فن تدریس میں سوال کی اہمیت
سوال کرو ایسےکہ جواب نکل آئے
فاروق طاہر
حیدرآباد ۔ دکن
سوال پوچھنا ایک فن ہے ۔ فن تدریس علوم کے فروغ کی خاطر اساتذہ سے ایک ماہر کی طرح سوال کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔موثر تدریس اور معیاری اکتساب کے لئے اساتذہ کو معیاری سوال بنانے اور طلبہ کو مناسب سوال پوچھنے کی تربیت فراہم کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مشہو ر مقولہ ہے کہ ’’جو ، سوال نہیں کرتا وہ کچھ علم حاصل نہیں کرتا ۔‘‘اس ضمن میں تھیو ڈور اسٹرک (Theodore Struck) نے نہا یت خوبصورتی سے اپنے ایک جملے سے فن تدریس میں سوال کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔
’’اگر سوال مناسب وقت اور صحیح طریقے سے کیا جائے تب یہ نہ صرف تفہیم کے نئے افق روشن کرتے ہیں بلکہ علم کی تنظیم و تعلیمی تجربات کو درست کرتے ہوئے بہتر نتائج پیش کرتے ہیں۔‘‘(If used in right way, at the proper time, questions leads to new realms of understanding, and they will serve as means of organizing knowledge or correcting the results of educative experiences)
اچھے سوال سامع کی توجہ و دلچسپی کو مبذول کرنے کے ساتھ غورو فکر کی صلاحیت کو مہمیز کرنے ، سوچنے ،پیمائش و جانچ اور استدلال کی صلاحیت کو فروغ دینے کے علاوہ معلومات کی با زیافت اورعلمی وسعت پیدا کرنے میں نہایت معاون ہوتے ہیں۔عموما اساتذہ طلبہ سے ان کی معلومات کی جانچ یا معلومات کے فروغ کے لئے سوال پوچھتے ہیں۔’’کیا،کیوں،کب،کیسے،کہاں،کون ،جیسے بنیادی سوالات کو’’ اکتساب۔تدریس اور جانچ ‘‘کے درران بڑی مہارت اورمناسب طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔استفہام کی کامیابی کا دارو مدار مختلف تعلیمی سرگرمیوں کی انجام دہی کے دوران،مختلف حالات کے پس منظر میں تیار کردہ سوالات کے معیار اور ان کی پیش کش پر منحصر ہوتا ہے۔اساتذہ کی جانب سے کیا جانے والاہر سوال طلبہ کے ذہنوں کو متحرک کرنے ،غور و فکر کی دعوت دینے ،اکتساب کے فروغ کے علاوہ دانشوری کی سطح میں اضافے کا باعث ہونا چاہیئے۔سوالات کے عامیانہ طریقے جس سے صرف اکتساب شدہ معلومات کا اعادہ یا معلومات کی بازیافت کا کام ہوتا ہے کے برخلاف اساتذہ اپنے سوالات کے ذریعہ طلبہ کو مروجہ و روایتی سوچ سے ہٹ کر سوچنے ،تجسس پیدا کرنے والے اور ان کو مزید سیکھنے کی طرف مائل کرنے اور ان کی صلاحیتوں کو للکار نے والے سوالات سے کام لیں۔اگر سوالات کرنے کا طریقہ کار یا تکنیک مناسب نہ ہو اور اغلاط و تشکیک سے پر ہو ں تب اس کی اصلاح کے بغیر تدریسی کاز میں پیشرفت مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتی ہے۔سوالات کے معیار اور انداز میں تبدیلی کے بغیر تعلیمی و تدریسی مقاصد کا حصول بہت ہی دشوار ہوجاتا ہے۔ طرزاستفہام و استفسار (سوالات بنانے اور پوچھنے) پر عبور حاصل کرتے ہوئے نہ صرف تدریس کو آسان بلکہ موثر ،دلچسپ اور پرکیف بنایا جاسکتا ہے۔
سوالات کرنے یا پوچھنے کے مقاصد؛۔ پیشہ درس و تدریس میں سوالات کرنے یا پوچھنے کے درج ذیل مقاصد پر ہوتے ہیں۔
