اردو میں بچوں کا ادب اور غیرمسلم ادیب و شعرأ
ڈاکٹر سید اسرارالحق سبیلی
زبان اظہار و بیان کا نام ہے، یہ ایک فطری قوت و نعمت ہے ، جو خالق کائنات نے انسان کو عطا کی ہے، ( الرحمٰن : ۴) انسانی فطری طور پر اپنے والدین اور آس پاس کی زبان سیکھ لیتا ہے، زبان کی پیدائش کی بنیاد ماحول اور سماج ہے، نہ کہ مذہب ۔ سماج میں جو زبان رائج ہوتی ہے، خالقِ کائنات اپنے بندوں کی رہنمائی کے لئے اسی زبان کا انتخاب کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں پیغمبر بھیجے اور ان ہی کی زبان میں کتابِ ہدایت نازل کی۔ (ابراہیم :۴) اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، بلکہ مذہبی اور خدائی رہ نمائی کے لئے زبان کی ضرورت پیش آتی ہے، اور یہ معاملہ دنیا کی تمام قدیم زبانوں کے ساتھ پیش آیا ہے کہ مالکِ جہاں نے اپنے حیات بخش پیغام کے لئے دنیا میں رائج زبانوں کا انتخاب کیا ہے۔
اردو زبان اسلام کے آغاز کے ایک ہز ارسال بعد ہندوستان میں پیدا ہوئی ، یہ زبان ہندوستان میں مختلف قوموں کے اختلاط، میل جول، دوستانہ تعلقات، کاروباری ضروریات اور سماجی و سیاسی روابط کی بنا پر وجود میں آئی ، اور اس نے ہندوستان کی تمام زبانوں اور بولیوں کے عناصرکو اپنے دامنِ گل میں جگہ دی، گویا اردو زبان تمام ہندوستانی زبانوں کا عطرِ مجموعہ ہے، اتبداء میں اسے ہندی، ہندوی اور ریختہ کا نام دیا گیا، اور بعد میں اردو زبان کے نام سے مشہور ہوئی ۔
اردو کی ابتداء سے لے کر آج تک ہر مذہب و مکتب فکر کے افراد نے اسے عوامی زبان کی حیثیت سے اخیتار کیا، اور خلوصِ دل سے مادر مہربان زبان اردو کی آبیاری ، اور اس کی ترقی و نشوونما میں حصہ لیا، خیال چہ تاریخ ادب اردو کے ہر دور میں ہمیں ہر مذہب و مکتب کے اہل قلم ملتے ہیں، جنھوں نے اردو ادب کی مختلف اصناف کی خدمت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ آج ہم بچوں کے ادب کے فروغ اور نشوونما میں ان غیرمسلم اصحابِ قلم کا ذکر کریں گے، جنھوں نے پورے خلوص ، دردمندی اور ذمہ داری کے ساتھ بچوں کی ذہنی و فکری تربیت کا مقدس فریضہ انجام دیا ہے۔
بچوں کے ادب کے ابتدائی دور میں ہمیں ماسٹر رام چندر، ماسٹر پیارے لال اور نہال چند لاہوری نظر آتے ہیں ، بچوں کے ادب کا دوسرا دور جو ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء پر مشتمل ہے، اس دور میں پیارے لال آشوب ، چکبست، درگا سہائے سرورجہاں آبادی، منشی پریمچند، تلوک چند محروم اور پنڈت جواہر لعل نہرو کی خدمات نمایاں ہیں۔
