تاریخ نعت گوئی
نور کی ندیاں رواں
ڈاکٹرعزیز احمد عرسی
ورنگل ۔ تلنگانہ
نعت کے لغوی معنی تعریف و توصیف کر نا ،مجازاً خاص حضرت سید المر سلین رحمتہ للعلمین صلی اللہ علیہ وسلم کی توصیف ہے عربی میں نبیؐ کی تعریف و توصیف پر مشتمل کلام کو ’’مدح النبیؐ‘‘ کہتے ہیں۔ تاریخ نعت گو ئی کی قدامت کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیو نکہ شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ نے سورۃ حدید کی آیت ’’ھوالاوّلوالاٰ خر۔۔۔‘‘ کی تفسیر بیان کرتے ہو ئے اس کو نہ صرف حمدالٰہی بلکہ نعت مصطفی ؐبھی قرار دیا ہے ۔(روح البیان ) علماے اکرام نے بیشتر قرآنی آیات کے ذریعہ ثابت کیا ہیکہ ’’خود قرآن پاک گو یا نعتیہ دیوان ہے ‘‘ مثلاً سورۃ اخلاص کو دیکھیں جسکی ابتدا ’’ قل ‘‘سے ہو تی ہے کہ ‘‘اے محبوب ؐ کہہ دیجئے کہ اللہ ایک ہے ۔‘‘یعنی صفات خدائے تعالیٰ کی ہیں لیکن کہنے والی زبان رسولؐ اللہ کی ہے ۔
قل کہہ کے اپنی بات بھی منہ سے ترے ؐ سنی
اتنی ہے گفتگو تری اللہ کو پسند
جس طر ح رب کی حمد کا کماحقہ بیان کر نا ممکن نہیں ہے اسی طر ح نعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ادا کرنا بھی ناممکن ہے ۔بس رب کی حمد ،احمدؐ کر سکتا ہے اور محمد ؐ کی صفت حامد بیا ن کرسکتاہے ۔اسی لئے شاعر کہتا ہے کہ
محمد ؐ سے صفت پو چھو خداکی
خدا سے پو چھ لو شان محمد ؐ
اسی لئے ہم نعت گو ئی کی تاریخ کے لئے کسی مخصوص زمانے کو متعین نہیں کر سکتے ۔بس اتنا کہہ سکتے ہیں کہ یہ زمانہ ازل سے لے کر ابدا تک پھیلا ہوا ہے ۔ابتدائے آفرینش سے جو نعت گو ئی کا سلسلہ شروع ہو اہے وہ نہ صرف قیامت بلکہ بعد ازقیامت بھی چلتا رہے گا ۔اسی لئے نعت گو ئی کی صنعت میں ہمیں نہ صرف پیغمبران علیہ الصلٰوۃ والتسلیم نظر آتے ہیں بلکہ ملا ئکہ بھی اسی صفت میں حصو ل سعادت کے لئے با ادب ایستادہ دکھا ئی دیتے ہیں ۔نعت کے لغوی معنی مدح وثنا کر نا ہے لیکن میرے نزدیک نعت کی تعریف ’’ادب واحترام اور محبت و عقیدت کے ساتھ ذکر رسول اللہ ؐہے جس کے ذریعہ انسان نہ صرف سعادت حاصل کر تا ہے بلکہ اپنی عاقبت بھی سنوارتا ہے ۔مو جو دہ دور میں نعت کے معنی اور مو ضوع و مواد میں بڑی وسعت و جامعیت پیدا ہو ئی ہے اس میں نہ صرف سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم (یعنی آپؐکی ولا دت سے لے کر و صال الی اللہ تک تمام احوال، و اقعات و غزوات ،شمائل الرسول صلی اللہ علیہ وسلم شامل ہیں۔ شمائل شریف یعنی آپکے اخلاق حسنہ ،مکارم وشمائل رفیعہ و بدیعہ اور جملہ اوصاف حیات خاصہ و عامہ،دلا ئل نبوت ،آپکے معجزات مشخصہ و مختصہ اور دلا ئل و براہین شامل ہیں اور خصائص النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یعنی و ہ خصائص کبریٰ ہیں جن سے اللہ رب العزت نے جمیع رُسل و انبیاء اکرام ؑ پر آپ ؐ کو علو فضیلت عطا فر ما یا۔ بلکہ اسلامی تعلیمات اسلامی تاریخ ،اسلا می تہذیب و تمدن اور اس کے اثرات کے علاوہ وہ تمام اشیاء اور شہر مدینہ کا بصداحترام وعقیدت تذکرہ بھی دائرہ نعت میں شامل ہے ۔جن سے حضور ؐ پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کو نسبت رہی ہے ۔اس لئے تو شاعر کہتا ہے کہ
خاکِ طیبہ از دوعالم خوشتر است
اے خنک شہرے کہ آنجاد لبرا ست
لیکن نعتیہ مو ضو عات پر خامہ فر سائی کر تے ہو ئے شاعر کے لئے لازم ہے کہ اس کا دل عشق رسول ؐ سے سر شار ہو۔وہ تعظیم رسولؐ کے ہر اُصول سے واقف ہو اور اپنے خیالا ت کے اظہار پر مکمل قدرت رکھتا ہو تا کہ شاعری کے مکمل لوازم کو ملحوظ رکھ سکے ۔تب کہیں جاکر اس کا کلام بارگا ہ الٰہی و نبویؐ میں شرفِ قبولیت پاتا ہے ۔
محمد ؐ کی محبت دینِ حق کی شرط اوّل ہے
اسی میں ہے اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے
رسول اللہ ؐنے فرمایا کہ ’’ان من الشعر حکمۃ ‘‘ یقیناً بعض شعر پُر حکمت ہوتے ہیں (بخاری) اور مسند ابی یعلی کی ایک حدیث کے مطابق ’’ ھو کلام فحستۃ حسن و قبیحہ قبیح‘‘ اسی لئے صرف شاعرانہ حسن آفرینی کسی کو نعت گو شاعر نہیں بناتی بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ اس میں سپرد گی ، روح کی ورافتگی اور حب نبیؐ کوٹ کوٹ کر بھری ہو ۔لیکن یہ حدیث ضرور پیش نظر رہے کہ ’’ میری تعریف میں غلو اور مبالغہ آمیزی سے کام مت لو جس طرح نصاریٰ عیسٰیؑ ابن مریم کی تعریف میں غلو اور مبالغہ آمیزی سے کام لیا میں اللہ کا بندہ ہی ہوں ۔تم میرے بارے میں یہ کہو کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ﷺ ہیں‘‘(بخاری) جب ہم نعت کے ابتدائی شاعر کو تلاش کرتے ہیں تو کئی ایک نام سامنے آتے ہیں لیکن مختلف لوگوں کی تحقیق ثابت کرتی ہے حضرت عبدالمطلب نے پہلی نعت کہی تھی روایتوں میں ہے کہ جب آپ ﷺ پیدا ہوئے تو حضرت عبدالمطلب آپ ؑ کو خانہ کعبہ لے گئے اور دعا فرمائی ،خدا کا شکر ادا کیا اور فرمایا کہ