(1)درس و تدریس کے اثرات کا جائزہ لینا اور طلبہ میں موضوع کی تفہیم کے حدود کا اندازہ قائم کرنا۔(2) طلبہ کو اکتساب پر اکسانے ،راغب کرنے کے علاو ہ تجسس ،تخیل ،دلچسپی پیدا کرنا۔(3)معیاری سوچ کی اعلیٰ سطح کا فروغ۔(4) طلبا کی اکتسابی عمل میں فعال شرکت کی حوصلہ افزائی اور کمرۂ جماعت میں طلبا مرکوز تدریس کو یقینی بنانا۔(5)تدریس اسباق کے دوران اور اختتام پر معلومات کا اعادہ اور اکتساب کو پائیدار بنانا۔(6)طلبا کی تفہیم و معلومات کی جانچ کے لئے ان کی سابقہ جماعتوں کی معلومات کا اعادہ و بازیافت ۔(7)طلبہ کی مخفی صلاحیتوں کوعیا ں کرنا ، ان میں پوشیدہ تخلیقی و دیگر صلاحیتوں کی بازیافت۔(8)طلبا کے اکتساب میں مانع مخصوص مشکلات کی تشخیص انجام دینا۔(9)طلبا ء کی رجحان و رویہ سازی کرنا، کھوج و دریافت کی صلاحیت کو فروغ دینااور قدردانی و استحسان کا جذبہ پیدا کرنا۔
سوالات کے پوشیدہ عیوب؛۔
نا قص طریقہ استفہامیہ سوالات کے پس پردہ مقاصد کی غلط تعبیر و تفہیم کا باعث بنتا ہے۔مناسب استفہام کی تکینک کے عدم استعمال کی وجہ سے معلنہ تدریسی مقاصد تک رسائی مشکل ہوجاتی ہے۔عام طور پر طلبہ سے اساتذہ جو سوالات کرتے ہیں ان میں درج ذیل معائب و نقائص پائے جاتے ہیں۔
(1)ناقص سوالات کی تشکیل جو طلبہ میں تشکیک اور الجھن پیدا کرتے ہوئے انہیں جواب دینے سے باز رکھے۔(2)طلبہ سے متواتر کئی سوالات کرنا۔(3)طلبہ سے سوالات تو کرنا لیکن انھیں سوچنے اور جواب دینے کے لئے مناسب وقت فراہم نہ کرنا۔(4)سوالات تو کرنا لیکن غلط جواب کی اصلاح نہ کرنا،یا جواب کے غلط حصہ کی اصلاح نہ کرنا یا پھر اصلاح کے ذریعہ صحیح جواب کی تشکیل میں رہبری نہ کرنا۔(5)دھمکانے والے انداز میں سوال کرنا جس کی وجہ سے طلبا خود اعتمادی کھودیتے ہیں اور جواب دینے سے خود کو عاجز پاتے ہیں۔
(6) ایک جیسے کئی سوالات جن کے جوابات ہا ں یا نہیں میں دیئے جاسکتے ہیں سے اساتذہ کا احتراز ضروری ہے جو رفتہ رفتہ طلبا کو اندازے پر ابھار تے ہیں اور حقیقی اکتساب سے محروم کردیتے ہیں۔(7)تخلیقیت ،تنقیدی سوچ اور فکر کو مہمیز کرنے والے سوالات نہ کرنا۔(8)جماعت کے ذہین طلبا سے ہی سوال کرنا اور جماعت کے دیگر طلبا سے سوال نہ کرنا،یا جماعت کے تمام طلباء کو جواب دینے کا یکساں موقع فراہم نہ کرنا۔(9)سوالات میں تنوع و تبدیلی کو شامل نہ کرنا۔(10)سوال کو سزا کے طور پر یا طلبا کو خاموش کردینے کے لئے مشکل سوالات کرنا۔(11)طویل لمبے لمبے سوال کرنا غیر ضروری اور مشکل الفاظ سے پر سوالات کرنا۔ (12)کسی خاص مقصد کے بغیر سوال کرنے سے طلبا میں اکتساب کا عمل مجروح ہونے کے علاوہ قیمتی وقت بھی ضائع ہوجاتا ہے۔
موثر استفہام؛۔
اساتذہ موثرسوالات کے ذریعے بامقصد و موثر تدریس کو انجام دے سکتے ہیں۔درس و تدریس ہر قدم پر توجہ اور احتیاط کی متقاضی ہوتی ہے۔اساتذہ درج ذیل تجاویز پر عمل کرتے ہوئے استفہام و استفسار کو کارآمد اور موثر تدریسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔
(1)سوالات آسان عام فہم زبان میں تشکیل دیئے جانے چاہیئے۔اگر سوال پیچیدہ اور مشکل ہوں تب اس کو عا م فہم اور آسان بنانے سے تدریس کارآمد اور موثر ہوجاتی ہے۔اسباق کی تدریس سے قبل سوالات کی تشکیل بہت ہی اہم ہوتی ہے۔ اساتذ ہ کو اس ضمن میں لاپرواہی سے کام نہیں لینا چاہیئے۔(2)ہاں یا نہیں پر مشتمل زیادہ سوالات نہیں پوچھنے چاہیئےِ۔طلبا کی فعال تدریس میں شرکت اور محرکہ پیدا کرنے کی خاطر ہر طالب علم کو جواب دینے کا یکساں موقع اور ترغیب دینا چاہیئے۔(3)طلبا کی ذہنی و تعلیمی استعداد کو ملحوظ رکھتے ہوئے سوال کریں۔ذہین طلبہ سے اعلیٰ فکر پر مشتمل سوالات کریں اور تعلیمی اکتسابی مشکلات سے دوچار طلبہ سے آسان سوالات کریں۔یہ طریقہ کار طلبہ میں ترغیب و تحریک کی مختلف سطحوں کوبرقرار رکھنے میں مددگار ہوتا ہے۔