پروفیسر مظفر علی شہ میری
ڈاکٹرعبدالحق اردو یونیورسٹی کے اولین وائس چانسلر
ڈاکٹر شفیع محمد
نوٹ : جامعہ عثمانیہ ‘ دنیا کی اولین یونیورسٹی تھی جس کا ذریعہ تعلیم اردو تھا۔دارالترجمہ نے مختلف مضامین میں اردو میں کتابیں تیار کیں ۔ تبھی تو جامعہ میں طب ‘انجینیرنگ‘قانون‘سائنس اور دیگرسماجی علوم کا ذریعہ تعلیم اردو تھا۔جامعہ عثمانیہ نے انتہائی کامیابی کے ساتھ اردو میڈیم میں تمام کورسس کی تعلیم و تدریس کا کارنامہ انجام دیا۔سقوط حیدرآباد کے بعد جامعہ عثمانیہ کا ذریعہ تعلیم اردو سے انگریزی کردیاگیا ۔ایک عرصہ بعدمولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کا قیام حیدرآباد میں عمل میں آیا۔حکومت آندھرا پردیش نے ڈاکٹر عبدالحق اردو یونیورسٹی ‘ کرنول میں قائم کرکے اردو دوستی کا ثبوت دیا ہے۔پروفیسر مظفر علی شہ میری کو اس یونیورسٹی کا اولین وائس چانسلر مقرر کیا ہے۔یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی بھی اردو پروفیسر کو اردو یونیورسٹی کا وائس چانسلربنایا گیا اور دلچسپ اتفاق یہ ہے کہاس یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر ستار ساحر ہیں جو اردو کے ہی پروفیسر ہیں۔یہاں پروفیسر مظفر علی شہ میری کا تعارف پیش خدمت ہے ۔(ج۔ا)
پروفیسر مظفّرعلی شہ میری،30؍اپریل 1953ء کو حاجی عثمان علی مرحوم کے گھر پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے وطن کدری ، ضلع اننت پور،آندھرا پردیش میں حاصل کرنے کے بعداُنھوں نے 1972ء میں بی۔اے۔ اور1974ء میں ام۔اے (اردو) کی تعلیم سری وینکیٹشورا یونیورسٹی ، تروپتی سے مکمل کی۔ تامل ناڈو میں اپنی ملازمت کے دوران میں،پروفیسر نجم الھدی کی نگرانی میں اردو غزل کے استعاراتی نظام پر تحقیقی مقالہ لکھ کر 1989 میں مدراس یونیورسٹی سے ٖ پی۔ایچ ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
مظفر شہ میری نے اپنی ملازمت کا آغاز 1977میں مظہر العلوم کالج،آمبور( تامل ناڈو) سے بہ حیثیت ٹیوٹر کے کیا۔تقریباً تین ماہ یہاں کام کرنے کے بعد اُنھوں نے اسلامیہ کالج ،وانم باڑی ،(تامل ناڈو )میں بہ حیثیت اسسٹنٹ پروفیسر کے ملازمت اختیار کی اور لگ بھگ پندرہ سال وہاں رہے۔ اسی اثناء میں تامل ناڈو کی ایک اسکیم کے تحت پانچ سال گورنمنٹ آرٹس کالج، کر شن گری میں بھی تدریس کے فرائض انجام دیے۔وانم باڑی کی پندرہ سالہ سروس کو استفعی کی شکل میں خیر باد کہہ کر 1992میں ،سری وینکٹیشورا یونیورسٹی،تروپتی میں از سرِ نو اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔بارہ سال وہاں کام کرنے کے بعد وہ 2004میں سینٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد کے شعبۂ اردو سے منسلک ہو گئے، اور کچھ ہی عرصہ میں پرو فیسر بنے، جہاں وہ 2جنوری 2013 ،سے صدرِ شعبہ اردو( یونی ورسٹی آف حیدرآباد)کے عہدے پر فائزہیں۔