الحمد للہ الذی اعطانی
ھذا الغلام الطیّب الاردان
قد ساد فیالمھد علی الغلمان
اعیذہ بالبیت ذی الارکان
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جس نے مجھے یہ خوش اندام لڑکا عطا فرمایا اس لڑکے کو گہوارہ طفولت میں ہی سب بچوں پر فضیلت و سعادت حاصل ہے، میں اس کو بیت اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں تاکہ وہ نوجوانوں میں نمایاں ہواورمیں اسکو بلند اقبال دیکھوں‘‘۔(الروض الانف للسھیلی)
عربی نعتیہ شاعری میں ہمیں حضرت عبدالمطلب کی جانب منسوب ایک شعر بھی ملتا ہے لیکن محقیقین نے اس نسبت پر شک کیا ہے۔شعر اس طرح ہے
انت الذی سمیت فی القران
فی کتب ثابتۃ المثانی
احمد مکتوب فی البیان
اس میں اگر قرآن کولغوی معنوں میں لیا جائے تو شک کم ہوجاتا ہے کیونکہ حضرت عبدالمطلب کے دور میں قرآن نہیں اترا تھا۔رسول اللہ ﷺ کی رضاعی بہن کا نام حضرت شیماؓ تھاوہ آپ ؐ کو گود میں کھلایا کرتی تھیں اور لوریاں دیتے ہوئے یہ شعر پڑھا کرتی تھیں مفتی تقی ؔ عثمانی نے وہ
شعر اس طرح نقل کیا ہے کہ
با ربنا ابق لنا محمداً
حتی اراہ یا فعا و امردا
ثم اراہ سید مسودا
واکبت اعادیہ معا والحسدا
واعطاہ عزایدوم ابداً
ہمارے رب۔ ہمارے لئے محمد ؐ کو زندہ رکھیو، یہاں تک کہ میں انہیں سبزہ آغاز اور جوانِ رعنا کی شکل میں دیکھوں پھر میں انہیں دیکھوں کہ انہیں سردار بنادیا گیا اور ان کے دشمنوں اور حاسدوں کو ذلیل کر اور ان کو ایسی عزت عطا فرما جو ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے۔ (الاصابہ)
الروض الانف میں لکھا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت خدیجہؓ کو پیغام نکاح دیا تو مکّہ کے لوگوں نے کہا تھا کہ
لا تزھدی خدیجہ فی محمد نجم یضینی کا ضاء الفرقد
خدیجہؓ۔ تم محمد ؐ کے بارے میں بے رغبتی ظاہر نہ کرنا وہ ایسے تابناک ستارہ ہیں جو فرقد ستارے کی طرح روشنی دیتے ہیں۔نعت گو شعرا کی صف میں ہمیں ورقہؔ بن نو فل بن اسعد کے اشعار بھی ملتے ہیں جس کو ابنِ ہشام نے نقل کیا ہے ،ورقہؔ نے جب حضرت خدیجہؓ کے غلام میسرہؔ سے یہ سنا کہ آپ ؐ پر دو فرشتے سایہ فگن رہتے ہیں تب انہوں نے یہ اشعار لکھے تھے ۔جس میں بیان کیا گیا کہ محمد ؐ ہم میں عنقریب سردار ہو جا ئیں گے اوران کی جانب سے جو شخص کسی سے بحث کرے گا وہی غالب رہے گا اور تمام شہروں میں اس نور کی روشنی پھیل جائے گی جو خلق خدا کو سیدھا راستہ چلا ئے گی اور منتشر ہو نے سے بچائے گی ۔
بَانّ مُحَّمدْا سَیُسوْ فِیْنَا
وَلَخْصھْ مَنْ یَکونُ لَہٰ حَجیجاً
زمانہ نبو یؐ کی ابتدائی نعتوں میں حضرت ابوطالبؓ کے لکھے ہو ئے وہ سات اشعار بھی ملتے ہیں جن میں حضور ؐ کی مدح اور خاندان بنو ہاشم کی خو بیوں اور خصو صیات کا ذکر کیا گیا ہے ۔
وَاِنْ فَخْرَتْ لَوْ مَا فِانّ َ مُحّمد۱ً ھُوَّا المُصْطفٰے مِن سِرَّھَا وَکَر لِمَھَا
اس کے علا وہ ان ہشامؔ نے ابو طالبؔ کا وہ مشہور قصیدہ بھی نقل کیا ہے جو ۹۴ اشعار پر مشتمل ہے اس قصیدے میں آپؐ کی مدح میں ایک ایسا شعر بھی مو جو د ہے ۔جو ہزاروں قصیدوں پر بھا ری ہے ۔کیو نکہ اس شعر کو بارگاہ نبویؐ سے سند قبولیت مل چکی ہے ۔
وَ اَبْیِضَ یُستَسْقٰی الْغَمامُ بِوَجْھہ
ثِمالُ الیتَا مٰی عِصْمَۃً لِلْا رَامِلِ
ّ(وہ ایسے روشن چہرے والے ہیں کہ ان کے وسیلے سے بارش طلب کی جاتی ہے ۔یتیموں کی سرپرستی کر نے والے اور بیوگان کی عصمت کے محافظ) قصیدے کے آخر میں ابن ہشام نے ایک واقعہ روایت کیا ہے جس میں مدینہ میں ،زمانہ قحط میں حضورؐنے منبر سے بارش کے لئے دُعا فر ما ئی تھی۔جسکے فوری بعد بارش ہونے لگی ۔تب حضور ؐ نے فر مایا کہ لوَ اَدْراکَ ابَو طَالبْ ھَذٰا الیَومَالسّوَۃ (اگر آج ابو طالب ہو تے تو انہیں خوشی ہوتی ) بعض صحابیوں نے عر ض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ان کے اس شعر کی طرف اشارہ فر مارہے ہیں ؟ تب ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فر مایا ۔’’ہاں !‘‘۔ علاوہ اس کے شعب ابی طالب میں ابو طالب کے لکھے ہوئے کئی قصائد کا ذکرملتا ہے جن میں ایسے مطلب کا بیان ہوا ہے کہ’’ ہم نے محمدؐ کو موسیٰ ؑ جیسا نبی پایا جن کا بیان سابقہ کتب میں موجود ہے اور بندگان خدا میں ان کو خدا کی محبت کی دولت حاصل ہے اور اس سے بہتر کون ہوگا جس کو اللہ کی یہ دولت حاصل ہو‘‘۔ اسی قصیدے میں وہ آگے اس طرح لکھتے ہیں کہ’’بیت اللہ کے رب کی قسم ہم نے ان کو نہ مصائب زمانہ اور نہ تکالیف کی شدت کی وجہہ سے بے یارو مدد گار چھوڑا اور نہ چھوڑیں گے۔ ایک اور قصیدے میں اس بات کا اظہار بھی ملتا ہے کہ’’ وہ حلیم و برد بار ہیں نیک و منصف ہیں اور ایسے خدا کے دوست ہیں جو ان سے کبھی غافل نہیں،وہ عالی حسب و نسب رکھتے ہیں ان کی عزت کی میراث قائم و دائم ہے زائل نہیں۔‘‘خلاصۃ السیر میں لکھا ہے کہ حضرت ابو بکرؓ آپ کو دیکھ کرکسی شاعر کا یہ شعر پڑھتے کہ