(4)سوال پوچھنے کے بعد جواب دینے یا جواب کی تشکیل کے لئے وقت فراہم کرنا ضروری ہوتا ہے خاص طور پر مشکل اور گنجلک سوالات کے جوابات کے لئے تو یہ بہت ہی ضروری ہے۔(5)سوالات صرف معلومات کا اعادہ کرنے یا یاداشت کی پیمائش پر مشتمل نہ ہوں بلکہ سوالات تخلیقی سوچ اور تنقید ی فکر ابھارنے اور مہمیز کرنے پر مشتمل ہونے چاہئیے۔(6)سوالات استفہامیہ انداز میں ہونے چاہیئے اور مناسب سوالات کا آغاز سوالیہ الفاظ جیسے کون،کیا،کب، کہاں،کیسے سے شروع ہوناچاہیئے۔’’مجھے کون بتائیے گا؟‘‘جیسے فقروں کا سوالات میں ہرگز استعمال نہ کریں۔(7)تمام جماعت سے ایک ہی سوال پوچھنے کے بعد بلاترتیب طلبہ سے جواب طلب کریں۔(8)چند سوالات پوچھنے کے بعد بعض مرتبہ استاد بچوں کو خاموشی سے اپنے ذہن میں جواب سوچ لینے یا پھر تحریری جواب دینے کی تلقین کر سکتے ہیں۔(9)طلبہ کے جواب دینے سے پیشتر سوال کو دہرانے سے بھی بہت فائدہ ہوتا ہے اور طلبہ بہتر طور پر جواب دینے کے لائق بن جاتے ہیں۔ اساتذہ اس طریقہ کار پر عمل پیرا ہوکر موثر تدریسی فرائض انجام دے سکتے ہیں۔(10)اساتذہ،طلبہ کو سوال بنانے اور سوال پوچھنے پر ابھاریں۔طلبہ کو جب استاد کے ترتیب کردہ سوالات کے مطابق چند سوال تیار کرنے کی سرگرمی دی جاتی ہے یہ سرگرمی طلبہ میں اکتسابی اشتیاق پیدا کرنے میں نہایت معاون ہوتی ہے۔
کلاس روم(کمرۂ جماعت) میں سوالات کرنے کا طریقہ کار؛۔
استاد طلبہ کے آگے پرمعز ،اچھی طرح سے سوچے سمجھے سوالات بالکل آسان اور عام فہم زبان میں رکھیں۔اساتذہ سوال کرنے کے بعد سوچنے ،غور و فکر کرنے اورطلبہ کو اپنیذہن میں جواب تشکیل دینے کا وقت اور موقع فراہم کریں۔ سوال کا جواب کسی ایک طالب علم کا انتخاب کرتے ہوئیحاصل کریں۔ مجموعی یا گروہی جوابدہی سے بالکل اجتناب ضروری ہوتا ہے۔گروہی جواب دہی کی ہرگز حوصلہ افزائی نہ کریں۔ کیونکہ گروہی جواب دہی سے کمرۂ جماعت کا نظم و ضبط درہم برہم ہونے کے علاوہ طلبہ جواب بھی ٹھیک طور پر سننے اور سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اساتذہ صحیح اور اچھا جواب دینے والے طالب علم کی ستائش اورتعریف و توصیف کریں۔ اچھے اور صحیح جوابات کو دہرائیں تاکہ ان کو تمام طلبہ سن کر اپنے ذہنوں میں محفوظ کر سکیں۔غلط تفہیم کے ازالے کے لئے فی الفور غلط جواب کی اصلاح کریں تاکہ طلبہ کو درست اور بہتر معلومات حاصل ہوسکے ۔تشکیک اور الجھن سے طلبہ کے ذہنوں کو پاک رکھا جاسکے۔طلبہ کو جواب کے لئے ابھارنے اور ترغیب دینے کے لئے موقع کی مناسبت سے اشارے و کنایے فراہم کریں۔استاد کا مشفقانہ رویہ الجھن کا شکار اور متذبذب طلبہ کو جواب دینے کا حوصلہ فراہم کرتا ہے۔استاد بچوں کے جوابات پر چپ نہ سادھ لیں بلکہ صحیح اور غلط جواب کی نشاندہی ضرور کریں۔طلبہ کو اپنے دیئے گئے جواب کی درستگی کا ادراک ا ور سوال کا فہم بہت ہی ضروری ہوتا ہے۔ تنوع ،تخلیقی سوچ اور تنقیدی فکر کو اجاگر کرنے والے سوالات کی تشکیل کے ذریعہ اساتذہ موثر تدریس انجام دے سکتے ہیں۔سوالات میں تنوع کے ذریعہ طلبہ میں تحریک و رغبت کو پیدا کیا جاسکتا ہے۔تعلیمی طور پر شاندار صلاحیت کے حامل غیر معمولی ذہین طلبہ کے معیار کے مطابق مشکل اور کم تعلیمی لیاقت کے حامل طلبہ سے ان کے معیار اور استعداد کے مطابق آسان سوالات کریں۔جماعت کے تمام طلبہ سے سوالات پوچھیں اور سب طلبہ کو جواب دینے کا یکساں موقع فراہم کریں تاکہ فعال تدریس کی انجام دہی کو ممکن بنایا جاسکے اور تمام طلبہاکتسابی عمل میں یکساں طور پر شریک ہو سکیں۔