انچائیہ – – – – – – – جرار احمد

Share
جرار احمد

انچائیہ

جرار احمد
ریسرچ اسکالر ، شعبۂ تعلیم و تربیت،مانو
9618783492

نوٹ: اس مضمون کو بغیر کسی عنوان کے میں نے شعبہ اردو میں تمام اساتذہ کی موجودگی میں پڑھا تھا ، مکمل کرنے کے بعد سامعین سے میں نے عنوان کی درخواست کی تو محمد امان نے انچائیہ کہا اور سب نے اس کی تائید کی، اس طرح سے اس انشائیہ کا عنوان انچائیہ رکھا۔
جب سے موسم تھوڑا سرد ہوا تھا، ہم لوگوں کوشام کے علاوہ دوپہر میں بھی چائے پینے کی عادت سی پڑگئی تھی، مگر شام کی طرح دوپہر کے لیے باری متعین نہیں کی گئی تھی کہ کس کے بعد کون پلائے گا۔ بہر حال اسی طرح ایک روز ظہرانے کے بعد ہم لوگ اکٹھا بیٹھے چائے پینے کی سوچ رہے تھے مگر سوال یہ تھا کہ آخر پلائے کون؟

فیروز اور ریاض بھائی ابھی ڈائننگ میں ہی تھے۔ پلان یہ ہوا کہ ریاض بھائی سے چائے پی جائے ۔ مگر ان سے چائے کے لیے کہے کون؟ ابھی ہم اسی اُدھیڑ بنُ میں تھے کہ وہ آ گئے ۔ وہ جیسے ہی آئے ہم نے کہا ،یار ریاض بھائی چائے پینی ہے ۔ ریاض بھائی نے بہت ہی متانت اور تحمل کے ساتھ کہا’میں پیسہ لے کر نہیں آیا ہوں ۔۔!‘ابھی وہ جملہ پورابھی نہیں کر پائے تھے کہ ہماری پلاننگ کے مطابق دلشاد بھائی نے جیب سے 100؍روپیہ نکالا اور ریاض بھائی سے بولے یہ لیجیے اس دن جو آپ نے مجھے ادھار دیا تھا ۔ریاض بھائی نے خوشی کم غصہ زیادہ اور حسرت بھری نگاہ سے دلشاد بھائی کو دیکھا اور نہ چاہتے ہوئے بھی پیسہ کو لے لیا، بس پھر کیا تھا ہم سب بول پڑے چلئے ریاض بھائی چلیے اب تو پیسہ مل گیا ۔ہم سب خوشی خوشی اور ریاض بھائی بجھے بُجھے ٹی پوائنٹ کی سمت چل پڑے۔چلتے ہوئے میں نے ریاض بھائی کو تاکید کی کہ آئندہ کبھی چائے پلانے کا موڈ نہ رہے تو پیسے کا بہانہ مت کیجیے گا،بلکہ صاف صاف کہہ دیجیے گا کہ’ نہیں پلاؤں گا‘، نہیں تو یہ لوگ ہمیشہ ایسے ہی موقعوں پر ادھاری واپس کر کے چائے پیا کریں گے ۔اتنا سننا تھا کہ ارشد بہت ہی تیزی سے ریاض بھائی کی طرف بڑھا اور بولا ریاض بھائی مجھے بھی کبھی ادھار دیجیے گا ایسی ہی ضرورت کے وقت آپ کے کام آکے مجھے بہت خوشی ہوگی ۔ اب کیا تھا ریاض بھائی جو ویسے ہی چائے پلانے کے موڈ میں نہیں تھے، ان کو موقعہ مل گیا وہی سو روپیہ ارشد کی طرف بڑھاتے ہوئے بولے ’لے سالے تو ابھی ادھار لے‘ ۔ارشد بھاگنے لگا کہ نہیں ابھی نہیں ،ریاض بھائی دوڑانے لگے کہ نہیں تو ابھی لے۔ریاض بھائی یہ سوچ کر دوڑا رہے تھے کہ دے دیا تو میں بچ جاؤں گا اور ارشد یہ سوچ کر بھا گ رہا تھا کہ لے لیا تو میں پھنس جاؤں گا۔