حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ – – – – ڈاکٹرمحی الدین حبیبی

Share


حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ

ڈاکٹرمحی الدین حبیبی
حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 08978155985

زندگی کے دائمی کرب، اخلاقی بے راہ روی اور دنیا کے بے ہنگم ماحول میں اگر ہمیں قلبی و روحانی سکون میسر آسکتا ہے تو وہ صرف صوفیائے کرام کی سیرت اور ان کی پاکیزہ تعلیمات ہیں، جو ہدایت کا سرچشمہ، علم و عرفان کا خزینہ اور حقیقی معنوں میں انسانی اخلاق کا نمونہ ہیں۔ دنیائے تصوف میں حضرت خواجہ گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ کا نام محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ عارفوں کے سلطان اور اولیاء کے امام ہیں۔ آپ کا تعلق سادات خاندان سے ہے اور آپ حضرت امام زین العابدین کی اولاد میں سے ہیں۔

حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز رحمۃ اللہ علیہ ۴ رجب ۷۲۱ھ ؁ کے مطابق ۱۳۲۱ء ؁ میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام سید محمد حسینی تھا۔ آپ کے القاب سید گیسودراز، بندہ نواز، شہباز، بلند پرواز ، محرم راز و نیاز تھے۔ جب محمد بن تغلق نے اپنا دارالخلافہ دولت آباد منتقل کیا تو خواجہ بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنے والدین کے ساتھ دولت آباد تشریف لائے ۱۳۵۶ھ ؁ میں حضرت پیر نصیر الدین رحمۃ اللہ علیہ سے خلافت لی اور ۱۴۰۰ء ؁ میں فیروز شاہ بہمنی کی دعوت پر گلبرگہ تشریف لے آئے۔ آپ نے شہر گلبرگہ میں درس و تدریس، تصنیف و تالیف کی خدمات میں ۲۲ سال گزار دیئے اور ۱۶ ذیقعدہ ۸۲۵ کے مطابق یکم نومبر ۱۴۲۲ء ؁میں وصال فرمایا۔ سلطان احمد بہمنی نے حضرت خواجہ کے مزار مبارک پر ایک شاندار اور بلند گنبد تعمیر کروایا، اس قدر بلند گنبد ہندوستان کے کسی بزرگ کی مزار پر تعمیر نہ ہوا۔ گنبد کی یہ شاندار تعمیر حضرت خواجہ سے سلطان احمد کی انتہائی عقیدت اور محبت کا ثبوت ہے۔ گنبد اور دیواروں کے اندرونی حصوں کو طلائی نقش و نگار سے آراستہ کیا گیا ہے اور دیواروں پر طلائی حصوں میں قرآن پاک کی آیتیں اور اسمائے حسنیٰ تحریر کروائے گئے ہیں۔
حضرت خواجہ بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ کا عرس ۶۰۰ برس سے منایا جارہا ہے۔ قرآن خوانی، فاتحہ خوانی، مواعظ کا سلسلہ ، مجالس سماع ، رسمِ صندل مالی ، فاتحہ بائیس خواجگان ، علمی مذاکرہ (سمینار) وغیرہ اس عرس شریف کے نظام العمل میں شامل ہیں۔ عرس شریف کے دوران زائرین بلالحاظ مذہب و ملت لاکھوں کی تعداد میں عقیدت و احترام کے ساتھ شریک ہوتے ہیں اور بارگاہِ بندہ نواز کے فیضان سے مستفید ہوکر لوٹتے ہیں۔ عرس حضرت خواجہ بندہ نواز سے منسلک ایک کل ہند صنعتی نمائش کا روایتی رواج بھی ہے۔
آپ نہ صرف باکمال صوفی تھے، بلکہ جید عالم بھی تھے۔ علومِ قرآن و حدیث و وفقہ اور کلامِ تصوف میں دسترس رکھتے تھے۔ آپ کو عربی، فارسی، ہندی اور سنسکرت کے علاوہ کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ آپ کی تعلیمات میں پیر و مرید کی بہت اہمیت ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’مرید اپنے پیر کے دل میں خدا کا نظارہ کرتا ہے اور پیر اپنے مرید کے دل میں خود کو دیکھتا ہے۔‘‘ خواجگانِ چشت کا طریقہ رہا کہ محبتِ الٰہی کو ماسوا پر غالب کرتے ہیں۔ حضرت خواجہ بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مسلک تھا۔ حضرت خواجہ صاحب نے اسماء الاسرار میں انسان کے عالمِ وجود میں آنے کا اصل مقصد خدا کی محبت و معرفت کے صلہ کا حصول قرار دیا۔ خواجگانِ چشت کے اہل حصول محبت کے ترین طریقے رہے ہیں: (۱) ذکر (۲) مراقبہ (۳) رابطہ یا محبت۔ شیخ حضرت بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان ہی طریقوں سے سالکین کی تربیت کی ہے۔ آپ نے بے شمار کتابیں تصنیف کیں۔ روایتوں کے مطابق آپ کی تصانیف کی تعداد ۱۰۵ تا ۱۲۵ بتائی گئی ہے۔ آپ نے اصلاحِ معاشرہ کے لیے راگ اور راگنیوں کے علاوہ لوریاں اور چکی ناموں کی صورت میں بھی عشق حقیقی اور عرفان کے مسائل پیش کیے ہیں۔ یہ لوریاں اور چکی نامے ہمارا قیمتی تہذیبی اثاثہ ہیں، جو آج بھی سینہ بہ سینہ منتقل ہورہا ہے۔ یوں تو حضرت بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ کی سبھی کتابیں اہمیت کی حامل ہیں، لیکن ’’آداب المریدین‘‘ جس کا اردو ترجمہ ’’خاتمہ‘‘ کے نام سے کیا گیا ہے، اس کتاب کا شمار تصوف کی انتہائی مقبول اور مفید کتابوں میں ہوتا ہے۔ یہ کتاب سالکین کے لیے ایک دستورِ عمل کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس کتاب میں تقویٰ و طہارت ، فرائض و نوافل ، صوم و صلوٰۃ اور آدابِ زندگی کے تمام امور پر ہدایات کی گئی ہیں۔
—–
Dr.Mohiuddin Habibi

Share
Share
Share