پیارے لال آشوب ۱۸۶۴ء میں پنجاب بک ڈپو کے کیوریڑ مقرر ہوئے ، محمد حسین آزاد کی طرح کرنل ہالرائڈ کی فرمائش پر’’ اردو کی تیسری کتاب ‘‘ اور ’’ اردو کی چوتھی کتاب‘‘ مرتب کیں ، اردو والوں میں یہ غلط فہمی رائج ہوگئی تھی کہ محمد حسین آزاد نے چاروں ریڈرس مرتب کی تھیں، جیسا کہ پروفیسر ممتاز حسین نے اردو کی پہلی کتاب ( مطبوعہ ترقی اردو بورڈ کراچی ۱۹۸۳ء) اور ڈاکٹر اسلم فرخی نے اپنے تحقیقی مقالہ : ’’ محمد حسین آزاد حیات اور تصانیف ‘‘ میں یہی خیال ظاہر کیا ہے، لیکن ڈاکٹر حسن اختر نے اپنے تحقیقی مضمون : ’’اردو کی پہلی کتاب ‘‘ ( ماہنامہ کتاب نما دہلی فروری ۱۹۸۴ء ) میں متعدد شواہد ودلائل سے ثابت کیا ہے کہ محمد حسین آزاد نے صرف اردو کی پہلی اور دوسری کتاب مرتب کی تھیں ، اور اردو کی تیسری اور چوتھی کتاب پیارے لال آشوب کی مرتب کردہ تھیں ۔ ( اردو میں بچوں کا ادب از ڈاکٹر خوشحال زیدی : ۱۷۶۔۱۷۷) اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کتابوں پر مرتب کا نام درج نہیں کیا جاتا تھا، پیارے لال کی مذکورہ دونوں کتابیں ۱۸۷۰ء کے آس پاس مرتب کی گئی تھیں ۔
پنڈت برج نارائن چکبست نے بہ طور خاص بچوں کے لئے علاحدہ مجموعہ کلام نہیں چھوڑا ، لیکن ان کے مجموعۂ کلام ’’ صبحِ وطن ‘‘ میں بہت سی نظمیں ایسی ہیں ، جو بچوں کی شاعری کا اٹوٹ حصہ ہیں ، جیسے : ہمارا وطن دل سے پیارا وطن ، خاکِ ہند، وطن کو ہم وطن ہم کو مبارک، گائے وغیرہ، انہوں نے حالیؔ کی ’’ مجالس النساء‘‘ کی طرح خاص طورپر بچیوں کے لئے بہت سی نظمیں لکھی ہیں ، جن میں پھول مالا، اور ’’ لڑکیوں سے خطاب ‘‘ بہ طور خاص قابل ذکر ہیں ، ایک نظم میں انہوں نے ڈرامائی انداز میں رام چندرجی کے بن باس جانے سے پہلے اپنی ماں سے رخصت ہونے کا منظر پیش کیا ہے۔
درگا سہائے سرورجہاں آبادی چکبستؔ کی طرح قومی و وطنی شاعری ، مناظر قدرت اور ہندوستانی فضا کی منظرنگاری کے لئے مشہور ہیں، مناظرِ فطرت کی رعنائی اور حبِ وطن سے سرشاران کی بہت سی نظمیں اپنے اسلوب ، زبان کی سادگی اور موضوع کے اعتبارسے بچوں کے ادب میں شامل کی جانے کی مستحق ہیں، جیسے : یاد بچِپن، یادِ طفلی، لالۂ صحرا، حبِ وطن، گلزارِ وطن، سرزمینِ وطن، خاکِ وطن، یادِ وطن، چشمِ وطن ، ایک جلا وطن محبِ قوم کا گیت ، گنگا جی، جمنا، نسیمِ سحر، شفقِ شام، بیر بہوٹی ، سارس کا جوڑا ، مرغابی ، کوئل ، جگنو، دمن اور ہنس اور بھونر سے کی بے قراری وغیرہ ۔
بچوں کے شاعر کی حیثیت سے تلوک چند محروم ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں، اسماعیل مرٹھی کے بعد وہ پہلے شاعر ہیں، جنھوں نے کیفیت و کمیت کے اعتبار سے اچھا شعری سرمایہ چھوڑا ہے، محروم عمر بھر درس و تدریس سے و ابستہ رہے، انہوں نے بچوں کی نفسیات ، پسند اور رجحان کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا تھا، ان کو بچوں سے والہانہ محبت تھی، انہوں نے بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی ذہنی و اخلاقی نشو و نما کے لئے صحت مند شعری ادب تحریر کیا ، انہوں نے بچوں کے لئے دو شعری مجموعے : ’’ بہارِ طفلی‘‘ اور ’’ بچوں کی دنیا‘‘ ترتیب دئیے ، ان