کتاب : دیارِ ادب ۔ ۔ مصنف : ڈاکٹرعزیز سہیل ۔ ۔ ۔ مبصر:ڈاکٹر محسن جلگانوی

Share

دیارِ ادب
کتاب : دیارِ ادب
مصنف : ڈاکٹر محمدعبدالعزیز سہیل

پیش لفظ : ڈاکٹر محسن جلگانوی
مدیر اوراق ادب روزنامہ اعتماد حیدرآباد

ہزارہاخوش گمانیوں کے باوجود اس بات کا اعتراف کرنا ہی پڑے گا کہ موجودہ حالات میں اردو زبان انحطاط پذیر ہے۔اردو لکھنے اور پڑھنے والوں کی تعداد کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے چند لوگ جو اپنی جدوجہد یا خوش نصیبی سے تعلیم کی اعلیٰ سطح تک پہنچ پاتے ہیں ان کے ذہن و خیال میں کسی منصب کا حصول یا کوئی محدودو مخصوص نشانے تک پہنچنا ہی حرف آخر بن جاتا ہے۔اردو زبان کے عصری منظر نامے میں جہاں شعری محاذ پر کم علم ومجہول شعر گویوں کا جم غفیر منظر عام پر آتا جارہا ہے۔نثر کے میدان میں خال خال ہی کوئی فرد قلم کی حرمت کو نبھانے کی جانب راغب نظر آتا ہے۔کالجوں اور جامعات سے نکلی ہوئی پود میں سے چند ہی طلبہ ایسے مستعد ہوتے ہیں جو تکمیل تعلیم کے بعد بھی علم و ادب سے خود کو وابستہ رکھ پاتے ہیں۔

