اردو کےادیب اورنثرنگار-قسط۔9- عبدالودود -مختار الدین, پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

Share

قسط 9
اردو کےادیب اورنثرنگار
قاضی عبدالودود مختار الدین احمد آرزو

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

اردو کے ادیب اور نثر نگار ۔ آٹھویں قسط کے لیے کلک کریں

قاضی عبدالودود (۱۸۹۷۔۱۹۸۴ء)
قاضی عبدالودود نے اردو ادب میں تحقیق وتدوین کی روایت کو فروغ دیااور تحقیق کے آداب کا سلیقہ سکھایا ، اور اس میدان میں حق گوئی و بے باکی کا درس دیا ، حق اور باطل ، سیاہ و سپید کے درمیان حد فاصل قائم کرنے کا ہنر آشکار کیا ، قاضی عبد الودود ایک اصول پرست اور سخت گیر محقق ہیں اور راست گفتاری اور حقیقت پسندی سے سمجھوتہ کرنے کے قائل نہیں ہیں ، گیان چند جین نے انہیں بت شکنمحقق کے نام سے یاد کیا ہے –

انھوں نے اردو ادب کے بہت سے ایسے بتوں کو توڑا جن کی عظمت اور برگزیدگی مسلمہ تھی ، اور ان کا فرمایا ہوا مستند تصور کیا جاتا تھا ، قاضی عبد الودود نے عربی فارسی کی تعلیم اپنے وطن بہار میں حاصل کی ، پھر وہ علی گڑھ گئے ، علی گڑھ کے کالج میں داخلہ لیا ، یہاں لاطینی ، جرمن اور فرانسیسی زبانیں سکھائی جاتی تھیں ، ۱۹۲۰ء میں امتیاز کے ساتھ بی اے کی ڈگری لی ، اور اس کے بعد اعلی تعلیم کے لئے انگلستان چلے گئے اور بیرسٹری کا امتحان پاس کیا ، مارچ ۱۹۲۹ء میں پٹنہ واپس ہوگئے اور علم وادب کی خدمت میں مصروف ہوئے ، انہوں انگریزی اور فرانسیسی ادب کا بھی گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ، انھیں تاریخ اور قانون سے بھی دل چسپی تھی ، انھوں نے اپنی تمام توانائی بحث وتحقیق میں صرف کی ، ان کی مشہور تصانیف میں تذکرہء شعراء، دیوان جوشش اور قاطع برہان اہم ہیں ، ان کے تحقیقی مضامین کی تعداد دو سو سے اوپر ہے ، ان کی اہم تحریروں میں غالب کا فرضی استادمیر تقی میر حیات وشاعری اور عبد الحق بحیثیت محقق  اور شاد کی کہانی شاد کی زبانی وغیرہ شمار کی جاتی ہیں ، ان کو میر تقی میر اور انشا اور غالب اور مصحفی سے غیر معمولی لگاؤ تھا ، انھوں نے مسعود حسن رضوی کی دیوان فائز پر محققانہ تبصرہ لکھا ، انھوں نے اپنی کتاب ’’عیارستان‘‘ میں خواجہ احمد فاروقی کی متعدد اغلاط کی نشاندہی کی ، انھوں نے خواجہ احمد فاروقی کے مآخذ کا بڑی سختی کے ساتھ محاسبہ کیا اور اس نتیجہ پر پہونچے کہ خواجہ احمد فاروقی نے جن تصانیف کے حوالے دئے ہیں وہ ان کی نظر سے نہیں گزری تھیں ، قاضی عبدالودود تحقیق میں دوستی ، ذاتی تعلقات اور مراسم کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ، انھوں نے بابائے اردو عبد الحق کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بنایا اور عبد الحق کی مرتب کردہذکر می انتخاب کلام میر نکات شعراء گلشن ہند کا تحقیقی نقطہء نظر سے جائزہ لیا – ذکر میر پر قاضی عبدالودود کا سب سے اہم اعتراض یہ ہے کہ عبد الحق نے تدوین کے دوران اس کتاب کے صرف ایک نسخہ پر تکیہ کیا اور دوسرے نسخوں سے استفادہ نہیں کیا ، عبد الحق پر قاضی عبد الودود کے تحقیقی محاکمات کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ غیر محتاط محقق ہیں اور فارسی نثر سمجھنے میں اکثر سہو کا شکار ہوگئے ہیں ، اور یہ بھی لکھا ہے کہ اس کا بھی احساس ہوتاہے کہ عدیم الفرصتی کی وجہ سے انھوں نے دوسروں سے بھی کام کروائے ہیں ، کتاب عیارستان میں بھی عبد الودود نے خواجہ احمد فاروقی کی کتاب ’’اشتر وشوزن‘‘پر سخت تنقید کی ہے ، اور قاضی عبد الودود نے یہ بھی لکھا ہے کہ مرتب نے سن کتابت کو تاریخ تصنیف سمجھا ہے اور یہ بھی لکھ دیا ہے کہ مصنف نے جو غلطیاں کی تھیں انہیں خواجہ احمد فاروقی نے جوں کا توں چھاپ دیا ہے ۔
قاضی عبدالودود نے غالب پر کوئی پینتیس مضامین سپرد قلم کئے ہیں ، اور غالب بحیثیت محقق میں انھوں نے ’’قاطع برہان‘‘ کے سلسلہ کے مباحث پر روشنی ڈالی ہے اور ان مباحث میں غلطیوں اور تسامحات کا جائزہ لیا ہے ۔
ادبی تذکروں کے سلسلہ میں قاضی عبدالودود کی معلومات بہت وسیع اور غیر معمولی ہیں ، اردو کے بہت کم مصنفین اس معاملہ میں ان کا مقابلہ کرسکتے ہیں ، قاضی عبد الودود ایک بلند پایہ محقق ہیں ، انھوں نے تحقیق کوایک فن بنا کر پیش کیا اور ان کی تحریروں کی وجہ سے بہت سے مصنفین تحقیق کی طرف متوجہ ہوئے اور انھوں نے محققین کو حزم واحتیاط کا درس دیا ، ان کا نظریہ ہے کہ محقق کو عبارت آرائی اور رنگین بیانی اور تشبیہات واستعارات کے استعمال سے گریز کرنا چاہئے اور تحقیق کی زبان دو اور دو چار کی طرح واضح ہونا چاہئے ، خود وہ اپنے اصول پر کاربند رہے ، انھوں نے اردو زبان کے طلباء اور اساتذہ کو آئین تحقیق سکھائے اور اردو تحقیق کو علمی وقار سے آشنا کیا ۔

