مدارس کا تعلیمی منظرنامہ
مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ دار العلوم حیدرآباد
E-mail:
07207326738 Mob:
ہندوستان میں دینی مدارس مسلمانوں کے مضبوط قلعے ہیں ،ان مدارس نے اسلامی تہذیب و تشخص ،روایات و اقدار ،اسلامی تعلیمات وعقائد اور مسلمانوں کے ایمان و یقین کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا ہے،جب بھی ہندوستان کی تاریخ لکھی جائے گی ،انگریزوں کے ظلم و بربریت کی داستانِ خوچکاں تحریر کی جائے گی ، غلام ہندوستان میں مسلمانوں سے ان کے سرمایہ افتخار کو سلب کرنے کی کوششوں کا تذکرہ کیا جائے گا تو دینی مدارس کے کردار پر ضرور بحث ہوگی ،یہ مدارس روشنی کے وہ بلند مینار ہیں جن کی ضیابار کرنوں سے ہندوستانی مسلمان اپنے دل کی اندھیر وادیوں میں روشنی کا دیا جلاتے ہیں، اسی روشنی سے اپنا قبلہ درست کرتے ہیں اوراپنا مستقبل آراستہ کرتے ہیں اور یہ وہ حقیقت ہے جس سے نہ کسی مؤرخ کو انکار ہوگا اور نہ ہی کسی تبصرہ نگار کے لئے نقد و جرح کی گنجائش ۔
اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مدارس کے کردار ،تعلیم ، نظام تعلیم ،اور نصاب تعلیم پرآئے دن گرما گرم بحث ہوتی رہتی ہے ،مختلف حلقوں میں اس پر سیمینار کرائے جاتے ہیں ،بڑے بڑے پروگرام ہوتے ہیں اور حیرت ہوتی ہے کہ زیادہ تر پروگرام مدارس کی چہاردیواری سے باہرمنعقد کئے جاتے ہیں ، اور اس کار خیر کو انجام دینے والے زیادہ تر مدارس سے محبت کرنے والے مخلصین ہوتے ہیں جنہیں مدارس کے نظام کو زیادہ بہتر بنانے کی فکر ہوتی ہے ،یہ غور وخوض اور بحث و تبصرہ کوئی غلط چیز نہیں ہے کہ جس پر کان دھرنے کی ضرورت نہیں ہے ؛بلکہ ہر طرح کے سوال و مشورے کا کھلے دل سے استقبال ہونا چاہئے اور اگر اپنی کمزوری ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش ہونی چاہئے ۔
کسی بھی تعلیم کے بنیادی تین عناصر ہوتے ہیں ،نصاب ،اساتذہ او رطلبہ ،مدارس کا نصاب جو درس نظامی کے نام سے مشہور ہے دینی اور اسلامی علوم پر مشتمل ہے ،ان عناصر میں پہلا عنصر نصابِ تعلیم ہے جس کے سلسلے میں مختلف حلقوں سے مطالبہ ہوتا رہتا ہے اور بہت زور شور سے یہ بات اٹھائی جاتی ہے کہ اس میں تبدیلی ہونی چاہئے یہ نصابِ تعلیم بہت قدیم ہے جس میں زمانے کے چیلنجوں کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ہے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ مدارس سے جس معیار کے افراد تیا رکرنے کی توقع ہے وہ توقع پور ی نہیں ہو پارہی ہے او راس کی وجہ نصاب کی کمی اور ناقص ہونا ہے ، اگر تبدیلیِ نصاب کی یہی وجہ ہے جو میں سمجھ پا رہا ہوں تو سوال یہ ہے کہ کس معیار کے افراد کی توقع کی جارہی ہے ؟