ایک مخلص انسان ۔ ڈاکٹر مظفر شہ میری
ڈاکٹر بی محمد داؤد محسنؔ
فون : 09449202211
( یہ تعارفی خاکہ 2013 ء میں لکھا گیا جب آپ اردو اسوسئیشن داونگرے میں’’جشن بہاراں ‘‘کی تقریب میں بطور مہمانِ خصوصی مدعو تھے۔آپ کی آمد پر تقریب میں اس خاکہ کو پڑھا گیا ۔ چوں کہ پروفیسر شہ میری کا تقرر بحیثیت بانئی وائس چانسلر ڈاکٹر عبدالحق اردو یونیورسٹی کرنول(آندھرا) عمل میں آیا ہے اس مناسبت سے یہ تعارفی خاکہ جہان اردو پر پیش خدمت ہے)
زندگی جہد مدام ہے۔زندگی میں وہی شخص کامیاب و کامران ہوتا ہے جو مسلسل سعی کرتا ہے اور خوب سے خوب تر کی جستجو میں رہتا ہے۔جس کے دل میں خوف خدا اور عشق رسول ؐ پنہاں رہتا ہے۔اس کی نظر کسی ایک چیز اور کسی ایک مقام پر نہیں ٹہرتی بلکہ وہ شاہینی نظراور جگر رکھتا ہے او ر ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں کا تصور کرتاہے۔ اس کے علاوہ تو رہ نورد شوق ہے منزل نہ کر قبول کی مانند کسی ایک منزل کو اپنا جائے مسکن نہیں بناتا بلکہ سعیٗ پیہم میں لگا رہتا ہے اس کی نظر اونچی،اس کے حوصلے بلند، اس کا عزم جواں، اس کا مقصد عظیم اور جذبہ نیک اور نیت پاک ہوتی ہے۔ایسی ہستی پر خدائے رب العزت بھی نہایت مہربان ہوتا ہے اور اس پر رحم و کرم کی بارشیں برساتا ہے۔جس کی بدولت وہ عجز و انکسار کا پیکر بن جاتا ہے ۔بنی نوع انساں کی بھلائی اور فلاح و بہبودی کی خاطر جد و جہد کرتا ہے اور خدمت خلق میں جٹ جاتا ہے۔پیغام خدا وندی اور تعلیمات رسول ؐ پر خود بھی عمل پیرا ہوتا ہے اور اس کو عام کرنے اور انسانیت کا درس دینے میں ہمہ تن مصروف رہتا ہے اور اسی کو مقصد حیات بنا لیتا ہے جس کا دل عشق رسول ؐمیں دھڑکتا ہے اور قلم عظمت ربوبیت اور عظمت نبوت بیان کرنے کے لئے بیتاب رہتا ہے۔ ایک ایسی ہی شخصیت آج ہمارے درمیان موجود ہے جسے اردو دنیا ڈاکٹرمظفر شہ میری کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔جو ان دنوں حید آباد یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں بحیثیت پروفیسربر سر روز گار ہیں۔مظفر شہ میری میں عاجزی و انکساری ، خلوص و وفا،پیار ومحبت،جذبہ ٗایثار و قربانی اور وفا شعاری جیسی صفات آپ کے اندر پائی جاتی ہیں۔جو ایک بے لوث خدمت گار اور ایک اچھے انسان میں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہیں۔
مظفر شہ میری کا اصلی نام مظفر علی ۔کے ہے ۔موصوف ادبی و علمی دنیا میں مظفر شہ میری کے نام سے مشہور و معروف ہیں۔آپ کی پیدائش ۳۰ اپریل ۱۹۵۳ ء میں صوبہ تمل ناڈو کے صدر مقام چنئی میں ہوئی۔آپ کے والد کا نام حاجی عثمان علی تھا جوریاست آندھرا پردیس ضلع اننت پور کے شہر کدری کے رہنے والے تھے ۔ والدہ کا نام محبوب بی ہے جو چنئی کی ہیں۔اس طرح آپ کا تعلق بیک وقت تمل ناڈو اور آندھرا پردیس سے ہے۔آپ کی ابتدائی تعلیم اپنے ننھیال چنئی میں ہوئی۔ اس کے بعد آپ کدری چلے آئے جہاں پر ایک مدرسہ میں عربی اور اردو کی تعلیم پاتے رہے اور اس کے بعد مڈل اسکول سے میٹرک اور بارھویں تک کی تعلیم حاصل کی۔ سری وینکٹیشورا یونیورسٹی تروپتی سے 1969ء سے 1972 ء تک بی اے کیا اور 1972ء تا 1974ء اردو میں یم۔اے کی ڈگری حاصل کی ۔ اس کے بعد تین سالوں تک بے روز گاری کا سامنا کرتے رہے جس کا اثر
