نویدِ مغفرت – – – – – ڈاکٹرمحی الدین حبیبی

Share


نویدِ مغفرت

ڈاکٹرمحی الدین حبیبی
حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 08978155985

’’غفر‘‘ کے لغوی معنی ’’ڈھانکنے‘‘ یا ’’درگزر کردینے‘‘ کے ہوتے ہیں، جس کو ہم زبانِ عام میں ’’بخشش‘‘ کے مترادف سمجھتے ہیں۔ لفظ ’’مغفرت‘‘ اسی سے مشتق ہوا ہے۔ خالق کائنات ، کائنات کی ہر شئے پر تصرف رکھتا ہے، چاہے وہ بے جان ہو یا جاندار، حیوان ہو یا انسان، احکم الحاکمین ، ربّ السموت و الارض کے لیے ہر چیز تابع ہے اور اسی ذات وحدہ لاشریک لہ کی بے شرکت حکمرانی ہے۔ ’’حاکم‘‘ جب تک محکوم پر ترحم اور ’’تلطف‘‘ سے کام نہ لے اس کا گذارہ بھی نہیں ہوسکتا، کیوں کہ کسی بھی فرماں بردار میں سو فیصدی احکامات کی فرمانروائی شاید ہی ہوسکتی ہے۔ کہیں نہ کہیں سقم رہ جاتا ہے۔

زندگی کا سفر تو بڑی سنگلاخ چٹانوں پر اور بڑے بے آب و گیاہ دشت و صحراء سے گزر کر ہوتا ہے، جہاں کی دشت نوردی ، آبلہ پائی سے مبرا نہیں، صرف پاؤں میں ہی چھالے نہیں پڑتے، داغِ دل اور داغِ جگر بھی سہنا پڑتا ہے، لغزش و لڑکھڑاہٹ تو ایک یقینی امر ہے۔ اب ’’غلام‘‘ سے احکامات کی تابعداری میں کچھ کمی و بیشی اور افراط و تفریط تو ہو ہی جاتی ہے۔ ’’آقا‘‘ اپنے غلام کی ہر حرکت اور ہر بات کا مواخذہ کرنے بیٹھے اور ہر جرم پر سزا دیتا رہے تو بتلائیے کیا ہوگا۔ اس لیے ’’آقا‘‘ کو رحم و کرم، فضل و عنایت، الطافِ بے پایاں اور اکرامِ بے کراں سے کام لینا ہی پڑتا ہے۔ یہی ’’ترحم‘‘، یہی ’’جود و سخا و عطاء‘‘ حق سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے نویدِ مغفرت ہے:
ہر خطا پر ہے عطا شیوہ مرے اللہ کا
احکامات اور ہدایات سے روگردانی سے متعلق اس قدر بے شمار وعیدیں اور تنبیہات آئی ہیں کہ اللہ کی پناہ! بس اس پناہ اور شفاعتِ شفیع المذنبین و رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کے سوا ہمارے لیے کوئی مداوا ہے نہ چارہ۔
مغفرت و بخشش اور عفو و درگذر کا تصور تمام مذاہب کے ماننے والوں کا ایک پرکشش و خصوصی پہلو ہے۔ دراصل یہ تمام مذہبی انسانوں کے لیے بے حد رغبت اور طمانیت اور سلامتی کا مظہر بھی ہے، جو انسانی فطرت کے عین مطابق بھی ہے کہ انسان فطرتاً خطا و نسیان کا پیکر جو ٹھہرا!
