قسط ۔ 11
اردو کےادیب اورنثرنگار
مولوی عبد الحق – کلیم الدین احمد
پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
اردو کے ادیب اور نثر نگار ۔دسویں قسط کے لیے کلک کریں
مولوی عبد الحق (۱۸۷۰ء۔۱۳۸۱ھ)
اردو کے سلسلہ میں مولوی عبد الحق نے جو گرانقدر خدمات انجام دی ہیں وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ، انھیں بابائے اردو کا خطاب دیا گیا ہے ، جوش ملیح آبادی انھیں دیوانہ اردو کہا کرتے تھے ، انھوں نے اپنی زندگی اردو زبان وادب کے لئے وقف کردی تھی ، ان کی پیدائش ہاپور کے قریب سرادھا نامی گاؤں میں ضلع میرٹھ اترپردیش میں ہوئی تھی ، پھر وہ پنجاب چلے آئے۔
پھر وہ حصول علم کے لئے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ گئے ، سرسید ، حالی ، شبلی جیسے اکابر قوم کی تربیت میں ان کی شخصیت پروان چڑھی ، پھر وہ حیدرآباد آئے اور ایک رسالہ ’’افسر‘‘ کی ادارت ان کے سپرد کی گئی ، اور مدرسہ آصفیہ میں وہ مدرس ہوگئے ، اردو لغت کی تیاری کے لئے ماہانہ ایک ہزار روپیہ انھیں ملتا رہا ، جو انیس سو تیس(۱۹۳۰) سے انیس سو چالیس (۱۹۴۰)تک جاری رہا ، جامعہ عثمانیہ میں دار الترجمہ کا قیام عمل میں آیا تو وہ اس کے ناظم مقرر کئے گئے ، اور جب اورنگ آباد کالج قائم ہوا تو اس کے پرنسپل مقرر ہوئے ، اور جامعہ عثمانیہ میں اردو کے پروفیسر بھی رہے ، اور انجمن ترقی اردو کا دفتر جب دہلی منتقل ہوگیا تو وہ بھی دہلی چلے گئے ، ۱۹۴۸ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ان کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند دی ، ۱۹۴۸ء میں وہ پاکستان چلے گئے اور وہاں انجمن ترقی اردو پاکستان کی بناء ڈالی اور اردو کالج بھی قائم کیا ۔
بابائے اردو مولوی عبد الحق نے بعض اہم تذکرے مرتب کئے اور ان پر مفید مقدمات سپرد قلم کئے ، ’’نکات الشعراء‘‘، ’’تذکرہ ریختہ گویان‘‘، ’’مخزن نکات‘‘، ’’چمنستان‘‘، ’’شعراء‘‘، ’’عقد ثریا‘‘ ،’’تذکرہء ہندی‘‘، ’’ریاض الفصحاء‘‘ ،’’مخزن الشعراء‘‘ کو انھوں نے اردو داں طبقہ سے روشناس کروایا کہ ان کی تاریخی اور ادبی اہمیت واضح ہوگئی ، عبد الحق کا شمار ان محققین میں ہوتا ہے جنہوں نے دکنی ادب کے سرمایہ میں اپنی تحقیق سے قابل قد راضافے کئے ، انھوں نے وجہی کی ’’سب رس‘‘ کو مرتب کرکے اس کے مقدمہ میں اس گرانقدر ادبی تخلیق کا اسلوبیاتی مطالعہ بھی کیا ، اور اس کے ماخذوں سے بھی بحث کی ، عبد الحق نے پہلی بار اردو دنیا کو نثر کے قدیم نمونے کی طرف متوجہ کیا ، انشاء کی کہانی ’’ایرانی کیتلی‘‘ ادب میں ایک اہم اضافہ ہے ، عبد الحق نے ایشیاٹک سوسائٹی کے قدیم کتب کے ذخیرہ سے اسے حاصل کیا تھا ، ۱۹۳۳ء میں عبد الحق نے ایک اہم کتاب لکھی جس کا نام تھا ’’اردو کی نشو ونما میں صوفیائے کرام کا کام‘‘ ، ان کی ایک اور کتاب ’’نصرتی‘‘ ہے ، نصرتی دکن کا نہایت ممتاز اور قدآور شاعر تھا ، مصنف نے اپنی کتاب میں شاعر کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔
کلیم الدین احمد (۱۹۰۸۔۱۹۸۳ء)
اردو ادب میں کلیم الدین احمد کو مغربی ادب و تنقید کے وکیل کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے ، مغربی ادب اور تنقید ان کے نزدیک معیار ہے ، اور جو ادب یا تنقید اس معیارپر پوری نہاترتی ہو وہ پست ، حقیر اور کم مایہ ہے ، کلیم الدین احمد کی ابتدائی تعلیم پٹنہ میں ہوئی اور پٹنہ یونیورسٹی سے انھوں نے ۱۹۳۰ میں ایم اے کی ڈگری لی ، پھر وہ انگلستان گئے اور کیمبرج یونیورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کی ، وطن واپس آئے تو پٹنہ یونیورسٹی میں پروفیسر بنادئے گئے ، اور بعد میں شعبہء انگریزی کے صدر بھی مقرر ہوئے ، پھر پٹنہ کالج کے پرنسپل ہوئے اور بھاگل پور یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے ، حکومت نے انھیں پدم شری کے خطاب سے بھی نوازا ۔
