پیغام آفاقی کا مشہور زمانہ ناول ’مکان‘
عزہ معین – ایم اے
پیغام آفاقی کا مشہور زمانہ ناول ’مکان‘ ۱۹۸۹ء میں شائع ہوکر منظرعام پرآیا تو ادبی حلقوں میں اسے خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔اس وقت تک پیغام آفاقی بحیثیت شاعر تو اپنی خاصی پہچان بناچکے تھے جس کی ایک بڑی وجہ علی گڑہ مسلم یونیورسٹی میں زمانہ طالب علمی میں پروفیسر شہریار اورقاضی عبدالستار جیسی عالم شہرت یافتہ شخصیات کی صحبت سے فیضیاب ہونا تھا۔لیکن بحیثیت ناول نگار وہ اپنی کوئی شناخت نہ رکھتے تھے۔
پیغام آفا قی کی پیدائش ۱۹۵۶ء میں بہار کے ایک گاؤ میں زمیندار گھرانے میں ہوئی۔ہوش کے ناخون سنبھالنے کے بعد انہوں اپنی ابتدائی تعلیم گاؤں ہی میں حاصل کی اور تعلیم کا یہ سلسلہ جو انہوں نے اپنی گاؤں سے شروع کیا تھا وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد کچھ پل کے لئے رُکا تواس کے بعد انہوں نے خود کو مطالعہ ، مشاہدہ اور علمِ مجلسی حاصل کرنے میں غرق کردیا۔یہی مطالعہ اور مشاہدہ ان کے قلم کو رفتار پکڑنے میں معاون ثابت ہوا۔ان کی تخلیقات میں شعری مجموعہ ’’درندہ‘‘ ، افسانوی مجموعہ ’’مافیا‘‘نیز دو ناول ’’مکان‘‘ اور ’’پلیتہ‘‘ قابل ذکر ہیں۔ان سب تخلیقات میں ’’مکان‘‘ نے جو بلندمقام اردو ادب میں پیغام آفاقی کو عطا کیا وہاں کی سیرخال خال ہی کسی کے حصہ میں آتی ہے۔ پہلی مرتبہ جب میں نے پیغام آفاقی کے اس ناول کا تذکرہ اپنے اساتذہ سے سنا تو دل میں اس کے مطالعہ کی خواہش انگڑائیاں لینے لگی۔پس! آج جوکچھ بھی نوک قلم پر رواں ہے یہ اسی مطالعہ کا نتیجہ ہے۔
’’مکان‘‘ صرف ایک ناول نہیں ہے اور نہ ہی یہ گزرے زمانے کا تہذیبی المیہ ہے اور نہ حسن و عشق کی داستان عظیم!۔تو آخریہ ہے کیا؟ اسے سمجھنے کے لئے محترمہ نسیم سید کے جملے کافی ہیں:
’’دراصل یہ گلوب پہ کھنچی ہوئی لکیروں کو مٹا کر ایک مکان جیسا بنا دینے کے بعد اس میں موجود ہونٹ سی لینے والی خاموش غلام گردشوں، سازشی بیٹھکوں ،طاقت کی پر پیچ دستار سروں پر سجائے مکان کی ہر آہٹ پر نظر رکھنے اور اپنی مٹھی میں جکڑ لینے والے ہمارے اطراف چلتے پھرتے کرداروں کی روداد ہے ۔اور اس روداد کے انہی کرداروں سے ٹکراجانے والی صدیوں کی کم ہمت مجبور آواز کے یا وجودکے اپنے آپ کو جوڑنے بٹورنے، اٹھ کھڑے ہونے اور منوانے کی داستان ہے ۔مکان دراصل ٹوٹی ہمتوں کو جوڑنے کا فکری وجدان بھی ہے اور تخلیقی منشور بھی اور وہ گر بھی جو راکھ میں دبکی آگ ڈھونڈھ نکالتا ہے اور اسے پھر شعلے میں تبدیل کر دیتا ہے ۔اس گر کو مصنف نے ’نیرا‘ کا نام دیا ہے اور اس منشور کو ’مکان‘ کا۔
