اردو ہال (حیدرآباد) کی تعمیر – – – – پروفیسر حبیب الرحمٰن

Share


اردو ہال(حیدرآباد) کی تعمیر

پروفیسر حبیب الرحمٰن

نوٹ: شہر حیدرآباد میں اردو زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت کے فروغ میں اردو ہال کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ یہاں بے شمار ادیبوں و شاعروں اور دانشوروں کی تہنیت کی گئی ‘ہزاروں کتابوں کی رسمِ اجرا عمل میں آئی ۔ کئی ایک سمینار منعقد کیے گئے‘ مباحثے و مذاکرے ہوے ۔مرحومین کے تعزیتی اجلاس ہوے ۔پروفیسرحبیب الرحمٰن نے جس مقصد کے لیے اس ہال کی تعمیر وتشکیل میں حصہ لیا تھا اسی مقصد کے حصول میں یہ ہال ابھی بھی سرگرداں ہے ۔ انجمن ترقی اردو ہند تلنگانہ کی سرپرستی میں آج بھی اردو محافل و مجالس کے لیے اردو ہال بلا معاوضہ دیا جاتا ہے ۔ موجودہ معتمد عمومی انجمن ترقی اردو ہند تلنگانہ و آندھرا جناب عبدالرحیم خان کی محبت و محنت نے اردو ہال کو آج بھی روشن کررکھا ہے۔ اس ضمن میں پروفیسرحبیب الرحمٰن کا ایک تعارفی مضمون ملاحظہ کریں۔ (ج۔ٓا)