کیا مدارس کے فضلاء کو عالم فاضل ہونے کے ساتھ ڈاکٹر انجینئر بھی ہونا چاہئے ،فقہ میں مہارت کے ساتھ سائنس اور ریاضی میں بھی دسترس حاصل کرنا چاہئے ،حدیث کے عالم ہونے کے ساتھ اقتصادیات او رمعاشیات کا بھی امام ہونا چاہئے اگر یہ توقع ہے تو سوال کا دوسرا رخ بھی ہوسکتا ہے کہ عصری دانش گاہ جہاں قوم کے پنچانوے فیصد بچے پڑھتے ہیں جو ذہن و دماغ کے اعتبار سے اعلی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں او رجہاں انجینئر ، ڈاکٹر اور سماج کی ضرور ت کو سامنے رکھ کر ہر میدان کے افراد تیار کئے جاتے ہیں کیوں نہیں ان دانش گاہوں میں عصری کتابوں کے ساتھ ساتھ دینی علوم کی کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں تاکہ اقبال کے جس مرد مومن کو مدارس میں تلاش کیا جارہا ہے وہ ان دانش گاہوں سے حاصل ہو جائیں ۔اور اگر تبدیلی نصاب کا مطلب عصری مضامین شامل کرنا نہیں ہے ؛بلکہ اسلامی علوم میں تنوع پید ا کرنا اور اسلامیات کی موجودہ دور کی کتابوں کو شامل کر کے اسلامیات کے ماہر فضلاء تیار کرنا ہے تو یہ جذبہ قابل قدر ہے اسے قبول کرنا چاہئے۔
اس تمہید کے بعد میں اپنے قارئین کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جن مدارس میں تبدیلئ نصاب کی بات کی جارہی ہے ضروری ہے کہ پہلے ان اسباب اور مقاصد کو پیش نظر رکھا جائے جس پس منظر میں مدارس کاوجود عمل میںآیا ، غلام ہندوستان میں انگریزوں نے مسلمانوں کے ایمان و عمل کو سلب کرنے کے لئے جو فارمولے تیار کئے اس میں تعلیمی فارمولہ بھی تھا جس کی ذمہ داری لارڈ میکالے کے سپر د تھی اس کا نظریہ اور مقصد مسلمانوں سے ایمان اور ان کی تہذیب و روایات کو ختم کرنا تھا اور ایک ایسی نسل تیار کرنی تھی جو اگر چہ عیسائی نہ ہوں ؛لیکن مسلمان بھی نہ ہوں ، جو اپنے رنگ و نسل کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہوں ،لیکن اپنی تہذیب و کلچر کے اعتبار سے انگریزی ہوں ،مسلمان نہ صرف یہ کہ جسمانی اعتبار سے غلام ہوں ؛بلکہ فکری اعتبار سے بھی پابند سلاسل ہوں ، وہ مغربی تہذیب سے نہ صرف مرعوب ہوں ؛بلکہ اس کے مکمل اسیر بھی ہوں ، ان نظریات کے فروغ دینے اور انہیں عملی جامہ پہنانے کی جدو جہد شروع ہو چکی تھی ایسے خطرناک حالات میں اسلامی تعلیمات ،اسلامی عقائد اور اسلامی تہذیب کی بقاو حفاظت بہت ضروری تھی ورنہ ہندوستان میں بھی اسپین کی تاریخ دوہرائی جاتی اور اسلام ہندوستان سے جلا وطن ہوجاتا یہی وہ اسباب و عوامل تھے جن میں دارالعلوم کا قیام عمل میں آیا اور پھر چراغ سے چراغ جلتے گئے اور پورے ہندوستان میں مدارس کا جال بچھ گیا تاکہ اسلام اور مسلمانوں کا تحفظ کیا جاسکے اور اسلامی روایات و اقدار کو بچایا جاسکے ۔
دارالعلوم اور اس کے طرز پر قائم دینی مدارس کا مقصد اسلام کا محافظ دستہ تیار کرنا ہے جو اسلامی تعلیمات کی مکمل حفاظت کرسکے اس مقصد کے لئے صرف دینی علوم کی کتابیں رکھی گئیں تا کہ اسلام کے ماہرین تیار ہوں اور جدید چیلنجوں کو قبول کرنے والے اور اس کا جواب دینے والے علماء تیار ہوں ،نئے مسائل کا قرآن و حدیث کی روشنی میں حل بتانے والے فقہاء اور ارباب افتاء تیار ہوں اب اگر عصری علوم کو شامل نصاب کیا گیا تو مدارس اپنا ہدف کھو دیں گے، مدارس نے کبھی بھی عصری علوم کو حاصل کرنے سے منع نہیں کیا ہے بلکہ اس سلسلے میں حضرت نانوتوی کا ارشاد گرامی بہت مفیدثابت ہوگا ،مدارس میں عصری علوم کی عدم شمولیت کی بابت انہوں نے تین باتیں ارشادفرمائی ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ عصر ی تعلیم اور علوم جدیدہ کے لئے سرکاری مدارس پہلے سے موجود ہیں ضرورت دینی تعلیم کے اداروں کی تھی اس ضرورت کے پیش نظر دارالعلوم قائم کیا گیا ،دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ عصری علوم کی آمیزش دونوں کے لئے یکساں طورپر نقصان دہ ہے نہ دینی علوم میں مہارت پیدا ہوگی نہ عصری علوم میں،کہ زمانہ واحد میں علوم کثیرہ کی تحصیل سب کے حق میں باعث نقصان دہ ثابت ہوگی ،تیسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ علوم نقلیہ میں پختہ استعداد پیدا کرنے کے بعد اگر طلبہ سرکاری مدارس میں جاکر علوم جدیدہ حاصل کریں تو ان کے کمال میں یہ بات زیادہ موید ہوگی ۔(دارالعلوم کا نصاب تعلیم اور نظام تعلیم و تربیت ،مضمون مولانا شوکت بستوی، ماہنامہ دارالعلوم دیوبند شمارہ ۷جلد ۹۱جولائی ۲۰۰۷)
حضرت نانوتوی کے ارشاد سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ مدارس نے عصری علوم حاصل کرنے سے منع نہیں کیا ہے ،جہاں تک سوال ہے کہ اسلامی علوم میں تنوع پیدا کیا جائے اور جو علوم اور کتابیں نا قابل فہم ہیں ان کی جگہ دوسری کتابیں شامل کی جائیں تو یہ مطالبہ بجا اور قابل قدر ہے ؛لیکن اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ ارباب مدارس اس پر غور کرتے ہیں اور جزوی تبدیلی مدارس کے نصاب میں ہوتی رہتی ہے چنانچہ رسالہ میر زاہد ، ملا جلال ، ایسا غوجی ،شمس بازغہ ، صدرا ، قوشجہ ، شرح مواقف ، توضیح تلویح ، مسلم الثبوت ،ان جیسی پہلے بہت سی کتابیں داخل درس تھیں اب اس کا نام بھی کسی کو نہیں معلوم ہے اس لئے تبدیلی نصاب کے علمبرداروں کی خدمت میں اتنا ہی عرض کروں گا کہ کلی تبدیلی کہ فن بدل دیا جائے قرآن و حدیث و فقہ اور دوسرے علوم آلیہ کی جگہ کچھ اور پڑھایا جائے تو یہ مدارس کی روح اور اس کے مقاصدکے ساتھ انصاف نہیں ہوگا ،جو حضرات جوہری تبدیلی کی بات کرتے ہیں وہ یا تو مدارس کی حقیقت سے نا واقف ہیں یا نادان دوست ہیں اور جہاں تک جزوی تبدیلی کی بات ہے تو وہ قابل قبول ہے اور ارباب مدارس اس پر عمل بھی کرتے ہیں ۔
بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ نصابِ تعلیم پر بحث غیر ضروری ہے؛ لیکن اس حقیقت کا اعتراف ضروری ہے کہ مدارس سے جس طرح کے فضلاء کی توقع کی جارہی ہے ایسے افراد تیار نہیں ہو پارہے ہیں اگر چہ کہ آج بھی مدارس کے فضلاء کی خدمات قابل ستائش ہیں لیکن تعلیمی معیار میں کمی ضرور آئی ہے جس کا اعتراف ارباب مدارس کو کرنا چاہئے اور اس کے اسباب کا پتہ لگا کر اس کا تدارک کرنا چاہئے اگر ہمارے گھر کی چھت کمزور ہوگئی ہے اور کوئی خیر خواہ ہمیں خبر دے کہ آپ کی چھت کمزور ہوگئی ہے اسے درست کر لیجئے تو ہمیں بخوشی ان کی بات مان لینی چاہئے ،لیکن اگر اس مخلص کی بات کو بے جا تنقید سمجھ کر انکار کر بیٹھے تو اس کا نقصان ہمیں ہی اٹھانا پڑے گا اسی طرح ہمارے تعلیمی نظام میں کمزوری آئی ہے اس بات کو قبول کر کے درستگی کی فکر کرنی چاہئے ورنہ بہت ممکن ہے یہ خیر خواہ ہمارے تعلیمی جنازے میں شریک ہوکر ماتم کرنے کے بجائے ہمارا مذاق اڑائیں، اس لئے اچھی رائے کہیں سے بھی آئے اسے محسن کے احسان کی طرح قبول کرلینا چاہئے ۔
