جنت کے پرندے – Birds of Paradise – – – – ڈاکٹر عزیز احمدعُرسی

Share

 

خوبصورت دنیاکی دلکش مخلوق
جنت کے پرندے – Birds of Paradise

ڈاکٹر عزیز احمدعُرسی
ورنگل – تلنگانہ

پرندے دنیا کی خوبصورت بلکہ خوبصورت ترین مخلوق ہیں ویسے خوبصورتی کا کوئی معیار مقرر نہیں ہر مخلوق اپنے دائرے میں خوبصورت ترین ہی کہلاتی ہے لیکن جو مخلوق ہم جیسے کمزور انسانوں کی آنکھوں کو بھلی لگتی ہے اور دل کے دریچوں کو کھول کر دماغ میں حسن کی مہک بھر دیتی ہے ، وہ زیادہ اچھی لگتی ہے۔ایسی ہی مخلوقات میں پرندے بھی شامل ہیں ،جن کو دیکھنا اور خالق کی تعریف کرنا،ہمارے دل میں مسرت آگیں احساس پیدا کرتا ہے اور انسان کو حسن کی وادیوں میں لے جاکر اس کے وجودکو خوشبوؤں سے معطر کردیتا ہے۔ پرندوں کے اس خاندان سے متعلق ان پرندوں کو ’’جنت کے پرندے ‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپ کو اس کا علم ہوگا کہ جنت میں پرندے نہیں پائے جاتے ۔لیکن پرندوں کے گوشت کا تذکرہ قرآن میں موجود ہے۔

چونکہ میرا موضوع یہاں پرندے ہیں اس لئے میں اپنی گفتگو صرف اسی حد تک رکھنے کی کوشش کرونگا۔
دنیا میں انسانی گنتی کے مطابق پرندوں کی جملہ تعداد9703 ہے ،حقیقی تعداد کا علم صرف خالق حقیقی کو ہوسکتا ہے۔پرندوں کی اس تعداد کو سائنسدانوں نے 23 قبیلوں اور 142خاندانوں میں تقسیم کیا ہے (Sibley and Monroe 1992) اور Liz کے مطابق پرندوں کی جملہ تعداد 10,000ہے ،ان میں 1223 انواع یعنی تقریباً 12% پرندے ہی سائنسدانوں کی جانب سے بیان کئے گیے ہیں۔ پرندے دنیا کے ہر خطے میں پائے جاتے ہیں۔دنیا میں پرندوں کی مکمل انواع کی جملہ تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ ہر دور میں کئی ایک وجوہات کی بنا پر ان پرندوں کی تعداد بدلتی رہتی ہے۔ تعداد سے متعلق سائنسدان صرف قیاس ہی لگا سکتے ہیں۔ ممکن ہے اس وقت کرہ ارض پر پرندوں کی جملہ تعداد دو لاکھ ملین تا چار لاکھ ملین ہو۔ لیکن یہ دنیا جب 2100ء میں قدم رکھے گی تو اس وقت پرندوں کی تعدادآج کی تعداد کے مقابلے 14%کم ہو چلی ہوگی۔فی الوقت ان پرندوں میں سب سے بڑی تعداد Red-billed Quelea نامی پرندے کی ہے۔یہ پرندہ آفریقہ کے جنوبی سہارا علاقے میں پایا جاتا ہے۔بہت سارے پرندے کمیاب بھی ہیں بعض زمین پر اپنے وجود کو بچانے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں اور بعض تنازع اللبقا کی جنگ ہار کر معدومیت کے دہانے پر کھڑے ہیں یا منصہ شہود سے نابود ہوچکے ہیں۔ارتقائی نظریہ کے مطابق پرندے آج سے تقریباً 200ملین برس قبل پیدا ہوئے ۔ایک ڈائنوسار(دیو ہیکل چھپکلی) جس کا نام Theropod تھا پرندوں کا جد امجد ہے۔اس میں کہاں تک حقیقت ہے کوئی نہیں جانتا۔اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو اس دنیا کو بطور خاص پیدا کرنے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے ارتقائی نظام حکمت ہی کو اپنایا ہے،لیکن بلا شک و شبہ یہ حکمت اور یہ مکمل نظام حکم خداوندی کا تابع ہے۔