امین مصطفیٰ باالخیر ید عو
کضوء البدر زایلہ الظلام
اور حضرت عمرؓ حضرت زُہیر کا یہ شعر پڑھتے۔
لو کنتَ من شئی سوی
البشر کنت المضئی للیلۃِ البدر
’’اگر آپ بشر کے سوا کسی اور چیز سے ہوتے تو آپ ہی چودھویں کی رات کو روشن کرتے پھر فرماتے کہ رسول اللہﷺ ایسے ہی تھے۔اور حضرت علیؒ نے نعت اس طرح لکھی کہ
فصلوٰۃ الا لٰہ تنری علیہ
فی دحی اللیل بکرۃ و اصیلا
پس رحمت کاملہ نازل ہو خدائے تعالیٰ کی ان پر مسلسل رات کی تاریکیوں اور صبح و شام میں۔
زمانہ جہالت کا ایک شاعر اعشیؔ میمون بن قیس تھا جو اسلام قبول کرنے کی نیت سے ایک قصیدہ لکھ کر حضور کی خدمت میں پہنچنا چاہتا تھا کہ دشمنان اسلام نے اس کو بہکا دیا اور وہ اسلام قبول کرنے سے محروم رہ گیا ، اس کے قصیدے کے اشعار اس طرح ہیں
نبی بری مال ا ترنو ذکرہ۔ اغارالعمریفی البلاد و انجدا
لہ صدقات ما تغب و مائل ۔
و لیس عطا الیوم مانعہ غدا
یعنی وہ ایسے نبی ہیں جو وہ دیکھتے ہیں ہم تم نہیں دیکھتے،میری جان کی قسم ان کے نام کا ڈنکا سارے جہان میں بج رہا ہے۔ ان کی عطایا اور نوازشیں منقطع نہیں ہوتیں اور نہ آج کی بخشش کل کے لئے مانع رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور بد نصیب شاعر ابو عزہ عمروؔ بن عبداللہ بھی ہے جو اسلام قبول نہ کرسکا اس کے قصیدے کے اشعار کا مطلب اس طرح ہے کہ’’میری طرف سے کوئی رسول محمد ﷺ کو یہ بتا دے کہ وہ بر حق ہیں اور خدا قابل تعریف ہے آپ حق کی طرف بلاتے ہیں اور آپ کو اللہ کی گواہی حاصل ہے اور جو آپ سے جنگ کرے وہ بد بخت اور جو صلح کرے وہ خوش بخت ہے۔‘‘ ابتدا ئی نعتوں میں ہمیں حضرت عباسؓ کے وہ اشعار بھی ملتے ہیں جوانہوں نے اس وقت کہے تھے جب حضور اکر م صلی اللہ علیہ و سلم کا سن مبارک چو بیس برس تھا اور آپ ؐ کا روانِ تجارت کے ساتھ ملک شام تشریف لے جا رہے تھے ۔اہل مکہ اس قافلے کو وداع کرنے کے لئے ایک میدان میں جمع تھے ۔ان میں حضرت عباسؓ بھی شامل تھے ۔جنہوں نے حضور اقدس ؐ کو دیکھ کر فی البدیہ یہ اشعار کہے ۔
یامخجمل الشمس و البدر المنیر اذا تبسم الشغر لسمع البرق منہ
اھناکم معجزات راینا منک قد ظہرۃ یا سید ذکر ہ یشفی یہ المر ضیٰ
’’آفتاب اور بدر منیر کو اپنے جمال و جلال سے شر مندہ کر نے والے ۔تو جب مسکراتا ہے تو برق سی لہر ا جا تی ہے ۔ہم نے تجھ سے بہت سے معجزات دیکھے ہیں ۔اسے سردار تیرا ذکر ہم بیماروں کو شفا دیتا ہے۔‘‘اسی صف میں ہمیں ورقہؔ بن نو فل بن اسعد کے اشعار بھی ملتے ہیں جس کو ابن ہشام نے نقل کیا ہے ،ورقہؔ نے جب حضرت خدیجہؓ کے غلام میسرہؔ سے یہ سنا کہ آپ ؐ پر دو فرشتے سایہ فگن رہتے ہیں تب یہ اشعار لکھے تھے ۔جس میں بیان کیا گیا کہ محمد ؐ ہم میں عنقریب سردار ہو جا ئیں گے اوران کی جانب سے جو شخص کسی سے بحث کر ے گا وہی غالب رہے گا اور تمام شہروں میں اس نور کی روشنی پھیل جائے گی جو خلق خدا کو سید ھا چلا ئے گی اور منتشر ہو نے سے بچائے گی ۔
بَانّ مُحَّمدْا سَیُسوْ فِیْنَا
وَلَخْصھْ مَنْ یَکونُ لَہٰ حَجیجاً
حضرت عایشہ صدیقہؓ نے نعت اس طرح کہی ہے کہ
لواحی زلیخا لو رائین جبینہ
لاٰ ثرن با نقطاع القلوب علی الید
ہمیں ابتدائی نعتوں میں ہجرت کے وقت بیان کردہ اُمّ معبد خُزاعیہؓ کی ایک آزاد یا نثری نعت ملتی ہے جو حضور ؐ کے دلکش چہرہ مبارک اور شخصیت کا بیان ہے۔ یہ دراصل ان کے شوہر کو بتایا جانے والا حضور اقدس ؐکا حلیہ مبارک ہے ۔ام معبدؓ کا یہ بیان بعد میں عربی ادب کا شاہکار بنا۔
حصول سعادت کی اس صف میں اپنا چہرہ چھپائے سبع معلقات کا وہ شاعر بھی ملتا ہے جو خوش الحان قصیدہ خواں تھا، رسول اللہ ؐ جانتے تھے کہ وہ کون ہے لیکن ایک نعت کو رہتی دنیا تک کے لئے سند بنانا مقصود تھا اسی لئے آقا ؐ ان اشعار کو سنتے رہے، اس شاعر کی آنکھوں میں آنسوتھے اور وہ بارگاہ نبویؐ میں قصیدہ سنا رہا ہے اور رحمت العٰلمین ؐ اپنی چادر رحمت اس پر اُڑھا رہے ہیں۔ قصیدہ ’’بانت سعاد‘‘ کے شاعر کو نہ صرف بارگاہ نبوی ؐ میں نعت سنانے کا شر ف حاصل ہوا بلکہ بعد از اصلاح قصیدہ انعام و اکرام سے بھی نوازا گیا ۔ اس شاعر کا نام کعب بن زہیرؓ تھا جس کے قصیدے میں ۵۸اشعار ہیں اور وہ شعر جس پر کالی کملی کا انعام عطا کیا گیا ۔
