عہد ساز مزاح نگار : شفیق الرحمن
حمیرا عالیہ
ریسرچ اسکالر،لکھنو یونیورسٹی
شفیق الرحمن سے ہمارا تعارف ہائی اسکول کے دوران ہواتھا جب ہماری بڑی بہن کرامت کالج کی لائبریری سے ’’حماقتیں‘‘ لے کر آئی تھیں۔حالانکہ اس وقت ہمیں اردو ادب سے کچھ خاص شناسائی نہیں تھی پھر بھی ان کی سادہ،سلیس اور شگفتہ زبان نے ہمیں ان کا دیوانہ بنا دیا۔بلاشبہ ابن صفی صاحب کے بعدکرنل صاحب کی تحریروں نے ہی ہمیں اردوادب میں دلچسپی لینے پر مجبور کر دیا۔۔۔۔۔۔اور پھر ان گزرے نو برسوں میں جہاں ایک طرف کرنل فریدی ہمہ وقت ہمارے خیالوں میں رہتا تھا تو دوسری طرف لینکی اور روفی نے بھی کبھی ہمیں اداس نہیں رہنے دیا۔
ان گزرے نو برسوں میں کبھی ہم نے دانت پر بجلی گرنے کا انتظار کیا ہے تو کبھی اس ایرانی بلی کی خواہش کی ہے جو مہمانوں کی آمد پر سوراخ والے قالین پر کچھ اس طرح بیٹھتی تھی کہ لاکھ اسے اٹھانے کی کوشش کیجئے وہ ٹس سے مس نہیں ہوتی۔کبھی ہم نے چائے پر حکومت آپا کی طرح پلاؤ کھایا ہے اورکبھی تصویروں پر ننھے میاں کی طرح قلم سے داڑھی مونچھیں اگائی ہیں۔
کبھی ہمیں موڈی جونز سے ملنے کا اشتیاق ہوتا جو میس میں سب پر حکمرانی کرتا تھااور کبھی شدت سے عراقی کیمپ کے کمانڈنٹ برٹن سے ملنے کی خواہش ہوتی جو کام کے اوقات میں سخت اور شام کے اوقات میں دوست بن جاتا تھا۔
کرنل شفیق الرحمن کا طرہ امتیاز یہ تھا کہ انہوں سیدھے سادے لفظوں میں فلسفہ حیات بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔۔۔۔نہ مشکل الفا٭۔۔۔نہ بامحاورہ زبان۔۔۔پھر بھی اتنی اثردار تحریر کہ بندہ ایک دفعہ ان کا مطالعہ کر لے تو ساری عمر ان کے سحر سے آزاد نہ ہو سکے۔۔۔۔۔۔روز مرہ کی زبان اور بول چال کے زریعے انہوں نے مسکراہٹیں بکھیرنے کا کام بحسن و خوبی انجام دیا۔حالانکہ وہ بنیادی طور پر ایک رومانوی افسانہ نگار تھے لیکن اس سے زیادہ کامیابی انہیں طنز ومزاح کے میدان میں حاصل ہوئی۔
شفیق الرحمن چونکہ خود ایک فوجی تھے لہذا انہوں نے فوجیوں کی نفسیات کا بہت باریکی سے ذکر کیا ہے۔دوسری جنگ عظیم کے دوران وہ ہندوستانی آرمی کے ساتھ مختلف محاذوں پر رہ چکے تھے چنانچہ جنگ کے میدان سے انہیں بہت اچھی طرح واقفیت تھی۔اپنے گھر،خاندان،ملک اور مٹی سے دور۔۔۔گولیوں اور توپوں کے دھماکوں کی آوازوں کے درمیان ایک فوجی کی کیا کیفیات ہو سکتی ہیں اس کا انہیں بخوبی علم تھا۔۔۔کیمپ کی زندگی اور تبادلوں کا ایک غریب الوطن فوجی پر کیا اثر ہوتا یہ شفیق الرحمن اچھی طرح جانتے تھے۔۔۔چنانچہ لینکی کے کردار کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات آسانی سے واضح ہو جاتی ہے کہ لینکی کی صورت میں انہوں خود اپنا ذکر کیا ہے۔۔۔دبلا،لمبا اور اسمارٹ سا لینکی۔۔۔جو شراب اور دوسری فضولیات سے دور رہتا ہے۔۔۔اسپورٹس اور ورزش کا دلدادہ۔۔۔
شفیق الرحمن نے اپنی تحریروں میں جہاں ایک طرف زندگی سے بھرپور قہقہے بکھیرے ہیں وہیں دوسری طرف ان کی تحریروں میں غم اور اداسی کی دھیمی دھیمی لہریں بھی محسوس ہوتی ہیں۔۔۔لیکن اس اداسی میں بھی زندگی کے تئیں مایوسی اور ناکامی کا جذبہ بیدار نہیں ہونے دیتے۔۔۔بعض وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اندھیری رات کی ظلمتوں کے آگے صرف ایک خلاء ہے۔۔۔ایک نامعلوم خلاء۔۔۔لیکن پھر اسی رات سے ایک روشن چاند نمودار ہوتا جس کی کرنیں پوری کائنات کو منور کردیتی ہیں۔۔۔فضا میں موسیقی سی گھل جاتی ہے اور خوشبوئیں پھیل جاتی ہیں۔