اگر ہم سائنسدانوں کے ارتقائی نظریہ کے مطابق اپنی بات آگے بڑھائیں تو پتہ چلتا ہے کہ 200ملین برس قبل کا ایک پرندہ تھا جس پر سارے سائنسدانوں کو آج بھی ناز ہے،اس پرندے کو آج کی دنیا Archaeopteryx کہتی ہے۔اس پرندے کے ’’رکاز‘‘ (Fossils)کی دستیابی نے اس دنیا میں سائنسی ارتقائی نظریہ کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔لیکن گذشتہ کچھ برسوں سے خود اس پرندے کو ایک افسانہ قرار دیا جارہا ہے۔اگر یہ پرندہ حق ہے تو کوئی بھی سادہ لوح انسان بھٹک سکتا ہے، تحقیق کے مطابق اس پرندے میں کچھ ایسی خصوصیات پائی جاتی ہے جو انسانی ذہن کو شکوک کی دلدل میں پھانس سکتی ہیں۔کیونکہ اس پرندے میں کچھ خصوصیات رینگنے والے ہوام کی اور کچھ خصوصیات اُڑنے والے پرندوں پائی جاتی تھیں ۔جیسے اس کے رکاز(فوسلز) کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اس پرندے کو چونچ پائی جاتی تھی جو پرندوں کی خصوصیت ہے اور اس کے منہ یعنی چونچ میں دانت بھی پائے جاتے تھے جو رینگنے والے جانداروں کی خصوصیت ہے۔آج کے دور میں کسی بھی پرندے کی چونچ میں دانت نہیں پائے جاتے۔اس کا مطلب ہے کہ یہ پرندہ نما جاندار پرندوں اور ہوام کی رائج خصوصیات سے ہٹ کر خصوصیات رکھتا ہے۔جس کو سائنسداں بہت اہمیت دے کر ’’ہوام‘‘ اور ’’طیور‘‘ کے درمیان ربط باہم (Connecting Link) قرار دیتے ہیں اور یہی ربط باہم ان کے نزدیک ارتقاء کی دلیل ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ خالق نے ہر جاندار کو اپنے وقت مقررہ پر پیدا کیا لیکن اس میں ارتقائی روح کو جاری کردیا تاکہ انسانی کمزور ذہن تخلیق کے اس طریقۂ عمل کو سمجھ سکے۔میں اس کو قدرے وضاحت سے سمجھانے کے لئے ایک مثال پیش ہے۔اللہ قدرت رکھنے والا ہے اگر چاہے تو ایک لمحے سے کم عرصے میں بڑے تناور درخت کو پیدا فرمادے لیکن اس نے اپنی تخلیق کے طریقِ کار میں ارتقائی طرز عمل کو اپنایا ہے اسی لئے جب بیج بویا جاتا ہے تو یہ بیج تمام تدریجی مراحل سے گذر کرخدا کی طرف سے معین کردہ وقت میں ہی بلوغیت اختیار کرتا ہے اور تناور درخت بنتا ہے۔ یہاں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اگر چشم زدن میں بیج درخت بن جائے تب بھی یہ قدرت ہی ہے اور بیج لمحہ بہ لمحہ بڑھتا ہوا ترقی پاکر درخت بن جائے تب بھی یہ طریق عمل اللہ تعالیٰ کی قدرت ہی ہے۔یہاں کہیں بھی کسی اتفاق کا دخل نہیں جس اتفاق کو بنیاد بنا کر سائنسدان ارتقائی نظریہ کی گاڑی کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ اس دنیا میں سائنس نے بے حد ترقی کی ہے،انسان مریخ تک پہنچ گیا ہے،طبی دنیا میں محیر العقول کارنامے انجام دئے ہیں، عقل میں نہ آنے والی اس قدر سائنسی ترقی کے باوجود میرا احساس ہیکہ ابھی سائنس گھٹنوں بل رینگ رہی ہے ،اسی لئے جیسے جیسے تجربات ہوتے جاتے ہیں ویسے ویسے نظریات بدلتے رہتے ہیں۔