اِنَ الْرسُولَ لَنُورٌ یُسْتَضَاءُ بَہِ مُھّنْدٌ من سَیْفَ اللّٰہ مسْلُوْلَ
یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم بلا شہ ایک نور ہیں جس سے حق کی روشنی حاصل کی جا تی ہے اور اللہ کے تلواروں میں سے ایک نیام سے نکلی ہوئی تلوار ہیں ۔ خلافت راشدہ کے واحد صاحب دیوان شاعر حضرت علی بن ابی طالبؓ اور حضرت سر مہ بن ابی انیسؓ کے قصیدوں کے علاوہ مشہور شاعر حضرت خنساءؓ کے صاحب زادے حضرت عباسؓ بن مردا س اور حضور کے رضاعی بھا ئی حضرت ابو سفیانؓ مغیر ہ بن حارثؓ کے قصیدے سے بھی ہمیں عربی ادب میں ملتے ہیں ۔جن کے دو ایک اشعار یہاں نقل کئے جا تے ہیں ۔ حضرت عباسؓ بن مرد اس کا شعر اس طرح ہے
اِنَّ اِلاَ لَہ‘ نبیَ عَلیکَ مَحبَۃ
فَیِ خَلَقہ‘ وَمحْمَداً اسمَا عَا
یعنی اللہ نے آپؐ کواپنی مخلوق کی محبت کی بنیاد قرار دیا ہے اور آپؐکا نام محمد ؐ رکھا ہے اور حضرت ابوسفیان مغیرہؓ بن حارث کا شعر اس طرح ہے کہ
نَبیٌ کَانَ یَجلُوْ اْ لشَّکَّ محَنَّا
بِمَا لَوْ میٰ اِلیَہِ وَ مَا یَقُوْلُ
فِلَیْھ نَزْ مِثلَہ‘فَیْ الْنَاس حَبّ اً
وَلَیّسَ لَہ‘ مِنْ المَوْتیٰ عَدِیل
آپ ؐ ایک ایسے نبیؐ ہیں جو وحی ربّانی اور اپنے اقوال حکمت سے ہمارے شکوک کو زائل کردیتے ہیں نہ زند ہ انسانوں میں آپؐ کی نظیرملتی ہے اور نہ گزر جانے والوں میں کو ئی ان کا ہمسر ہوا۔
بار گا ہ نبو یﷺ کے تین درباری شاعر تھے جن میں حضرت کعب بن مالکؓ بھی شامل ہیں ۔اِن کی شاعری نے ’’دوس‘‘ کے سارے قبیلے کو مسلمان بنا دیا تھا۔ حضرت کعبؓ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ رحمت عالمﷺ نے ایک مر تبہ ان کے مکان پر تشریف لے جا کر فرمائش کر کے تین بار ان کے اشعار سنے تھے ۔ غزوہ بدر کے موقعہ پر ان کا یہ شعر بہت مشہور ہوا
شھدنا بان اللہ لا رب غیرہ
و ان رسول اللہ بالحق ظاہر
( ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی پروردگار نہیں اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ حق کے ذریعہ غالب ہوں گے)۔ بار گاہ نبوی ﷺ کے دوسرے درباری شاعر کو یہ شر ف حاصل ہوا کہ ان کے اشعار کو حضور اقدس ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے دہرایا ۔مسجد نبوی ؐ کی تعمیر ہورہی ہے اور سر ور کو نین ؐ اپنے صحابہ کے ساتھ اس شاعر کا یہ شعر پڑھ رہے ہیں ۔
اَللھُمَ اَنِّ الْآ جْرُ اَجْرَ لْآخَرَۃٌ
نَارْحَمِ اَلْاَ نْصَارْ وَالْمَھا جْرَ ۃٌ
کبھی تو یہی صحابی رسول حضور پُر نور ؐکے اونٹ کی مہار تھا مے ایسے اشعار پڑھ رہے تھے اور ان اشعار پر حضور سے داد پارہے ہیں ۔ غزہ و احزاب میں حضور ؐخندق کھودتے، پتھر توڑتے اور مٹی ہٹانے میں بہ نفس نفیس حصّہ لیتے۔ ان مواقعوں پر اِسی صحابی کے اشعار کو بہ آواز بلند پڑھتے جاتے تھے یہی وہ شاعر سے جنکو مورخین نے شاعر رسول اللہ کے لقب سے نوازا ہے اورآج دنیا ان کو حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کے نام سے جانتی ہے ۔ان کے قصیدے کے دو اشعار کے مطالیب اس طرح ہیں کہ ’’ میری جان اس ذات پر قربان ہو جس کے اخلاق اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ تمام انسانوں میں سب سے بہتر ہے، اور اس کے احسانات تمام بندوں کے لئے ایسے عام ہیں جیسے چاند اور سورج کی روشنی تمام مخلوقات کے لئے عام ہے۔
بارگاہ نبویؐ کے تیسرے درباری شاعر بھی ہمیں اس صف میں کھڑا نظر آتاہے،اس شاعر کو مداح رسول ؐ کہا جا تا ہے ۔اس شاعر نے آپؐ کو باقاعدہ نعت کو اپنا موضوع و محور بنایا۔اس شاعر کو بڑا اعزاز حاصل تھاان کے لئے کیلئے مسجد نبو ی میں منبر بچھا یا جاتا تھا ۔جہاں سے وہ کفار کی ہجوؤں کا جواب دیتے تھے اوریہی وہ شاعر ہے جن کے لئے حضور ﷺ نے دعا فرمائی کہ ۔اللھم ایدہ بروح القدس۔ ’’الہٰی روح القدوس کے ذریعہ اس کی مدد کر ‘‘ اس شاعر نے بڑی لمبی عمر پا ئی ،عہد رسالت کے بعد عہد خلافت راشدہ میں مسجد نبوی میں اشعار سنا یا کر تے ،ایک دفعہ خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ نے مسجد نبوی میں ان کو اشعار پڑھنے سے منع کر نا چاہا تو جواب دیا گیاکہ ’’اے عمرؓ ! میں نے شعر اس شخص کے سامنے پڑھے ہیں جو تم سے بہتر تھا ‘‘یعنی رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔ اس واقعہ کے بعد حضرت عمرؓ نے مسجدکے کو نے میں ایک جگہ بنادی اور اس کو ’’بُطیحا‘‘ نام دیا گیا ۔ اس کے بعدحضرت عمرؓ نے اعلان کر وایا کہ جو کو ئی شعر پڑھنا چاہے تو اس جگہ چلاجائے ۔اس واقعہ کو امام مالکؓ نے ’المو طا‘‘ میں بیان کیا ہے ۔ بطیحا سے شان رسالت میں مدح سرا ہو نے والا یہ شاعر تھا حسانؓ بن ثابتؓ ۔یہی وہ حضرت حسانؓ ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ نے فر مایا کہ ’’ جزاک اللہ علی اللہ الجنۃ‘‘(اللہ کے ہاں تیری جزا جنت ہے )حضرت حسانؓ کے اشعار نے بہت شہرت پائی اور زبان زد خاص و عام ہوئے ۔مدحت رسولؐ میں کچھ اشعار نقل کئے جا تے ہیں ۔