تھوڑی دیر تک دوڑ بھاگ چلتی رہی پھر سیف نے دونوں کو روک کرٹی پوائنٹ کے اسٹول پر بیٹھنے کے لئے کہا اور ارشد کو متوجہ کر کے کہا تم کو ریاض بھائی ابھی خدمت کا موقعہ دے رہے ہیں تو بھاگ کیوں رہے ہو۔تم کو چاہیے کہ ابھی جھٹ سے پیسہ لے کر پٹ سے لوٹاکربلاتاخیر ان کی خدمت کا فریضہ انجام دو۔ریاض بھائی سیف کو گھور نے لگے اور میری طرف دیکھ کر بولے کل ملاکر مجھی کو کاٹناہے تو ڈائریکٹ بول دونا۔۔! خرگوش کی طرح بدلہ کیوں لے رہے ہو ،کہ خرگوش چڑیا گھر میں بم لے کر گھس گیااور آواز لگائی کہ تم سب کے پاس ایک منٹ ہے یہاں سے نکلنے کے لئے ۔۔۔کچھوا بولا واہ کمینے واہ ۔۔۔سیدھی طرح کہہ دے نا کہ میں ہی ٹارگیٹ ہوں۔۔۔ اتنے میں چائے آگئی میں نے کہا ریاض بھائی چائے لیجیے اور پھر ہم سب کچھوے کی طرح آرام سے مزے لے لے کر چائے پینے لگے کہ اسی اثنا آفتاب نے ریاض بھائی سے کہا، ریاض بھائی او ر کیا منگا رہے ہیں؟اتنا سننا تھا کہ ریاض بھائی خرگوش کی سی پھر تی سے پیسہ دے کر آئے اور بولے payment done۔ ہم سب سمجھ گئے کہ بس اب کچھ اور نہیں۔۔
ایسے ہی ہم سب ایک دوسرے کو تنگ کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔تنگ کر کے کھانے پینے کی ایسی عادت پڑی ہے کہ اگر کوئی سیدھی طرح سے کہے کہ چلو یار چائے پیتے ہیں تو باقی سب کہیں گے کہ ارے یار موڈ نہیں ہے جا تو پی لے ۔اب وہ عاجز آکر کہے گا کہ اچھا ٹھیک ہے اب کبھی پلانے کے لیے کہوگے نا توناک رگڑتے رہ جاؤ گے مگر پلاؤں گا نہیں۔۔ اس کے علاوہ بارہا توایسا بھی ہو ا ہے کہ انکا رکرنے والے یہ سوچ کر انکار کرتے ہیں کہ کون جائے ابھی ہمیں کو پیسے دینے پڑیں گے اورلیواجانے والا یہ سوچ کر اصرار کرتا ہے کہ چلیں گے توکوئی نہ کوئی پیسہ تو دے ہی دے گا ، پر جانے والے بھی ایسے ڈھینٹ کہ جب تک لیواجانے والا یہ نہ کہہ دے کہ ارے یار قسم سے میں پلاؤں گا تب تک کوئی جائے گا نہیں، کیوں کہ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ چائے پینے کے بعد جس نے چائے پینے کو کہا تھا اس سے کہا گیا کہ جا ؤ پیسے دو تو اس نے کہا کہ میں کیو دوں؟ چائے تو سب نے پی۔۔!اور میں نے تو پینے کو کہا تھا پلانے کو نہیں۔۔!اسی لئے اب سب لوگ محتاط ہوگئے ہیں اور تب تک چائے پینے نہیں جاتے ہیں جب کہ پلانے والے سے قسم نہ لے لیں۔۔
دوپہر میں چائے پینے پلانے کا سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا اور کسی نہ کسی سے جبرا چائے پی لیتے کہ اسی بیچ جب ہم لوگ کسی کو تیار کرکے چائے پینے کے لئے نکلتے تو دیکھتے کہ ہمارے اساتذہ پہلے سے ہی وہاں پر موجود ہیں۔ اب ان کی موجودگی میں ہم چائے کیسے پئیں؟