کلیم الدین احمد نے انگریزی ادب کے اصولوں کو جوں کا توں اردو شعراء اور ادیبوں پر منطبق کرنے کی کوشش کی ، اور یہ حقیقت فراموش کردی کہ ہر ملک کے ادب کا ایک مخصوص مزاج اور اس کی تہذیبی اور ادبی روایت ہوتی ہے ، تنقید کے موضوع پر ان کی کتاب ’’اردو شاعری پر ایک نظر‘‘ ایک دھماکہ کی حیثیت رکھتی ہے ،ان کی نظر میں اردو شاعری اور اردو ادب بے حیثیت اور بے قیمت ہے ، قصیدہ کو انھوں نے تملق اور خوشامد کا نمونہ قرار دیا ، مثنوی کو معقولیت سے بعید کہا ، غزل کو نیم وحشی صنف سخن کہا ، اور اردو تنقید کے بارے میں کہا کہ اس کا وجود فرضی ہے ، یہ اقلیدس کا حسابی نقطہ ہے یا معشوق کی موہوم کمر ۔ کلیم الدین احمد نے ترقی پسند رجحانات پر بھی تنقید کی ہے اور یہ لکھا ہے کہ ’’ادب کو سماج کا پروردہ قرار دینا بے وقوفی ہے ‘‘ اور ترقی پسند ادب پر انھوں نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ ’’ادب کا تعلق دماغ سے ہے پیٹ سے نہیں ہے ‘‘ ، شاعری کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’تمام علوم وفنون کی طرح یہ بھی دماغی تحریکات کا نتیجہ ہے ‘‘ ، کلیم الدین احمد کا مطالعہ وسیع ہے اور ان کا تنقیدی شعور گہرا ہے لیکن ان کا لب ولہجہ بہت درشت ہے ، ان کا انداز تنقید منفی ہے ، چنانچہ ان کا نظریہ یہ ہے کہ اردو کے شعراء میں تنظیم و ترتیب کا سلیقہ ناپید ہے ، وہ قومی اور ملی شاعری کو شاعری کے رتبہ سے کم تر تصور کرتے ہیں ، انھوں نے اردو کے ادباء اور شعراء اور اہل نقد کے بارے میں جو تبصرے کئے ہیں وہ بہت منفی نوعیت کے ہیں اور جارحانہ ہیں، جیسے آل احمد سرور کے بارے میں انھوں نے یہ لکھا کہ ’’وہ دسترخوان کی مکھی ہیں شہد کی مکھی نہیں ‘‘ ، فراق گورکھپوری کی تنقیدوں کے بارے میں لکھا کہ’’ وہ پہلے شاعر تھے اور اب نقاد بھی ہیں اور نئے روپ میں نظر آتے ہیں ، عشق کرنا سکھاتے ہیں ، شاید وہ دلال ہیں‘‘ احتشام حسین جیسے نقاد کے بارے میں وہ یوں رقم طراز ہیں ’’جب احتشام حسین اس طرز میں لکھتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ہاتھی خوش فعلیاں کررہا ہے ‘‘ ، کلیم الدین احمد ہر شاعر کے لئے یہ ضروری تصور کرتے ہیں کہ وہ مغربی ادب کا مطالعہ کرے اور جو فن کار مغرب سے استفادہ نہیں کرتا اس کی تخلیق کو وہ کم مایہ ، کم عیار ، سبک ، ناقص اور سطحی قرار دیتے ہیں ، نظیر اکبر آبادی کے بارے میں وہ رقم طراز ہیں کہ وہ ’’مغربی ادب سے واقف نہ ہوسکے ، اسی لئے ان کا مطمح نظر بلند نہ تھا‘‘ ، انھوں نے ترقی پسند ادب پر بھی بہت زیادہ تنقیدیں کیں ، اور ان کی تنقیدوں کی وجہ سے ترقی پسندوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے پڑے ، ان کا دعوی یہ ہے کہ سنسنی خیزی ان کی سرشت میں نہیں ہے اور انھوں نے جو کچھ لکھا ہے سوچ سمجھ کرکے لکھا ہے ۔
آل احمد سرور بھی کلیم الدین احمد کی خیال آفریں تنقید کو پسند کرتے ہیں اور دقت نظر کے قائل ہیں لیکن ان کا اعتراض یہ ہے کہ ’’ان کی تنقید اور بلند ہوتی اگر وہ اپنے قدیم سرمایہ سے اس قدر بیزار نہ ہوتے ‘‘ موجودہ شکل میں کلیم الدین احمد کی تنقید گلستاں میں کانٹوں کی تلاش بن گئی ہے ۔