ہمارا خیال ہے کہ تعلیم کے دوسرے تیسرے عناصر میں بہتری پیدا کرکے معیار کو بہتر کیا جاسکتا ہے، تعلیم کا دوسرا عنصر اساتذہ ہیں، اساتذہ کی حیثیت تعلیم میں ریڑھ کی ہڈی کی ہے ، کسی بھی تعلیم میں اساتذہ کا کردار بنیادی اور مرکزی ہوتا ہے مدارس میں تعلیم ہی نہیں دی جاتی ہے؛ بلکہ تربیت اور تزکیہ کا فرض بھی انجام دیا جاتا ہے ،اساتذہ کی تربیت اور ان کی زندگی کے اثرات بچوں پر پڑتے ہیں ،اس لئے اساتذہ کے اخلاق و کردار بہت بلند ہونے چاہیے، جس طرح گھر کی چہار دیواری میں بچے ماں باپ سے متاثر ہوتے ہیں اسی طرح مدرسے کے احاطے میں بچوں کی نگاہیں اساتذہ پر رہتی ہیں،اساتذہ کا بچوں کے ساتھ شفقت و پیار اور ان کی بہتری کی ادنی کوشش بچوں کی زندگی میں غیر معمولی تبدیلی پیدا کرسکتی ہے ۔
یہاں بنیادی توجہ طریقہ تعلیم پر دینے کی ہے ، طریقہء تدریس کوئی جامد اور غیر متحرک شئی نہیں ہے اور نہ اس میں تقلیدکی ضرورت ہے ، ہر وہ عمل جس سے بچے نصابی کتاب کو ضبط کر سکتے ہوں ، اپنے ما فی الضمیر کو ادا کرسکتے ہوں ، اور وہ انداز گفتگوجس میں بچے کی سطح پر آکر بات کی جائے اوربچے استاذ کی بات کومکمل طور پر سمجھ رہے ہوں وہ طریقہ تدریس کہلاتا ہے ، طریقہ تدریس کو کس طرح موثر بنانا ہے یہ استاذ کا اپنا فرض ہے اس کے لئے نہ تو کسی فلسفے کی ضرورت ہے نہ ہی کسی تربیت کی ، آج بہت سے ادارے اساتذہ کی تربیت کے لئے کورس کراتے ہیں اور اساتذہ کو ٹریننگ دیتے ہیں میرے نزدیک یہ بھی ایک فضول اورعبث کام ہے اگر وہ استاذ مطلوبہ جماعت کو پڑھانے کی اہلیت نہیں رکھتا ہے تو کوئی تربیت اس کیلئے مفید نہیں ہو سکتی ہے اور اگر وہ اس جماعت کو پڑھانے کا اہل ہے تو اسے کسی تربیت کی ضرورت نہیں ہے ،تاہم بہت سی کہی اور سنی ہوئی باتیں انسان کی زندگی میں تبدیلی پیدا کرتی ہیں اسی کے پیش نظرتعلیم و تعلم کی چند سفارشات و گزارشات ذکر کی جاتی ہیں شاید کہ تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں مفید ثابت ہوں ۔
* عربی کے ابتدائی درجات میں طریقہء تدریس میں تبدیلی بہت ضروری ہے نحو پڑھاتے وقت نحو کے قواعد کو پختہ کراکر قواعد کو مثالوں سے سمجھانے کے لئے بلیک بورڈ کا استعمال کیا جائے اور ہر طالب کو پہلے خوب قواعد مستحضر کرائے جائیں پھر مختلف طریقے سے ان کی تمرین کرائی جائے تاکہ نحو پر طلبہ کوعبور حاصل ہو جائے ۔
* عربی ادب میں طلبہ کو لکھنے اور بولنے پر زور دیا جائے اور نصابی کتابوں کی لغات علیحدہ کاپی میں لکھا کر ان پر جملے بنوائے جائیں اور بولنے کی خوب مشق کرائی جائے یہ عربی مدارس کے لئے کسی المیہ سے کم نہیں ہے کہ آٹھ سال پڑھ کر بھی طلبہ اگر چہ عربی سمجھنے اور پڑھنے پر قادر ہوتے ہیں اور ہمارے تعلیم کا بنیادی مقصدقرآن و حدیث کا فہم پید ا کرنا ہے ؛لیکن اس طویل عرصے میں عربی بولنے اور لکھنے پر قادر نہیں ہوتے کچھ مستثنیات ہوتے ان کا اعتبار نہیں ہے اس کمی کی وجہ یہ ہے کہ اس جانب توجہ نہیں دی جاتی ہے ورنہ سوم کی جماعت تک طلبہ اچھی طرح لکھنے اور بولنے پر قادر ہوسکتے ہیں ،انگلش میڈیم اسکول میں پڑھ کر بچے انگریزی سیکھ سکتے ہیں تو عربی میڈیم مدارس میں بچے عربی پرقدرت کیوں نہیں حاصل کر سکتے ہیں ۔
