اردو کےادیب اورنثرنگار : قسط ۔10 – – نیاز – مجنون – – – پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

Share

قسط ۔ 10
اردو کےادیب اورنثرنگار
نیاز فتحپوری – مجنون گورکھپوری

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

اردو کے ادیب اور نثر نگار ۔ نویں قسط کے لیے کلک کریں

نیاز فتحپوری (وفات ۱۹۶۶ء)
نیاز فتحپوری ایک شاعر ، ایک بصیرت مند نقاد اور ایک اچھے انشاء پرداز اور صحافی تھے ، انھوں نے پانچ دہائیوں تک علم وادب کی جو گرانقدر خدمت انجام دی وہ ناقابل فراموش ہے –

ان کی ابتدائی تعلیم مدرسہ اسلامیہ فتحپور میں ہوئی ، بعد میں انھوں نے دار العلوم ندوۃ العلماء میں بھی داخلہ لیا اور وہ اس لئے کہ نیاز فتحپوری کے والد دار العلوم ندوہ میں مطبخ کے ذمہ دار مقرر ہوگئے تھے ، لیکن ندوہ میں ان کی تعلیم کا زمانہ مختصر رہا ، انھوں نے الہ آباد میں ملازمت کی اور پھر ظفر علی خان نے ’’زمیندار ‘‘ میں کام کرنے کی دعوت دی اور وہ لاہور چلے آئے ، پھر وہ زمیندار سے بھی الگ ہوگئے ، حکیم اجمل خان نے ایک چھوٹا سا انگریزی اسکول قائم کیا تو نیاز اس کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوگئے ، پھر انھوں نے اس سے بھی استعفی دی دیا اور بھوپال آگئے جہاں ان کا گیارہ برس تک قیام رہا ،’’گہوارہ تمدن‘‘، ’’صحابیات‘‘ ،’’مصطفی کمال پاشا‘‘، ’’تاریخ اسلام ابتدا سے حملہ تیمور تک‘‘ قیام بھوپال کے زمانہ کی تصانیف ہیں ، ۱۹۲۷ء میں پھر لکھنؤ منتقل ہوگئے اس کے بعد انھوں نے رسالہ ’’نگار‘‘ جاری کیا ، اور چوالیس برس تک نگار پابندی کے ساتھ شائع ہوتا رہا ، نیاز کی صحافتی اور ادبی خدمات کے صلہ میں حکومت ہند نے انھیں پدم بھوشن کے خطاب سے سرفراز کیا ، جولائی ۱۹۶۲ء میں نیاز ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے وہاں انھیں اردو ترقی بورڈ اور اردو لغت کا کام سونپا گیا ، نیاز فتحپوری نے ’’عرض نغمہ‘‘ کے نام سے ٹائیگور کی گیتانجلی کا ترجمہ کیا ، نیاز کے افسانے رومانیت ، جمالیاتی ذوق اور تہذیبی حسیت کے آئینہ دار ہیں اور ان میں سماجی مسائل کا عکس نظر آتا ہے ، نیاز کے دو طویل افسانے ’’شہاب کی سر گزشت‘‘ اور ’’شاعر کا انجام ‘‘ نے بڑی شہرت اور مقبولیت حاصل کی ، اس کے علاوہ ’’حسن کی عیاریاں ‘‘ چوبیس کہانیوں پر مشتمل ہے اور ’’مختارات نیاز‘‘ میں دس افسانے ہیں جو انگریزی فکشن سے ماخوذ ہیں ، ’’چند دن بمبئی میں ‘‘ نیاز فتحپوری کی انشاء پردازی کا بہترین نمونہ ہے ، نیاز فتحپوری مناظر قدرت کے دل دادہ ہیں ، ان کے علاوہ نیاز کی تصانیف ’’انتقادیات‘‘ اور ’’ما لہ وما علیہ‘‘ سے ان کے تنقیدی رویہ کا پتہ چلتا ہے ، ’’کلام مؤمن پر ایک طائرانہ نظر‘‘ نیاز کا ایک اہم تنقیدی مضمون ہے ، انھوں نے داغ ، ریاض خیرآبادی ، نظیر اکبرآبادی ، حسرت موہانی اور اقبال پر بھی تنقیدی مضامین سپرد قلم کئے ہیں ، وہ نگار کے ۴۴ تک سال تک اڈیٹر رہے اور انھوں نے چالیس سال سے زیادہ عرصہ تک انھوں نے اردو طبقہ کے ادبی ذوق کی تکمیل کی اور تشنگان علم کی پیاس بجھائی ۔

مجنون گورکھپوری (۱۹۰۴۔۱۹۸۸ء)