طلبہ اگر غلط جواب دیں تو ہرگز کی ان کی تنبیہ ،تحقیرو تضحیک نہ کریں بلکہ نہایت شفقت سے صحیح جواب دینے پر مائل کریں۔ غلط جواب دینے پر یا سوال کا جواب نہ دینے پر ہر گز سزا سے کام نہ لیں۔طلبہ کو ان کے شکوک و شبہات کے ازالہ کے لئے سوال کرنے اور اپنی رائے پیش کرنے کی مکمل آزادی دی جانی چاہیئے۔بعض مرتبہ اساتذہ طلبہ کو سوالات کے جوابات تحریر کر نے کے علاوہ اپنی تجاویز و رائے کے اثبات کے لئے جماعت کے دیگر ساتھیوں سے بحث و مباحثہ کا موقع بھی فراہم کرے۔استاد کمرۂ جماعت میں کسی طالب علم کی جانب سے پوچھے گئے سوال کا جواب خود دینے کے بجائے جماعت سیکسی طالب علم کو آگیکر تے ہوئے جواب دینے کا موقع فراہم کرے۔جو طالب علم رضاکارانہ طور پر سوال کا جواب دینے کے لئے آگے آئے استاد اس کی حوصلہ افزائی کرے۔اس طرح کا عمل طلبہ کو نہ صرف جماعت میں پوچھے جانے والے کسی بھی سوال کا جواب دینے کے لائق بنا تا ہیبلکہ طلبہ میں خود اعتمادی اور خود اکتسابی کی فضاء کو بھی پروان چڑھاتا ہے۔کب ،کیوں ،کیسے،کہاں، جیسے الفاظ جب بھی سر اٹھاتے ہیں یہ یا تو طلبہ کے تجسس کو بڑھاتے ہیں یا پھر ان کے تجسس کی وجہ تسکین بنتے ہیں۔ استاد یا طلبہ کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالیہ و استفہامیہ جملے طلبہ کے فطری تجسس کی تسکین کے ساتھ شعور و دانشوری کے فروغ میں کلیدی کردار انجام دیتے ہیں۔سوال کو علم کی کلید کہا جاتا ہے۔اساتذہ کو طلبہ کے سوالات سے کبھی متنفر نہیں ہونا چاہیئے۔استادسوال کرنے پر بچوں کو طنز و تشنعہ کا نشانہ نہ بنائیں۔اساتذہ کی طعن و تشنعہ کی وجہ سے طلبہ حصول میں اکتاہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔اساتذہ کے سخت و سست کہنے کی وجہ سے وہ آئیندہ کبھی کوئی سوال کرنے سے اجتناب کرنے لگتے ہیں۔دوران تدریس سوال پوچھنے کا مقصد طلبہ کی سبق میں دلچسپی کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔اساتذہ کو اس بات پر خاص توجہ دینے کہ ضرورت ہوتی ہے کہ بچوں میں بے کار اور فضول قسم کے سوالات کرنے کی عادت نہ در آئے۔مناسب ومعیاری سوال کرنے کی عادت کے فروغ کے ذریعہ اساتذہ طلبہ میں اکتساب کی شرح و معیار کو روز افزوں ترقی دے سکتے ہیں۔استاد بھی لایعنی سوالات سے مکمل احتراز کریں اور حکمت و شعور سے کام لیتے ہوئے مفید سوالات کریں۔ سوال کرنے اورجواب دینے میں ہچکچاہٹ و تذبذب کے شکار طلبہ کی حوصلہ افزائی کریں۔سبق کے اختتام پر اساتذہ کو ایسے سوال مرتب کرنے ضروری ہوتے ہیں جس سے نفس مضمون و موضوع کا طلبہ کو شرح صدر ہوجائے یعنی مفہوم و معنی ذہن نشین ہوجائے۔سبق کے اختتام پرسوالات ایسے ہوں جو موضوع کے مختلف زاویوں کا احاطہ کرتے ہوئے طلبہ کو تشکیک و الجھن کی تاریکیوں سے علم کے اجالوں میں لے آئیں۔استاد محتاط و ماہرانہ انداز میں سوالات کی ،تشکیل و ترتیب انجام دیں اور مناسب و برمحل سوال کرتے ہوئے بچوں کی علمی دلچسپی کو برقرار رکھے۔
اساتذہ ،طلبہ کے جوابات کا کیسے سامنا کریں؛۔
طلبہ کے فہم کی گہرائی و گیرائی ان کے دیئے جانے والے جوابات سے مترشح ہوتی ہے۔اساتذہ کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالات کا جب بھی طلبہ جواب دیتے ہیں استاد کو اس کا بروقت جواب دینا ضروری ہوتا ہے۔اگر جواب درست ہو تب استاد طالب علم کی ستائش و تعریف کے ذریعے حوصلہ افزائی کا کام انجام دے۔چند صحیح جوابات جو بہت اچھے ہوتے ہیں ان کو باربار دہرا تے ہوئے جماعت کے دیگر طلبہ کے لئے موضوع و مفہوم کو بہتر انداز میں سمجھنے کا موقع فراہم کیا جاسکتا ہے۔