جس دن سائنس سے نظریات بدلنے کی خو جاتی رہے گی اس وقت ہم سمجھیں گے کہ سائنس اسلام کی مطابقت میں آگئی اورسائنس کایہی چہرہ در حقیقت اس کا اصلی چہرہ ہوگا کیونکہ اس کے بعد نہ کوئی تجربہ ہوگا اور نہ ہی کوئی نظریہ پیش ہوگا اگر ہوگا تووہ نظریہ اسلام کی مطابقت میں ہوگا اور اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے ہوگا۔

جنت کے پرندے

نہایت دلکش پرندوں کا ایک گروپ ہے جن کی خوبصورتی اوراٹکھیلیاں کرتی اداؤں نے انہیں ’’طیورالفردوس ‘‘ کا لقب عطا کیا ہے ۔ انہیں عربی میں ’’طائر الجنۃ‘‘ اور فارسی میں ’’مرغان بہشت ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ سولہویں صدی عیسوی میں جب ان پرندوں کایورپ سے تعارف ہوا تو سائنسدانوں نے ان کا نام Bird of Paradiseتجویز کیا اور آج بھی یہ پرندے اسی نام سے جانے جاتے ہیں۔ یہ پرندے تقریباً 43انواع پر مشتمل ہوتے ہیں ان کی لمبائی درمیانہ سائز کی ہوتی ہے۔ان 43پرندوں میں تقریباً 35پرندے نیو جنیوا New Guinea اور آسٹریلیا میں پائے جاتے ہیں۔ان کی دن بھر کی مصروفیت میں خوبصورت حرکات و سکنات ہی اہم ہیں جو وہ پرندے سنجوگ سے پہلے انجام دیتے ہیں۔ یہ پرندے مختلف رنگوں جیسے سبز، نیلے، کالے، ہرے، سفید اور مختلف رنگوں کی آمیزش رکھنے والے ہوتے ہیں کہ مجھ جیسا کم علم نہ ان کے رنگوں کوصحیح پہچان سکتا ہے نہ ان کے رنگوں کے ناموں کا صحیح اظہار کرسکتا ہے۔ اور اپنی رنگا رنگی کے باعث قدرت کا ایک انوکھا شہکار بن کر ابھرتے ہیں،لیکن بعض پرندے دو ایک رنگوں میں بھی خوش دکھائی دیتے ہیں۔ ان پرندوں کی اشکال بھی ایک دوسرے سے بہت حد تک مختلف ہوتی ہیں۔میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ خالق کائنات کبھی کبھی اس دنیا میں بھی جنت کے نمونے اہل زمین کو بتا دیتا ہے ،میرے خیال میں یہ پرندے ایسے ہی نمونوں کی عملی شکل ہیں۔ میں اس تعلق سے نہیں جانتا کہ پرندے جنت میں ہونگے یا نہیں ، بلکہ دوسرے جانوروں کے بارے میں بھی ہمیں کہنا مشکل ہے ،اصحاب کہف کے کتّے اور حضرت صالح ؑ کی اونٹنی کے تعلق سے بزرگوں کی جانب سے کچھ اشارات ملتے ہیں ۔سورہ واقعہ (56-21)میں پرندوں کے گوشت کا تذکرہ ہے اور سورہ طور (52-22)میں خواہش پر گوشت اور میوؤں کی فراہمی کا ذکر موجود ہے۔لیکن اصل حقیقت تو اللہ اور اس کے رسولؐ ہی جانتے ہیں۔