ششماہی ریسرچ اور ریفریڈ جرنل
ادب و ثقافت ۔ 4
شذرات
ایڈیٹر: پروفیسر محمد ظفرالدین
مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کے تحقیقی جریدے ’ادب و ثقافت‘ کا چوتھاشمارہ پیش کرتے ہوئے بے حد مسرت ہورہی ہے کہ اِس سے پہلے کے شماروں کو اہل علم و بینش نے پسند فرمایا‘ اس میں دلچسپی لی اور اپنی قیمتی آرا سے نوازا۔توقع ہے کہ اس ادبی جریدے کا زیرنظر شمارہ بھی مشمولات اور پیش کش کے سبب اپنا مقام اور وقار ضرور حاصل کرے گا۔
وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اسلم پرویز‘ مولانا آزاد نیشنل اُردویونیورسٹی میں اُردو کا ماحول عام کرکے جامعہ ہذا کواس کے حقیقی ہدف تک پہنچانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے مختلف امور میں پہل کرتے ہوئے یکے بعد دیگر کئی ٹھوس اور مستحکم اقدامات بھی کیے ہیں۔ڈائرکٹوریٹ آف ٹرانسلیشن اینڈ پبلی کیشنزکا قیام ایک بڑا قدم تھا ۔ یہ ڈائرکٹوریٹ نصابی کتابوں کی تیاری‘ ترجمے اور اشاعت وترسیل کی جانب گامزن ہے۔’’مرکز مطالعات اُردو ثقافت‘‘ کے قیام کے ساتھ ہی کیمپس میں اُردو تہذیب و ثقافت کے حوالے سے لگاتار سرگرمیاں جاری ہیں اور مثبت مصروفیتوں کے ذریعے طلبہ کی تربیت ‘ ذہن سازی اور شخصیت سازی کی جارہی ہے۔
یونیورسٹی میں 2016 ء کے اواخر میں ’’اُردو مرکز برائے فروغ علوم‘‘ (Centre for Promotion of Urdu Knowledge) قائم کیا گیا ہے جس کا مقصد اُردو زبان میں مختلف علوم سے متعلق تصنیف و تالیف اور تحقیق کے امکانات پیدا کرنا ہے۔ شیخ الجامعہ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کا ایقان ہے کہ اگر اجتماعی کوششیں کی گئیں تو اُردو جلد ہی سائنسی و سماجی علوم کی زبان بن جائے گی۔یہ زبان مختلف علوم کی تدریس کی متحمل ہے اور اس میں یہ قوت ہے کہ اس کے ذریعے علم کے کئی شعبوں میں تدریس و تحقیق کا کام انجام دیا جاسکتا ہے۔ شہر حیدرآباد میں جامعہ عثمانیہ میں ایک صدی قبل اس طرح کا کامیاب تجربہ کیا جا چکا ہے ۔ اُردو مرکز برائے فروغ علوم ملک بھر کے ایسے قلمکاروں سے رابطہ بنا رہا ہے جو مختلف علوم سے متعلق معلوماتی ادب اُردو زبان میں پیش کرسکتے ہیں۔اس حوالے سے یونیورسٹی کیمپس میں فروری کے وسط میں منعقدہ دوروزہ اُردو سائنس کانگریس کا انعقاد قابل ذکر ہے جس میں اُردو میں لکھنے والے سائنسدانوں ‘ مصنفین‘ مؤلفین ‘ مترجمین اور شائقین کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔یونیورسٹی کے اساتذہ اور دیگر شرکاء کو ان شخصیات سے نہ صرف اُن کے مقالے اور لکچرس سماعت کرنے بلکہ اُردو زبان میں مختلف علوم کی صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے کا موقع بھی حاصل ہوا۔اس کانفرنس میں اُردو ذریعہ تعلیم کے تعلق سے کارنامۂ عظیم انجام دینے والی عثمانیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ایس راما چندرم نے افتتاحی اجلاس میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔ اسی طرز پر یہاں سماجی علوم سے متعلق بھی ایک کانگریس کا انعقاد کیا جائے گا ۔ اور یہ دونوں کانگرس اِس مرکز کے سالانہ معمولات میں شامل رہیں گی۔مرکز سے سائنسی اور سماجی علوم کے دو حوالہ جاتی مجلے بھی شائع کیے جائیں گے۔توقع ہے کہ مرکز کی کاوشوں سے اُردو ‘ جو بتدریج ادب اور مذہب کی زبان بنتی چلی گئی ہے ‘ رفتہ رفتہ سائنس و تکنالوجی اور دیگر علوم کی زبان بھی بن جائے گی۔