گرد نم ناک ہے اب تک بیابانوں کی
کے مصداق کئی سالوں تک رہا۔اس کے بعد آپ تقریباً دو ڈھائی ماہ تک آمبور میں بحیثیت ٹیوٹر کام کرتے رہے ۔1977ء میں اسلامیہ کالج وانمباڑی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدہ پر فائز ہوئے جہاں آپ تقریباً پندرہ سال تک اپنی خدمات انجام دیتے رہے اسی اثنا میں آپ کو گورنمنٹ آرٹس کالج کرشنا گری کو ڈیپیوٹ کیا گیا جہاں پر آپ پانچ سال مستقل طور پر اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدہ پر مامور رہے۔1989ء میں پروفیسر نجم الہدیٰ کی نگرانی میں تحقیقی مقالہ بعنوان ’’ اردو غزل کااستعاراتی نظام ‘‘پیش کیا جس پر آپ کو مدراس یونیورسٹی سے پی ہیچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی۔پانچ سال بعد گورنمنٹ کالج کرشنا گری سے وانمباڑی کوآپ کی واپسی ہوئی۔ 1992ء میں آپ کا تقرر وینکٹیشورا یونیورسٹی تروپتی کے شعبہ ٗ اردو میں لکچرر کی حیثیت سے ہوا۔وہیں پر آپ ریڈر بنے اور صدر شعبہٗ کے عہدہ پر بھی فائز رہے۔نومبر2004 ء میں آپ کا تقرر یونیورسٹی آف حیدر آباد کے شعبہ ٗ اردو میں بحیثیت ریڈر ہوا اور وہیں آپ 2008ء میں پروفیسر بنے۔ تا حال یونیورسٹی آف حیدر آباد کے شعبہٗ اردو میں پوری ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ اپنے کام میں منہمک ہیں۔
مظفر شہ میری کی علمی اور ادبی شخصیت رنگا رنگ ہے جو کئی شعبہ ہائے زندگی پر محیط ہے۔آپ ایک اچھے استادہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم محقق ،ممتاز شاعر ،منفرد نقاد، بہترین مترجم ،صاحب طرز انشا پرداز اور ایک اچھے مصنف بھی ہیں اور ایک اچھے ناظم بھی۔یہ بات مشہور ہے کہ کسی مرد کی کامیابی کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن بہت سی شخصیات ایسی بھی ہیں جن کی کامیابی کے پیچھے اچھے اور قابل ترین اساتذہ کا ہاتھ ہوتا ہے اور بسا اوقات اچھے اور مخلص دوستوں کا ساتھ بھی ہوتا ہے ۔لہذا مظفر شہ میری کی شخصیت اور کردار کی تعمیر میں اچھے اور قابل ترین اساتذہ اور مخلص و بے لوث دوستوں کا ہاتھ رہا ہے۔یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں آپ کو مختلف شخصیات کا ساتھ رہا۔شاعری میں ڈاکٹر کریم عثمانی جوادونی میں لکچرر تھے اور اپنے ہم وطن تھے۔ان کے ذریعہ آپ کاا دبی سفرشروع ہوا اورآپ نے انہیں کی شاگردی میں شعر کہنا شروع کیا۔جن کی معرفت سے آپ ایک اچھے شاعر اور ایک اچھے استاد بنے۔آپ نے انہیں کی ایما ء پر بہت سی نظمیں لکھیں اورانہیں کی زیر تربیت نظامت کا ہنر سیکھا۔آپ ڈاکٹر کریم عثمانی کی شخصیت سے بہت متاثر ہیں۔آپ مشاعروں کی نظامت شاندار پیمانے پر کرتے ہیں اور آپ جس انداز سے نظامت کرتے ہیں اس سے متاثر ہوکر احباب یہ کہتے ہیں کہ ’’ آپ کی نظامت سے کریم عثمانی زندہ ہو گیا‘‘۔دوسری شخصیت نے جوآپ کو نکھارا اور سنواروہ پروفیسر احتشام احمدندوی کی ہے جنہوں نے آپ کو نثر لکھنے کی طرف مائل کیا۔آپ نے ان کی نگرانی میں ’’حفیظ جالندھری کا تنقیدی مطالعہ ‘‘ کتاب لکھی۔