واحسن منک لم تر قط عینی
واجمل منک لم تلد النساء
خلقت میرا من کل عیب
عانک قد خلقت عما تشاء
(آپ ؐ سے زیادہ خوبصورت میری آنکھوں نے نہیں دیکھا اور آپ ؐ سے زیادہ اچھا عورتوں نے کسی کو پیدا نہیں کیا۔آپؐ ہر عیب سے پاک بنا ئے گئے ہیں گو یا آپ ؐ جیسا پسند فر ما تے تھے ویسے ہی پیدا ہو ئے )ان کی نعتوں میں ہمیں آمد دکھا ئی دیتی ہے آور د کا شائبہ تک نہیں اسی لئے ان کا شعر واردات قلبی کا عکاس نظر آتا ہے ۔اور ان کی شاعری جذباتی و ایمانی حرارت و عظمت سے بھری ہو ئی دکھائی ہے۔انکی مشہور نعت کے دو تین شعر نقل کئے جا تے ہیں
وَضمَّ الالَہ‘ اسم النبی الہٰی اِسمِہٖ
اذقال فی الخمس الموذن اَشھدُ
(اللہ نے اپنے نبی کا نام اپنے نام سے مر بوط کر دیا۔مو ذن پانچ وقت اذان میں اشہد کہتا ہے )
و شق لَہ‘ مِن اِ سمہِ لِیجُلہَ
فذوالعرش محَمودٌ وھذامحمَدٌ
(اللہ نے اپنے نام سے اپنے پیغمبر کا نام نکا لا ۔عرش والا (خدا)محمود ہے اور یہ محمد ہیں )
وانذرناناراً ولَبشر جنۃ وَعَلّمناَاِلاْ سَلَامٌ فااللّٰہ نحْمدُ
(ہمیں جہنم سے ڈرایا ۔جنت کی بشارت دی۔اسلام سکھایا۔بس اللہ کی ہم حمد کرتے ہیں
صلّی اِلا لَہ‘ وَمَنْ یَخفَ العَرشہ
وَالْطیّبُونَ عَلیٰ الْمبارکَ اَحْمَدؐ
یعنی اللہ اور وہ پاک فرشتے جو اس کے عرش کو گھیرے ہو ئے ہیں۔احمد مجتبٰیؐ پر رحمت نازل کریں ،
جب کفار نے اپنے اشعار سے رسول اللہ ﷺ کو تکلیف پہنچائی تو حضرت حسانؓ نے جواب دینے کی اجازت چاہی،تب آپؐ نے فرمایا کہ تم ابو سفیان کی کیسے ہجو کروگے، میں بھی تو اسی خاندان کا فردہوں،حسانؓ نے فرمایا کہ یا رسول اللہؐ میں آپؐ کو اس طرح بچاؤ ں گا جیسے گندھے ہوئے آٹے سے بال نکال لیا جاتا ہے۔
اتھجورہ ولست لہُ یکفو نشر کما دلخیر کما فداءً
’’تم آں حضرت ؐ کے بارے میں کہتے ہو حالانکہ تم ان کے ہمسر نہیں،تم سراپا شر اور وہؐ سراپا خیر،اسی لئے تم جیسے انؐ پر قربان ہیں‘‘حضرت حسانؒ کے بارے میں ایک شاعر کہتا ہے کہ
نعت کیا ہے اتباع حضرت حسانؓ ہے
نعت کیا ہے موج کیف سورہ رحمن ہے
حصول سعادت کی اس صف میں ہمیں ایک مسلمان ’’جِن‘‘ کا قصیدہ بھی نظر آتا ہے جوحضور ؐ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے اور ان کا نام عمرؓ رکھاگیا ۔خواجہ حُسین نظامی نے’’ جِنوں‘‘ کے وجود اور عدم وجود سے متعلق تفصیلی بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ’ جن‘ مو جو د ہیں اور یہ قصیدہ کسی’’ جِن‘‘ ہی کا ہو سکتا ہے کیو نکہ اس میں مستعملہ عر بی الفاظ مروجہ عر بی سے قدرے مختلف ہیں ۔یہ قصیدہ قدیم قسطنطنیہ( یعنی استنبول) کے شاہی کتب خانے میں موجود ہے ۔جس کے کچھ اشعار یہاں نقل کئے جاتے ہیں ۔
ھُشُش خُشُش عُشُش فُشُش
خُدُش عُمُش بُرُش
عُتُب لُعُعٌ کُنُعٌ وُقَعٌ اُلُبٌ
فَا نَستح ینبی اِلٰہ الخلق
اَتتَ بِفضَالِلہِ الکُتُبْ
(ٹہر ۔ائے مسافر ،قافلے کے اونٹو ں کو بٹھا دے اور پیغمبرخدا وند عالم کی خدمت میں حاضر ہو جسکے فضائل میں بہت سی کتابیں آئی ہیں)
لِنَبّیِ ھدیٰ ونبسح تقٰی
فبدَاکَ تدین لہ‘ اَلعَربْ
(وہ جوہدایت کر نے والا ہے جس کا جامہ وجود سراسر تقوی کے تاروں سے بُنا ہو اہے ۔ سارا عرب اس کے دین کا جانثار اور ان کے نام کا فداکار ہے )
فَصْلوٰ ۃُ اَلٰہِ الْخلْق عَلیَک
وجادَ مملکتِ السَّکبْ
(آپ ؐپر خداوند عالم کا درودو سلام اورآپؐکے روضہ اقدس پر رحمت الٰہی کی بے پناہ بارش ہو)
اس صف میں ہمیں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ ؒ بھی نظر آتے ہیں
انت الذی لو لاک ما خلق امراءً
کلا ولا خلق الواریٰ لولاک
اسی صف میں عرفیؔ شیرازی بھی دکھائی دیتے ہیں جو یہ کہتے رہے کہ
ہزار بار بشویم دہن ز مشک و گلاب
ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبیست
اس صف میں وہ شاعر بھی نظر آتاہے جس کے نعتیہ اشعار مو اجہہ شریفہ کی جالیوں پر کندہ ہیں ۔
یَا خَیْرمِنْ رَفَغتْ فِی التُوب اَعظمُہ‘
خِطَابَ منْ طَیّبِنّ الْقاعُ وَالْاکْم
نَفْسَی الْفد اءُ لقبٰرانت سَاکِنَہ
فیہِ الْغفَافُ وفیہِ الجُودُوالکرمَ