مجنون گورکھپوری کی شخصیت ہمہ گیر اور ہمہ جہت تھی وہ افسانہ نگار بھی تھے اور نقاد بھی تھے ، ان کا اصل نام احمد صدیق تھا اور وہ ضلع بستی کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے ، عربی فارسی کی تعلیم کے بعد انھوں نے انگریزی میں ایم اے کیا ، ان کے اکثر افسانوں کا انجام المیہ ہوتا ہے ، ان کی کہانیوں میں عورت خلوص و وفا کا پیکر بن ہمارے سامنے آتی ہے ، مجنون گورکھپوری ملازمت سے علحدگی اختیار کرنے بعد پاکستان چلے گئے تھے ، انھوں نے بحیثیت نقاد بھی بہت کام کیا ہے ، اور ان کی نثر پر اثر ، سادہ بے ساختہ اور رواں ہے ، ان کے اندر جذبات نگاری کا سلیقہ موجود ہے اور وہ اپنے کرداروں کو مؤثر انداز میں پیش کرتے ہیں ، انھوں نے ’’زیدی کا حشر ‘‘ کے نام سے ایک دل چسپ اور مؤثر ناولٹ بھی لکھا تھا ، مجنون کے افسانے زندگی کو راز الفت کے طور پر پیش کرتے ہیں ، اور اپنے افسانوں میں انھوں نے مذہب وملت کو محبت کے راستہ میں حائل نہیں ہونے دیا ، ان کے مشہور افسانوں میں ’’خواب وخیال‘‘ ، ’’بے گانہ ‘‘، ’’شکستہ بے صدا ‘‘ ، ’’سمن پوش‘‘ ، ’’تم میرے ہو‘‘ ،اور ’’من در چہ خیالیم و فلک در چہ خیال‘‘ کا شمار ہوتا ہے ، ان کے افسانوں میں دل کشی ہوتی ہے اور قاری ان میں محو ہوجاتاہے ۔
اردو تنقید میں مجنون گورکھپوری کا مقام بلند ہے اور انھوں نے نئے رجحانات و نظریات کا اس میدان میں تعارف کرایا ہے ، ان کا شمار نئی تنقید کے معماروں میں ہوتا ہے ، تنقید سے متعلق ان کے بہت سے مضامین ہیں جیسے ’’ادب اور زندگی‘‘ ، ’’مبادیات تنقید ‘‘، ’’ زندگی اور ادب کا بحران‘‘ ، ’’ادب اور ترقی‘‘ ، ’’نظیر اکبرآبادی‘‘، ’’حالی کا مرتبہ اردو ادب میں ‘‘ اور ’’نیا ادب کیا ہے ‘‘ مجنون گورکھپوری کے اہم تنقیدی مضامین ہیں ، ان کی کتابیں بھی ہیں ، جیسے ’’ادب اور زندگی‘‘، ’’تنقیدی حاشیے ‘‘، ’’نقوش وافکار‘‘، ’’اقبال‘‘اور ’’نکات مجنون‘‘ ، ان کتابوں سے مجنون کے تنقیدی افکار اور خیالات کا تعارف ہوتا ہے ، کہیں کہیں ان کا تنقیدی اسلوب بہت تاثراتی ہوجاتاہے ، جیسے وہ لکھتے ہیں ’’اردو شاعری بھی اپنا خدا رکھتی ہے اور وہ میر کہلاتا ہے ‘‘، ظاہر ہے کہ اس طرح کے تبصروں سے مضمون نگار کی عقیدت کا اظہار ہوتا ہے لیکن شاعر کی شخصیت پر صحیح روشنی نہیں پڑتی ہے ، ایک جگہ وہ لکھتے ہیں ’’ تنقید بھی ادب کی ایک صنف ہے اور لکھنے والے کے ذاتی ذوق اور اس کے جذبات سے اس کو الگ نہیں کیا جاسکتا ‘‘ ، بعد میں مجنون گورکھپوری نے حقیقت پسندانہ نقطہء نظر بھی اختیا رکیا اور کارل مارکس کے افکار بھی اپنایا ، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ وہ کسی ادب پارے میں گھلاوٹ ، آہنگ ، فنی حسن ، دل کشی اور جمالیاتی رچاؤ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کرتے ہیں ، ایک جگہ وہ رقم طراز ہیں کہ ’’ادب قوموں کے عروج وزوال کا آئینہ ہوتا ہے ‘‘ ان کا یہ نقطہ نظر مشہور انگریزی نقاد میتھیوآرنلڈکے فکر کا انعکاس ہے ، کیونکہ اس نے ادب کو زندگی کی تنقید سے تعبیر کیا تھا ، انھوں نے آرنلڈ کے نظریات کی تائید کی ہے ، انھوں نے ادب کو معاشرتی محرکات کا آفریدہ بھی بتایا ہے ، انھوں نے نظیر اکبرآبادی کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے روح عصر کی اہمیت اجاگر کی ہے ، اور وہ ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ ’’اب بھوک اور پیاس اور دوسری انسانی حقیقتوں کو ادب اور شاعری میں وہی جگہ دی جائیگی جو پہلے حسن وعشق کو دی جاتی تھی ‘‘ ، مجنون گورکھپوری کا اسلوب نگارش دل چسپ ، شگفتہ ، رواں اور دل آویز ہے ، اور قاری اس کی جاذبیت کو محسوس کئے بغیر نہیں رہتا ، انھوں نے اقبال کے شاہین پر تنقید کی ہے کہ اس سے جارحیت اور سفاکی اور قوت کے استعمال کا درس ملتا ہے ۔

Share
Share
Share