کی بہت سی اخلاقی، قومی اور وطنی نظمیں مدارس کی نصابی کتب میں شامل رہی ہیں ، ان کی ایک نظم : ’’ برندابن کی صبح ‘‘ بہت اچھوتی ہے، جس میں جمنا کے خوب صورت مناظر کا نظارہ کرایا گیا ہے، ان کی نظموں میں اخلاقی تربیت کا پورا اہتمام نظر آتا ہے، اخلاقی نقطہء نظر سے انہیں بچوں کے ادب میں ہمیشہ یاد رکھاجائے گا، ان کی اخلاق نظموں میں سچائی ،وقت کی پابندی، محنت،سویرے اٹھنا ، اچھا آدمی ، جھوٹ ، جھوٹ بڑا پاپ ہے، اچھا بچہ، پہلے کام پیچھے آرام ، مہربانی کے چھوٹے چھوٹے کام اور بہت بولنا عیب ہے، بہت اہم اور لائقِ مطالعہ نظمیں ہیں۔
ہندوستان کے دیہات ، مزدور اور کسان کے مسائل کو سب سے پہلے اپنے ناول و افسانہ میں جگہ دینے والے عظیم فن کار منشی پریم چند نے بچوں کے لئے بہت سی کہانیاں اور تاریخی افسانے لکھے ہیں ، وہ بنارس کے ایک دیہات میں شعبۂ تعلیم سے ایک عرصہ تک وابستہ رہے، وہ دیہات کے سادہ لوح بچوں کے جذبات واحساسات سے اچھی طرح وقف تھے، ان کو بچوں اور ان کے ادب سے محبت تھی، انہوں نے بچوں کی ضروریات ، مسائل ،ان کی ذہنی نشوونما اور بہتر نگہداشت کی طرف ایک مخصوص زاویہ سے نگاہ ڈالی ، بچوں کے لئے لکھے گئے ان کی کہانیوں میں نادان دوست عبرت ، عیدگاہ اور سچائی کا انعام بہت مقبول ہیں ، ان کی دوسری کہانیوں میں معصوم بچہ، اناتھ لڑکی ،گلی ڈنڈا، جگنو کی چمک، کشمیری سیب، ہولی کی چھٹی، نوک جھوک ، چیل ، شکار، آخری حیلہ ، دو بیل اور سوتیلی ماں وغیرہ قیمتی تحفہ ہیں ، انہوں نے دیہاتوں کے ماحول کی منظرکشی، کرداروں کی جذبات نگاری ، سماج کی پیچیدگی اور اخلاقی اقدار کی مؤثر تلقین جس قدر مؤثر، عام فہم اور دل نشیں اسلوب میں پیش کی ہے، وہ ان کا زندہ جاوید کارنامہ ہے۔
ممتاز مجاہد آزادی اور آزاد ہند وستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اردو کے اچھے انشاء پرداز اور مضمون نگار تھے، وہ اردو ہی میں مراسلت اور خط و کتابت کرتے تھے، سیاسی و انتظامی خطوط کے علاوہ انہوں نے اپنی لخت جگر اندرا پریہ درشنی کو وشوا بھارتی شانتی نکیتن میں تعلیم کے دوران جو خطوط لکھے ہیں ، وہ بچوں کے ادب کا قیمتی اثاثہ ہیں، یہ خطوط ’’ باپ کے خط بیٹی کے نام ‘‘ سے شائع ہو چکے ہیں، ان کے خطوط بچوں کی مختلف درسی کتب میں شامل کئے جاتے رہے ہیں ، مثلا ایک خط میں انہوں نے تہذیب سے متعلق مفید با تیں نہایت عام فہم انداز میں اپنی بیٹی کو ذہن نشیں کرائی ہیں ، خطوط کے علاوہ ان کے کئی مضامین اور کہانیاں ماہ نامہ ’’ پیام تعلیم ‘‘ نئی دہلی میں شائع ہوئی ہیں ، جیسے : دنیا کی سب سے جاندار اشیاء ( جنوری ۱۹۳۰ء ) دنیا کی تاریخ کیسے لکھی گئی ؟ (مارچ۱۹۳۰ء ) ہمارا ملک ( اکتوبر ۱۹۳۱ء ) اور ایک عقل مند آدمی ( نو مبر ۱۹۵۵ء ) وغیرہ ۔