اسی صف میں ہمیں قصیدہ بر دہ ثانی لئے اما م شرف الدین محمد البو صیرؔ یؒ بھی نظر آتے ہیں جن کا قصیدہ ’’الکواکبُ اللّٰہ بہ فی مدح خیر البو بہ‘‘ستر ، پچھتر برس قبل تک بھی مسجد نبوی کی تر کی تعمیر کے گنبدوںیعنی قبوں کی اندرونی چھت پر لکھا ہو ا تھا ۔ نعتیہ شاعری کا ایک لازمی جُز شہر طیبہ کی تعریف و تحسین اور اس کی منظر کشی تھی اسی لئے بوصیری ؔ کے قصیدے میں ہمیں ابتدا میں مدینے کی بستی کی یادیں دکھائی دیتی ہیں۔اسی انداز کو دنیا کے تقریباً ہر زبان کے نعتیہ قصاید میں اپنایا گیا۔اس صف میں ہمیں دمشق کے نامعلوم شاعر کا قصیدہ بھی دکھا ئی دیتا ہے جس کے اشعار ۱۹۸۳ ء تک روضۂ اطہر کے اطراف مو ٹی لکڑی کے تختوں پر کندہ تھے ۔جس کا ابتدائی اور آخری شعر نقل کیا جا تا ہے
یا سیدی یارسول اللہ خذبیدی
مایی بمواک ولا الوی علی احد
وَالْا لَ وَالصّحْب اھل المجدِ قاطیۃ
بحوالسماح واھل الحودو المدد
اس صف میں ہمیں’’ نہج البر دہ‘‘ لئے احمدؔ شو قی بھی نظر آتے ہیں ۔
جب ایران فتح ہوا تو فارسی زبان میں بھی نعت گوئی کا آغاز ہوا۔فارسی کے نئے رنگ و آہنگ نے نعت گوئی کو نیا روپ اورادبی آرائش دی اور ایک صنف سخن بنادیا۔نعت گوئی کی اس صف میں ہمیں فارسی کے کئی شعرا جیسے قدسی ، نظیری وغیرہ نظر ااتے ہیں۔ اسی صف میں ہمیں حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی ؒ بھی نظر آتے ہیں۔
ما بہ جنت از برائے کار دیگر می رویم
نئی تفرُرج کر دنے طوبیٰ و کوثر می رویم
اس صف میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ بھی کھڑے ہیں
یا رسول اللہ شفاعت از تو می دارم امید
باوجود صد ہزاراں جرم در روز حساب
اور اسی صف میں شاہ عبدالعزیز محدثؔ بھی دکھا ئی دیتے ہیں ۔جن کی زبان پر یہی جاری ہے کہ
یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من وجھک المنیرلقد نور القمر
لا یمکن الثناء و کما کان حقہ
بعد ازخدابزرگ توئی قصّہ مختصر
ہماری نظر اس صف میں کھڑے حضرت سعدیؒ پر بھی پڑتی ہے جو کہہ رہے ہیں کہ
بلغ العلیٰ بکمالہ کشف الدجیٰ بجمالہ
حسن جمیع و خصالہ صلو علیہ والہ
سعدیؔ نے ساری عمر نعت و مدحت رسول صلی اللہ علیہ وسلم لکھی لیکن یہی کہتے رہے کہ
دفتر تمام گشت و بیاباں رسید عمر
ما ہمنچیناں در اوّل و صف تو ما ندہ ایم
اسی صف میں ہمیں مولانا روم ؒ بھی نظر آتے ہیں
گر نبودے بحر عشق پاک را
کے وجود دادمی افلاک را
اسی صف میں ہمیں قدسیؔ بھی نظر آتے ہیں جن کی زبان پر جاری ہے کہ
مرحبا سید مکی مدنی العربی
دل و جاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی
سیدی انت حبیبی و طبیب قلبی
آمدہ سوئے تو قدسیؔ پئے درماں طلبی
ہندوستان میں بھی شعرا نے فارسی نعتیں لکھی ہیں اسی لئے اس صف میں ہمیں کئی بزگ شعرا دکھائی دیتے ہیں۔ جیسے حضرت نظام الدین اولیاؒ
صبا بہ سوئے مدینہ رو کن ،ازیں دعاگو سلام بر خواں
بگرد شاہ رسل بگرداں بہ صد تضرع پیام بر خواں
اسی صف میں ہمیں حضرت امیر خسرو ؔ ؒ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ
خدا خود میر مجلس بود اندر لا مکاں خسروؔ
محمدؐ شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم
اسی صف میں ہمیں کبیرؔ داس بھی ملتے ہیں جن کے دوہے کا ایک مصرعہ کافی مشہور ہے کہ
کہت کبیرؔ سنو بھئی سادھو نام محمد ؐ آئے
اوراسی صف میں ہمیں غالب ؔ بھی دکھا ئی د یتے ہیں جو یہ کہتے ہو ئے بخشش کے طالب ہیں کہ
غالبؔ ثنا ئے خواجہ بہ یزداں گذا شتیم
کاں ذات پاک مر تبہ دان محمد ؐ است
واقعی ہم کیا ہماری حیثیت کیا کہ ہم نعت مصطفی رقم کر سکیں ۔یہ اُسی ذات کبر یا کو زیبا ہے جو اپنے محبوب کا مر تبہ جانتی ہے ۔اس صف میں نجا نے کتنے جیّد علماء ‘ ائمہ ‘محدثین فقہا ہو نگے جن کے نام ہم نہیں جانتے ۔ ویسے جاننے والوں کے ناموں کا احاطہ کر نا بھی اس مختصر مضمون میں نہایت مشکل ہے ۔ورنہ ان میں سے ہر ایک کے نعتیہ کلام اور ان کے کلام کے محاسن اور اور نعت گو شاعر کی شخصیت پرایک ایک علاحدہ مضمون لکھا جاسکتا ہے ان میں سے کچھ بزرگوں اور شعرائے اکرام کے نام میں یہاں لکھتے ہو ئے آگے بڑھتا ہو ں ، ابن خلدون،حضرت شیخ عثمان ہارونیؒ ، حضرت قطب الدین بختیار کایؒ ؒ ، فیضیؒ ،، حافظؒ ، فردوسی،انوری،ذوقی وغیرہ وغیرہ ۔عر بی و فارسی سے ہٹ کر اگر ہم اُردو زبان میں نعتیہ شاعری کی ابتداء اور ارتقاء کا جائزہ لیں تو اس کے لئے بھی علیحدہ تفصیلی مضمون درکار ہے ۔ اس مختصرمضمون میں نہ ان شعرا کے نام گنائے جاسکتاہیں اور نہ ہی ان کی شاعری کے محاسن بیان کئے جاسکتے ہیں ۔ اردوزبان کے تقریباً ہر شاعر نے نعت لکھی ہے ۔لیکن ہم ہر اس شاعر کو نعت گو شاعر نہیں کہہ سکتے کیوں کہ نعت گو ئی کے لئے اخلاص ومحبت کے جذبے کیساتھ اعتدال توازن اور حدود شناسی کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔بعض شعرا و قتی جذبات اور تقاضوں کے تحت لکھتے ہیں اور بعض شعرا کی نہ صرف شاعری بلکہ زند گی کا محور ہی عشقیہ جذبات کے گرد گھو متاہے جو ان کی زند گی کے ہر فعل اور عمل سے ظاہر بھی ہو تا ہے۔