کانفرینس سے چند مہینے پہلے میں نے مجلسِ انتظامی کے ایک جلسے میں یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ انجمن کا اپنا کوئی ٹھکانا ہونا چاہیے جہاں اس کا دفتر بھی واقع ہو اور وہیں مجلسِ انتظامی اور مجلس کے عام جلسے بھی ہوا کریں۔اب تک یہ تمام جلسے میرے مکان پر ہوا کرتے تھے ۔ جس سے لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہونے اور بعض مخالفین کو یہ کہنے کا موقع ملتا تھا کہ میں نے انجمن کو اپنا ایک ذاتی ادارہ بنا لیا ہے ۔ساتھ ہی میں نے یہ پیشکش بھی کی کہ میں مطلوبہ زمین بلامعاوضہ دینے کو تیار ہوں بشرط یہ کہ ہم کہیں سے پندرہ بیس ہزار روپیے حاصل کرنے میں کامیاب ہوں۔
پھر میں نے حصولِ رقم کی ایک ممکنہ صورت کا حوالہ بھی دیا۔ وہ صورت یہ تھی کہ انجمن طلبائے قدیم علی گڑھ ( شاخ حیدرآباد) کے پاس پندرہ ہزار روپیے عمارت کی تعمیر کے لئے محفوظ تھے۔مگر زمین میسر نہ ہونے کے باعث ان کی اسکیم پوری نہیں ہو رہی تھی ۔اور وہ کرائے کے مکانوں میں اپنا کام چلا رہے تھے جس کا بار برداشت کرنا ان کے لئے روز بروز دشوار ہو رہا تھا ۔کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ طلبائے قدیم علی گڑھ اپنی پندرہ ہزار کی رقم اس شرط پر انجمنِ ترقی اردو کے حوالے کر دیں کہ ان کا دفتر بھی اسی عمارت میں قائم ہو۔ اور یہیں وہ اپنے جلسے بھی کیا کریں۔ساتھیوں نے تجویز پسند کی اور یہ طے کیا کہ اس بارے میں انجمنِ طلبائے قدیم علی گڑھ سے بات چیت کی جائے ۔اس مسئلے میں جناب احمد مرزا اور ان کے بھائیوں ‘ نواب سعید جنگ اور جناب سجاد مرزا نے بڑی دلچسپی لی ۔یہ تینوں نہ صرف انجمنِ ترقی اردو کی مجلسِ انتظامی کے سرگرم رکن تھے بلکہ انجمنِ طلبائے قدیم علی گڑھ میں بھی انھیں کافی رسوخ حاصل تھا۔ اور انھیں یقین تھا کہ یہ معاملہ حسبِ منشاء طے ہوجائے گا ۔خاص کر اس لئے بھی کہ نواب ناصر یار جنگ جو انجمنِ طلبائے قدیم کے کرتا دھرتا تھے‘ وہ ہم سب کے بزرگ اور اردو کے بھی بڑے حمایتی تھے ۔لیکن جب بات چیت شروع ہوئی تو وہ متوقع خطوط پر آگے نہیں بڑھ سکی اور اس میں کئی ہفتے گزر گئے ۔سجاد مرزا صاحب جو چھٹیاں گزارنے کے لئے حیدرآباد آئے ہوئے تھے اپنے کام پر لیبیا واپس چلے گئے جہاں وہ اقوامِ متحدہ کی طرف سے متعین تھے ۔ جس ڈھنگ سے گفتگو ہو رہی تھی اس سے انھیں بڑی کوفت تھی۔جہاں تک میرا گمان ہے ‘ ناکامی کی اصل وجہ مخالفین کی پھیلائی ہوئی وہی بدگمانی اور پروپگنڈا تھا جس کی طرف میں اوپر اشارہ کرچکا ہوں ۔بہ ہر حال بات چیت بے نتیجہ رہی اور احمد مرزا نے اس کی اطلاع سجاد مرزا کو بھیج دی ۔اب قدرت کا کرشمہ دیکھیئے کہ جواب میں سجاد مرزا صاحب نے اپنے بڑے بھائی کو لکھا کہ میں خود پندرہ ہزار روپیے دیتا ہوں آپ ‘ حبیب الرحمٰن صاحب اور صدر انجمن ترقی اردو جناب غلا م یز دانی صاحب کو مطلع کردیجے اور اردو حال کی تعمیر کے لئے ضروری اقدامات کیجیے ۔عجب نہیں اس جواب کے حاصل کرنے میں خود بڑے بھائی کے اثرنے بھی کام کیا ہو ۔
اس اطلاع کے ملتے ہی فوراً مجلسِ انتظامی کا جلسہ بلایا گیا اور اراکین نے میری زمین کا برسرِ موقع معائینہ کر کے ایک ہزار چھ سو گز کا ایک قطعہ اس غرض کے لئے منتخب کر لیا اور جناب سید یونس صاحب ( سابق چیف انجینئر ) سے درخواست کی کہ وہ اردو حال کا ایک نقشہ تیارکردیں‘ موصوف نے ہماری مالی گنجائش کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ایک پلان تیار کیا جو اُس وقت کی مروجہ قیمتوں کا لحاظ کرتے ہوئے بیسبائیس ہزار میں تکمیل پا سکتا تھا۔لیکن یزدانی صاحب کو اس پلان سے اتفاق نہیں تھا۔ان کا اصرار تھا کہ پلان کسی قدر بڑا بنایا جائے تاکہ ہم اردو ہال میں پبلک جلسے بھی کر سکیں اور جہاں تک زائد رقم کا تعلق ہے اس کے لئے پبلک سے اپیل کی جائے ۔اس بارے میں ابھی کوئی قطعی تصفیہ نہیں ہوا تھا کہ اردو کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا اور اس کے نتیجے میں نفسیاتی تبدیلی ظہور میں آئی جس کا اُوپر ذکر آچکا ہے۔

اس موافقانہ ماحول سے حوصلہ پا کر ہم نے اردو ہال سے متعلقہ اسکیم مقامی اخباروں کو اشاعت کے لئے دی اور دو دو تین تین کی پارٹیاں بنا کر خود چندہ جمع کرنے کے لئے نکل پڑے۔اولاً ہم نے اپنی جان پہچان والے کم از کم ایک سو ایسے احباب کی ایک فہرست بنائی جن سے ہم نے فی کس ایک سو روپیے یا اس سے زائد حاصل کر سکیں ۔ِاس مہم میں جو یزدانی صاحب ‘ احمد مرزا صاحب ‘ نواب سعید جنگ اور خود مجھ پر مشتمل تھی ۔ایک مہینے کے اندر کم و بیش دس ہزار روپے وصول ہوئے۔نیز ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ان ’’ وظیفہ یاب بوڑھوں ‘‘ کی دوڑ دھوپ سے متاثر ہو کر کچھ اور لوگ مثلاً رائے جانکی پرساد ‘ ڈاکٹر جعفر حسن ‘ عابد علی خان ‘ ڈاکٹر سید عبدالمنان وغیرہ میدان میں آگئے اور اپنے اپنے حلقۂ اثر میں گھوم پھر کر چندہ وصول کرنے لگے۔اس طرح چار پانچ مہینے کی قلیل مدت میں تقریباً تیس پنتیس ہزار روپے جمع ہو گئے اور سجاد مرزا صاحب کے پندرہ ہزار ملا کر پچاس ہزار کے لگ بھگ رقم اردو ہال کی تعمیر کے لئے فراہم ہو گئی ۔اس حوصلہ افزاء کامیابی کے پیشِ نظر مجوزہ پلان میں کچھ اور توسیع کی گئی ۔اور بالآخر ۳ جنوری ۱۹۵۵ ؁ء کو صدر انجمن پدما بھوشن جناب غلام یزدانی کے ہاتھ سے اردو ہال کا سنگِ بنیاد رکھا گیا ۔پھر ایک اور ’’ وظیفہ یاب بوڑھے (1) ‘‘ جناب سید محمد یونس کی لگاتار محنت سے جب آٹھ دس مہینے کے اندر اندر عمارت اس حد تک تکمیل پا گئی کہ اس میں جلسے کیے جا سکیں تو اُسی سال دسمبر ۱۹۵۵ ؁ء میں وزیرِ آعظم جواہر لا نہرو کے ہاتھ سے اس کا افتتاح عمل میں آیا ۔