بچوں کے ادب کے تیسرے دور میں جو آزادی کے بعد سے شروع ہو کر بیسویں صدی کے اختتام پر مشتمل ہے، غیر مسلم قلم کاروں میں بچوں کے اہم ناول نگار، کہانی نویس اور شاعر نظر آتے ہیں، اس دور میں سب سے باوقار اور قدآور شخصیت کرشن چندر کی ہے۔
جدید سائنسی ، صنعتی اور سماجی تقاضوں کو اپنے فکشن میں کامیابی سے برتنے والے عظیم افسانہ نگار کرشن چندر نے بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے لئے کامیاب ادب تحریر کیا ہے، انہوں نے اپنی کہانیوں ، افسانے، ناول اور ڈرامے کے ذریعہ بچوں کی ہمہ جہت معلومات ، ذہنی و جسمانی نشو و نما اور ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے، ان کا شعریت آمیز رومانوی انداز اور حسین مناظر کی تصویرکشی بچوں کو اپنی گرفت میں لئے رہتی ہے، انہوں نے بچوں کے لئے فنطاسیہ، مہماتی اور سائنس فکشن تحریر کیا ہے، ان کی زیادہ تر کہانیاں تمثیلی اور طنزیہ انداز میں ہیں، جن میں مزاح کی چاشنی سے مقصدیت کو خوشگوار انداز میں پیش کیا گیا ہے، انہوں نے اپنے ناول : ’’ ستاروں کی سیر ’’ میں بچوں کو نئے نئے جہانو ں کی سیر کرائی ہے، اور تفریح کے پردہ میں بچوں کو جدید سانئسی ایجادات اور کائنات کے اسرار سے روشناس کرایا ہے، چڑیوں کی الف لیلیٰ، بیوقوفوں کی کہانیاں ، سونے کی صندوقچی، سونے کا سیب، شیطان کا تحفہ اور الٹا درخت وغیرہ کرشن چندر کی مقبول کہانیاں ہیں ، الٹا درخت اردو میں بچوں کا بہترین فنطاسی ہے، جو اپنے دل کش اسلوب کے سبب بچوں اور بڑوں دونوں میں مقبول ہے، اس میں خودغرض اور مفاد پرست سماج پر زبردست طنز ہے، ان کے بیش تر فکشن میں انسانی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو اس خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے کہ بچے فرضی کہانی کو بھی حقیقی زندگی کا جزو سمجھنے لگتے ہیں، انہوں نے عام بچوں کی زندگی کو بھی فن کارنہ مہارت کے ساتھ پیش کیا ہے، جیسے :’’ بیوقوفوں کی کہانیاں ‘‘۔ یہ کہانیاں بچوں کی تفریح طبع کے لئے مزاحیہ پیرایہ میں لکھی گئی ہیں، ناول اور طویل کہانیوں کے علاوہ انہوں نے بہت سی مختصر کہانیاں اور ڈرامے بھی لکھے ہیں، کرشن بچوں کے ساتھ بچہ بن جاتے ہیں، وہ اپنی تحریروں میں بچوں کی نفسیاتی پیچیدگیوں کا پورا خیال رکھتے ہیں ، ان کی زبان اور اسلوب بچوں کے مزاج اور مذاق سے ہم آہنگ ہے،غرض جدید سائنسی اور صنعتی دنیا کے پس منظر میں ان کی کہانیاں ، ناول اور ڈرامے اپنے شاعرانہ اوررومانوی طرز نگارش کی بنا پر لافا نی شاہکار کا درجہ رکھتے ہیں ۔