زیر نظر مضمون میں جنت کے پرندوں کا عنوان دینے کی وجہہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ انسان ان پرندوں کی خوبصورتی اور دل کو لبھانے والی اداؤں سے متاثر ہوکر انہیں اونچا درجہ دینا چاہتا ہے اور اس جملے میں نہایت آسانی ہے کہ انہیں مافوق الفطرت قرار دے کر جنت سے منسوب کردیا جائے جو ان پرندوں کی ظاہری خوبصورتی کے بیان کرنے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ ان پرندوں کے بال و پر کی ترتیب، ان کے لمبے ’’ریاش‘‘ (Feathers) انہیں خوبصورتی کا ایک اعلیٰ اور ستھرا معیار عطا کرتے ہیں۔ان میں بیشتر پرندے کوّے کے سائز کے ہوتے ہیں ۔لیکن ان کے لمبے پروں (Feathers) کی ترتیب انہیں مور (Peacock) سے زیادہ دیدہ زیب بنا دیتی ہے۔یہ تمام پرندے Passeriformes سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ پرندے اپنے دن کا بیشتر وقت رقص میں گذارتے ہیں،ان کا رقص بھی ایک زبان ہے جس میں وہ پرندے کئی راز ایک دوسرے کو سمجھا جاتے ہیں۔رقص کے بعد یہ پرندے ایک سے زائد Females سے جفتی انجام دیتے ہیں۔اس کے بعد عام طور پرمادہ دو سے تین انڈے دیتی ہے جن سے تقریباً بیس دنوں بعد بچے نکل آتے ہیں۔میں نہیں جانتا لیکن یہ محسوس کرتا ہوں کہ یہ بچے انسانوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ اگر آزادی چاہتے ہو تو خول کو توڑ ڈالو تب ہی آزادانہ طور پر فضاؤں میں اُڑان بھر سکو گے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ ہر آزادی کسی نہ کسی حکم کی پابند بھی ہوتی ہے۔
43 انواع کے منجملہ ہم ذیل میں کچھ اہم’’ جنت کے پرندوں‘‘ کا ذکرکرتے ہیں۔
:Superb Bird Of Paradise
یہ ایک خوبصورت پرندہ ہے اس کا اردو نام دینا مشکل ہے اس کو اگر ہم اردو کی مفہومی اصطلاح میں کہنا چاہیں تو ’’اعلیٰ حسن کا حامل جنت کا پرندہ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔لیکن اس کا حیوانی نام superba Lophorina ہے۔ یہBirds کے خاندان Paradisaeidae سے تعلق رکھتا ہے۔اس چڑیا کا Plumage یعنی پرندے کے جسم پر پائی جانے والی ریشوں کی بیرونی پرت ، بالخصوص ’’پروں‘‘ (Wings) کی ساخت خوبصورت ہوتی ہے جو مسلسل تبدیل بھی ہوتی رہتی ہے۔اس چڑیا کا آرائشی خوشنما اور لمحہ بہ لمحہ شکل بدلنے والا چمکیلے ریشے سے مزین’’پلو میج‘‘ایک عجوبہ ہیں جو انسان کے ذہن کو حیرت کی وادیوں میں گم کردیتا ہے ۔یہ ’’پلومیج‘‘ کبھی سبزی مائل نیلے ریشوں سے ڈھکا دکھائی دیتا ہے اور کبھی اس میں نیلا رنگ مغلوب نظر آتا ہے اور کبھی سبز رنگ ابھر کر آتا ہے۔دیکھنے والا آخیر تک یہ فیصلہ نہیں کرپاتا کہ اس چڑیا کے ریشے کونسے رنگ کے ہیں۔یہ رنگ اس چڑیا کے سینے پر دکھائی دیتا ہے جبکہ اس کا پچھلا بلکہ جسم کا بیشتر حصہ مخملی سیاہ ہوتا ہے۔ چھوٹے سائز یعنی 26سنٹی میٹر لمبی اور 60گرام وزنی اس چڑیا کا رقص اس قدر نازک ، دل کو لبھانے والا اور ندرت آمیزی کے سبھی دریچوں سے جھانکتا ہے کہ باوجود کوشش کے اس کا بیان قلم کی گرفت میں آنے نہیں پاتا ۔