غلط جواب کو استاد دیگر طلبہ سے وہی سوال دہراکر درست جواب حاصل کرنے کی کوشش کریں یا پھر صحیح جواب بتاکر طلبہ کی رہبری و رہنمائی کے فرائض انجام دیں لیکن غلط و غیر درست جواب پر طلبہ کی ہرگز سرزنش نہ کر یں۔اگر طلبہ کا جواب جزوی درست ہوتو استاد ماباقی غلط جواب کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کو درست کرتے ہوئے طلبہ کی مدد کریں۔اساتذہ کو طلبہ کی جانب سے جب کبھی ادھورا جوابات موصول ہوں وہ اسے مکمل کرتے ہوئے دلچسپ اور بامعنی بنادیں۔بعض موقعوں پر طلبہ تفنن طبع اور شرارت کی وجہ سے ذومعنی اور شرارت سے پر جوابات دیتے ہیں ایسے حالات میں استاد کو نہایت چوکسی سے کام لیتے ہوئے ماحول کو قابو میں رکھنیکی ضرورت ہوتی ہے،طلبہ کو خبردار کرنا ضروری ہوتا ہے ورنہ جماعت کا نظم وضبط درہم برہم ہوجاتا ہے۔اساتذہ ،طلبہ کے جوابات کے تناظر میں ان کی صلاحیتوں کا جائزہ لینے کی کوشش کریں۔دانشوری سے کام لیتے ہوئے اپنے تدریسی فرائض انجام دیں تاکہ بامعنی فعال اور کارآمد تدریسی فرائض کو انجام دیتے ہوئے اکتساب کے نئے افق کو دریافت کرسکیں۔
کمرۂ جماعت میں طلبہ کے جوابات پر حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اساتذہ اکتسابی عمل کو بہتر بناسکتے ہیں۔اساتذہ کے لئے بہت ضروری ہے کہ وہ اجتماعی جواب دینے (گروپ آنسرنگ) سے طلبہ کو باز رکھیں۔اجتماعی جوابات سے کمرۂ جماعت کا نظم وضبط خراب ہونے کے علاوہ درس و تدریس (درس و اکتساب)کے عمل میں بھی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔طلبہ میں جواب دینے کے طور طریقوں اور انداز و سلیقہ کو اساتذہ پروان چڑھانے کی کوشش کریں۔طلبہ کی جانب سے دیا جانے والا جواب واضح ،اچھی طرح سے سوچا سمجھا ،منظم و مربوط ہونے کے ساتھ تمام جماعت کے لئے قابل سماعت ہو۔استاد کی جانب سے دیا جانے والا ردعمل طلبہ کو جوابات کی طرف مائل کرتا ہے استاد کا ردعمل ان میں اشتیاق پیدا کرتا ہے کہ وہ استاد کے ہر سوال کا جواب دے سکیں۔بعض مرتبہ طلبہ استاد کے سوالات کے جوابات دینے سے چوک جاتے ہیں اس کی اصل وجہ سوالات کی ناقص تشکیل و تنظیم ہوتی ہے۔جب استاد کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتے تب وہ فی الفور اپنے سوالات کی ازسر نو ترتیب دیتے ہوئے بچوں کو جواب دینے کی طرف مائل کرے۔بعض بچے اپنی شرم ،تذبذب اور اکتسابی مسائل کی وجہ سے جواب دینے سے احتراز کرتے ہیں ۔ان بچوں میں اعتماد کی فضاء بحال کرنے میں استاد ایک کلیدی کردار انجام دیتا ہے۔تذبذب ،شرم اور اکتسابی مسائل سے دوچار طلبہ کے لئے استاد سوالات میں سے دیگر سوالات کی تشکیل وترتیب کے ذریعہ ان کو تعلیمی میدان کے اہم دھارے میں شامل کرنے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔استاد کا برتاؤ و طرز عمل بچوں سے تذبذب ،شرم اور دیگر اکتسابی مسائل کے خاتمے میں اہم کردار کا حامل ہوتا ہے۔
مناسب سوالات پوچھنے کے فوائد؛۔
(1)مناسب طریقے سے ترتیب و تشکیل کردہ سوالات کو بروقت و مناسب موقعوں پر استعمال کرنے سے طلبہ میں استدلال کی صلاحیت کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔اساتذہ بہتر انداز استفہام کے ذریعہ طلبہ کی قوت متخیلہ کو مہمیز کرنے کے علاوہ تخلیقی صلاحیتوں کو اور تنقیدی و تفتیشی صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔
(2)مناسب و بہتر استفسارات کی بدولت طلبہ کی گزشتہ اسباق یا جماعت کی معلومات کی بازیافت ، یاد آوری ممکن ہوتی ہے۔بہتر سوال کی مدد سے نئی معلومات کو سیکھنے میں آسانی ہوتی ہے اور گزشتہ معلومات اورنئی معلومات (معلومات جدیدہ) کے درمیان رشتہ استوار کرنے میں کافی مدد حاصل ہوتی ہے۔
(3)سوالات کی وجہ سے اساتذہ طلبہ کی تعلیمی ترقی کی پیمائش اور جانچ کا کام احسن طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔سوالات ہی کے ذریعہ اساتذہ بچوں کو تعلیمی مقاصد کے حصول کی جانب گامزن کرتے ہیں اور بچوں میں پائے جانے والی تعلیمی مسائل و مشکلات کا ادراک حاصل کرتے ہیں۔
(4)سوالات مختلف اوقات میں طلبہ کی تعلیمی صلاحیتوں کے معیار کی جانچ و پیمائش کا کام انجام دیتے ہیں ۔جانچ و پیمائش کے دوران پیش کردہ تجاویز و آرا طلبہ کی تعلیمی ترقی میں نہایت کلیدی کردار کے حامل ہوتے ہیں۔
(5)سوالات تعلیم و فہم کو گہرائی و گیرائی عطا کرتے ہیں۔سوالات کی وجہ سے معلومات و علم میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔
(6)سوالات کی وجہ سے طلبہ آزادانہ طور پر غور و فکر کرنے ،سوچنے کے متحمل ہوجاتے ہیں۔دوران تدریس ہونے والے اندرون جماعت مکالمات طلبہ میں اعتماد و یقین کی کفیت پیدا کر تے ہیں۔
(7)استاد کی جانب سے بہتر سوالات کی ترتیب و تنظیم اور پیش کش طلبہ میں تجسس کے فروغ میں معاون ہوتی ہے۔ استاد کی جانب سے کیئے جانے والے سوالات طلبہ کو مزید سوالات کرنے اور پوچھنے کا متحمل بنا دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں تعلیمی دلچسپی مزید فروغ پانے لگتی ہے۔
(8)سوالات کی وجہ سے طلبہ میں توجہ (Concentration)کو فروغ حاصل ہوتا ہے طلبہ کی توجہ میں خلل پیدا نہ ہونے کی وجہ سے ان میں افہام و تفہیم کی صلاحیتں فروغ پانے لگتی ہیں۔
(9)سوالات کی وجہ سے طلبہ استاد سے گفتگو کرنے لگتے ہیں اور طلبہ جس قدر استاد سے گفتگو کریں گے ان میں تعلیم سے دلچسپی اسی قدر بڑھتی جائے گی۔
سوالات کی درجہ بندی؛۔ بہتر سوال کی ایک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ فکر کو مہمیز کر تا ہے اور مختلف و متغیر حالات میں بھی مقا صد کی تکمیل کو اولین ترجیح دیتا ہے ۔مختلف حالات میں مقصد کے پیش نظر مختلف سوالات کا انتخاب عمل لانا ایک عمدہ تدریس کا اٹوٹ حصہ ہوتا ہے۔سوالات بنانے اور کرنے کے فن میں دسترس حاصل کرنے کے لئے اساتذہ کو سوالات بنانے اور کرنے کے مختلف طریقوں سے آگہی ضروری ہوتی ہے۔سوالات کرنے کے مختلف طریقے اور سوالات کے مختلف اقسام پائے جاتے ہیں۔سوالات کے مختلف و وسیع اقسام جو اساتذہ کو سوال کرنے کے فن سے آراستہ کرنے میں مددگار ہوتے ہیں ان کو ذیل میں بیان کیا گیا ہے۔
(1)مربوط ومتصل سوالات (Convergent Questions)
(2)مختلف ،منتشر و غیر مربوط سوالات(Divergent Questions)
مربوط و متصل سوالات بنیادی طور پر حقائق کے اعادہ یا بازیافت اور براہ راست جوابات پر توجہ مرکوز کیئے ہوتے ہیں۔عموما یہ سوالات کسی ایک جواب پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان سوالات میں اعلیٰ سطح کی فکر شامل نہیں ہوتی ہے۔کمرۂ جماعت میں تدریس کے دوران مربوط و متصل سوالات (convergent questions)کو تدریسی منصوبے میں کم وقت کے صرفے کی وجہ سے شامل کیا جاتا ہے ۔جب کہ متنوع ،مختلف و غیر مربوط سوالات میں ذہنی توانائی و صلاحیت کو بروئے کار لا یا جاتا ہے اور یہ سوالات فکرکی اعلیٰ سطح کی غمازی کرتے ہیں۔یہ سوالات طلبہ میں وسیع فکر کو جگہ دینے کے ساتھ تخلیقی و تخیلاتی اظہار کو استوار کرتے ہیں۔اعلیٰ سطح کے سوالات کی وجہ سے معلومات کے حصول مسائل کے تدارک اور حل میں مصروف رہتے ہیں۔طلبہ میں تخلیقی و تنقیدی فکر کو پروان چڑھانے کے لئے اساتذہ کو (Divergent Questions)متنوع و مختلف سوالات سے کام لینا ضروری ہوتا ہے۔سوالات کی مزید دو درجہ ذیل اقسام کی نشاندہی کی گئی ہے۔
