کہانی : یک سجدے کے نہ کرنے میں – – – – گلشن منصور

Share


کہانی
یک سجدے کے نہ کرنے میں

گلشن منصور
ایم اے ۔ بی ایڈ

صبح کو نو بجے پرا نی حویلی پہنچے ۔گھر میں ماتم چھایا تھا ۔معلوم ہواکہ ابو ہمیشہ کے لئے سو چکے ہیں ۔اور اب وہ کبھی کسی کو پریشان نہیں کریں گے ۔ابو تو ہمیشہ کے لئے سو گئے ۔لیکن اس رات کے بعد سلیم کبھی سکون سے نہ سو سکا ۔جب جب ماں کا چہرہ دیکھتا زمین میں گڑ جانے کا دل چاہتا ۔

سلیم کی حالت دن بہ دن بگڑتی جا رہی تھی ۔اس کی حالت دیکھ کر اس کی بیوی عالیہ اس رات کا واقعہ یاد کر کے کانپ جاتی تھی۔آج عالیہ اپنے بیٹے اعظم کو آغوش میں لئے اس رات کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ اچانک سلیم چلا کر اٹھا ۔ اس نے اپنا سر دیوار سے ٹکرانا شروع کر دیا۔عالیہ جلدی سے اٹھی اس نے سلیم کو روکنے کی کوشش کی ۔لیکن سلیم کچھ سننے کو تیار نہیں تھا ۔عالیہ نے رحمن چاچا کو آواز دی ۔محلے کے لوگ اکٹھا ہو گئے ۔سلیم کو ہسپتال لے جایا گیا ۔عالیہ اور سلیم کی ماں بہت پریشان تھیں ۔ڈاکٹر کمال نے سلیم کی نبض چک کی ۔وہ بے ہوش پڑا تھا ۔
ڈاکٹر کمال ۔ان کے ساتھ کوئی حادثہ ہوا ہے ؟
عالیہ خاموش رہی اور ماں کے چہرے کو دیکھنے لگی ۔
ماں روتے ہوئے کانپتی ہوئی آواز میں بولی ۔ڈاکٹر صاحب میرے سلیم کو جلدی ٹھیک کردو۔
ڈاکٹر نے کچھ دوائیاں لکھ کر دیں ۔سلیم کو انجکشن دیا ۔سلیم نے کچھ دیر بعد آنکھیں کھولیں ۔ماں اور عالیہ کی طرف دیکھا ۔تبھی اعظم نے آوازدی ۔’’ابو‘‘سلیم نے اعظم کو حیرت سے دیکھا ۔
رحمن چاچا ۔بہو پریشان نہ ہو ۔سلیم بابا جلدی اچھے ہو جائیں گے ۔آپ لوگ آرام کر لیجئے صبح ہونے کو ہے ۔ڈاکٹر سے اجازت لے کر ابھی تھوڑی دیر میں گھر چلیں گے ۔
ڈاکٹر کمال نے سلیم کو گھر لے جانے کی اجازت دے دی ۔اور کہا سلیم کو کوئی جسمانی بیماری نہیں ہے بلکہ کوئی ذہنی پریشانی ہے ۔جو اس کو پریشان کر رہی ہے ۔سلیم کو گھر لے جایا گیا ۔کچھ وقت کے بعد سلیم کو ہوش آیا ۔
ماں ۔بیٹا تم ٹھیک تو ہو نا۔
سلیم ۔ہاں ماں میں تو بالکل ٹھیک ہوں ۔
عالیہ ۔سلیم جلدی اچھے ہو جاؤ۔
سلیم۔ آج رات کے کھانے میں کیا بنا رہی ہو ۔
عالیہ۔بریانی۔
سلیم۔ جلدی بنا لینا بہت بھوک لگی ہے ۔
عالیہ ۔تب تک آپ آرام کیجئے
سلیم اپنے کمرے میں جاکر ٹٰی ۔وی دیکھنے لگااور خبریں سنتے سنتے سو گیا ۔شام کے وقت اٹھا منھ ہاتھ دھو کر نیچے آیاتو شام کا کھانا لگ چکا تھا ۔
ماں ۔اب کیسی طبیعت ہے بیٹا ۔
سلیم ۔ٹھیک ہے ماں ۔
عالیہ۔ اعظم آجاؤ بیٹا کھانا تیار ہے ۔سب لوگ کھانا کھا لیجئے ۔
