان کاشعری سرمایہ اور مطمحِ نظر واضح ہو سکے۔
’’نازِ سخن‘‘ ایک ایسی نظم ہے جس میں انہوں نے شعراء کے احساسِ تفاخر اور مزاجِ تعلّی کے پیشِ نظر اپنے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ شعراء کے تمام دعوؤں کے باوجود اگرفکر میں گہرائی ، تعمق اور کوئی فکری ا ساس نہ ہو اور فنی خصوصیات و لوازم بھی نہ پائے جاتے ہوں تو یہ تمام ادعاء باطل اور تمام دعوے بے بنیاد ہیں۔ نظم ملاحظہ فرمائیں:
’’سبھی کو اپنے سخن پہ ساقیؔ /ہے فخر اتنا کہ پوچھیئے مت/وہ سوچتے ہیں /کہ کائناتِ ادب میں اُن کا /مقام ہوگا/کہ آگے چل کر/ زمانہ اُن کی دلیل دے گا/ سخن فہمی کا دعوی اتنا برا نہیں پر /خودی کو روشن کریں گے /تب ہی/یہ بات ممکن بھی ہو سکے گی۔ ‘‘
ان کی ایک نظم ’’صِبر صبّاغ‘‘ ہے۔یوں کہتے ہیں :
’’اپنی ظرافت پہ اتر آتے ہی /ہر مستمال کے اعمال سے پرے ہوکر/غازۂ وقت پہ ہر گاہ بکھر جاتا ہے / کسی لُوفی کی طرح سرِ بازار نظر آتا ہے / سانس کے زینہ میں آتش بن کر /کبھی الجھتا ہے کبھی دب جاتا ہے /جسم کو سُہد کا پیکر بھی عطا کرتا ہے /وقت کے مسند پرٹھہر کر /سب کو انگشت بر حرفِ نہادن بن کر/ اپنے انقاس کی پچکاری سے /عیب سے پاک سخنور کو بھی/غارِ ژرف سے نفرت کی صلاح دیتا ہے /اور کہتا ہے کہ صَبر کا پھل میٹھا ہے /اور ہوتاہے!!!/‘‘
’’ریشگاوی ‘‘ ساقی کی ایک ایسی نظم ہے جس میں علامتوں کا خوبصورت استعمال کیا گیا ہے۔ اس نظم میں دورِ حاضر کے شعراء کی حقیقت اور شعری منظر نامہ کی تصویر پیش کرکے ادبی صورتِ حال کی عمدہ عکاسی کی گئی ہے۔ اس نظم میں طنز بھی ہے اور تمسخر بھی۔
’’بے داد غزلیں/معرب و مفرس الفاظ کی محتاج ہیں /لکیریں،زاویے،بے نقطۂ قلم /بے پیکر /در و دریچہ کھولے/اپنی طلیق نگاہوں سے/ اصطلاحی پودے تاک رہے ہیں /اپنے سخنِ سباخ کی طرف / تذکیر و تانیث کے/ الٹے بیج بوئے جا رہے ہیں /اورسب/ ریش گاوی کو زالِ کوفہ/سمجھ رہے ہیں/ ۔‘‘
’’غرور فن‘‘ کا موضوع شاعرانہ تعلّی ہے۔ شاعروں کا ایسا تعلّی آمیز رویہ جو فخر و غرورسے عبارت ہوتا ہے کہ ہر شاعر اپنے آپ کو شاعرِ اعظم سمجھتا ہے۔ اس نظم میں یہ بتایا گیا ہے کہ اکثر شعراء تعلّی کا شکار ہوجاتے ہیں۔نظم دیکھیے:
’’آئینۂ افکار سے /اک پیکرِ حُسنِ سخن / کہنے لگا … .اہلِ سخن ، اہلِ زباں/کیا ہے یہی حُسنِ بیاں /اوڑھے تعصب کی ردا /کس زعم میں ہے مبتلا/دنیا کے ہر اک فرد کو /ملتا ہے جب علم و ہنر/وہ فطرتََا /اپنے غرور و ناز کے /دشتِ حصارِ فخر کی /شیخی میں پھنس ہی جاتا ہے۔‘‘
ساقی کی نظم ’’فیصلہ‘‘ بھی اسی نوعیت کی ایک نظم ہے۔ انہوں نے اس نظم میں شاعروں کی تعلّی اور ہر شاعر کے خود کو استادِ فن سمجھنے کو اپنا موضوع بنایا ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ وقت فیصلہ سنائے گا۔نظم ’’ فیصلہ ‘‘ملاحظہ کیجیے:
’’اشہبِ افکا ر کی رو میں/ برق رفتاری کے ساتھ/مبتدی سے منتہی تک/سب کے سب اہلِ سخن/ کمر باندھے ہوئے/ استادِ فن ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں/سارے دعوے، بے دلیل /وقت ہی پہنائے گا سب کو نکیل/وقت ہی یہ فیصلہ کر پائے گا /کس سخن داں کی رسائی /ہے کہاں تک!؟/۔‘‘
طنزو تعریض اور تمسخر اور استہزاء چند افراد کا خاص مشغلہ ہوتا ہے۔ انہیں عیب جوئی اوردشنام طرازی سے فرصت ہی نہیں ملتی۔ سماج میں ایسے افراد اور ایسے رویہ عام ہیں ۔ ساقی کے خیال میں چند شعراء ایسے بھی ہوتے ہیں‘ جوایسے اوصاف سے متصف اور غیر صحت مند رجحانات کے حامل ہوتے ہیں۔ انہوں نے ایسے لوگوں کو تختۂ مشق بنایاہے جو اپنی بے بضاعتی کے ادراک سے محروم اوراپنی جہالت سے ناواقف ہیں اوریہی وجہ ہے کہ عیب جوئی ان کا مشغلہ بن گیا ہے۔انہوں نے اپنی ایک نظم میں اسی کیفیت کو موضوع بنایا ہے ،جس کا نام ’’سخیف‘‘ ہے۔
پنجابی صنفِ سخن ماہیہ میں بھی ساقی نے اپنی خوش فکری کے جوہر دکھائے ہیں۔ ماہیہ گیت میں بھی انہوں نے ایک اپناجہان خلق کیا ہے۔ ’’چل جام اٹھا ساقی!‘‘ کا رنگ صوفیانہ ہے جس میں سادگی اور خوش اسلوبی پائی جاتی ہے۔ ’’تم جال بچھادو اب‘‘ اور ’’کیا لوگ ہیں دیوانے ‘‘ دونوں کا رنگ ملتا جلتا ہے۔
ہائیکو کے اوزان میں دوہا چھند کے استعمال اوراس کے فنی تجزیہ سے قطعِ نظر ساقی نے ہائیکو میں بھی بساط بھر اپنے فکر و تخیل کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے آمد اور آورد کے مابین مختلف موضوعات کو ہائیکوز میں بڑی خوبی کے ساتھ برتنے کی کوشش کی ہے۔اس میں وہ کہاں تک کامیاب ہوئے ؟۔ یہ فیصلہ آپ کریں۔
رباعیات میں ساقی کا لب و لہجہ اور سروکار بلکہ ان کے مضامین و موضوعات مختلف ہیں۔ رباعی کے میدان میں کامیابی اور صنفِ رباعی پر قدرت و دسترس اور اس کی فنی نزاکتوں پر گرفت‘ ایک مشکل اور دشوار گذار مرحلہ ہے۔ ’’عسجدِ سخن ‘‘کے نام سے رباعیات شاملِ کتاب ہیں ۔ عسجد کے معنی لعل و گہر کے ہیں۔ میں نے جب ان سے پوچھا کہ ’’عسجدِ سخن ‘‘ ایسی کوئی ترکیب کہیں قدماء کے ہاں مستعمل ہے؟جواب ملا:’’اگر متقدمین کے ہاں مستعمل نہیں ہے‘ تو کیا ہم استعمال نہیں کر سکتے؟ کیا نئے الفاظ استعمال کرنے کا ہمیں حق نہیں ہے؟۔ ‘‘ اسی طرح ایک لفظ ’’انقاس ‘‘ ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کیا یہ انفاس ہے؟َ کہا:’’نہیں‘‘۔ میں نے پوچھا’’ اردو لغت میں ملے گا؟۔‘‘ کہا:’’ نہیں ملے گا ‘‘ میں نے کہا۔’’کوئی استعمال یا کوئی سند؟۔‘‘ جواب ملا کہ ’’یہ لفظ عام طور پر لغات میں نہیں ملے گا۔‘‘! میں نے کہا’’اچھا!کیا کسی نے اس لفظ کا استعمال کیا ہے؟۔‘‘ کہا، ’’بس میرے کلام سے شروعات۔ ۔۔۔!!‘‘
ان سے میری اس گفتگو کے بعدمجھے بیساختہ ڈاکٹر ساغرؔ جیّدی مرحوم یاد آئے ، جن کا ایک دوہا ہے:
ذہن کے گملے میں اُگا ، انجانے الفاظ
معنی و مطلب آپ ہی، تیرا کریں گے لحاظ
پھرمیرے ذہن میں عرفانؔ صدیقی کا یہ شعر میں گونجنے لگا۔
آؤ! اُن پر سخن آباد کا دَر کھولتے ہیں !