اس پرندے کے ’’نر‘‘ اور ’’مادہ‘‘ اپنے اندر ایک دوسرے سے کافی اختلاف رکھتے ہیں ۔ یہ اختلاف ظاہری اعتبار سے ہو یا رقص کناں ہونے کی حیثیت سے ہو دونوں جگہ دیکھا جاسکتا ہے۔یہ رقص دراصل محبت کا نغمہ ہے جو صنف نازک کو متوجہہ کرنے کے لئے ’’نر پرندہ‘‘ مستی کے تمام مراحل کو توڑتا ہوا انجام دیتا ہے۔ جبکہ ’’مادہ‘‘ پرندہ ان تمام نزاکتوں سے عاری ہوتا ہے ،رنگ سرخی مائل بھورا ہوتا ہے۔ ’’نر‘‘ کے مقابلے ہمیں مادہ کی خوبصورتی کسی بھی زاویے سے دلکش نظر نہیں آتی۔قدرت بھی عجیب ہوتی ہے کہ اس نے رقص کرنے والے ’’نر‘‘ کو ’’مادہ‘‘ کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں پیدا کیا ہے تاکہ ’’نر‘‘ مسلسل رقص کرکے اپنی ’’مادہ‘‘ کو متوجہہ کرسکے۔ اس پرندے کا رقص ایک تربیت یافتہ رقاص کی طرح ہوتا ہے جو اپنی ہر ادا سے الفت کا اظہار کرتاچلا جاتا ہے اور یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں اس پرندے کی’’ مادہ‘‘ اسکی جانب ملتفت ہوتی ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں انسان اس رقص کی کیفیت سے بھی محظوظ ہوتا ہے اور اپنے ذہن کو ترو تازہ بنانے میں لگ جاتا ہے۔ نر چڑیا اپنا رقص ’’مادہ‘‘ چڑیا کے قریب بلکہ اس کو مرکز مان کر انجام دیتا ہے۔رقص کی ابتدا میں یہ چڑیا کھڑی ہوجاتی ہے اس کے ’’پر‘‘ تقریباً کمر کے حصے تک پھیل کر ایک دائروی ساخت بنا لیتے ہیں جو ’’فراک‘‘ کے گھیرے کی طرح ،متشاکل ہو کرپھیلتا سکڑتا رہتا ہے جب اس کا رقص اپنے عروج پرپہنچنے لگتا ہے تو دیکھنے والے انسانوں کے اذہان پر سحر چھا جاتا ہے،سیاہ مخملیں ریشے پھیل کر اس کے چونچ کے اطراف بیضوی گول ساخت بناتے ہیں جن کے تقریباً درمیان سے مقناطیسیت اور جاذبیت رکھنے والی آنکھیں جھانکتی رہتی ہیں،پھیلی ہوئی ریشوں کی رِدا کے درمیان میں سبزی مائل نیلے ’’پروں کے ریشیے‘‘ بدلتے رنگوں کی کشمکش کے دوران عجیب خوبصورتی پیدا کرتے ہیں اور جب ’’نر‘‘(Male) قربت (Mating) کی دہلیز تک پہنچ جاتا ہے تو تمام پروں کو پھیلا کر اپنے وجود کے بیشتر حصے کو خود اپنے گھیرے میں لے لیتا ہے جس میں ممکن ہے مادہ سمٹی سمٹائی چلی آتی ہے اور اپنی تخلیق کا مقصد پاجاتی ہے۔
King of Saxony :
یہ Pteridophora کی واحد نوع ہے ،اسی لئے اس کو Pteridophora بھی کہا جاتا ہے۔یہ 22سنٹی میٹر لمبا پرندہ ہے جس کا رنگ کالا ہوتا ہے ، اس چڑیا کے نچلے حصے میں بھورے رنگ کے ’’پر‘‘ پائے جاتے ہیں۔اس کا سر واضح ہوتا ہے اس خوبصورت چڑیا کی اہم ترین خصوصیت اس کے سر (Head)کے پچھلے حصے سے دوچپٹی scalloped ساختوں کا نکلنا ہے۔اس لمبی ساختوں کی لمبائی چڑیا کی لمبائی سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ یہ چڑیا 22سنٹی میٹر ہوتی ہے لیکن یہ لمبی چپٹی ساختیں 50سنٹی میٹر سے زیادہ لمبی ہوتی ہیں۔جن پر نیلے رنگ کے جاذبیت رکھنے والے ڈیزائن پائے جاتے ہیں۔