* عربی کا مشہور مقولہ ہے من حفظ المتون نال الفنون جوشخص متن کو حفظ کر لے گا وہ فن پر قابوپالے گااس سے معلوم ہوتا ہے کہ استعداد سازی میں حفظ متون کی بڑی اہمیت ہے ،ہمارے مدارس میں اس پر توجہ نہیں دی جاتی ہے حتی کہ کئی سال حدیث کی کتابوں کو پڑھنے کے باوجود طلبہ کو چالیس احادیث یاد نہیں ہوتی ہیں یہ ایک قابل توجہ امر ہے ،عربی کے تمام درجات میں حفظ پر زور دینا چاہئے اور ہرفن میں جو متون کی کتابیں ہیں ان کو یاد کرانے کا اہتمام ہونا چاہئے، نحو و صرف کی عربی کتابوں میں جو قواعد ہیں ان کے حفظ کا اہتمام ہونا چاہئے ، اسی طرح فقہ میں متون کو یاد کرانا چاہئے مثلا عربی سوم میں قدوری پڑھائی جاتی ہے ، قدوری فقہ کے متون میں شامل ہے اس کا کچھ حصہ سوم میں باقی حصہ دوسری جماعتوں میں یاد کرایا جاسکتا ہے اور اس کے جو فائدے ہیں وہ تجربہ کرکے دیکھے جا سکتے ہیں اسی طرح احادیث ہرجماعت میں ایک خاص مقدار میں یاد کرانی چاہئے تا کہ طلبہ کے حفظ خانے میں احادبث کا ذخیرہ موجود رہے ، ہمارے یہاں تو عام طور پر طلبہ قرآن کے حافظ ہوتے یہ بہت اچھی چیز ہے ، عربی کی تعلیم سے پہلے بچے کو حافظ قرآن بنانا چاہئے عرب یونیورسٹیز میں تمام علوم میں حفظ پر زور دیا جاتا ہے حتی کے جو طالب علم حافظ قرآن نہیں ہوتا ہے اس کو کم از کم دس پارے حفظ کرنا پڑتا ہے ، احادیث سند کے ساتھ یاد کرائی جاتی ہے ، حفظ پر زور دینا ناگزیر امر ہے ارباب مدارس کواس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
* اونچی جماعتوں میں کتاب کو حل کرانے کے ساتھ ساتھ فن پر عبور پیدا کرانے کی ضرورت ہے اس کے لئے فن کی دیگر کتابوں کا مطالعہ کرایا جائے اور اس کی تلخیص لکھنے کا پابند کیا جائے اور طلبہ میں فن سے دلچسپی پیدا کی جائے ، اسی طرح نصابی سرگرمیوں کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیاں بھی تعلیم کا اٹوٹ حصہ ہے ، خارجی مطالعہ پر زور دیا جائے اس سے طلبہ میں مطالعہ کتب کا ذوق و رجحان پیدا ہوتا ہے ،معلومات میں اضافہ کے ساتھ فکر میں وسعت پیدا ہوتی ہے ، سوانحی و تاریخی کتابوں کے مطالعہ سے خاص کر حوصلے بلند ہوتے ہیں اور عزائم میں پختگی پیدا ہوتی ہے ،موبائل بینی کے شوق نے مدارس میں کتب بینی سے طلبہ کو دور کردیا ہے ، یہ ایسا سم قاتل ہے جس کا فوری تدارک نہ کیا گیا تو مستقبل میں اس کے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے ۔
* طلبہ مدارس میں تحریری صلاحیت کو پروان چڑھانا بھی بہت ضروری ہے اور اس کے لئے مدارس میں منصوبہ بندی ضروری ہے، طلبہ مدارس میں ذہن و دماغ اور فکری صلاحیت کی کمی نہیں ہے ؛بلکہ ضرورت اس کو صحیح رخ دینے اور اس کی اہمیت سمجھ کر اس جانب طلبہ کی صلاحیت کو لگانے کی ہے ابتدائی جماعتوں میں چھوٹے چھوٹے موضوعات پرمختصرمضامین تحریر کرائے جائیں اور آخری جماعتوں میں مقالہ نویسی کی مشق کرائی جائے ، تحقیق اور اصول تحقیق سے روشناس کراکر طلبہ میں تحقیق کا ذوق پیدا کیا جائے ،آج طلبہ مدارس سے لکھنے کا عمل اس درجہ رخصت ہو رہا ہے کہ فراغت کے بعد شعبہ افتاء میں فتاوی نویسی کی مشق کے دوران املاء کی فحش غلطیاں پائی جاتی ہیں یہ تنقید کے لئے نہیں بیان واقعہ کے طور پرلکھ رہا ہوں ارباب مدارس کو اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