’مکان‘ کے حوالے سے نسیم سید کے ان قیمتی جملوں سے کچھ آگے بڑھتے ہوئے بلراج ورما نے کہا:’’نیرا ایک لڑکی نہیں بلکہ ہندوستان کی وہ اقلیت ہے جو اکثریت سے برسرِپیکار ہے۔‘‘بلراج ورما صاحب کے مذکورہ جملے میں ، میں نسیم سید کی اس فکر کا اضافہ کرنا چاہتی ہوں کہ ’’میں سمجھتی ہوں ک’مکان‘صرف ہندوستان کی اقلیت کے اکثریت سے برسرِپیکار ہونے کی داستان نہیں ہے بلکہ دنیا کے ہراس بظاہرکمزور لیکن کسی چٹان سے زیادہ مضبوط انسان کی داستان ہے۔جو طاقت سے برسرپیکار ہے۔اگر اس کو دنیا کے نقشہ پر کھینچی ہوئی لکیروں کو مٹا کے دیکھا جائے تو یہ ایک بہت بڑے کینوس پر بنائی ہوئی تصویر ہے۔‘‘
’مکان‘ نے اپنے مصنف کو اردو ادب میں ایک اہم مقام عطاکیا ، اپنے اس ایک ناول کی وجہ ہے پیغام آفاقی اردو ادب میں ہمیشہ یادکئے جائیں گے۔انہوں نے اپنے اس ناول میں کردارو ں کی پختگی ، ان کا انداز زندگی، روزمرہ کا رہن سہن، ان کی فکر، شخصیاتی پیچیدگیاں، نفسیاتی انتشارگوکہ ہر پہلو کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیاہے۔ہرکردار کو گوشت پوست کے ساتھ، زندگی کی ساری رنگینی میں ڈبوکر صفحہ قرطاس پر سجادیا ہے۔ہرفرد کو اس کی اصل زندگی عطاکی ہے۔ نہ کسی کوصرف ’ولن‘‘ بناکر پیش کیا ہے اور نہ ہی ’ہیرو‘ کے طور پر متعارف کرایا ہے۔جو کچھ ہے وہ اصل زندگی سے بہت قریب ہے ، نہ پوری طرح برا ہے اور نہ صرف اور صرف اچھائی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔ناول کا مرکزی کردار ’’نیرا‘‘ کم عمر ہے لیکن زمانے کے سردوگرم سے فرار اختیار کرنے والی ہرگز نہیں ہے۔عاشرے کا بھرپور مشاہدہ کرنے کے بعد اس کے اندر ایک پختگی آتی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ پختگی اس کے اندر پوری طرح رچ بس جاتی ہے۔اس کینوس کے پس منظر میں آفاقی نے ہر انسان کی زندگی کی عکاسی کردی ہے۔جو بھی پریشانیاں خواہ وہ خاص ہوں یا عام ، کوئی امیر ہو یا غریب ، ان پریشانیوں کا سامنا کرنے میں ہمت ہار جاتے ہیں، قسمت کا گلا کرتے ہیں لیکن ان سے ایک تنہا لڑکی کس طرح نبردآزماں ہوتی ہے یہ اس ناول میں انتہائی سلیقہ سے پیش کیا گیا ہے۔’مکان‘ کا سب سے اہم کردار ’نیرا‘کو اپنے مکان کو بچانے کے لئے کہاں کہاں جانا پڑا اور کس طرح کے لوگوں سے ملنا پڑا۔ وکیل سے مشورہ کرنے پر اسے کس طرح کی رائے کی امید تھی اور اس نے کیا رائے اسے دی، محکمہ پولیس کا ایک افسر نے کیا کیا پلان کیایہ سب کچھ پڑھنے کے بعد اپنا سر شرم سے جھک جاتا ہے لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ یہ بدقسمتی سے ہمارے ملک کی سچی تصویر ہے جو آئے دن مصیبت کے لمحوں میں فریم سے باہر نکل ہمارے سامنے آکر کھڑی ہوجاتی ہے۔