ہندو مذہب نے ’’نجات‘‘ کے لیے اچھے اور برے کاموں (اعمال) کے نتائج کو تناسخ کے مسئلہ سے جوڑ دیا، جب کہ ’’عیسائیت‘‘ نے ’’اقرارِ گناہ کو بخشش کا پروانہ قرار دیا اور اپنے پیروؤں میں اس خیال کو تقویت پہنچائی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں کے گناہوں کا کفارہ مصلوب ہوکر یعنی سولی پر لٹک کر ادا کردیا ہے۔ اس طرح عیسیٰ علیہ السلام کا ایک ایک قطرۂ خون اتنا پاک قرار پایا کہ جس سے تمام عیسائیوں کے گناہ دُھل جاتے ہیں۔
اسلام کا نظریۂ مغفرت، اس کے برخلاف ’’توبہ‘‘ پر زور دیتا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ کی طرف توبہ کے لیے رجوع ہو، جو کہ سچی توبہ ہو۔‘‘ (قرآن) توبہ کے حقیقی معنی یہ بتلائے گئے ہیں کہ اپنی خطاؤں پر ندامت کے ساتھ ساتھ پھر آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم بھی ہو۔ یہ ندامت اور عزم ہی ہے جو توبہ کو ’’توبۃ النصوح‘‘ کا درجہ دیتے ہیں، جب کہ ارشادِ نبویؐ ہے: ’’گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔‘‘ اور ایک حدیث قدسی میں آیا ہے: ’’اے میرے بندو! تم رات دن خطائیں کرتے ہو اور میں تمام گناہوں کو بخشتا رہتا ہوں، معاف کرتا ہوں، پس تم مجھ سے بخشش طلب کرو، میں تم کو بخش دوں گا۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ’’توبہ‘‘ کے بعد پھر گناہوں کی طرف نہ لوٹ آئیں، بلکہ نیک کام کریں، جس سے گناہ اور احساسِ گناہ میں کمی واقع ہوتی ہے کہ :
’’اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّءَاتِ‘‘ (ہود)
بے شک نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں۔
سورۂ ’’نصر‘‘ میں ہم روز ہی نمازوں میں تلاوت کرتے ہیں: وَ اسْتَغْفِرْہُ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا۔ (اور اس سے مغفرت چاہو، کیوں کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔) اور سورۂ نور میں دیکھئے مغفرت کی کیسی نویدِ مسرت آئی ہے۔ وَ تُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (نور) (اور اے مؤمنو! اللہ کی طرف تم سب مل کر توبہ کرو، شاید کہ تم فلاح پاجاؤ۔ اور سورۂ مائدہ میں توبہ کے آداب بتلائے گئے ہیں کہ جو اپنے قصد کے بعد توبہ کرلے اور اپنی اصلاحِ اعمال کرلے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرمالیتا ہے۔ فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰہَ یَتُوْبُ عَلَیْہِ (مائدہ) رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے گویا اُس نے گناہ کیا ہی نہیں۔‘‘ (دیلمی) کیا عنایت ہے، کیا دین ہے، ایک ’’توبہ‘‘ کا فاصلہ ہے فضل و کرم کی بارش ہے۔ یہی کچھ اس حدیثِ قدسی میں کس شانِ اُلوہیت سے کیا جارہا ہے:
’’جو اس بات پر اعتقاد رکھتا ہے کہ میں گناہوں کے معاف کرنے پر قادر ہوں اور صدق و اخلاص کے ساتھ توبہ کرتا ہے تو میں اس کو بخش دیتا ہوں۔‘‘ (مشکوٰۃ)
کیا بندہ نوازی ہے! صدقے جائیں مالک دوجہاں پر ربّ العالمین پر اور اس کی شانِ کریمی پر اور صدقے جائیں تمام عالموں کی رحمت، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر جن کی امت کو یہ اعزازِ مغفرت عطا ہورہا ہے۔ صحیح مسلم میں یہ روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا ہاتھ رات کو ہاتھ پھیلاتا ، تاکہ دن کا گنہگار توبہ کرلے اور اپنا ہاتھ دن کو پھیلاتا ہے تاکہ رات کا گنہگار توبہ کرلے، یہاں تک کہ سورج اپنے ڈوبنے کی جگہ سے نکلے، یعنی قیامت تک ۔ (مسلم) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے کہ کسی بندے سے اگر کوئی گناہ ہوجائے توفرشتہ تین ساعتوں تک اس کی توبہ کا انتظار کرتا ہے، اگر توبہ کرلے تو گناہ نہیں لکھا جاتا۔ یہ حدیث ’’حاکم‘‘ میں درج ہے۔ (بحوالہ صراط مستقیم) ’’توبہ‘‘ کے علاوہ ایک آخری موقع بھی دیا جارہا ہے۔ کیا کہنے الطافِ بے پایاں کے۔ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا ہے کہ اگر کوئی توبہ بھی نہ کرسکے ، لیکن اپنے گناہوں پر نادم ہوجائے اور ملال کا احساس بھی کرلے بھی تو اس کی بخشش ہوجاتی ہے۔ (دیلمی) شاید اسی عنایت کے اعتراف میں امجد نے کہا ہو:
ہر دم اس کی عنایت تازہ ہے
اس کی رحمت بے اندازہ ہے
جتنا ممکن ہو کھٹکھٹاتے جاؤ!