رام لعل بچوں کے ادب میں ایک منفرد مقام کے حامل ہیں ، وہ اردو کہانی میں ایک معمار کی حیثیت ر کھتے ہیں ، انہوں نے بچوں کی کہانی کو جس انداز میں سنوارا، نکھارا اور جلا بخشی، اس کی مثال اردو ہی نہیں، ہندوستان کی دوسری زبان میں بھی نہیں ملتی ہے، ان کی کہانیو ں کے موضوعات بچوں کی روزمرہ زندگی کے مسائل کا آئینہ ہیں ، انہوں نے اپنی کہانیوں میں روزمرہ زندگی کے مسائل سے چھٹکارا پانے کا راستہ بھی دکھایا ہے، ان کی زیادہ تر کہانیاں ماہنامہ ’’ کلیاں ‘‘ ( لکھنؤ) کھلونا ( نئی دہلی ) اور پیام تعلیم ( نئی دہلی ) میں مسلسل شائع ہوتی رہی ہیں ، نیشنل بک ٹرسٹ ، ہزوبال پستکالیہ اور یوپی اردو اکادمی نے ان کی کہانیوں کے مصور ایڈیشن شائع کئے ہیں ، رام لعل بچوں کی نفسیات اور رجحانات سے بخوبی واقف ہیں، بچوں کی دل چسپیوں اور فطری مسائل پر ان کی گہری نگاہ ہے، وہ نہ تو بچوں کو نصیحت کر تے ہیں ، اور نہ درس دیتے ہیں، بلکہ ان کی تفریح طبع کے ساتھ ساتھ کچھ اس طرح اپنا مقصد پیش کر دیتے ہیں کہ بچے غیراختیاری طو رپر وہ سب کچھ محسوس کر جاتے ہیں ، جو رام لعل بچوں سے کہنا چا ہتے ہیں۔
بچوں کے شاعر تلوک چند محروم کے فرزندِرشید، ماہرِاقبالیات پروفیسر جگن ناتھ آزاد ( پ : ۱۹۱۸ء) نے بچوں کے لئے بھی چند کتابیں لکھی ہیں بچوں کے لئے ان کی شاعری کا مجموعہ ’’ بچوں کی نظمیں ‘‘ پہلی مرتبہ ۱۹۷۶ء میں شائع ہوا ، سولہ نظموں پر مشتمل یہ مجموعہ ایسا گلد ستہ ہے، جس میں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے پھول کھلے ہیں ، اور وطن کی محبت کے گل بوٹے سجے ہیں،بچوں کے لئے پورے ملک کی سیر ہے، غنائی فیچر اور گیت ہیں، ملاحظہ ہو نظم: تماشے والا ، کلکتہ میل ، کسانوں کا گیت ، عید ،دسہرہ، دیوالی اور دیس ہوا آزاد وغیرہ ۔ بچوں کے لئے ان کی دوسری کتاب : ’ ’اقبال کی کہانی ‘‘ ہے، یہ بچوں کے لئے اقبال کا مختصر اور جامع تعارف ہے، آپ نے بچوں کے لئے بے شمار ڈرامے اور مضامین تحریر کئے ہیں، آپ کے ڈراموں میں ، بچوں کے اقبال ، ہمارے تہوار اور بنگال کا جادو قابل ذکر ہیں۔
معبتر محقق، سربرآوردہ نقاد اور ماہر لسانیات پروفیسر گوپی چند نارنگ بچوں کے ادب میں نصابی کتب کی ترتیب و تدوین میں یقیناً یاد رکھے جائیں گے،انہیں این سی ای آر ٹی کی نصابی کمیٹی کا صدر نشیں مقرر کیا گیا تھا، تا کہ اردو زبان و ادب کے نصاب کی از سرنو تدوین و ترتیب پہلی جماعت سے بارہویں جماعت تک کے لئے موجودہ تعلیمی ضروریات کے مطابق کی جائے ، آپ کی نگرانی میں بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں شروع کے گئے اس پروجیکٹ کے تحت اردو کی یہ بارہ نصابی کتابیں بڑی سائنٹفک انداز میں تیار کی گئیں ، اس کام کو معیار تک پہونچانے کے لئے نارنگ صاحب نے ملک گیر سطح پر اسکول ،کالج اور یونی ورسٹی کے منتخب اساتذۂ اردو اور ماہرین کا تعاون حاصل کیا، اور بطور ماڈل پہلی ، دوسری اور دسویں جماعت کی نصابی کتب خود تیار کیں، آپ کی سرکردگی میں تیار کی جانے والی ان کتابوں کی پاکستان میں بھی پذیرائی ہوئی، آپ نے پوری اردو دنیا کے بچوں میں الفاظ کے یکساں املاء اور تلفظ کی ادائیگی اور صحیح شناخت کے لئے ’’ املا نامہ ‘‘ مرتب کیا، پروفیسر نارنگ نے ساتویں دہائی میں ہندو اساطیری ادب پر مشتمل نیشنل بک ٹرسٹ نئی دہلی کے لئے ’’ پرانوں کی کہانیاں ‘‘ اردو میں مرتب کی تھیں ، جو ذاکر حسین سیریز کے تحت شائع ہوتی رہیں، اس میں پرانوں سے ( ۲۲) کہانیاں لی گئی ہیں۔