’مکان‘ کے کرداروں کی زبان کوئی خاص نہیں ہے ۔شاید اس کی وجہ گاؤں کے اس ماحول کا مشاہدہ اور پس منظر ہے جس میں آفاقی صاحب نے آنکھ کھولی ۔سماج میں الگ الگ طرح کے لوگ رہتے ہیں، سب کا اپنا اندازگفتگو اور مخصوص لہجہ اور روزمرہ میں استعمال ہونے والی زبان ہوتی ہے۔جو ہندوستان میں متحدہ اقوام میں اتحاد کے بیچ انفرادیت کو ہوا دیتی ہے اور یہی انفرادیت ہر طبقہ کی پہچان بتاتی ہے۔یہی انفرادیت اور خصوصیت ’مکان ‘ میں بھی نظر آتی ہے۔عورتوں کی ہمت اور قوت برداشت کا بہت باریک بینی سے مطالعہ کرکے آفاقی صاحب نے اسے اپنے ناول میں پیش کیا ہے۔ایک تنہا لڑکی جو میڈیکل کی تعلیم حاصل کررہی ہے ، بڑے بڑوں سے دو دو ہاتھ کرنے کو تیار ہے اوراس جدوجہدمیں آخر تک اپنے وجود کو ٹوٹنے سے بچائے رکھتی ہے۔طبقاتی کشمکش کے درمیان ، اقتصادی پریشانیوں کے باوجود وہ سبقت حاصل کرتی ہے۔باصلاحیت اور موجودہ وقت کی باہمت عورت کی اس ناول میں عمدہ مثال پیش کی گئی ہے۔
آفاقی صاحب نے اپنے ادبی سفر کا آغاز علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے کیا، شاعری میں اپنی پہچان بنائی ۔ ترقی پسند یا جدیدیت سے متاثر ہوئے بغیر اپنی نئی راہ نکالی۔محکمہ پولیس سے وابستہ ہونے کی وجہ سے دہلی مستقل مسکن بن گیا لیکن ادبی حلقوں میں ان کی اصل پہچان کی وجہ ’مکان ‘ ہی ہے۔جس کے سر اردو ناول کی تجدید نو کا سہرا جاتا ہے۔یہ ناول نہ صرف اردو میں ایک بڑی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے بلکہ امریکہ کی ایک ادبی تنظیم نے ’مکان‘ کو دنیا کے چند عظیم ناولوں کے طور پر منتخب کرکے امریکی عوام کے مطالعہ کا حصہ بنانے کے لئے ترجمہ کا فیلوشپ بھی دیا۔
نیرہ کی باحوصلہ شخصیت کی پختگی اور خود شناسی کا منظر پارک میں واضح ہوا ہے ۔اس نے تمام کمزوریوں کو ماچس کی تیلیوں سنگ جلا دیا اور ایک الگ عزم لے کر زمانے کو اس کی اصل شکل دکھانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی ۔یقیناًیہ ناول کا پسندیدہ ترین حصہ ہے کہانی کا عروج پوری توانائی سے زیر نظر ہے ۔
ناول میں ماحول کو پرکشش اور دلچسپ رکھا گیا ہے ۔تمام ناول کو ایک ہی نشست میں پڑھنے کے لئے کسی تحریک کی ضرورت نہیں ہے ۔قاری کو ناول اگرکسی مجبوری کے تحت بیچ سے چھوڑنا پڑے تو ناگوار گزرتا ہے ۔
ناول کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس میں کسی طرح کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی ۔آفاقی صاحب نے کہیں نقطہ لگانے کی بھی کمی نہیں چھوڑی ہے ۔آخر مین میرا مشورہ ہے کہ تمام قارئین ادب کو اس ناول کا ایک مرتبہ مطالعہ ضرور کرنا چاہئے ۔کیونکہ یہ ناول نہ صرف ادب اور اردو سے واقفیت کا بہترین ذریعہ ہے بلکہ عہد حاضر کے مختلف مخالف عناصر کے باریک بین تجزیہ کے ساتھ ساتھ معاشرتی زہر آلود فضا کو پوری طرح سے واضح بھی کرتا ہے ۔مختلف عہدے داروں کی نفسیات کے مطالعے میں کامیاب ثابت ہوا ہے ۔اور ہر کردار کے عوامل کی تصویر کشی میں بے مثال نمونہ پیش کرتا ہے ۔
الغرض پیغام آفاقی ایک کامیاب ناول نگار ہیں اور ناول مکان بہترین ناولوں کی لسٹ میں اول نمبر حاصل کرنے کا حقدار ہے ۔