ہماری اس صدی میں اردو دنیا بڑی تیزی سے اپنے ادیبوں ،نقادوں،دانشوروں اور شاعروں سے خالی ہوتی جارہی ہے۔جہاں پرانے نام نا پیدہورہے ہیں وہیں نئی نسل میں کوئی ایسا نام منظر عام پر نہیںآتا جس کو مستقبل کا اثاثہ قرار دیا جاسکے ۔اس دھندلکے میں اگر کہیں سے امید کی کوئی کرن نظر آجائے تو دھارس بندھتی ہے کہ ابھی اس زبان کو بہت زیادہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔بہت ممکن ہے کہ یہ کرن ،سورج کے پیرہن میں منتقل ہوجائے۔
’’دیارِ ادب‘‘کے مصنف ڈاکٹر محمدعبدالعزیز سہیل ایسی ہی امید کی کرن کا جیتا جاگتا پیکر ہیں۔انہوں نے چند برس قبل جامعہ عثمانیہ سے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کی تکمیل کی اور پھر ادبی تحریروں کی جانب خود کو مبذول کرلیا۔انہوں نے لکھنے کی ابتداء تو ہلکے پھلکے تبصروں سے کی تھی لیکن جلد ہی تحقیق،تنقید،صحافت،تاریخ ادب اور دیگر موضوعات پران کی تحریریں مقامی،ملکی اور بیرون ملک کے اخبارات و رسائل میں بھی آنے لگیں۔عزیز سہیل نئے عہد کے قلمکار ہیں اس لئے انہوں نے قرطاس و قلم سے آگے بڑھ کر خود کو عصری تقاضوں سے بھی ہم آہنگ کرلیا اور انٹرنیٹ ،ویب سائٹس،کمپیوٹر پروگرامنگ اور جدید طرزِاظہار کے ذرائع استعمال کر کے اپنی شخصیت کی پہچان بنانے کے اقدامات کئے۔
عزیز سہیل کی تعلیم و تربیت ادبی ،علمی و دینی ماحول میں ہوئی ان کے والدِمحترم مولوی محمد عبدالغفارؒ خطیب مسجد رضابیگ و قائد جماعت اسلامی ہندتلنگانہ کا شمار برگزیدہ اور معززشخصیتوں میں ہوتا تھا انہیں شعر و ادب سے بھی شغف رہا اور اقبالیات پر عبور بھی رکھتے تھے۔ان کے بڑے بھائی عبداللہ ندیم ؔ بھی صاحب طرز شاعر ہیں۔اس ماحول کی پرورش اور تر بیت نے انہیں ہمہ تن مستعد و مصروف بنائے رکھنے میں مدد کی ۔کوئی پندرہ سولہ برس قبل ہی نظام آباد سے بچوں کے رسالے کے وہ مدیر بھی رہے ۔اس کے علاوہ وہ جہاں بھی رہے وہاں کی ادبی ،علمی و مذہبی تنظیموں سے وابستہ رہے میری دانست میں ان کا اب تک کا سب سے بڑا کارنامہ ان کا وہ تحقیقی مقالہ ہے،جو انہوں نے حیدرآباد کی ایک نمائندہ تاریخ دان،ادیب،مترجم اور گنگا جمنی تہذیب کی علم بردارشخصیت ڈاکٹر شیلاراج کی تاریخی اور ادبی خدمات پر لکھا جس کے بارے میں پروفیسر فاطمہ پروین جیسی نقاد نے لکھا ہے کہ:
’’ عزیز سہیل نے سرزمین دکن کی ایک ایسی شخصیت کا احاطہ کیاہے جو کائستھ برادری سے تعلق رکھتی تھی۔ ڈاکٹر شیلاراج حیدرآباد کے ایک ذی علم گھرانے کی نمائندہ تاریخ داں، مترجم ، مضمون نگار، ادیب ،سخن سنج و سخن فہم شخصیت تھیں۔شیلاراج نے تاریخ کو صرف واقعات کا بہی کھاتہ نہیں سمجھا بلکہ اس کی تہذیبی وتمدنی اہمیت کو نہ صرف خود محسوس کیا بلکہ اپنی شخصیت میں رچابساکر، گھلاملاکر اپنے وطنِ عزیز کی رواداری، بھائی چارگی، اتفاق، اتحاد سے ایک عالم کو روشناس کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ صدیوں پرمحیط حیدرآبادی روایات کو نئی نسل تک منتقل کرنے کی سعی و کاوش کی۔ اردو تحریروں کو انگریزی کاقالب دیا اور فارسی نگارشات کو اردو میں منتقل کیا۔ ‘‘
اتنی کثیر الجہت اور بے مثال شخصیت کے کام، سوانح، کار گزاریوں اور ان کے ماضی اور حال کا جائزہ لینا،ہر کس و ناکس کے بس میں نہ تھا لیکن عزیز سہیل نے اس کا رِ دشوار کو اپنے سلیس رواں اور سادہ اسلوب سے خوش گوارانداز میں تکمیل تک پہنچا کر اپنی تحقیقی صلاحیتوں کے نقوش چھوڑدئیے۔
عزیز سہیل نے بہت کم عرصہ میں اپنے قلم کی روانی سے تنقید و تحقیق سے مملو اپنی چھ تصانیف،قارئین ادب کیلئے پیش کرکے اس بات کی دلیل پیش کردی ہے کہ وہ میدانِ ادب کے ایسے شہسوار ہیں جن کا اشہبِ قلم اپنی منزل کے حصول تک رواں دواں رہے گا۔