ایک دن دوسرے دن ، تیسرے دن بھی جب ایسا ہی ہوا اور کوئی چائے نہیں پی پایا تو سب کو بہت غصہ آیا کہ یار اتنی محنت سے کسی نہ کسی کو پلانے کے لئے تیار کرتے ہیں اور ان لوگوں کی وجہ سے چائے Cancel کرنی پڑتی ہے اور جس کو پلا نے کے لئے تیار کر تے تھے اس کی تو بلے بلے ہوجاتی۔ وہ زور دے کر کہتا چلویار سر ہیں تو کیا ہوا میں پلاتا ہوں نا۔۔ہم سب نے سوچا آخر کچھ تو اس کا حل نکالنا ہی پڑے گا۔پھر ہم نے پلان بنایاکہ اب جب سر لوگ آئیں تو کو ئی ایک سب کو بتادے کہ سر آگئے ہیں اورپھر سب لوگ باری باری ٹی پوائنٹ پہونچیں اور چل کر الٹا انہیں لوگوں سے چائے پیتے ہیں، اس طرح سے ہم کو ان پر غصہ ہونے سے اچھا ہے کہ وہ ہم پر غصہ ہوں۔ ودود نے پوچھا کہ باری باری کیوں رے ؟ سب لوگ ایک ہی ساتھ چلتے ہیں نا؟ تو مہتاب نے کہا کہ ایک ساتھ جاؤ گے تو پلانے والا ڈر جائے گا اوراگرباری باری جاؤگے تو سمجھے گا کہ چلو اکیلا تو ہے بلاہی لیتے ہیں ۔میری اس بات پر سب نے اتفاق کیا کہ سیف کے روم کی ونڈو سے ٹی پوائنٹ چونکہ صاف صاف دکھتاہے اس لیے یہ ذمہ داری سیف کی ہے کہ جیسے ہی سرلوگ آئیں سب کو میسیج کردے ۔اس طرح سے ہم میں سے کوئی جیسے ہی ٹی پوائنٹ پر پہونچتاسر بولتے کہ آؤ چائے پی لو اور پھر دوسرا ،تیسرا باری باری سب پہنچ جاتے اور چائے پی کر خوش و خرم روم لوٹ آتے ۔
ایک مرتبہ کئی دن گذر گئے پر سرلوگ تو کیاکلام سر بھی نہیں آئے، اب ہم لوگ سوچنے لگے کہ یار کس سے چائے پی جائے ۔ ہم نے ودود سے ایک روز کہا آج چاہے کلام سر آئیںیا نہ آئیں سب کو میسیج کردینا کہ کلام سر آئے ہیں ۔پہچنے کے بعد تو کوئی نہ کوئی پلاہی دے گا، پر یاد رہے ہم لوگ بعد میں چلیں گے جب سب لوگ چائے پینے لگیں تب، میں نے ودود کو یہ بھی تاکید کی کہ ویلیٹ تو قطعی لے کر مت جانا ۔کچھ وقفے کے بعد میرا موبائل بجتاہے ، دیکھتا ہوں تو ودود کا میسیج تھا ، تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ایک کر کے سب لو گ میرے روم پر جمع ہونے لگے ۔میں نے پوچھا کیا بات ہے ۔ وہ لو گ بولے تمہارے پاس میسیج نہیں آیا ہے ؟ہم نے کہا نہیں ، کیا ہوا؟تو بولے چلوکلام سر آئے ہیں تو ہم نے کہا کہ تم لوگ چلو ہم آتے ہیں ۔ تو سیف بولا کہ چل یار موڈ مت خراب کر ۔ اسی بیچ میرا پارٹنر عادل جوکہ ایم۔اے۔ ہندی کا ہے بول پڑتا ہے کہ کیا اردو والے سر آئے ہیں؟ میں بھی چلوں گا۔ میں نے کہا کہ اگر ہندی والے جائیں گے تو میں نہیں جاؤں گا۔ آفتاب بولا کہ اب جانا نہیں چاہ رہے ہو تو ہندی والوں کا بہانہ مت بناؤ ، اس سے پہلے تو کبھی منع نہیں کیے؟ میں نے کہا یار روزتو پہلے میں ہی جاتاہوں کبھی تم لوگ بھی۔۔۔