جب ہم گریجویشن میں آئے تو شفیق الرحمن کا تفصیلی مطالعہ کیا۔۔۔اور پھر تو گویا ایک نئی دنیا کا دروازہ کھل گیا۔۔۔مصر کے فرعون اور ان کے اہرام۔۔۔ابوالہول۔۔۔اور کئی پردوں میں چھپی گائیڈ ثانیہ۔۔۔نیل کا دریا۔۔۔جس کے ایک طرف زندگی بستی ہے تو دوسری طرف ویرانیوں کا راج ہے۔۔۔نیل۔۔۔وہ واحد دریا جس کی سطح نے سورج دیکھا۔
اور پھر بلیو ڈینیوب۔۔۔جسے نہ جانے کتے ہی ملکوں کی سرحد ہونے کا شرف حاصل ہے۔۔۔ہم نے لکھنؤ میں رہ کر ڈینیوب کی نیلاہٹوں کو محسوس کیا۔۔۔امین آباد کی تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے ہمیں وی آنا کی گلیوں کی رونق بھی یاد آئی۔۔۔وی آنا جو کبھی یوروپ کا دل تھا۔۔۔مشرق اور مغرب کامتزاج۔۔۔شفیق الرحمن کے ساتھ ہم نے وی آنا کے مشہور جنگل دی آنروالڈ کی بھی سیر کی۔۔۔وہ لکھتے نہیں تھے۔۔۔نظارہ کرواتے تھے۔۔۔پلکیں جھپکی۔۔۔اور۔۔۔ایک لمحے میں منظر آپکے سامنے۔۔۔جیتا جاگتا۔۔۔مجسم۔۔۔بلیو ڈینیوب وہاں بہہ رہا تھا اوریہاں ہم اس کے فسوں اور دلآویزی کو محسوس کر رہے تھے۔
شفیق الرحمن بزبان لینکی کہتے ہیں:’’مجھے بغداد سے زیادہ دجلے کو دیکھنے کا شوق ہے۔جیسے
اس کے سمند ر کی موج،دجلہ و ڈینیوب و نیل(علامہ اقبال)‘‘
اور انہوں نے اپنے ساتھ ہمیں بھی دجلہ دکھایا۔۔۔بھورے بہتے گارے جیسا دجلہ۔۔۔جو دن میں کسی غمگین بزرگ جیسا نظر آتا ہے۔۔۔دیکھنے والا ایک لمحے کو مایوس ہو جائے۔۔۔لیکن سورج چھپ جائے اور سائے لمبے ہو جائیں۔۔۔تب دجلہ کی رونق دیکھئے۔۔۔پانی کی سطح ہر نور کی بارش پڑتی ہے تو گویا آگ لگ جاتی ہے۔۔۔ہم نے لینکی کے ساتھ دجلہ کے روشن کناروں کی چمک دیکھی۔۔۔دن میں ریگستان کی گرمی اور ویرانی محسوس کی تو رات میں بغداد کا تاروں بھرا آسمان بھی دیکھا۔
سترہ برس گزر گئے۔۔۔شفیق الرحمن نے ہم سے پردہ کر لیا۔۔۔اور لینکی اور روفی بھی روٹھ گئے۔۔۔مصر کے اہرام اب بھی اسی شان سے کھڑے ہیں۔۔۔لیکن گائیڈ ثانیہ ہی نہیں جو نیل کی تاریخ بتائے۔
جرمنی کا ڈینیوب۔۔۔جس نے بلگراڈ کے سفید اجلے پہاڑوں کے سامنے نیلی جھیل بنا رکھی ہے۔۔۔وی آنا کا عزیز بلیو ڈینیوب۔۔۔ اب بھی اتنا ہی شفاف ہے۔۔۔لیکن وہاں جائیں کیونکر۔۔۔میزبانی کے لئے دلبر بھی تو نہیں۔
عراق کی صورتحا ل ان سترہ برسوں میں کافی بدل گئی ہے۔۔۔لیکن دجلہ تو ویسا ہی ہے۔۔۔بھورے بہتے گارے جیسا۔۔۔دن میں افسردہ۔۔۔اور رات میں کسی الہڑ دوشیزہ کی زلفوں جیسا۔۔۔چمکتے چاند کا عکس دجلہ کے پانیوں میں دیکھ لیجئے تو پھر کسی اور نظارے کو دیکھنے کی خواہش باقی نہ رہے۔۔۔جیسے دریا میں کسی نے مہندی مل دی ہو۔۔۔لیکن یہ سارے منظر بے جان ہیں۔۔۔کیونکہ لینکی جو روٹھ گیا۔۔۔نہ جانے کہاں چلا گیا۔۔۔ ڈھونڈھے نہیں ملتا۔۔۔دجلہ کا کنارہ ہو۔۔۔چمکتا چاند ہو۔۔۔اور لینکی نہ ہو۔۔۔پھر دجلہ دجلہ نہیں رہتا۔۔۔بس ایک بھورا دریا رہتا ہے۔
کاش ایک بار شفیق الرحمن سے مل سکتے تو کہتے کہ ایسا کیوں کیا۔
بھلا آدھے رستے میں بھی کوئی چھوڑ کر جاتا ہے؟؟
—–