لیکن اس زمرہ میں صرف اولیا ء کاملین ہی آتے ہیں ۔ورنہ اکثر شعرا تو محض حصولِ سعادت کی اس صف میں محض شمو لیت کی خاطر نعت لکھتے ہیں کہ عاقبت سنور جائے ۔اگر ان شعرا کی لکھی نعتیں شدت و جذبات کے باوجود منزل ادب شناسی سے سرمومتجاوزنہ ہو تو ہم ان کو کا میاب نعت گو کہہ سکتے ہیں ۔ ورنہ ہلکی سی بے ادبی خود ان کے لئے وبال جان بن جاتی ہے،لیکن اس زمرہ کے شعر اء کی تعداد نہات محدود ہے ویسے اس مختصر مضمون میں محدود تعداد کا تذکرہ بھی مجھے مشکل نظر آتا ہے اسی لئے صرف چند ایک شعراء کا نام لکھ دیتا ہوں جنہوں نے اس صنف سخن میں شہرت پائی ۔ہندوستان میں پہلی نعت شاید فارسی زبان میں کہی گئی۔میرا احساس ہے کہ جب اردو کا خاکہ بن رہا تھا تو فارسی زبان میں نعت اپنے عروج پر تھی۔قطب شاہی دور میں اردو نعت کو فروض حاصل ہوا اور کہا جاتا ہے کہ اردو میں پہلی نعت حضرت سید محمد حسینی بندہ نواز گیسو دراز ؒ نے لکھی۔
ائے محمدؐ حجلو جم جم ہے جلوہ تیر ا
ذات تجلی ہوئے گی سیں سپورن سہرا
ان کے علاوہ نصرتی، نظامی،ہاشمی، ناظم حیدرآبادی،فراقی،شاہ ابدالی،غلام امام،کافیؔ مرادآبادی بھی اس میں شامل ہیں۔
اردو فارسی کا ایک معتبر نام مرزا مظہرؔ جان جاناں ہے جن کے دو فارسی اشعار ملاحظہ کیجئے کہ
خدا در انتظار حمد مانیست
محمد ؐ چشم بر راہ ثنا نیست
خدا مدح آفرین مصطفیٰ بس
محمد حامدِ حمد خدا بس
قلی قطب شاہ بھی اس صف میں کھڑے ہیں۔
اسم محمد ﷺ تھے اہے جگ میں سو خاقانی مجھے
بندہ نبیؐ کا جم رہے سہتی ہے سلطانی مجھے
اسی صف میں ہمیں اردو کے شاعر میرؔ بھی کھڑے دکھائی دیتے ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ
جلوہ نہیں ہے نظم میں حسن قبول کا
دیواں میں شعر گر نہیں نعت رسول کا
دور حاضر کے شعراء میں غلام امام شہیدؔ ان چند شعراء میں شامل ہیں جنہوں نے صرف نعتیں لکھیں ورنہ مومنؔ وغیرہ اپنے قصائد کی ابتدا میں نعتیہ اشعار لکھا کرتے تھے لیکن الگ سے مستقل نعتیں نہیں لکھیں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قصیدے اور نعت میں کیا فرق ہے۔منقبت کو نعت سے کیسے الگ کیا جاتا ہے۔ویسے نہ صرف اردو بلکہ عربی فارسی میں بھی نعت کو قصیدے کی شکل میں لکھا گیا بلکہ اکثرْ صیدوں کی ابتدا نعتیہ اشعار سے کی گئی۔ میں اس گفتگو کو کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتا ہوں اور مزید کچھ مشہور نعت گو شعرا کا ذکر کرتا ہوں ۔
دور جدید کے نعت گو شعرا میں ہمیں دردمند دل رکھنے والے مجسم انسانیت حالیؔ نظر آتے ہیں ۔جن کو بہترین نعت گو شاعر کہا جا سکتا ہے ۔رشید احمد صدیقی کے الفاظ میں ’’اردو نعت میں آج تک نظم کہی گئی ہو یا نثر حالیؔ کی نعت کا جواب نہیں ۔ایک سے ایک سحر طراز آئے لیکن حالیؔ سے آگے نہ بڑھ سکے نہ روگرداں ہو سکے بلکہ مستفید سبھی ہو ئے ‘‘ ۔ اس کے ثبوت میں ہم حالیؔ کے بیشتر کلام کوپیش کر سکتے ہیں ۔ جس میں سر فہرست ’’مدوجذر اسلام‘‘ہے ۔
وہؐ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
اُتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخۂ کیمیاء ساتھ لایا
اسی صف میں مجھے امیرؔ مینائی بھی یہ شعر لئے حاضر دکھائی دیتے ہیں کہ
مدینے جاؤں پھر آؤں مدینے پھر جاؤں
تمام عمر اسی میں تمام ہوجائے
جدید نعت گو شعرا کی صف میں ہمیں اقبال ؔ بھی نظر آتے ہیں ۔جن کے کلام کا وزن وقار اور حسن و جمال رسول عر بی صلی اللہ علیہ وسلم کی گراں ما یہ شخصیت کے گرد گھو متا ہے ۔عشق نبویﷺ کا سوز و گداز اور پیام جو ان کی شاعری میں دیکھا جا سکتا ہے۔وہ دوسرے شعرا میں کم نظر آتا ہے ۔بطور نمو نہ کلام کا انتخاب نہایت مشکل ہے لیکن دو ایک شعر جو مجھے پسند ہیں پیش خدمت ہے۔
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا و جود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے
فروغ ذرّہ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب
اس صف میں ہمیں احمد رضا خان بریلوی اپنے شاعرانہ کمال کو لئے نظر آتے ہیں
دل اپنا بھی شیدائی ہے اس ناخن پا کا
اتنا بھی مہ نو پہ نہ ائے چرخ کہن پھول
اسی صف میں جوشؔ بھی کھڑے ہیں
ائے کہ تیرے بیان میں نغمہ صلح و آشتی
ائے کہ تیرے سکوت میں خندۂ بندہ پروری
اسی صف میں ہمیں محسن ؔ کاکوروی بھی اپنا منفرد انداز رکھنے والا نعتیہ قصیدہ لئے نظر آتے ہیں۔
سمت کاشی سے چلا جانب متھر ابادل
برق کے کاندھے لائی ہے صبا گنگا جل