اتنے میں ریاض بھائی بڑے بڑے القاب و آداب کے بعد بولے ، آپ تو ہمارے رہبر و رہنما ہیں ہم سب آپ ہی کی قیادت اور سیادت میں چلیں گے۔سب نے یک زبان ہوکر کہا بے شک بے شک ۔ مرتا کیا نہ کرتا چپ کے سے پر س روم پر رکھا اور چل دیا۔اب وہاں پہنچے تو کلام سر کا پتہ ہی نہیں۔ انجان بن کر میں ان لوگوں کو پھٹکارا کہ میں تو آنہیں رہا تھا خواہ مخواہ میں اٹھالائے ؟کہاں ہیں سر ؟وہ سب بولے ودود نے میسج کیاہے ،میں نے کہاودود کہاں ہے ؟تو بولے آرہا ہوگامیں نے کہا مزاق کیا ہوگا۔پھر سیف کو مخاطب کر کے میں نے کہا کہ آنے سے پہلے تمہیں دیکھ لینا چاہیے تھانا یہیں ونڈو کے پاس تو رہتے ہو ، تو وہ گھبراکربولاکہ یار چائے پینے کی دھن میں یہ سب بھول گیا اور مجھے کیا پتہ کہ وہ ایسا بھی کر سکتاہے ، پھرغصہ کرتے ہوئے ضدی انداز میں بو لا کہ اب تو ودود سے ہی چائے پئینگے کیوں بلایااس نے ۔ودود کو فون کیاگیا اس نے کال ریسیو نہیں کی،خیر چائے آرڈر کی گئی۔میں نے دیکھا کہ ودود اوپر سے ہم لوگوں کو دیکھ رہاہے ۔ جیسے ہی چائے آئی وہ دوڑتاہوا آیا۔ جب وہ چائے لینے گیا تو آپس میں چہ مہ گوئیاں ہوئیں کہ بکراخود بہ خودقربان ہونے کے لیے آگیا۔۔سب نے مزے لے لے کے چائے پی۔ جب پیسہ دینے کی باری آئی توسیف نے کہا ودود پیسے دے دو۔ودود نے کہا میں کیوں دوں ؟سب نے کہا دے دو نہیں تو خیر نہیں ہے۔تو وہ بولا کہ یار میں تو سب سے بعد میں آیا ہوں ۔ تو فیروز بولا کہ فیصلہ یہ ہواہے کہ جو سب سے دیر میں آئے گا پیسہ وہی دے گا۔ سیف بولا کہ اور یہ بھی فیصلہ ہوا ہے کہ آپ ہی نے سب کو مسیج کیا تھا اب آپ ہی دو۔ودود میری طرف اشارہ کر کے بولا کہ پلان اس کا تھا ،سب لوگ میری طرف دیکھنے لگے میں نے کہا اب تو فیصلہ ہو چکا نا ۔؟تو وہ بولا کہ میں پر س نہیں لا یا ہوں تو میں نے کہا وہ تو میں بھی نہیں لایا ہوں۔ ودود بولا کہ ارے یار کوئی لایا ہو تو دے دے میں اس کو دے دوں گا۔سب لوگ خاموش رہے ، پھر ودود نے فیروز کو مخاطب کر کے کہا ارے فیروز تو ہی دیدے ہم ’تے ‘کو دے دیں گے۔ فیروزنے کہا، ابھی تک کسی کا کسی نے دیا ہے ؟ سب لوگ تو جس کا لیا ۔۔۔۔نہیں دیا والے فارمولے پہ عمل کرتے ہیں ۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ آفتاب سے جرار بھائی نے اپنا سو روپیہ واپس مانگا تواس نے کہاکہ کل اسی پیسے سے تو کھلایا پلایا تھا؟ یہاں تو ایسے ایسے اللہ والے پڑے ہیں کہ ادھار لینے کے بعد پیسہ واپس کرنے کے بجائے خوب کھلائے پلائیں گے اور جب واپس مانگوتو کہیں گے کہ اتنے دن کیسا کھا پی رہے تھے۔؟