(1)سطحی یا کم درجے کی سوچ پر مبنی سوالات(Questions involving lower level of thinking)
(2)اعلیٰ درجے کی سوچ پر مبنی سوالا ت (Questions involviing higher level of thinking)
سابقہ معلومات کو دہرانے (آموختہ)،پڑھنے،نام ،وضاحت ،بتانا(دکھلانا) ،یا مفہوم پوچھنا جیسے سوالات طلبہ میں اعلی فکر کو پروان چڑھا نے میں مددگار نہیں ہوتے ہیں۔برخلاف اس کے بچوں کو مسئلہ کے حل پیش کرنے یا کسی سوال کو حل کرنے، سمجھنے،تخلیقی اظہار،تجزیہ ،توجیہ و تعلیل ،موازنہ کرنے،نتائج اخذ کرنے،یا نتائج کی پیش قیاسی کرنے جیسے سوالات بچوں میں اعلیٰ معیاری فکر کو پروان چڑھانے میں بے حد مددگار ہوتے ہیں۔ایسے سوالات بچوں میں غور و فکر کرنے کی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے علاوہ کمرۂ جماعت میں ان کو فعال ومتحرک رکھتیہیں۔اساتذہ کو سوالات کی تشکیل اور انتخاب میں بہت ہی عقلمندی و ہوشیاری سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ استاد کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کی وجہ سے طلبہ میں اظہارکی صلاحیت، ردعمل یا جواب دینے کی صلاحیت ،فکر کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ معلومات و فہم پیدا کرنے میں معاون ہوں۔استاد کی جانب سے کمرۂ جماعت میں انجام دیئے جانے والے سوالات کو مزید تین درجات میں تقسیم کیا گیا ہے۔
(1)تمہیدی یا تعارفی سوالات(2)سبق سے متعلق سوالات(3)معلومات کے اعادے سے متعلق سوالات
تعارفی یا تمہیدی سوالات سبق کے آغاز پر پوچھے جاتے ہیں اور ان سوالات کے ذریعے پڑھائے جانے والے مضمون سے وابستہ طلبہ کی سابقہ معلومات اور موضوع سے متعلق ان کے فہم کا اندازہ قائم کرنا مقصود ہوتا ہے۔طلبہ کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے کے لئے اساتذہ کو سبق کے آغاز پر اچھے سوالات پوچھنے کی سخت ضرورت ہوتی ہے تاکہ طلبہ کو اکتسا ب کی جانب آسانی سے مائل و متوجہ کیا جاسکے۔سبق سے متعلق سوالات کو سبق کی تدریس و تفہیم کے دوران وقفے وقفے سے پوچھنے سے طلبہ کو مضمون ذہن نشین اور ازبر ہوجاتاہے۔مضمون کی تدریس کے دوران اساتذہ خو د سوالات پوچھنے کے علاوہ طلبہ کو بھی سوال کرنے کا موقع فراہم کریں تاکہ ان کے شکوک و شبہات کا بہتر طور پر ازالہ ہوسکے اور مضمون کے استحضار و تفہیم میں ان کو کوئی دشوار ی نہ ہوسکے۔سبق کے اختتام پر پڑھائے گئے موضوع سے متعلق معلومات اور موضوع کے فہم کی جانچ کے لئے سوالات کرنے سے طلبہ کے فہم کی گہرائی اور گیرائی کا بخوبی انداز ہ قائم کیا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ اعادے کے سوالات کی وجہ سے نفس مضمون بھی طلبہ کے ذہنوں میں محفوظ ہوجاتا ہے۔
سوالات کی چند اہم اقسام؛۔طلبہ سے بہترجواب کی توقع کرنے کے لئے اساتذہ کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ مناسب طریقے سے سوالات کی تشکیل انجام دیں تاکہ جواب دیتے وقت طلبہ کسی الجھن پریشانی اور تشکیک کے بہتر طریقے سے سوال کا جواب دے سکیں۔غیر موزوں ،غیر منظم اور سبق کی تدریس سے پیشترسوالات کو ترتیب نہ دینے سے مضمون کے بارے میں طلبہ تشکیک اور الجھن کا شکار ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ نفس مضمون کی تفہیم بھی نہیں کر پاتے ہیں جس کی وجہ سے استاد کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے وہ غلط جوابات دینے لگتے ہیں۔موثر تدریس کی انجام دہی کے لئے اساتذہ کو مختلف قسم کے سوالات تیار کرنے اور ترتیب دینے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ذیل میں بیان کردہ سوالات کے اقسام اساتذہ کے لئے تدریسی عمل میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