محترمہ کرن شبنم ہندی ماہ نامہ ’’ چھاؤں ‘‘ کی مدیرہ ہیں، ہندی میں بڑوں کے لئے اور اردو میں بچوں کے لئے کہانیاں لکھتی ہیں ، آٹھویں اور نویں دہائیوں میں ان کی کہانیاں ’’ پیام تعلیم ‘‘ نئی دہلی میں شائع ہوئی ہیں، ۱۹۸۶ میں ان کی اردو کہانیوں کا مجموعہ : پھلواری’’ شائع ہو ا ہے۔ انہوں نے سید ضیاءالرحمن غوثی مدیر ’’ مسرت ‘‘کے باہمی تعاون سے کہانیوں کا مجموعہ :’’ رادھا اور رفیق ‘‘ ۱۹۹۵ء میں شائع کیا، جو غالباً اردو میں پہلی اجتماعی کتاب ہے ’ ’ رادھا اور رفیق ‘‘ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب ، آپسی اتحاد ، پیار، محبت ، خلوص، رنگارنگی اور کثرت میں وحدت کا پیغام ہے۔
کیدارناتھ کومل صاحب طالب علی کے ز مانہ ( ۱۹۴۹ء کے قبل) سے اردو اور ہندی میں نظمیں اور کہانیاں لکھ رہے ہیں، ان کے نزدیک اردو اور ہندی میں سوائے رسم الحظ کے کوئی فرق نہیں ہے، انہوں نے بچوں کے لئے ہندی کی نظموں اور کہانیوں کا ڈھیروں ترجمہ کیا ہے، انہوں نے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ ذاتی طو رپر تنگ نظری سے دور ہوں ، زندگی کو زندگی سمجھتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ نظم کو نظم ، بلامذہب یا زبان کے لحاظ سے پچھلے چالیس برسوں سے برابر لکھتا رہا ہوں ‘‘۔ ( دیباچہ : ننھے منے گیت )
۱۹۸۷ء میں ان کی نظموں کا ایک مجموعہ : ’’ ننھے منے گیت ‘‘ قومی کونسل برائے فروغ اردو زباں نئی دہلی نے شائع کیا ہے ، ان نظموں میں بچوں کا معصوم بچپن ہنستا ، کھیلتا اور چہکتا نظر آتا ہے، جہاں پیار، محبت، انسانیت اور ایکتا کی خوشبو چاروں طرف پھیلی رہتی ہے :
ہم ننھے منے بچے
کرتے ہیں جو سب سے پریت
ہم ننھے منے بچے
خوب نبھاتے پیار کی ریت
اسی طرح اس دور میں ان غیر مسلم اہل قلم کا ذکر ضروری ہے، جنھوں نے بچوں کے لئے دوسری زبانوں سے کہانیوں کا ترجمہ کیا ہے، جیسے : پریم پال اشک ، جوگیندرپال اور نامی انصاری وغیرہ، مؤخرالذکر نے بچوں کی تین کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا ہے: (۱) ناول : آدتیہ (۲) گاندھی جی کی کہانی (۳) تینالی رمن کی کہانیاں ۔
اب ہم بچوں کے ادب کے چوتھے اور آخری دور میں آرہے ہیں، جو اکیسویں صدی کی ابتداء سے تاحال جاری ہے، اس دور میں اردو ذریعہ تعلیم سے غیر مسلموں کی دوری کے باوجود حیرت انگیز طو رپر بچوں کے لئے لکھنے والوں کا سلسلہ جاری ہے، ان میں فلمی دنیا کے گیت کار گلز ار، احدپرکاش ، نندکشور وکرم، آزاد سونی پتی ، کرشن پرویز ، ڈاکٹر بیتاب علی پوری ، رام آسراراز، شنکر، میری لن ہرش ، مدو ٹنڈن، پریم نارا ئن اور ڈاکٹر بھونداج بلوانی وغیرہ شامل ہیں ۔