یہ وہی سنہری چابی ہے جس سے پنڈت جواہر لعل نہرو نے اردو ہال کا افتتاح کیا تھا۔اس چابی پر تاریخ افتتاح بھی کندہ ہے۔

افتتاح کی خبر سن کر اُس سے عین ایک دن قبل پڑوسی صوبہ آندھرا کے وزیرِ اعلی ٰ ( اس وقت ریاست آندھرا پردیش ابھی وجود میں نہیں آئی تھی ) ڈاکٹر بی گوپال ریڈی نے اپنی حکومت کی طرف سے مبلغ ایک ہزار کا چیک اردو ہال تعمیر فنڈ کے لئے روانہ کیا۔یہ رقم بجائے خود بہت بڑی نہ سہی لیکن وہ آگے چل کر ہمارے لئے ایک ایسا رابطہ ثابت ہوئی جس سے اس تحریک میں ہمیں غیر معمولی مدد خاصل ہوئی وہ اس طرح کہ کچھ مدت بعد جب جب گوپال ریڈی صاحب مرکزی حکومت کے ایک وزیری کی حیثیت سے نئی دلی پہنچے تو ان کی خاص توجہ ‘ نیز مرکز کے ایک اور وزیر جناب ہمایوں کبیر کے تعاون سے تعمیر فنڈ کے لئے ایک مرتبہ پچاس ہزار کی اور دوسری مرتبہ پچیس ہزار کی امداد حاصل ہوئی جس کی بدولت اوپر کی منزل کا کام شروع کیا جا سکا ۔تکمیل کے لئے اگرچہ اب بھی تھوڑا سا کام باقی تھا لیکن اردو ہال کی افادیت پر اس کمی کا کوئی اثر نہیں ہوا اور اب اس مقام کو سارے آندھرا پردیش میں اردو تحریک کے سب سے بڑے مرکز کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔

اردو ہال کی اس کہانی کو ختم کرنے سے پہلے میں دو اور متعلقہ واقعات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔
۱۔ جن دنوں ہم لوگ سو سو روپے وصول کرنے کی مہم شروع کرنے والے تھے ‘ مشہور غزل گو شاعر حضرت جگر مرادآبادی حیدرآباد آئے ہوئے تھے۔ہماری مجوزہ مہم کی اطلاع پا کر وہ ایک روز حیدرآبادی شاعر شاہد صدیقی اور دو تین اور دوستوں کے ساتھ میرے مکان پر تشریف لائے اور ہماری کوششوں کو سراہا اور جب واپس جانے لگے تو مجھے علیٰحدہ لے جا کر پچاس روپے میرے ہاتھ میں رکھے اور فرمایا کہمیری طرف سے اردو ہال کے لئے ’’ حقیر تحفہ ‘‘ قبول کیجیئے مگر میرا نام ظاہر نہ کیجئے ۔ میں نے عرض کیا جناب آپ کا ’’ حقیر تحفہ ‘‘ میرے سر آنکھوں پر ‘ مگر خدارا یہ شرط لگا کر ہم پر ظلم نہ کیجئے۔آپ نے بے مانگے جو پچاس روپے دیئے ہیں ‘ وہ میرے نزدیک پانچ ہزار کے برابر ہیں ۔ میں چاہتا ہوں کہ فہرست کا آغاز آپ ہی کے نامِ نامی سے کروں کیونکہ میں اسے اپنی تحریک کے حق میں ایک نیک شگون تصور کرتا ہوں ۔ میرے اصرار پر وہ راضی ہو گئے ۔چنانچہ اس مہم کے تحت چندے کی جو پہلی رسید کاٹی گئی وہ حضرت جگر ہی کے نام پر تھی ۔
(۲) دوسرا قابلِ ذکر واقعہ انگریزی کے مشہور ادیب و ناول نگار مسٹر ای ایم فورسٹر کا ایک ہزار پونڈ کا عطیہ ہے۔مسٹر فورسٹر آکسفورڈ میں اپنے زمانۂ تعلیم میں سر راس مسعود (2) کے ہم عصر تھے۔دونوں میں گہری دوستی ہو گئی تھی ۔ غالباً راس مسعود ہی کی دعوت پر وہ ہندوستان آئے تھے اور اسی سفر کے نتیجے میں ان کا مشہور ناول A Passage To India وجود میں آیا تھا۔مدتوں بعد کسی امریکی کمپنی نے اس ناول کو ایک ڈرامے کی شکل دی اور اُسے امریکہ میں اسٹیج پر پیش کیا۔اور اس کی پہلی رائلٹی کے طور پر مسٹر فورسٹر کو ایک ہزار پونڈ ادا کئے ۔ موصوف نے یہ رقم اپنے ایک خط کے ساتھ سجاد مرزا صاحب کے ذریعے جن سے ان کی خط وکتابت تھی ‘ اردو ہال کے لئے روانہ کردی ۔ان کے خط کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے۔

King’s Collage
` Cambridge
Marck 22, 1962
In reply to your request : it is both a pleasyre and an hounor to grant
it and to contribute to a project which would be so near to our beloved Masood’s heart.I accordingly send you the enclosed cheque.It represents the whole of my taakings ( yp to date ) on the American performances.NO conditions whatsoever are attached to it.I want you to apply it to the needs of the Urdu Hall as best of you seems . I never spoke Urdu , and yet it is my language for the reason that I have so often heard it on the lips of those I loved.
( Morgan )
( Cheque for 1,000 pounds enclosed — Please acknowledge )
اردو ہال کی اوپری منزل کے اسٹیج پر مندرجہ ذیل کتبہ نصب کیا گیا ہے جو ہمارے جذبۂ احسان مندی کا مظہر ہے ۔
I never Spoke URDU and Yet it is my language

انگریزی کے مشہور ناول نگار مسٹرای ایم فورسٹر نے اپنے دوست سر راس مسعود کی یاد میں اس خط کے ساتھ اردو ہال بلڈنگ فنڈ کو ایک ہزار پونڈ عطیہ دیا۔(چند یادداشتیں)
۔۔۔۔۔۔۔
حواشی
(1) ۔ ’’ وظیفہ یاب بوڑھے ‘‘ شہر حیدرآباد کے بعض نوجوانوں نے جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ وزیرِ تعلیمات پی وی نرسمہا راؤ سے بہت قریب ہیں ۔یہ طعن کیا ہے کہ انجمن ترقی اردو محض چند وظیفہ یاب بوڑھوں کی آماجگاہ ہے جنھوں نے اسے اپنی شہرت اور وقت گزاری کا ذریعہ بنا رکھا ہے ۔خود نرسمہا راؤ نے بھی اپنی ایک پبلک تقریر میں یہ کہہ کر معتمد انجمن کا مذاق اڑایا کہ ’’ ایک بڑے میاں اپنی ٹوپی کا پھندنا اڑاتے ہوئے خواہ مخواہ اردو اردو چلّاتے ہوئے پھرتے ہیں ‘‘
(2) ۔ ۱۸۵۷ ؁ء میں سلطنتِ مغلیہ کا آخری چراغ گل ہونے کے بعد پریشان حال مسلمانانِ ہند کے محسنِ اعظم سر سید احمد خان کے نام ور پوتے ۔
——
اردو ہال کی کہانی تصویروں کی زبانی ۔

 

 

 

Share

One thought on “اردو ہال (حیدرآباد) کی تعمیر – – – – پروفیسر حبیب الرحمٰن”

Comments are closed.

Share
Share