ماں ،سلیم ،اعظم اور عالیہ سب کھانا کھانے لگے سب نے کھانا شروع ہی کیا تھا کہ سلیم کھانا چھوڑ کر اوپر اپنے کمرے میں چلا گیا ۔
عالیہ۔سلیم ،سلیم کھانا تو کھا لیجئے ۔
اتنے میں لائٹ چلی گئی پو رے گھر میں اندھیرا چھا گیا ۔اعظم ڈر گیا ،رونے لگا ۔ماں نے جلدی سے رحمن کو آوازدی ۔سلیم کے کمرے سے کچھ گرنے کی آواز آئی ۔
رحمن نے لائٹ کا تار ٹھیک کیا جو جل گیا تھا ۔ماں نے اعظم کو آغوش میں لے لیا ۔عالیہ جلدی سے سلیم کے پاس گئی تو دیکھا کہ پانی کا گلاس ٹوٹا ہوا فرش پر پانی گرا ہو اہے اور سلیم دروازے کے پیچھے بیٹھ کر رو رہا ہے ۔کبھی دیوار میں سر مارتا اور کبھی ابو ابو چلاتا ہے ۔
عالیہ ۔ماں ،رحمن چاچا جلدی ڈاکٹر کو فون کیجئے ۔
رحمن نے جلدی ڈاکٹر کو فون کیا ۔ڈاکٹر کمال جلدی سلیم کے گھر پہنچے ۔ڈاکٹر کمال سلیم کی حالت دیکھ کر حیرت میں تھے اس نے سلیم کو سنبھالنے کی کوشش کی ۔رحمن نے بھی سلیم کو روکنا چاہا ۔لیکن اس نے رحمن کو بھی دھکا دے دیا ۔ مجبوراً ڈاکٹر کمال کو سلیم کو نیند کا انجکشن دینا پڑا ۔ڈاکٹر نے گھر کے سبھی لوگوں کو باہر بلایا اور پوچھا ’’ کیا سلیم کو کبھی دن میں بھی ایسا مسلہ پیش آیا ہے ۔‘‘
عالیہ نے انکار کیا ۔’’نہیں ‘‘
ڈاکٹر کمال ۔اس کامطلب کسی رات کا کوئی ایسا واقعہ ہے جس نے سلیم کے دل و دماغ پر گہرا اثر ڈالا ہے
عالیہ زور زور سے رونے لگی ۔’’وہ رات، وہ رات ۔‘‘
ڈاکٹر ۔کونسی رات ؟کیا ہوا تھا اس رات ؟اگر اس ذہنی بیماری کی وجہ معلوم ہو تو ممکن ہے میں کچھ کر سکوں ۔
عالیہ ۔میں سب بتاتی ہوں ۔ڈاکٹر بس آپ سلیم کو جلدی ٹھیک کر دیجئے ۔
ڈاکٹر کمال ۔کیا ہوا تھا سلیم کے ساتھ؟
عالیہ ۔رات کافی ہو چکی تھی ۔میں اورسلیم آدھی نیند میں تھے کہ دروازے پر کسی نے دستک دی سلیم نے آواز سن کر نظر انداز کر دیا لیکن دروازے کی کھٹ کھٹ سے میری آنکھ کھل گئی ۔میں نے سلیم سے دروازہ کھولنے کو کہا ۔سلیم غصے میں اٹھ کر دروازے تک پہنچا ۔دروازہ کھولا تو دیکھا کہ دروازے پر ماں بیٹھی ہے ۔جو کافی دیر سے دروازہ بجا رہی تھی ۔
سلیم نے آواز دی ۔ماں
ماں ۔بیٹا تمھارے ابوکی طبیعت بے حد خراب ہے ۔
سلیم ۔ ماں فکر کیوں کرتی ہو ۔ابو کی طبیعت تو اکثر خراب رہتی ہے ۔
ماں اس کے چہرے کو غورسے دیکھنے لگی ۔ماں کی آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری تھے ۔
ماں درد بھری اواز میں بولی ۔بیٹا تمھارے ابو اپنے پوتے اعظم سے ملنا چاہتے ہیں۔