مختار الدین احمد آرزو (۱۹۲۴۔۲۰۰۹ )

مختار الدین احمد عربی زبان کے عالم ، قدیم اردو متون کے ماہر اور شمالی ہند کی پہلی اردو ’’کربل کتھا‘‘ کے مرتب کی حیثیت سے مشہور ہیں ، یہ تصنیف اردو ادب میں ان کا نام ہمیشہ تابندہ رکھے گی ، مختار الدین کا شمار اردو کے ان محققین میں ہوتا ہے جنہیں مخطوطہ شناسی کے آئین وآداب پر کامل دست رس حاصل ہے ، انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن پٹنہ میں حاصل کی ، ان کے والد مولانا ظفر الدین قادری ایک بڑے عالم تھے اور کئی کتابوں کے مصنف تھے ، انھوں نے مدرسہ شمس الہدی میں فاضل کا امتحان پاس کیا ، اس کے بعد انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور عربی میں ایم اے کیا اور ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب نے انھیں علی گڑھ کی لائبریری کے شعبہ ء مخطوطات کا سربراہ بنادیا ، وہ صبح سے دوپہر تک لائبریری میں کام کرتے اور پھر دوپہر سے شام تک شعبہء عربی میں بحیثیت رسرچ اسکالر مصروف تحقیق ومطالعہ ہوتے ، پی ایچ ڈی میں ان کے نگراں مشہور محقق عبدالعزیز میمن تھے ، ۱۹۵۳ء میں شعبہء عربی میں لکچرر مقر ر ہوئے ، بعد میں وہ آکسفورڈ بھی گئے اور جرمنی اور فرانس اور دوسرے ملکوں میں اردو ادب سے متعلق مواد حاصل کرتے رہے ، انھیں تحقیق سے بڑا شغف تھا، انھوں نے مختلف تحقیقی موضوعات پر مضامین سپرد قلم کئے اور تدوین سے بھی دل چسپی لی جس کے معیاری نمونے ’’تذکرہء شعراء فرخ آباد‘‘، ’’سیر دہلی‘‘ ’’کربل کتھا‘‘، ’’گلشن ہند‘‘، ’’تذکرہء حیدری‘‘ اور ’’تذکرہء آزردہ ‘‘ ہیں ، انھوں نے مخطوطات کی وضاحتی فہرستیں بھی تیار کیں جن سے تحقیق کرنے والوں کو پتہ چلتا ہے کہ کونسا مخطوطہ کہاں دست یاب ہوسکتاہے ، اس طرح کے کاموں میں ’’فہرست مخطوطات احسن کلشن‘‘ ،’’فہرست مخطوطات ونوادر کتب خانہ مسلم یونیورسٹی ‘‘ زیادہ اہم ہیں ، انھوں نے شروع میں شاعری بھی کی لیکن قاضی عبد الودود کے فیض صحبت سے ان کو تحقیق سے دل چسپی پیدا ہوئی تو انھوں نے شاعری ترک کردی اور تحقیق وتدوین کی طرف متوجہ ہوگئے ، اردو تحقیق میں مختار الدین احمد کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ انھوں نے بہت سے ایسے متون دریافت کئے جن کی دریافت کا سہرا بھی انہیں کے سر ہے ، انھوں نے راجہ رام موہن رائے کا ایک خط بھی ڈھونڈ نکالا ، یہ خط انھوں نے یورپ کے ذخیروں سے حاصل کیا تھا ، انھو ں نے لندن ، فرانس اور جرمنی کے نایاب ذخیروں سے استفادہ کیا اور ان چھپے ہوئے خزانوں سے گوہر آب دار حاصل کئے ، ان کی کتاب کربل کتھا ان کو اردو کے معتبر محققین میں شمار کئے جانے کی سفارش کرتی ہے ،انھوں نے جس خلوص ، توجہ اور انہماک کے ساتھ کربل کتھا کی تدوین کی ہے وہ نوجوان محققین اور تازہ واردان بساط تحقیق کے لئے قابل تقلید ہے ۔ان کے پاس ان کے نام ادباء اور شعراء کے بہت سے خطوط ہیں اور انہوں نے جن ادباء اورشعراء اور اہل علم کو خطوط لکھے تھے ان کی نقل بھی ان کے پاس محفوظ ہے یہ علمی خزانہ ابھی تک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوسکا ہے ان کے انتقال کے بعد ان کے ورثاء کو چاہئے کہ ان کوشائع کریں۔

Share
Share
Share