جس پر آپ کو 1978ء میں آندھرا پردیس اردو اکادمی کا ایوارڈ اس وقت کے وزیر اعلیٰ یم۔چینّا ریڈی کے ہاتھوں دیا گیا۔اس ضمن میں تیسری شخصیت تمل کے مشہور و معروف شاعر ڈاکٹر عبدالرحمٰن کی ہے جن کو تمل کا ملک الشعراء مانا جاتاہے۔ ڈاکٹر عبد الرحمٰن اور آپ نے مل کر علامہ اقبال ؔ اور مرزا غالبؔ کے منتخب کلام کا تمل میں ترجمہ کیا۔جس میں علامہ اقبالؔ کی نظموں کو کتا بی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ آپ نے ڈاکٹر عبد الرحمٰن کی تمل کتاب ’’پال ویدی ‘‘ کااردو میں ترجمہ ’’ کہکشاں ‘‘ کے نام سے کیا ہے جو علامتی نظموں پر مشتمل ہے۔جس کی اشاعت 1994ء میں ہوئی ۔اس کتاب پر آپ کو 1996ء میں آندھرا پردیس اردو اکادمی ایوارڈ دیا گیا۔اسی کتاب پرتمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ یم کرونا ندھی نے ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کرکے 1998ء میں آپ کو اعزاز سے نوازا۔آپ کا تحقیقی مقالہ بھی 1994ء میں منظر عام پر آکر شہرت دوام حاصل کر چکاہے۔ آپ نے پہلی مرتبہ اردو غزل کے استعاراتی نظام پر منظم طور پر تحقیقی کام کیا اس سے قبل فنی نقطہ ٗ نظر سے اس پر توجہ نہیں دی گئی تھی۔بہت سے ایسے استعارات کے نام نہیں تھے۔آپ نے پہلی مرتبہ نہ صرف ان استعارات کی شناخت کی بلکہ ان کی تعریف پیش کی اور ان کاجائزہ بھی لیا ہے۔اس کے علاوہ انگریزی اور سنسکرت استعارات کے ساتھ ان کا موازنہ کرتے ہوئے ان میںآپسی فرق واضح کیااور اردو میں استعارات کے آغاز اور اس کے سفر پر روشنی ڈالی ہے۔سنسکرت اور فارسی استعارات کا اثر اردو پر کس طرح پڑااور اس کا نتیجہ کیا رہا اسے منظم طور پرپیش کرتے ہوئے سینکڑوں استعارات کوموقع و محل کے اعتبار سے یکجا کیا گیا ہے جسے اردو ادبی دنیا میں اپنا ایک منفرد مقام حاصل ہے۔
آپ ایک ممتاز شاعر بھی ہیں آپ کا ایک شعری مجموعہ ’’ پیاس ‘‘ کے نام سے منظر شہود پر آ چکا ہے۔اس کے علاوہ ’’نقش و نظر‘‘اور’’کاوش فکر‘‘ تنقیدی و تحقیقی مجموعے بھی زیور اشاعت سے آراستہ و پیراستہ ہو چکے ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے قران شریف کے استعاروں پر بھی کام کیا ہے۔جس کے کچھ حصّے مضامین کی صورت میں انگریزی میں شائع ہو چکے ہیں ۔’’قران شریف کے استعاروں کی فنّی عظمت‘‘ کے نام سے ا نشااللہ بہت جلد یہ کتاب منظر عام پر آنے والی ہے۔اس کے علاوہ آپ نے ’سخنوران ویلور،زخم زخم زندگی اور نذر جاویدکے نام سے تین کتابیں مرتب کی ہیں۔1998ء میں یوجی سی کے بپراجیکٹس بعنوان’’ اردو زبان کا سماجی و سیاسی مطالعہ اور 2006ء میں ’’دکنی لوک گیتوں کا انگریزی ترجمہ‘‘ پر کام کیا ہے۔
پروفیسر شہ میری علمی و ادبی سرگرمیاں انجام دینے کے ساتھ ساتھ اکاڈمک کار گذاریوں میں بھی ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔آپ کی سر پرستی میں اب تک اٹھارہ افراد نے پی ہیچ ڈی اور چالیس نے یم۔فل کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔آپ نے اپنی یونیورسٹی میں 2008ء میں’’ اردو انشائیہ۔