اب تک مظفر شہ میری کی چار تحقیقی و تنقیدی کتابیں شائع ہوچکی ہیں؛حفیظ جالندھری کا تنقیدی مطالعہ (1977) اردو غزل کا استعاراتی نظام (1994)نقش و نظر (1998) اورکاوشِ فکر (2010)۔ان کے علاوہ ،دو مترجمہ کتابیں کہکشاں(1996)، مجذوب (2015 (اور ایک شعری مجموعہ ’پیاس ‘ (2010)میں شائع ہوئے ہیں ۔اُنھوں نے چار کتابیں ؛ سخن ورانِ ویلور (1987)زخم زخم زندگی (1994)نذرِ جاوید(1996)اور اردو زبان وادب (2004) بھی مرتب کی ہیں۔ان کتابوں میں حفیظ جالندھری کا تنقیدی مطالعہ کو 1977 میں اورپال ویدی کے ترجمے ، کہکشاں کو 1996میں آندھراپردیش اردو اکیڈمی کے ایوارڈ ملے۔ کہکشاں ،تامل ناڈو کے معروف شاعر کوی ۔کو عبدالرحمان کے شعری مجموعے ’پال ویدی‘ کا منظوم اردو ترجمہ ہے۔آپ کو اس ترجمے کے لیے تِرو ،یم کروناندھی نے 1998میں چینائی میں تہنیت پیش کی تھی۔ آندھراپردیش اردو اکیڈمی کی جانب سے 2009 کا کارنامۂ حیات یعنی life time achievment award،سابق چیف منسٹر آندھرا پردیش، آنجہانی راج شیکھر ریڈی کے ہاتھوں دیا گیا۔ 2011 میں انجمنِ اردو، کوئمبتور ، تامل ناڈو کی جانب سے اُنھیں سرسید ایوارڈ پیش کیاگیا۔ قبل ازیں 2003میں سری وینکٹیشورا یونیورسٹی، تروپتی کا Meritorious Teacher Awardبھی اُنھیں ملا تھا۔علاوہ ازیں 1986میں BBC, London نے اُن کے ایک مضمون پر اُنھیں انعام سے سرفرازکیا تھا۔
پروفیسر مظفر شہ میری نے اپریل 2004میں ایران میں منعقدہ حضرت مطہری ورلڈ کانفرنس میں شرکت کرکے ’قرآن میں آزادئ فکر ‘کے عنوان پر اور 2009میں لندن میں منعقدہ دکنی انٹرنیشنل سیمنار میں تامل ناڈو میں بولی جانے والی دکنی پر مقالات پیش کیے۔ ۲۴؍ اگست 2012کواُنھوں نے ایک بین قومی سمینار میں ’ تامل ناڈو کے صوفی شعراء ‘ پر مقالہ پیش کرنے کے لیے دوبارہ لندن کا سفر کیا۔ 2016 میں ایک انٹر نیشنل مشاعرے کے سلسلے میں دوحہ، قطر کا بھی دورہ کیا ہے۔ اب تک آپ نے چالیس سے زیادہ قومی اور بین قومی سیمناروں میں شرکت کی ہے اور پچاس سے زیادہ تحقیقی وتنقیدی مقالات اردو رسائل اور جرائد میں شائع کیے ہیں۔ اب تک آپ کے تحت اٹھارہ(18) ریسرچ اسکالروں نے پی ایچ ڈی اور ((40 چالیس نے ایم فل کی ڈگریا ں حاصل کی ہیں۔
آپ نے اپنے طلبہ اور طالبات کی مدد اور آندھرا پردیش اردو اکیڈمی کے مالی تعاون سے 76ایپی سوڈوں پر مبنی تعلیمی پروگرام ’آؤ اردو سیکھیں‘ بنایا جو مسلسل تین برسوں تک ای۔ ٹی ۔وی اردو پر دکھایا گیااور جسے 52ملکوں میں دیکھا گیا ۔آج کل یہ پروگرام you Tubeپر دستیاب ہے۔، جس کالنک ہے Aao Urdu Seekhein Etv urdu علاوہ ازیں، آپ نے دو بین الاقوامی سیمنار ؛اردو انشائیے :روایت اور امکانات (2008) اور رالف رسل : حیات اور اردو خدمات (2010) کا انعقاد کیا جس میں پاکستان اور لندن کے پروفیسروں اورماہرینِ ادب نے حصّہ لیا۔
25 مارچ 2017پروفیسر مظفر شہ میری صاحب کو حکومت اند ھرا پردیش نے ڈاکٹر عبدالحق اردو یونی ، کر نول ، اند ھرا پردیش کے اولین وائس چانسلر طور پر تقرر عمل میں آیا ۔