ودود کو حیران و پریشا ن دیکھ کر ارشد بولاکہ جاؤ یار تمہارا تو یہاں کھاتہ چلتا ہے نا ؟جا اس کو بول دے بعد میں دے دیں گے۔ ودود بولا ایسا ہے کہ تم لوگ رکو میں پر س لے کے آتا ہوں ۔سب لوگ ایک ساتھ بول پڑے نہیں نہیں جانے کے بعد کوئی واپس آیا ہے ؟تو رک ہم لو گ جاتے ہیں تجھے جو کرناہے کر پیسہ تجھے دینا ہے تو جاکے سمجھ ہم لوگ چلتے ہیں ۔ خدا حافظ
چائے کا سلسلہ تھوڑا مدھم ہوا مگر ونڈو والے آئیڈیا کا سیف غلط فائدہ اٹھانے لگا، جب کبھی بھی ہم میں سے کوئی چائے کے لیے ٹی پوائنٹ پہنچتا تو وہ آجاتا اور جب پیسہ دینے کی باری آتی تو بولتا کہ تم لوگ پہلے آئے ہو، تم لوگ دو اور okاللہ حافظ کہہ کر چلاجاتا۔کئی بار ایسا ہی ہوا ۔ایک مرتبہ ہم لوگ چائے کے لئے ٹی پوائنٹ پر تھے، سیف ونڈو سے دیکھ کر چلایا میں آرہا ہوں۔ میں نے سب کو کہہ دیا کہ آج چائے پی کر سب لوگ میرے پیچھے دوڑ لگادیں اور بھاگ چلیں اس طرح سے سیف کو پیسہ دینا پڑے گا۔سب نے اتفاق کیا ۔ جب سیف چائے لے کر آیا ہم لوگ آخری گھونٹ پی رہے تھے اور ریاض بھائی نے اپنے مخصوص انداز میں چائے کو سُڑسڑاکر ختم کیا۔ پھر کیا تھا ہم لوگوں نے دوڑ لگادی۔ اس سے پہلے کہ سیف کچھ سمجھ پاتا کہ چائے والے نے کہا، ہے بھائی پیسہ دے کر جانا۔ اب کیاتھا سیف کو چائے کا گھونٹ چرُیتے کی طرح لگنے لگا ،بہر کیف اس نے چائے پی، پیسہ دیا اورشام کو میرے روم پر آکر بولا اچھا نہیں کیے، اب تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔ میں نے کہا پہلے پکڑو تو صحیح، وہ بولا ٹھیک ہے تم۔۔۔ابھی یہ بات چیت چل ہی رہی تھی کہ باشا آیا اور بولا کہ وہ کلام سر چائے پی رہے ہیں ۔پھر کیا تھا ہم جو ق در جوق ٹی پوائنٹ پہنچ گئے ۔ اور ایک طر ف پتھرپر اپنی اپنی مخصوص جگہ پرنوابی اندازمیں بیٹھ کراطمینان کے ساتھ چائے کا آرڈر دیے کہ سر لوگ تو ہیں ہی۔چائے پینے کے ساتھ ساتھ آپس میں خسر پھسر ہونے لگی کی اگر کلام سرنے پیسہ نہیں دیا تو کون دے گا۔ سیف کو بدلے کا موقعہ مل گیا، اس نے فرحت و انبساط بھرے لہجے میں کہا جرار،،،!میں نے کہا میں کیوں ؟اس نے کہا تو ہی سب کو لایا ہے ۔میں نے باشا کی طرف دیکھا وہ بولا ارے ان غریب لوگوں کی بات مت سن، کلام بڑا آدمی ہے رے دے دے گا۔میں نے ریاض بھائی سے کہا کہ جیسے ہی سر پیسہ دینے جائیں آپ جاکے سر کو بول دیجیے گا کہ ہم لوگوں نے بھی چائے پی ہے، انہوں نے کہا ٹھیک ہے ۔ بہت دیر ہو گئی سر نسیم سر کے ساتھ گفتگو میں محو تھے ۔ ہم لوگ آپس میں باتیں کرنے لگے کہ یار آج کی چائے تو کافی مہنگی پڑ رہی ہے ۔کیا کیا جائے؟پھر اس بات پر سب نے اتفاق کیا کہ اگر پانچ منٹ میں سر نہیں اٹھتے ہیں تو ایک ایک چائے اور پی جائے گی اور بھگتان وہی لوگ کریں گے۔ ہماری بد قسمتی کہئے یا ان کی خوش نصیبی چار منٹ میں سر اٹھ گئے ۔ ہم نے ریاض بھائی سے کہا کہ یار جلدی جائیے اور سر کو بولیے، مگر وہ ہیں کہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں ۔ میں نے سوچاکہ اگر لیٹ کرتاہوں تو سر پیسہ دے کر چلے جائیں گے اور مجھے پیسہ دینا پڑے گا، سیف کی طرف دیکھا تو وہ فاتحانہ انداز میں مسکرارہا تھا کہ آج تو بدلہ لے لیا۔اس کی یہ مسکراہٹ مجھے چرائیتے سے بھی کڑوی لگی، پھر کیا تھا میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، دوڑ کے سر کے پاس گیا اور بولا سر ہم لوگوں نے بھی چائے پی ہے بولے ہاں ہاں بولو کتنی میں نے کہا دس۔ اس سے پہلے کہ وہ payment کر کے مجھ سے مخاطب ہوتے میں نے دوڑ لگادی اور سیدھا اپنے روم پر جاکے رکا۔تھوڑی دیر میں سب لوگ روم پر آگئے اور سیف سے مزہ لینے لگے یار جرار تو آج بھی بچ گیا۔ سیف شکست خوردہ لہجے میں بولا پھر کبھی۔۔۔
ایک مر تبہ چائے کے لیے میں دیر سے پہنچا یہ سیف کے لئے اچھا موقعہ تھا جیسے ہی میں بیٹھا سیف بولا چائے لے لو،میں نے کہا نہیں میں نہیں پیونگا۔ وہ زبردستی کرنے لگا میں نے کہا ہٹویار موڈ نہیں ہے ۔تو جھلا کر بولا جو چائے نہیں پیے گا پیسہ وہی دے گا۔ میں نے کہا یار یہ کونسی بات ہوئی تو بولا کہ No Objection اس دن تو مجھے سوچنے سمجھنے کا موقعہ بھی نہیں ملاتھا کہ آخر تم لوگ بھاگ کیو ں رہے ہو، خیر تم چائے پیویا پھر پیسہ دو ۔ میں نے سوچا اگر چائے نہیں پیتا ہوں تو پیسے مجھے ہی دینے پڑیں گے اور اگر پیتا ہوں تو یہ لوگ دوڑ کر بھا گ جائیں گے۔تھوڑی دیر بعد میں نے کہا اچھا لاؤ میں چائے پیونگا۔ میں نے دیکھاسب لوگ مسکرا رہے تھے ۔میں خاموش اور چوکناہوکر چائے پینے لگا۔ابھی میں نے آدھی ہی چائے پی تھی کہ سب لوگو ں نے چیتے کی طرح دوڑ لگادی ۔میں بھی پوری قوت کے ساتھ ہرن کی طرح جان بچا کر بھاگا ۔نتیجتا سب سے پہلے روم پر میں آگیاسب لوگوں نے جب مجھے روم پر دیکھا تو بولے پیسہ کس نے دیا؟ میں نے کہا میں کیا جانوں ؟ تو بولے یہ غلط بات ہے ۔ پیسہ تمہیں دینا تھا۔ میں نے کہا وہ کیوں ؟ تو بو لے اس دن سیف نے دیا تھا، میں نے کہا دوسری بات یہ کہ اس دن سیف بھاگ نہیں پایا تھا ۔ سیف بولا کہ پہلی بات ؟ میں نے کہا کہ تمہاری طرح ہزار بار ونڈو کا فائدہ میں نے نہیں اٹھایا ہے ۔ اب کیا تھا سب لوگ لڑنے لگے کہ تب پیسے کون دے گا؟ اب میں مسکرا رہا تھا اخیر میں یہ فیصلہ ہوا کہ چلو سب لوگ اپنا اپنا دیں میں نے کہا میرا پیسہ سیف سے لے لینا اور اس طرح سے چندہ کرکے چائے کا payment ہوا۔

Share

One thought on “انچائیہ – – – – – – – جرار احمد”

Comments are closed.

Share
Share