یہ دستِ دعا، خدا کا دروازہ ہے (امجدؔ )
آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد دیکھئے، فرماتے ہیں: ’’کل بنی اٰدم خطاء و خیر الخطائین التوابون۔‘‘ (سب انسان خطاکار ہیں اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو بہت توبہ کرنے والے ہیں۔ (ترمذی) اسی طرح بخاری و مسلم کی متفق علیہ اس حدیث سے بھی عظمت و مغفرت اور جود و سخا عیاں ہوتی ہے کہ :
’’اللہ کا ہاتھ (ہر وقت) بھرا ہوا ہے، وہ کتنا ہی خرچ فرمادیں کم نہیں ہوتا، رات دن خرچ فرماتے ہیں، تم ہی بتلاؤ جب سے آسمان و زمین پیدا فرمائے ہیں کتنا نہ خرچ کردیا ہوگا، جو کہ اس (کریم) کے ہاتھ میں تھا ، لیکن (تادمِ تحریر) بھی اس میں سے کچھ کم بھی کم نہیں ہوا۔
سنئے ’’نویدِ مغفرت‘‘ کی گونج جو گناہوں کی وادیوں میں اپنی طاقت ور لہریں بکھیر رہی ہے:
عن انس رضی اللّٰہ عنہ قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یا ابن اٰدم انک ما دعوتنی و رجوتنی غفرت لک علی ما کان منک و لا ابالی یا ابن اٰدم لو بلّغت ذنوبک عنان السماء ثم استغفرتنی غفرت لک یا ابن ادم لو اٰتیتنی بقراب الارض خطایا ثم لقیتنی لا تشرک بی شیئا لاتتک بقرابہا مغفرۃ (رواہ الترمذی و قال حدیث حسن صحیح)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے انسان! بے شک تو جب تک مجھ سے دعا کرتا رہے گا اور مجھ سے امید لگائے رہے گا میں تجھ کو بخشوں گا ، تیرے گناہ جو بھی ہوں اور میں کچھ پرواہ نہیں کرتا ہوں۔ اے انسان! اگر ترے گناہ آسمان کے بادلوں کو پہنچ جائیں پھر (بھی) تو مجھ سے مغفرت طلب کرے تو میں تجھے بخش دوں گا ۔ اے انسان! اگر تو اتنے گناہ لے کر میرے پاس آوے جن سے ساری زمین بھرجاوے پھر مجھ سے اس حالت میں ملاقات کرے کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناتا ہو تو میں اتنی ہی بڑی مغفرت تجھ کو نوازوں گا جس سے زمین بھر جائے۔ (ترمذی)
امام نووی ابوذکریا محی الدین رحمۃ اللہ علیہ کی شرح کے مطابق یہ اعلانِ عام مؤمن بندوں کے لیے ہے ، جو شہنشاہِ حقیقی کی طرف سے نشر کیا گیا ہے کہ انسانوں سے لغزشیں اور خطائیں ہوجاتی ہیں۔ احکام کی ادائیگی میں خامی رہ جاتی ہے، مواظبت اور پابندی میں فرق آجاتا ہے، چھوٹے بڑے گناہ اپنی نادانی سے کربیٹھتا ہے۔ اللہ پاک نے اپنے بندوں کی مغفرت کے ایسے سامان مہیا فرمائے ہیں کہ جن میں کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا۔ وہ یہ کہ عجز و انکساری کے ساتھ بارگاہِ ربّ العالمین میں قوی امید رکھتے ہوئے ’’مغفرت‘‘ کی دعا کرلیا کریں، دل میں شرمندگی اور پشیمانی کا احساس ہو کہ ہائے مجھے ذلیل و حقیر سے مولائے کانات کی جناب میں کیسی گستاخیاں ہوگئیں، کیا کیا نہ حکم کی خلاف ورزیاں ہوگئیں۔ اتنے سے عمل پر اللہ تعالیٰ سب کچھ بخش دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ لااُبالی (بخشنے پر مجھ پر کوئی بوجھ نہیں) نیرا میرا کچھ نقصان ہوگا، چھوٹے بڑے گناہوں کا بخش دینا برابر ہے، نہ بڑا بخشنے میں کوئی مشکل ہے اور نہ چھوٹا گناہ معاف کرنے میں کوئی مانع۔ گناہوں کی کثرت کی دو مثالیں ارشاد فرماتے ہوئے مؤمنین کو مزید تسلی دی ہے اور فرمایا کہ : ’’اگر ترے گناہ اس قدرہوں کہ اُن کو جسم بنایا جائے تو زمین سے آسمان تک پہنچ جائیں اور ساری فضاء کو بھر دیں تب ہی مغفرت مانگنے پر میں مغفرت کردوں گا۔ (سبحان اللہ) اور اگر ترے گناہ اس قدر ہوں کہ سارے زمین اُن سے بھر جائیں تب بھی میں بخشنے پر قادر ہوں اور سب کو بخشتا ہوں۔ تیرے گناہ زمین کو بھرسکیں گے تو میری مغفرت بھی زمین کو بھرسکتی ہے، بلکہ مغفرت تو بے انتہا ہے ، آسمان اور زمین کی وسعت اور ظرفیت اُس کے سامنے ہیچ در ہیچ ہے۔‘‘
لیکن اس ’’نویدِ مغفرت‘‘ سے جو ’’نوید مسرت‘‘ ہے یقیناًہم کو مسرور و شاداں ہونا چاہیے اور مالک الکل کے آگے سجدہ میں گر جانا چاہیے سجدۂ شکر بجالانا چاہیے، لیکن فرائض، واجبات ، سنن و نوافل ، حقوق اللہ و حقوق العباد کی ادائیگی میں تساہل نہ ہونا چاہیے۔ ’’معروفات‘‘ سے رغبت اور ’’منکرات‘‘ سے نفرت ہونی چاہیے۔ اس نعمت کو غنیمت جان کر اخلاصِ عمل، تزکیۂ نفس ، تصفیۂ قلب اور تجلیۂ روح میں اجتہاد کریں، ریاضت کریں، اور ’’بارِ امانت‘‘ جو اٹھایا ہے ’’خلیفۃ فی الارض‘‘ اس کی لاج و شرم رکھیں۔ علماء کے مطابق بندوں کے حقوق توبہ و استغفار سے بھی معاف نہیں ہوتے، ان کا ادا کرنا ضروری ہے۔ حقوق اللہ میں جو کوتاہیاں ہوتی ہیں ان کی تلافی پر بھی استقامت پیدا کریں۔ استغفروا اللّٰہ الذی لا إلٰہ الا ہو الحی القیوم و اتوب الیہ
خدایا رحم کن برمن، پریشاں دار می گردم
خطا کارم گناہ گارم بہ حالِ زار می گردم
***

Share
Share
Share