لفظ مر جاتے ہیں فرہنگ میں رہتے ہوئے بھی
لیکن اس کے ساتھ ہی یہ خیال بھی آیا کہ سخن آباد کی باب کشائی اور اس میں تصرف وتبدل کے لیے اس کی حکمرانی اور اس کے باب الداخلہ پر اختیار ہونا چاہیے ۔اوریہ اختیار و تملک اسی کو ملتا ہے جو اس شہرِ سخن کا رمز شناس ہو۔ سخن آباد پر حکمرانی سب کے مقدر میں کہاں؟۔ اس کے لیے زباندانی کی نزاکتیں، لطافتیں،نیرنگیاں، رعنائیاں،گہرائیاں معلوم ہونی چاہیئیں۔ اہلِ زبان کے استعمالات سے گہری واقفیت اور اساتذۂ سخن کے دواوین کا عمیق مطالعہ ضروری ہے۔ سخن آباد !! اس کے لیے تو الفاظ کا مزاج شناس ہوناپڑتا ہے ۔الفاظ کے رنگ و آہنگ سے شناسائی کے ساتھ ساتھ فرہنگ پر بھی دقیق نظر ہونی چاہیے۔ اس پر مستزاد تخلیقیت و خلاقانہ استعمال۔ معاف کیجیے کہ یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔
بہر حال عسجدِ سخن میں شامل رباعیات آپ کے سامنے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اہلِ نظر ان کی رباعیات کو قابلِ التفات سمجھیں گے۔ میں مناسب سمجھتا ہوں کہ یہاں ان کی تین رباعیاں درج کروں جو متحدالخیال ہونے کے باوجود ان کے شعری رویہ اور لفظیات کے بارے میں ان کی روش کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔کہتے ہیں کہ اشعار میں لفظوں کا تماشا دیکھوں۔اور لفظوں میں معانی کو پگھلتا دیکھوں۔
اشعار میں لفظوں کا تماشا دیکھوں!
لفظوں میں معانی کو پگھلتا دیکھوں!
اجمال بھی ہو ، رمز بھی ایما بھی ہو
فنکار ہوں میں فن میں سلیقہ دیکھوں
اور یہاں یہ ملاحظہ فرمائیں کہ الفاظ کو معنی کی رداء پہنائی گئی ہے:
افسردہ خیالوں کو جِلا دی میں نے
الفاظ کو معنی کی ردا دی میں نے
فنکار ہوں میں اور یہی فن ہے مرا
اظہار کو تہذیب سکھا دی میں نے
اور اس رباعی میں انہیں اصناف میں ا لفاظ اور ا لفاظ میں معنی کا دھندلکا نظر آرہا ہے۔ کہتے ہیں:
اصناف میں لفظوں کا تماشا دیکھوں!؟
اشعار میں معنی کا دھندلکا دیکھوں!
یہ کیسا ہے فن؟ کیسا ہنر ہے؟ لوگو!
فنکار کے اظہار کو کچّا دیکھوں!!
ساقی نے اصفاد میں متفرقات کے نام سے چند نظموں کو شامل کیا ہے۔ جس میں پانی سے خطاب، وطن سے خطاب کے علاوہ الوداعی نظم بھی شامل ہے۔اس ذیل میں اردو زبان پر چند دوہے بھی ہیں اور ایک منظوم خط بھی ہے جو گرگٹ گورکھپوری کے نام لکھا گیا ہے۔ اردو میں منظوم خطوط کی ایک طویل تاریخ ہے۔ متعدد شعراء نے منظوم خطوط لکھے ہیں۔ساقی ؔ کے لیے یہ ایک انکشاف تھا کہ اس معاملے میں قدماء سبقت حاصل کر چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی دانست میں اپنی سی اولین کوشش کی ہے۔ اس میں انہیں کتنی کامیابی ملی، مطالعہ کے بعد آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔
فن سے فنکار تک رسائی آسان سہی ، لیکن میں نے ساقی کے معاملے میں فنکار سے فن تک کا سفر کیا ہے۔ فنکار کی شخصیت جب آئینہ ہو اور فنکار کی علمی استعداد اور فکری آفاق نظر میں ہوں،اس کے حالات اور ماحول سے قدرے واقفیت حاصل ہو تومیری دانست میں یہی مناسب بھی ہوتا ہے کہ فنکار کے ذریعے اس کے فن کودیکھا جائے۔ ساقی کا اصفاد میرے سامنے ہے جسے میں نے بالالتزام دیکھ لیا ہے اوراب آپ کی باری ہے ۔ کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی نگاہِ قدر شناس اس کے خوب و زشت ، حسن و قبح اور محاسن و معائب کا ادراک کرے گی اور کتاب پر آپ کی اپنی رائے بھی اہمیت کی حامل ہوگی۔شکریہ!
——
Dr.Vasi Bakhtiary

Imam Qasim Saqi

Share
Share
Share