گزشتہ مرتبہ کی طرح اس بار بھی ہمارے قلمی معاونین نے متنوع موضوعات پر مضامین ارسال کیے ہیں جو قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔پروفیسر شمیم حنفی نے الیگزینڈر برزن کی تحریر ’’بدھ کی زندگی‘‘ کا ترجمہ کیا ہے جوپالی صحائف سے ماخوذ جستہ جستہ حقائق پر مشتمل بیانیہ ہے۔ پروفیسر عبدالستاردلوی نے لفظ ’’میاں‘‘ کی لسانی حیثیت اور تہذیبی معنویت پربڑا منفرد مضمون لکھا ہے اور یہ بتایا ہے کہ اس لفظ کی کتنی جہتیں ہیں اور یہ مختلف سیاق میں کن کن معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔پروفیسر اشرف رفیع نے شاعر مشرق علامہ اقبال کے تاریخی و تہذیبی تصورات پر قدرے تفصیلی مقالہ قلم بند کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اقبال کے تاریخی مطالعہ کی وسعتوں اور تہذیبی جہات کا مطالعہ ان کی تلمیحات ‘ تراکیب ‘ استعارات ‘ علامات و تشبیہات سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر فیروز دہلوی کی تحریر ’’قصہ داستان گو کا‘‘ تحقیقی دریچے کھولتی ہے۔ اُنہوں نے پرانی دہلی کے آخری اور مشہورومعروف داستان گو میرباقرعلی کی شخصیت کی مختلف جہات اور حالات و کوائف پیش کیے ہیں۔ پروفیسر شہپررسول نے اُردو کی حکائی روایت کے ایک اہم ثقافتی شعری سرمایے ’’چار بیت‘‘ کے تعلق سے لکھا ہے کہ اس صنف کا فروغ اور اس کی محفلوں کی گہما گہمی روہیل کھنڈ کے مختلف شہروں اور قصبوں کے ساتھ ساتھ دوسرے صوبوں کے ان شہروں میں بھی دکھائی دیتی ہے جہاں روہیلہ پٹھان جاکر بس گئے۔چار بیت کو طبقہ اشرافیہ نے کبھی لائق توجہ نہیں گردانا۔ پروفیسر مولا بخش نے عصمت چغتائی کے معروف ناول ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ پراپنے مخصوص اندازمیں سیرحاصل گفتگو کرتے ہوئے ایک نیا زاویہ نظر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ بقول اُن کے یہ ناول عورت کی شخصیت سازی اور اس کی لیلاؤں کی معنویت کا شدت سے احساس دلاتا ہے اور نئی انسانیت پسند تانیثی افکار کا فنکارانہ اظہار بن کر سامنے آتا ہے۔ ڈاکٹرصفدرامام قادری نے صوفیہ اور بھکتی تحریک کے ادبی اثرات پر اپنے کثیر لسانی مطالعے میں لکھا ہے کہ ملک کے الگ الگ علاقوں میں ان تحریکوں کے علمبرداروں نے سماجی‘ تہذیبی اور لسانی سطح پر کچھ ایسے تجربات کیے جو قومی ادب کی پہچان کے اصول وضع کرنے میں معاون ثابت ہوئے۔ آل احمد سرور نے مختلف اوقات میں مختلف مقاصد سے امریکا‘ روس‘ رومانیہ‘ ہنگری‘ افغانستان اور پاکستان کا سفرکیا اور ان ملکوں کے سفرنامے قلم بندکیے۔ ڈاکٹر امتیاز احمد نے ان سفرناموں کا اپنے مقالے میں جائزہ لیا ہے اور آل احمدسرور کے جملوں کو اس خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے کہ قارئین کو مطالعے کے دوران یوں محسوس ہوگا کہ وہ ان ملکوں کے ادب و ثقافت‘ معاشرے‘ تمدن اور ہرمیدان میں ہونے والی ترقی کا راست نظارہ کررہے ہیں۔ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے اپنے مضمون’’کرشن چندر کے ناولٹ‘‘ میں پہلے تو ناول‘ ناولٹ‘ طویل مختصر افسانے اور مختصر افسانے پر بحث کی ہے اور پھر اصل موضوع کی طرف آتے ہوئے کرشن چندر کے کئی ناولٹوں کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ڈاکٹر اقبال النساء نے اپنے مضمون ’’پریم چند کے تعلیمی تصورات کی عصری معنویت ‘‘ میں ناول ’’میدانِ عمل‘‘ کے ان حصوں پر توجہ مرکوز کی ہے جہاں پریم چند نے انگریزوں کے دورِ اقتدار میں نظام تعلیم کے مفاد پرستانہ اور استحصالی پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے اور کرداروں کے افکار و اعمال کے ذریعے تعلیمی نظام میں اصلاحات کوواضح کیا ہے۔ ڈاکٹر مشتاق قادری ’’جموں و کشمیر میں ترجمے کی روایت‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں کہ قدیم سنسکرت کے زمانے سے اس خطے میں ترجمہ کا کام شروع کیا گیا اور تاریخ کے ہردور میں مختلف زبانوں کے علمی و ادبی فن پاروں کا مختلف زبانوں میں تراجم کروانے کا جو سلسلہ قائم ہوا تھا وہ عصر حاضر تک برقرار ہے۔ ڈاکٹر سید محمود کاظمی نے اپنے مضمون ’’منٹو کے افسانوں کا علامتی نظام‘‘ کا آغاز اِس سوال سے کیا ہے کہ کیا سعادت حسن منٹو علامتی افسانے کے بنیاد گزاروں میں شامل ہیں؟ انہوں نے منٹو کے افسانوں میں علامتی ‘ نیم علامتی اور مکمل علامتی اسلوب اظہار کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ ڈاکٹر فیروزعالم نے عزیز احمد کے مشہور زمانہ ناول ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘ کا اُس کے کرداروں کے حوالے سے جائزہ پیش کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ عزیز احمد کے کردار مشینی انداز میں عمل نہیں کرتے بلکہ ان کا ہر عمل انہیں متحرک اور جاندار بناتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالغنی نے اپنے مضمون ’’جموں و کشمیر میں اُردو زبان اور کلچر ‘‘ میں تاریخی حوالوں سے لکھا ہے کہ کس طرح اس علاقے کی زبان فارسی سے اُردو میں تبدیل ہوئی اور وہاں کے سیاسی حالات اُردو زبان و کلچر کوفروغ دینے میں معاون ثابت ہوئے۔ اُردو فکشن کی معروف ادیبہ بانوقدسیہ 4 فروری 2017ء کو جہانِ فانی سے رُخصت ہوگئیں۔ ابراہیم افسر اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ بانو قدسیہ نے اپنے مخصوص اور منفرد لب و لہجہ کی وجہ سے مردفکشن نگاروں کے درمیان ایک خاص مقام بنا لیا تھا۔ علاوہ اس کے انہوں نے منفرد اسلوب نگارش کی بنا پر سماج اور ادب میں اپنی الگ پہچان بنائی تھی۔
یہ امر ہمارے لیے باعث افتخار ہے کہ ’’ادب و ثقافت‘‘ کے ادارتی بورڈ میں انتہائی ممتاز اور قدآور ادیبوں اور دانشوروں کو شامل کیا گیا ہے۔ ادارہ ان تمام حضرات کا شکرگزار ہے کہ انہوں نے ہماری پیش کش خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کی۔ ہمیں یقین ہے کہ ان کی رہنمائی اور تعاون سے جریدے کو بلندیوں کے نئے افق تک پہنچایا جا سکے گا۔
’’ادب و ثقافت‘‘ اپنے قارئین تک اعلیٰ تحقیقی مضامین پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ کوشش آپ کے تعاون کے بغیر ناممکن ہے۔ آپ سے استدعا ہے کہ اپنے تحقیقی مضامین ارسال کرکے اس جریدے کے کارواں میں شامل ہوجائیں۔اس کا بطور خاص خیال رکھیے کہ ’’ادب و ثقافت‘‘ صرف غیرمطبوعہ نگارشات شائع کرنے میں یقین رکھتا ہے لہٰذا جب آپ اپنی کوئی تحریر ہمیں ارسال کردیں تو پھر اُسے کہیں اور اشاعت کے لیے روانہ نہ کیجیے۔ چونکہ ادب کا تہذیبی وثقافتی مطالعہ زیرنظر جریدے کی اولین ترجیح ہے اس لیے ایسے مضامین کو اولیت دی جاتی ہے۔
بہتر ہوگا کہ آپ اپنی تحریران پیج فائل میں بذریعہ میل ارسال کریں۔ہمارا نیا ای میل پتہ ہے۔ ہمیں آپ کے مفید مشوروں کا انتظار رہے گا تاکہ جریدے کو مزید بہتر اور معیاری بنانے کی جانب مثبت پیش قدمی کی جا سکے۔
——
پروفیسر محمد ظفرالدین
ڈائرکٹر۔ ڈائرکٹوریٹ آف ٹرانسلیشن اینڈ پبلی کیشنز
مانو ۔ حیدرآباد
One thought on “ششماہی ریسرچ اور ریفریڈ جرنل : ادب و ثقافت-4 – – – -ایڈیٹر:پروفیسر محمدظفرالدین”
baht acha