عزیز سہیل کی زیر نظر کتاب تقریباََپچیس مضامین /مقالوں پر مشتمل ہے۔یہ تحریریں بیشتر قومی سمیناروں میں پیش کی گئی ہیں عزیزسہیل کا طرزِ تحریراور اسلوب نہایت سادہ ،سلیس اور سہل ہے وہ اپنی تحریروں کو ابہام اور گنجلک طرز اظہار سے بچا کر ،قاری کے سامنے اپنی بات اس انداز میں پیش کرنے کے عادی ہیں کہ وہ چیستاں نہ بن جائے۔
دیار ادب کا پہلا مضمون ’’سوانح نگاری اور علامہ شبلی نعمانی کا فن کمال‘‘میں انہوں نے سوانح نگاری کی ابتدا اور اس کے بتدریج ارتقاء پر گفتگو کی ہے اور یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ سوانح نگاری اب صرف پیدائش وفات اور مشاغل تک محدود نہیں رہ گئی ہے بلکہ اس کا دائرہ فرد کی معاشرت،شخصیت،وراثت اور نفسیات،عہد کے رحجانات،تہذیب و ثقافت تک پھیل گیا ہے۔شبلی نعمانی کی شخصیت کے بارے میں ان کا تجزیہ ہے کہ وہ ایک سوانح نگار کی حیثیت سے اردو ادب میں نہایت ممتاز اور سربلند تھے وہ اس زبان کے پہلے مورخ ہیں جنہوں نے تاریخ پر فلسفہ کا رنگ چڑھایا ۔شبلی نعمانی نے سوانح اور تاریخ نگاری کے ذریعہ اسلامی تہذیب اور ثقافتی زندگی کا مرقع پیش کیا ۔المامون،الفاروق اور سیرت النبیؐ اس کی یاد گار مثالیں ہیں۔مصنف کا بیان ہے کہ مولانا شبلی نعمانی دراصل تعمیری ادب کی نمائندہ شخصیت تھے انہوں نے اردو ادب کے ذریعہ اسلامی فکر کو فروغ دیا تاکہ مسلمان علم کے میدان میں ترقی کرے اس لئے انہوں نے الندوہ تحریک کو آگے بڑھایا اور ایک تحقیقی ادارہ اعظم گڑھ میں دارالمصنفین کے نام سے قائم کیا۔
’’دکنی تہذیب و ثقافت کے کوہ نور ڈاکٹر زور‘‘مضمون میں عزیز سہیل نے ان کی تحقیق و اشاعت کے کاموں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور متعدد حوالہ جات سے ان کو ماہر دکنیات قرار دیتے ہوئے لکھا ہیکہ تصنیف ،تالیف،تدوین،ترتیب و تحقیق میں ان کی شخصیت ہمہ جہت اور متنوع تھی جس کی وجہہ سے وہ اردو ادب کی دنیا میں ہمیشہ ذندہ رہیں گے‘‘۔
ایک اور مضمون ’’اردوصحافت ،ماضی حال اور مستقبل‘‘ میں جہاں انہوں نے اردو زبان اور صحافت سے جڑئے کئی موضوعات پر گفتگو کی ہے وہیں دوسری دو روزہ عالمی کانفرنس کے اس انتباہ کی بھی آگہی دی ہے کہ:’’اردو زبان کو انٹرنیٹ اور ٹکنالوجی کے ذریعہ فروغ دینے کی کوشش نہ کی گئی تو آئندہ پچاس برسوں میں یہ زبان ختم ہوجائے گی جدید ٹکنالوجی کے ذریعے ہم اپنی زبان کو زندہ رکھ سکتے ہیں انہوں نے ذرائع ابلاغ پر زور دیا کہ وہ اردو کو عام فہم بنانے میں اپنا کردار ادا کرے اور ملک میں اردو سمیت دیگر زبانوں کے فروغ کی خاطر لسانیات کے حوالے سے الگ ادارہ قائم کیا جائے۔‘‘
دیار ادب کے دیگر مضامین بھی اپنی گو ناگوں کیفیات ،تحقیق و تنقید، تجزیات کے باعث لائق مطالعہ ہیں۔
عزیز سہیل پیشہ تدریس سے وابستہ ہیں اردو زبان کے لئے ان کے دل میں ہمیشہ وسوسے اٹھتے رہتے ہیں وہ زبان کی ترقی و ترویج کے لئے ہمہ تن مصروف رہتے ہیں اور ان لوگوں کی رہنمائی کرتے رہتے ہیں جنہیں کسی بھی قسم کی دشواری در پیش آتی ہے کسی صلہ و ستائش کے بغیر انہوں نے پچھلی ایک دہائی میں کئی سمینارس/ادبی اجلاس اور مشاعروں کے انعقاد مین کئی انجمنوں اور لوگوں کی دست گیری اور رہنمائی کی ہے۔
عزیز سہیل کی اس تخلیقی اشاعت پر میں دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید ہے کہ وہ اپنے تخلیقی سفر کو اسی رفتار سے جاری رکھیں گے۔
——-
Dr.Azeez Suhail

Dr.Mohsin Jalganvi

Share
Share
Share