روایت اور امکانات ‘‘پربین الاقوامی سمینار منعقد کیا جس میں پاکستان سے مندوبین کو مدعو کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ 2010ء میں بین الاقوامی سمیناربعنوان Ralph Russel and his contribution to Urdu language and literature کا انعقاد کیا گیا جس میں لندن سے Prof.David Mathews،Marion Maltonoاور ڈاکٹر قاسم دلوی نے شرکت کیا تھا۔آپ نے چھ بین الاقوامی کانفرنسوں اور تقریباً چالیس نیشنل سمیناروں میں شرکت کی اور اپنے مقالہ جات پیش کئے ہیں۔آپ نے 2004ء میں ایران میں عالمی کانفرنس میں شرکت کی جس میں 56 ممالک کے افسران اور دانشوران نے شرکت کی تھی ۔ہندوستان سے 5یا 6افراد اس کانفرنس میں شریک رہے جن میں پروفیسر معین الدین جینا بڑے بھی تھے۔اس کانفرنس میں آپ نے ’’ قران شریف میں آزادی ٗ فکر کا تصور‘‘ پر مقالہ پیش کیا ۔ آپ2009ء میں لندن میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں بھی شرکت کی ۔اسی سال یعنی 2009ء ،میں آپ کو آندھرا پردیس اردو اکادمی کی جانب سے وزیر اعلیٰ وائی ۔یس۔ راج شیکھر ریڈی کے ہاتھوں Life time achievement Award ملا۔اسی سال آپ کوحج کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ 2007ء میں آپ کو ای ۔ٹی۔وی اردو پر ’’آؤ اردو سیکھیں‘‘ پروگرام کے لئے منتخب کیا گیا جس کی اسکرپٹ کی ذمہ داری بھی آپ کو دی گئی اور اسکرین پر Present کرنے کا کام بھی سونپاگیا ۔یہ سیریل مسلسل تین سالوں تک کل 76 قسطوں میں ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔
پروفیسر شہ میری ایک متحرک اور فعال شخصیت ہیں اورہمیشہ مصروف رہتے ہیں مگر خاموش طبع واقع ہوئے ہیں۔آپ نہایت سادہ مزاج اور تنہا پسند ہیں ۔بڑوں سے عقیدت اور چھوٹوں سے محبت اور شفقت رکھتے ہیں ۔جب بھی ملتے ہیں پورے خلوص کے ساتھ ملتے ہیں۔ ہماری پہلی ملاقات گلبرگہ شہر میں کرناٹک اردو اکادمی کے سہ روزہ ورکشاپ میں ہوئی ۔اس وقت مجھے آپ سے ملنے اور تبادلہٗ خیال کرنے کا موقع فراہم ہوا۔اس کے بعد دوسری ملاقات چنئی میں ایک نیشنل سمینار میں ہوئی تھی۔میں نے ہمیشہ آپ کو خاموش طبع پایا اور تنہا دیکھا یہاں تک کہ خواجہ بندہ نواز ؒ کی بارگاہ میں زیارت کے لئے راستے کے کنارے گردن جھکائے ، گلے میں ایک تھیلی لٹکائے تنہا آتے اور جاتے ہوئے دیکھا۔آپ ایک پھل دار درخت کی مانند ہیں جو بیک وقت پھل بھی دیتا ہے اور سایہ بھی۔اس ٹھنڈ ی ہوا کے جھونکے میں ضرورت مند احباب پناہ گزیں ہوتے ہیں اور شاخ گل میں باد صبح گاہی کی نمی محسوس کرتے ہیں۔آپ ایک کریم النفس اور فیاض طبیعت کے مالک ہیں اور خدا ترس انسان ہیں۔میں اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ آپ ہمیشہ اسی طرح تندرست اور توانا رہیں اور خدمت خلق کرتے رہیں۔آمین۔ثم آمین
—–
پروفیسر مظفر علی شہ میری کا ایک اور تعارفی مضمون کے لیے کلک کریں
—–
ڈاکٹر بی محمد داؤد محسنؔ
یم۔اے،پی ہیچ۔ڈی
پرنسپال
یس۔کے ۔اے ۔ہیچ ملّت کالج
داونگرے۔577001 (کرناٹک۔انڈیا)
فون : 09449202211
۲ thoughts on “ایک مخلص انسان ۔ ڈاکٹر مظفر شہ میری – – – – ڈاکٹر بی محمد داؤد محسنؔ”
,
داود محسن صاحب کا پروفیسر مظفر شہ میری پر لکھا گےا مظمون بہت ہی عمدہ ہے
لطیف پیرائے میں بیان کیا گیا یہ خاکہ, تعارفی خاکہ کا اعلی نمونہ ہے
اسدﷲشریف میسور