یہ چڑیا جب اُڑان بھرتی ہے تو یہ ساختیں ہوا میں لہرانے لگتی ہیں اور حسن کا ایک انوکھا منظر پیش کرتی ہیں۔یہ لمبی لہراتی ساختیں ایک دوسرے کے ساتھ متوازن انداز میں حرکت کرتی ہیں ویسے ان میں یہ صلاحیت بھی پائی جاتی ہے کہ اس میں سے ہر ایک ساخت علاحدہ علاحدہ بھی حرکت کرسکے، جب یہ اُڑان کی ابتدا کرتی ہے تو یہ ساختیں اڑان کی مخالف سمت سخت ہوکر ایک دوسرے کے متوازی آجاتی ہیں۔جو چڑیا کی اپنی ارادی حرکت کا نتیجہ ہے۔جب یہ چڑیا مستی میں آجاتی ہے تو پھر ان دو ساختوں کی حرکت دلآویز بن جاتی ہے جو دل اور احساس کے تاروں کو چھیڑ کر حسن کی کیفیت کو فضا میں خوشبو کی طرح بکھیرنے لگتی ہے اور اس منظر کو دیکھنے والا آہستہ آہستہ اپنے خالق کی طرف بڑھنے لگتا ہے ۔ جہاں فطرت اسے اپنی بانہوں میں لے کر حسن کے حقیقی معنی سمجھانے لگتی ہے۔
:Paradise-crow
یہ پرندہ بہشتی کوّا کہلاتاہے اس کو زوالوجی کی زبان میں (Lycocorax pyrrhopterus) کہا جاتا ہے ۔گہرے چمکدار کالے رنگ کا یہ پرندہ اپنے حسن میں علاحدہ کیفیت رکھتا ہے لیکن یہ پرندہ کالا ہونے کے باوجود بھی دلکشی کا نشان بن جاتا ہے۔یہ تقریباً 34سنٹی میٹر لمبا ہوتا ہے۔اس کے ’’نر‘‘ اور ’’مادہ‘‘ میں زیادہ فرق نہیں ہوتا ۔اس کی غذا کیڑے مکوڑے اور پھل پھلاری ہوتی ہے۔یہ عام طور پر انڈونیشیا کے جنگلات میں پایا جاتا ہے۔اس کی تین ذیلی انواع بھی پائی جاتی ہیں۔
Trumpet manucode:
اس پرندے کی آواز اونچی ہوتی ہے جو دور تک سنائی دیتی ہے۔اس کا سائنسی نام Phonygammus keraudrenii ہے۔یہ خوبصورت پرندہ اپنے ’’سر‘‘ کے اوپری حصے میں دونوں جانب لمبے استوانائی Head tuftsرکھتا ہے۔نر اور مادہ ایک جیسے ہوتے ہیں سوائے سائز کے دوسرا کوئی بڑا فرق نہیں ہوتا۔ 31سنٹی میٹ لمبے اس پرندے کا رنگ سبزی مائل سیاہ ہوتا ہے جس میں ارغوانی رنگ کا اثر زیادہ نظر آتا ہے۔دیکھنے میں خوش رنگ دکھائی دیتے ہیں کہ دیکھیں تو بس دیکھتے رہ جائیں۔گردن کے حصے پر سرخ لکیر موجود ہوتی ہے۔
Long-tailed Paradigalla:
یہ 37سنٹی میٹر لمبا پرندہ ہے جس کی دُم لمبی اور نوکیلی ہوتی ہے۔اس کا سائنسی نام Paradigalla carunculata ہے۔ اس پرندے کے چہرے پر زرد رنگ کے ریشے موجود ہوتے ہیں ۔پرندے کا یہ حصہ رنگین نظر آتا ہے اس میں آسمانی نیلا رنگ بھی جھانکتا دکھائی دیتا ہے۔
Arfak astrapia:
یہ لمبے سائز کا پرندہ ہے جس کی لمبائی 76سنٹی میٹر ہوتی ہے ، جسم پر کئی رنگوں کا’’ پلومیج ‘‘ پایا جاتا ہے جس میں غالب دکھائی دینے والے رنگ بھورا، کانسے جیسا،ارغوانی اور سبز ہوتا ہے۔دُم کافی لمبی اور قابل لحاظ چوڑائی رکھتی ہے،اس کے سینے پر مخملیں ریشے پائے جاتے ہیں جن کا رنگ چمکدار سیاہ ہوتا ہے۔اس کے ’’مادہ‘‘ کے ریشے سیاہی مائل بھورے ہوتے ہیں۔جن پر ہلکی لکیریں پائی جاتی ہیں۔