پھر چلا خامہ قصیدے کی طرف بعد غزل
کہ ہے چکر میں سخن گو کہ دماغ مختل
گل خوش رنگ رسول مدنی و عربی
زیب دامان ابد طرّۂ دستار ازل
ہفت اقلیم میں اس دیں کا بجایا ڈنکا
تھا تری عام رسالت کا گرجنا بادل
کہیں جبرئیل اشارے سے کہ ہاں بسم اللہ
’’سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل‘‘
اسی صف میں اپنا ایک مشہور شعر لئے کرامت علی شہیدیؔ بھی کھڑے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں صرف نعتیں لکھیں ۔حج سے فراغت کے بعد مدینہ پہنچے اور جب واپسی کا دن آیا تو روضہ اقدس کو دیکھا،ایک آہ بھری اور جان جان آفریں کے سپرد کردی وہ کہتے ہیں کہ۔۔
تمنا ہے درختوں پر تیری روضے کہ جا بیٹھوں قفس جس وقت ٹوٹے طائر روح مقید کا
بادشاہوں نے غلام بن کر نعتیں لکھی ہیں جیسے آصف سابع عثمان علی خان کا یہ شعر کہ
آستان مصطفےٰ ؐپر میں نے جب سر رکھ دیا رحمت باری نے اپنا ہاتھ سر پر رکھ دیا
اسی صف میں ہمیں فراقیؔ بیجا پوری یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ
مدینے میں اگر پیدا ہوا ہوتا تو کیا ہوتا
محمدؐ کی گلی بھیتر فنا ہوتا تو کیا ہوتا
ہمیں اس صف میں داغ دہلوی بھی دکھائی دیتے ہیں
حشر میں امت عاصی کا ٹھکانہ ہی نہ تھا
بخشوانا تجھے مرغوب ہوا ،خوب ہوا
اس صف میں ہمیں راجہ کشن پرشاد شاد ؔ بھی کھڑے نظر آتے ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ
کیوں میری شفاعت میں بھلا دیر لگے گی
کیا مجھ کو نہیں جانتے سلطان مدینہ
اس صف میں کھڑے خمار ؔ اس طرح کہتے ہیں کہ
فراق نبیؐ میں جب آنسو بہائے
ستارے بہت دیر تک مسکرائے
جرم ؔ محمد آبادی اس صف میں کھڑے یہ کہہ رہے ہیں کہ
حصول مقصد کی تھی یہ منزل سوال سبقت کا کیوں نہ آیا
درود دل نے پڑھا ادب سے رسول حق پر زبان سے پہلے
اخترؔ شیرانی اس صف میں کھڑے کہہ رہے ہیں کہ
دنیا و آخرت کا سہارا تمہاری ذات
دونوں جہاں کے والی و سلطاں تمہیں تو ہو
اس صف میں کھڑے بیان ؔ یزدانی کہہ رہے ہیں کہ
ہوں سیہ کار میرے عیب کھلے جاتے ہیں
کملی والے! مجھے کملی میں چھپالے آجا
اس صف میں اعجاز صدیقی بھی کھڑے جنہوں غالب کے مصرعوں گرہیں لگا کر سے نعتیں لکھیں
آقاؐ نے مجھ کو دامن رحمت میں لے لیا
’’میں ورنہ ہر لباس میں ننگ وجود تھا‘‘
کوثر جائسی اس طرح کہہ رہے ہیں کہ
عالم یقیں کا شہر گماں سے نکل کے دیکھ
جنت جو دیکھنا ہے مدینے میں چل کے دیکھ
شکیل بدایونی اس طرح کہہ رہے ہیں کہ
اللہ اللہ خسروِ کون و مکاں
راہرو کا بوجھ اٹھانے آگئے
بیکسوں کو پوچھتا ہی کون تھا
بے کسوں کے ناز اٹھانے آگئے
مسعود اختر اس صف میں کھڑے کہہ رہے ہیں کہ
میرا قلم موتیوں سے الفاظ لکھ رہا ہے
یہ معجزہ رحمت کے ساگر کا معجزہ ہے
حفیظ تائب کہہ رہے ہیں کہ
میرے غم خانے کو ہے ان کی توجہہ درکار
جن کو آتا ہے تبسم سے اجالا کرنا
مظفر وارثی ؔ حصول سعادت کی اس صف میں کھڑے کہہ رہے ہیں کہ
سخن کی داد خدا سے وصول کرتی ہے
زبان آج ثنائے رسول ؐ کرتی ہے
عاصی کرنالی اس صف میں کھڑے کہہ رہے ہیں کہ
عاصیؔ تمہی کہوں کہ بجز ان کے کون ہے
بھر پور اعتماد سے اپنا کہیں جسے
ساغرؔ صدیقی اس صف میں با ادب کھڑے کہ رہے ہیں کہ
تیرے ہاتھوں میں بہار لالہ و گل کا نظام
ائے غریبوں اور ناداروں کے رکھوالے سلام
ان کے علاوہ چند ایک شعراء جنہوں نے شہرت پائی ان میں حضرت امداد اللہ مہاجر مکی، قاسم نانوتوی، اسماعیل شہید، حفیظ جالندھری ،حفیظ ہوشیار پوری، اشرف علی تھانوی،ماہر القادی،علی افسر،رضا بریلوی، سیماب اکبر آبادی،قمر رام نگری، میرمجروح ،حسن نظامی ، مومن، فانی، محمد علی جوہر ؔ یعقوب حسین، شورش کاشمیری، عبد القدیر صدیقی حسرت، مرزا شکور بیگ ، امجد حیدرآبادی ، ابوالعلائی ،ظفر علی خان،بہزاد لکھنوی، کامل شطّاری،معز ملتانی،اعظم علی صوفی، اوج یعقو بی ، خواجہ شوق ، صبیح رحمانی ،ریاض مجید،اشاد عظیم آبادی ،ضیاء القادری، اصغرگونڈوی، شبلی نعمانی، مجاز، زائر حرم حمیدلکھنوی،انور صابری، آرزو لکھنوی،عبدالرحمن بجنوری، جمیل الدین عالی، حسن رضا ، حسرت موہانی، جذبی، اقبال سہیل، نعیم صدیقی،محوی صدیقی،ندیم قاسمی،خالد بزمی ، عاصی کرنالی ، بیکل اتساہی، زکی کیفی، محشررسول، راجا رشیدمحمود،جمیل قادری، ریاض حسین چودہری ، جعفر بلوچ، کشفی، محسن نقوی ، عزیز خالد،آفتاب کریمی،اکرم رضا،احسان دانش وغیرہ ہیں جو حصول سعادت اور نظرکرم مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر ہیں ۔بلکہ میری نظر میں دنیا کے تمام نعت خواں ، منتظمین نعتیہ محافل اور سامعین بھی اسی صف میں شامل ہیں تاکہ ’’نعت‘‘ ان کیلئے نجات کا ذریعہ بن جائے ۔رب الغفر وارحم و انت خیر الراحمین۔
***