(1)فضائی آلودگی پھیلانے والے مختلف ذرائع کیا ہیں؟(سابقہ معلومات کی جانچ و اعادہ)
(2)زلزلے کی شدت کی پیمائش کرنے کا آلہ کس نے ایجاد کیا؟(سابقہ معلومات کی جانچ و اعادہ)
(3)فرانسیسیوں نے ہندوستان میں کب حکومت قائم کی ؟(سابقہ معلومات کی جانچ و اعادہ)
(4)وزیر اعظم کیوں ہنگامی اجلاس طلب کرتے ہیں؟(سابقہ معلومات کی جانچ و اعادہ)
UNESCO(5)مخفف کی توسیعی شکل کیا ہے؟(سابقہ معلومات کی جانچ و اعادہ)
(6)ربر کی کاشت اور پیداوار کرنے والی ہندوستانی ریاستوں کے نام بتلائیے؟(سابقہ معلومات کی جانچ و اعادہ)
(7)انسان کے جسم میں دل کہا پایا جاتاہے؟(سابقہ معلومات کی جانچ و اعادہ)
(8)ٹھوس شکل میں پائی جانے والی دو غیر دھاتوں کی مثال دیجئیے؟(سابقہ معلومات کی جانچ و اعادہ)
(9)مرکزہ کے افعال بیان کیجئے؟(سابقہ معلومات کی جانچ و اعادہ)
(10)سولار ہیٹر(solar Heater)کے کام کرنے کے طریقے کار کو بیان کرو؟(فہم کی جانچ)
(11)نظم پرندے کی فریاد کا خلاصہ لکھیئے؟(فہم کی جانچ)
(12)جنگلات کی کٹائی کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟(اطلاقapplication)
(13)ایک ایک کتا ب کی قیمت بیس (20)روپے ہے۔تب بتلائے کے احمد سو روپوں میں کتنی کتابیں خرید سکتا ہے۔(اطلاق application)
(14)نباتاتی خلیہ(پودے کا خلیہ) اور جانور کے خلیہ کے مابین پائے جانے والے فرق کو بیان کیجئے(تجزیہ)
(15)طول بلد اور عرض بلد کے درمیان فرق کی وضاحت کرو؟(تجزیہ)
(16)سیاروں کو صعودی ترتیب میں لکھیئے؟(تجزیہ)
(17) فطریطور پر گلنے والے (تحلیل پذیر bio degradable) اور غیر فطری طور پر گلنے والے (غیر تحلیل پذیر non bio degradable)ناکار ہ اشیاء کے درمیان فرق بتلائیے؟(تجزیہ)
(18)چھ کاربن کے جوہر والے alkaneکی ساختی ضابطے کا خاکہ بنائیے؟(ترکیب وتشکیل)
(19)شعاعی ترکیب کی تعریف کیجیئے؟(تعین قدرevaluation)
(20)اگر زمین پر کشش ثقل(gravity)نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟(تعین قدر evaluation)
(21)کیا مثلث کا رقبہ معلوم کرنے والے ضابطہ ہمیشہ کام میں لایا جاسکتا ہے؟(تجزیہ)
(22)رشید کو غذا کی چوری والے خاص مقدمہ میں سزا دی جانے چاہیئے؟(تعین قدر evaluation)
(23)کیا تحلیل ہونے والے اجسام (سڑنے گلنے والے اجسام) کے بغیر آپ دنیا کا اندازہ کر سکتے ہیں؟اپنی رائے کا اظہار کیجیئے؟(تجزیہ)
مذکورہ بالا سوالات کے ذریعہ اساتذہ کو متوجہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ سوالات کی تشکیل و ترتیب کے دوران سابقہ معلومات کی جانچ ،سابقہ معلومات کا اعادہ ،پڑھائے جانے والے سبق کی فہم کا احاطہ کرنے والے، معلومات کا روز مرہ کی زندگی میں اطلاق و استعمال کا جذبہ پیدا کرنے والے،تخیل و تجزیہ کو مہمیز کرنے والے ،ترکیب و تشکیل کی صلاحیت پیدا کرنے کے علاوہ بچوں کی صلاحیت کی پیمائش کر نے والے سوالات کو اپنی تدریس میں لازمی طور پر شامل کریں ۔مذکورہ بالا اقسام کے سوالات کے ذریعہ تدریس کو یقینی طور پر موثر بنا یا جاسکتا ہے۔
———
Farooq Taher
Eidi Bazar , Hyderabad
09700122826