Western parotia:
یہ 33سنٹی میٹر لمبا خوشنما پرندہ ہے جس کی دُم درمیانہ سائز کی ہوتی ہے۔نر اور مادہ کے درمیان امتیاز محسوس کیا جاسکتا ہے۔سینے پر ان کا Plumage مختلف ہوتا ہے۔کورٹ شپ کے وقت یہ پرندے بہترین رقص انجام دیتے ہیں جس کو ballerina رقص کہا جاتا ہے۔اس رقص میں پرندے کے پر ’’اسکرٹ‘‘ کے مانند پھیل کر لہرانے لگتے ہیں اور یہ پرندہ ہر موڑ پر اپنی گردن اور سر ہلاتا رہتا ہے۔یہ کثیر زوجی پرندہ ہے۔ یہ پرندہ نیو جنیوا میں کثرت سے پایا جاتا تھا۔
Riflebirds :
یہ پرندےPasseriformes آرڈر سے تعلق رکھتے ہیں،ان کے Genus کا نام Ptiloris ہے ۔یہ درمیانہ سائز کی چڑیا ہے جس کی چونچ پتلی اورمُڑی ہوئی ہوتی ہے۔’’پر‘‘ بڑے پھیلے ہوئے ہوتے ہیں پیر چھوٹے لیکن مضبوط ہوتے ہیں۔اس کا ’’نر‘‘ اور مادہ دیکھنے میں ایک دوسرے کے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔جسم پر کالے رنگ کا مخملیں Furپایا جاتا ہے۔ان کا نر 31 سنٹی میٹر لمبا ہوتا ہے۔اس کے گردن کے نیچے چمکدار نیلا یا Bluish greenرنگ پایا جاتا ہے۔ یہ زیادہ تر نیو جنیواNew Guinea اور آسٹریلیا میں پائے جاتے ہیں۔ان کو ان کے خوبصورت Plumageکی وجہہ سے انسانی آبادیوں میں شکار کیا جاتا ہے۔
Epimachus :
یہ بھی زیادہ تر نیو جنیوا میں پایا جاتا ہے۔اس کی چونچ لمبی پتلی اور مُڑی ہوئی ہوتی ہے۔ان کی دُم کافی لمبی ہوتی ہے،جسم کے بطنی حصے میں سفید Feathersپائے جاتے ہیں ،یہ پرندے بھی Passeriformes سے تعلق رکھتے ہیں۔اس پرندے کا حسن اس کی لمبی دُم اور مُڑی ہوئی لمبی چونچ میں ہوتا ہے جو دیکھنے والے کو بہت دیر تک دیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔
Drepanornis :
یہ بھی طیور الفردوس کی ایک Genusکا نام ہے جس سے متعلق پرندہ عجیب و غریب وضع و قطع رکھتا ہے۔اس کے کئی رنگوں پر مشتمل ریشے دار ’’پر‘‘ اپنے اندر انو کھی خوبصورتی رکھتے ہیں۔Passeriforme سے تعلق رکھنے والے یہ پرندوں کی چونچ بڑی لمبی اور مُڑی ہوئی ہوتی ہے۔
Cicinnurus :
اس سے تعلق رکھنے والا پرندہ کافی خوبصورت ہوتا ہے اسی لئے ماہرین نے اس کو living gem کہتے ہیں۔اس کو King bird-of-paradise کہتے ہیں اس کی لمبائی 16سنٹی میٹر ہوتی ہے۔اس کا بطنی حصہ نہایت سفید ہوتا ہے جب کہ اس کا ظہری حصہ چمکدار سرخی رکھتا ہے اور دیکھنے میں بہت خوبصورت ہوتا ہے، گردن کے نچلے حصے اور بطنی حصے کے درمیان کالے رنگ کے ریشے پائے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی کسی شئے کی خوبصورتی کو بیان کرنے کے لئے الفاظ نہیں ملتے اس پرندے کو بیان کرنے میں بھی ایسی ہی مشکل پیش آتی ہے۔ بہرحال یہ چھوٹی چونچ رکھنے والا پرندہ بہت خوبصورت ہوتا ہے کہ دیکھیں تو دیکھتے رہ جائیں۔ اس کی سب سے نمایاں اور اہم خصوصیت اس کے دُم کے حصے سے نکلنے والے ایک جوڑ تار نما ساختیں ہیں جو یہ چڑیا ارادی طور پر حرکت دیتی ہے ان تار جیسی ساختوں کے آخری حصے گول بناوٹ رکھتے ہیں ۔ان تار جیسی ساختوں ی یہ حرکت اس قدر متوازن ہوتی ہے کہ انسان سونچنے لگ جاتا ہے۔نہ صرف اس چڑیا کی بات ہے بلکہ تمام ہی ’’جنت کے پرندے‘‘ اپنی مادہ کے سامنے جسم کے ریشے جس انداز میں حرکت وہی خوبصورت اور نا قابل بیان حرکت انہیں جنت کے پرندوں کا لقب دلواتی ہے۔میرا خیال ہے کہ ان ریشے جیسے ساختوں سے بننے والے رنگین شکال ہر مرتبہ اپنی شکل، اپنی نوعیت، اپنارنگ اور اپنی ہیت بدلتے رہتے ہیں۔
Superb Lyrebird:
یہ Menuridae سے تعلق رکھنے والا پرندہ ہے جس کی خوبصورت کے اظہار کے لئے ہمیں مور کی مثال سامنے رکھنی ہوگی۔ یہ پرندہ یہ صرف بہترین رقاص ہے بلکہ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس کی دُم ’’ مور‘‘ کی دُم کی مانند پھیل جاتی ہے لیکن یہ مور کی دُم کی طرح پنکھ نما ساخت نہیں بناتی بلکہ سفید جالی دار ساخت بناتی ہے جس پر دو نسبتاً موٹے لمبے حرکت کرتے ہوئے پروں کی متبدلہ اشکال بناتی ہیں جنکی خوبصورتی عقل میں سمانا آسان نہیں ہے ۔ پرندے کی اصل خوبصورت اس کی شکل نہیں بلکہ اس کی یہ جالی دار حرکت کرتی ساختیں ہیں جس نے انسانی ذہن کے ادراکی دروازے بند کردئے ہیں۔اس میں mimic کرنے کی بہترین صلاحیت پائی جاتی ہے۔
Raggiana Bird of Paradise:
یہ بہت خوبصورت پرندہ ہے۔جس کی شکل عجیب و غریب ہوتی ہے۔جسم کے پچھلے حصے میں رضائی جیسی بڑی ریشوں سے بنی ساخت ہوتی ہے جس کا رنگ خوشیوں کی بارات سجانے والے اور ہلکے رنگوں سے وزنی حسن پیدا کرنے والے ہوتے ہیں۔
Wilson’s bird-of-paradise :
اس کو Cicinnurus respublica بھی کہا جاتا ہے۔کئی رنگوں پر مشتمل یہ پرندہ اپنے سر پر چمکدار آسمانی رنگ کے ریشوں کا تاج رکھتا ہے ۔ 21 سنٹی میٹر لمبا یہ پرندہ کالے، لال،طاؤسی، بھورا، سرخی مائل کئی رنگوں کے امتزاج نے اس کو اس کی جانب تکلف سے دیکھنے پر مجبور کردیا ہے اس کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کے پچھلے حصے سے دو دائروی طریقے پر مُڑے ہوئے ساختیں ہیں وہ پرندہ اپنی روز مرہ زندگی میں مسلسل استعمال کرکے دنیا کو نئے سرے سے دیکھنے کی دعوت دیتا ہے۔
مندرجہ بالاجنت کے پرندوں کے علاوہ ابھی کئی فیلمی کے پرندے موجود ہیں جن کو کسی دوسرے انداز سے بیان کیا جائے گا۔ جیسے Emperor bird-of-paradise ،Lesser bird-of-paradise،Red bird-of-paradise،Greater bird-of-paradise(ان میں Greater bird-of-paradiseایسا پرندہ ہے جس کی تصویر کو ایک عرصے تک انڈونیشیا کے سکوں پربنایا جاتا تھا)۔ان کے علاوہ کئی پرندے ایسے ہیں جن کو یہاں بیان نہیں کیا گیا۔لیکن ان کی خوبصورتی مسلمہ اور ان کے حرکات سکنات دیدہ زیب ہیں۔
——
Dr.Aziz Ahmed Ursi

Share
Share
Share