* اساتذہ کے تعلق سے یہ بات بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ ان کاتقرر اور ان کی صلاحیتوں کاصحیح استعمال بہت ضروری ہے اولاّ قابلیت کی بنا ء پرتقرر ہونا چاہئے اور اس کے لئے تنخواہ کا معیار بھی بلند کرنا چاہئے ، عام طور پرباصلاحیت افراد تنخواہ کی کمی کی وجہ سے دوسرا مشغلہ اختیار کرلیتے ہیں اور مدارس کو قابل اساتذہ دستیاب نہیں ہوپاتے ہیں ، اساتذہ بلند معیارِ تعلیم کی پہلی سیڑھی ہیں اگر اسے بہتر نہیں کیا گیا تو تعلیمی معیار کبھی بھی درست نہیں ہو سکتا ہے اس لئے باصلاحیت افراد کا انتخاب تعلیمی ترقی کے لئے بہت ضروری ہے پھر اساتذہ کو ان کے ذوق اورفن کی کتابیں پڑھانے کے لئے دی جائیں بعض مرتبہ اساتذہ کے فن سے مانوس نہ ہونے یا اس فن سے دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ کو اس درجہ فائد نہیں ہو پاتا ہے جس درجہ طلبہ یا انتظامیہ کو امید رہتی ہے ۔
* تعلیم کا تیسراعنصر طلبہ ہیں ، تعلیم کے گرتے معیار کے یہ طلبہ بھی ذمہ دار ہیں ، بہت کم طلبہ اپنے ذوق و شوق اور اپنے طبعی رجحان سے مدارس میں داخل ہوتے ہیں زیادہ ترطلبہ اپنے والدین کی وجہ سے مدارس کا رخ کرتے ہیں اس لئے طلبہ میں علم دین حاصل کرنے کا وہ جذبہ نہیں پایا جاتا ہے جس کی ضرورت ہے اسی لئے مدارس میں طلبہ کی غیر حاضری ، قانون شکنی ، اسباق سے بے توجہی عام ہوتی جارہی ہے ؛بلکہ بعض طلبہ میں جلدی سندِ فضیلت حاصل کرنے کا رجحان پایا جارہا ہے اس لئے درمیان کے کئی سالوں کو حذف کرکے اوپرجماعت میں شامل ہو جاتے ہیں ،مدارس میں طلبہ کا رجوع پہلے کے مقابلے میں کم ہو گیا ہے اس لئے مدارس کو طلبہ کی ضرورت ہوتی ہے ایسے میں بہت سے مدارس میں بغیر تعلیمی صداقت نامہ دیکھے اوپر کی جماعتوں میں داخلہ دے دیا جاتا ہے اس اعتبار سے یہ مدارس بھی ذمہ دار ہیں اور جب طلبہ کا مقصد ہی صرف سندِ فضیلت حاصل کرناہے تو پڑھنے کا شوق کہاں سے پیدا ہوگا ایسے طلبہ غیر ضروری مصروفیتوں میں مشغول ہو کر اصل مقصد کو بھول جاتے ہیں جس کی وجہ سے مدارس کا دینی اور روحانی عنصر بھی کمزور پڑتا جارہا ہے ۔
بہر حال مدارس کا ایک شاندار ماضی ہے جس نے ہر دور میں ملت کی رہنمائی اور قیادت کا فرض انجام دیا ہے اور آج بھی مدارس اپنے نصب العین کی طرف گامزن ہیں اور ہندوستانی مسلمان کے ایمان و عقائد ،تہذیب و روایات کی حفاظت کر رہے ہیں، لیکن ضرورت ہے اس جانب ہونے والی بعض کوتاہیوں کا تدارک کیا جائے تاکہ مدارس کی روح اور ان کے مقاصد کا صحیح طور پر تحفظ کیا جاسکے اس کے لئے انتظامیہ ، اساتذہ اور طلبہ ہر ایک کو اپنا فرض پورا کرناچاہئے تو ان شاء اللہ پھر اسی خاکس کے پردے سے جنید و شبلی اور رومی وغزالی پیدا ہو ں گے ۔