گلزارنے ایک نئے انداز میں بچوں کے لئے سلسلہ وار کہانیاں لکھی ہیں :بوسکی کا پنج تنتر حصہ اول تا پنجم ، بوسکی کی گنتی ، بوسکی کا کوانامہ ، بوسکی کے گپیس اور بوسکی کے کپتان چاچا ۔
احد پرکاش بچوں کے ایک ابھرتے ہوئے شاعر و ادیب ہیں ، انہوں نے موضوعات کے انتخاب اور لفظیات کے استعمال میں بچوں کی دلچسپی ، رجحان اور تفریح کا خاص خیال رکھا ہے، انہوں نے اپنی نظموں اور کہانیوں میں خالص تفریح اور مزاح کے علاوہ بچوں کو نیک خصلت ، بہادر اور شوق سے تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے، انہوں نے زیادہ تر جانوروں اور پرندوں کے وسیلے سے بچوں کو ذہنی غذا فراہم کی ہے، بھالو جی ، گدھے لال ،پیاری مینا، جگنو، چیونٹی اور شیر کے بچے ان کی بڑی دلچسپ نظمیں اور کہانیاں ہیں ۔
رادھا کرشن آزاد سونی پتی کی نظمیں اور کہانیاں ماہ نامہ امنگ کے علاوہ ’’ چشم اردو ‘‘ چھتیں گڑھ میں شائع ہوتی ہیں، ان کی نظمیں اور کہانیاں بچوں کی تفریح کے ساتھ اتحاد حب الوطنی ، خدمتِ خلق ، تحصیل علم اور برائی سے بچنے کی ترغیب دیتی ہیں، بہ طور نمونہ ایک شعر ملاحظہ ہو :
ہر اک حال میں نیک اطوار
رہنا بروں کی برائی سے ہشیار
فخرِ ہریانہ، شاعری رتن ڈاکٹر رامانند بیتاب علی پوری کی پیدائش علی پور پاکستان میں ہوئی ، ۱۹۴۹ء میں وہ سونی پت ہریانہ منتقل ہو گئے، اور ۱۹۹۰ء سے روہنی دہلی میں قیام پذیر ہیں، ان کی تیرہ کتابوں میں بچوں کی شاعری پر ایک کتاب ’’ گلدستہء اطفال ‘‘ پہلے خود انہوں نے شائع کی، اب ہریانہ اردو اکیڈمی پنجکولہ نے شائع کیا ہے، ان کی نظموں کی زبان نہایت آسان ، ہلکی پھلکی اور واضح ہے، ان کی نظموں میں تعلیم ، تفریح، تحصیل آزادی، ملک کی ترقی ، قومی اور وطنی عناصر نمایاں ہیں۔
غرض اس مختصر جائزہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ دوسری اصناف کی طرح بچوں کے ادب کے فروغ و ارتقاء میں بلا امیتاز مذہب تمام اہلِ قلم نے حصہ لیا ہے، اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، آج نئی نسل میں دیگر زبانیں سیکھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے، ضرورت ہے کہ ہم اردو کی شیرنی کو عام کرنے کے لئے متحرک ہو جائیں ، اور جو لوگ اس کی مٹھاس سے محروم ہیں، انہیں اس ذائقہ دار زبان کی لذت آشنا کرائیں
——
کتابیات
۱) اردو میں بچوں کا ادب ( ڈاکٹر خو شحال زیدی )
۲) بچوں کے ادب کی تاریخ ( ڈاکٹر سید اسرارالحق سبیلی)
۳) بچوں کا ادب اور اخلاق ( ڈاکٹر سید اسرارالحق سبیلی)
۴) ادب اِطفال کے معمار ( ڈاکٹرخو شحال زیدی)
۵) بہار میں بچوں کا ادب ( سید ضیاء الر حمن غوثی )
——
ڈاکٹر سید اسرارالحق سبیلی
اسسٹنٖٹ پروفیسر و صدر شعبۂ اردو
گورنمنٹ ڈگری اینڈ پی جی کالج سدی پیٹ۔ ۱۰۳ ۵۰۲، تلنگانہ
mobile: 9346651710