سلیم اعظم ابھی سو رہا ہے اس کی نیند خراب ہو جائے گی ۔صبح میں خود اعظم کو لے کر ابو سے ملنے آؤں گا۔ماں اندر آجاؤ رات کافی ہو چکی ہے صبح ابو کے پاس چلیں گے ۔
ماں تمھارے ابو اکیلے ہیں ۔تمھیں بہت یاد کرتے ہیں ۔
سلیم۔ رحمن چاچا ہیں نہ ابو کا خیال وہ رکھ لیں گے ۔
یہ سن کر ما ں کچھ بولے بنا ابو کے پاس لوٹ گئی ۔جو ہمارے گھرسے پانچ سو میٹر کے فاصلے پر ہماری پرانی حویلی میں رہتے تھے۔
سلیم نے آواز دی ۔ ماں ‘‘ماں ‘‘سنو تو صبح چلیں گے ۔
لیکن ماں جاچکی تھی ۔
سلیم نے دروازہ بند کیا اور سر کھجاتے ہوئے کمرے میں آگئے ۔
میں نے پو چھا ۔کون تھا ۔
سلیم ۔ماں تھی ابو کی طبیعت خراب ہے اعظم سے ملنا چاہتے ہیں ۔
مجھے غصہ آیا ۔تمھارے امی ابو کو چین نہیں ہے رات کو بھی سکون سے نہیں سونے دیتے میرے بچے کو اور نہ مجھے ۔
سلیم نے جواب نہیں دیا ۔میں نے کمرے کی لائٹ بند کی اور ہم سو گئے ۔
ماں گھر پہنچی تو دیکھا کہ سلیم کے ابو عابد کراہتی ہوئی آواز میں رحمن سے باربار یہی کہ رہے ہیں ۔ سلیم کو بلاؤ رحمن جلدی ،سلیم کو بلاؤ ۔مجھے اسے آخری بار دیکھنا ہے ۔
رحمن ۔آپ کو کچھ نہیں ہوگا مالک میں ابھی ڈاکٹر کو بلا کر لاتا ہوں ۔تب تک آپ مالک کا خیال رکھئے بھابھی جی ۔
سلیم کی ماں نے اس کے ابو کی پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہاکہ آپ پریشان نہ ہوں سلیم اور اعظم تھوڑی دیر میں آجائیں گے ،صبح ہونے کو ہے ۔
رحمن پڑوس کے ایک ڈاکٹر کو بلا کر لایا ڈکٹر نے عابد کی نبض چک کی اور جواب دے دیا کہ عابد اس دنیا سے جا چکا ہے ۔ماں اور رحمن چاچا کے رونے کی آوازوں سے لوگ اکٹھا ہو گئے۔سلیم سو رہا تھا اچانک اس کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ صبح ہو چکی ہے لیکن یہ صبح کچھ عجیب سی تھی ۔جس کی روشنی سلیم کے دل اور آنکھوں میں چبھ رہی تھی ۔میری بھی آنکھ کھل گئی دیکھا کہ سلیم بہت خاموش اور اداس ہے ۔
سلیم جلدی تیار ہو جاؤ ،اعظم کو لے کر ابو کے پاس چلنا ہے ۔پتہ نہیں کس حٓال میں ہوں گے ابو۔
صبح نو بجے پرانی حویلی پہنچے تومعلوم ہوا کہ ابو ہمیشہ کے لئے سوچکے ہیں ۔اس رات کے بعد سلیم کبھی چین و سکون سے نہ سوسکا ۔
ڈاکٹر کمال اس بیماری کا میرے پاس کوئی علاج نہیں ہے ۔کہہ کر نم آنکھوں سے چلا گیا ۔عالیہ اور ماں روتے رہے ۔لیکن سلیم اس رات کے بعد کبھی چین سے نہ سو سکا ۔
عالیہ۔ کاش کہ اس دن ہم ابو سے ملنے چلے گئے ہوتے ۔
یہ مرض لاعلاج بن چکا تھا جو کبھی ختم نہ ہو سکا لیکن عالیہ کو درس مل چکا تھا کہ ماں باپ کی دعاؤں میں ہی سکون ہے ۔

Share
Share
Share