افسانہ
کبھی ہم خوبصورت تھے
حمیراء عالیہ
ریسرچ اسکالر،لکھنؤ یونیورسٹی
’’ہاں تو بتائیں کیا پرابلم ہے آپکو؟‘‘ڈاکٹر صدیقی نے اپنے سامنے بیٹھی ہوئی صحتمند سی دوشیزہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ڈاکٹرمیرے جسم میں کیڑے پڑ گئے ہیں ‘‘ اس نے اتنا بے ساختہ کہا کہ وہ ایک پل کو حیران رہ گئے۔
’’ارے تو کیا کینسر ہے آپ کو؟‘‘
’’کا ش ہوتا کم سے کم مرنے کے لئے ترسنا تو نہ پڑتا‘‘اس نے کربناک لہجے میں کہا ۔
’’دیکھیں آپ آرام سے مجھے بتائیں آپ کی پریشانی کیا ہے‘‘
’’میں نے بتایا ناں ڈاکٹر مجھے اپنے جسم میں کیڑے نظر آتے ہیں ،سفید سفید کیڑے ،وہ چلتے ہیں میرے جسم پر،مجھے کتنی اذیت ہوتی ہے میں بتا نہیں سکتی‘‘۔
ڈاکٹر نے اپنے سامنے بیٹھی ہوئی اس پیاری سی لڑکی کو عجیب سی نظروں سے دیکھا جیسے وہ اس کی دماغی حالت کا اندازہ لگا رہا ہو۔
’’پلیز! آپ یہ مت کہئے گا ،کسی دماغی ڈاکٹر کو دکھائیں،میں پاگل نہیں ہوں پلیز میری مدد کیجئے ڈاکٹر‘‘وہ تقریبا رو دی۔
’’یہ بتائیں آپ نے کب سے بھرپور نیند نہیں لی‘‘
’’مجھے یاد نہیں میں آخری بار کب سکون سے سو پائی ہوں ،میں جب بستر پر لیٹتی ہوں وہ پورے بستر پر پھیل جاتے ہیں وہ میرے پورے بدن پر چلتے ہیں اور مجھے کھاتے ہیں میں کیڑوں کی غذا بن گئی ہوں ڈاکٹر‘‘اس بار وہ بری طرح رو پڑی تو ڈاکٹر نے اسے ترحم بھری نظروں دیکھتے ہوئے چند دوائیں لکھ دیں۔
’’انہیں استعمال کریں اور نماز پابندی سے پڑھیں،مجھے لگتا ہے آپ کو جسمانی نہیں ذہنی پریشانی ہے،ا پنے اللہ سے قریب رہیں گی تو وہ آپ کو سکون دے گا ۔‘‘
’’مجھے شرم آتی ہے اللہ کا سامنا کرتے ہوئے اس کے سامنے تو پاک لوگ جا تے ہیں اور میں ۔۔۔میں کتنی بھی کوشش کروں میں پاک نہیں ہو سکتی میں بہت گندی ہوں ڈاکٹر اتنی ذیادہ کہ مجھ سے بدبو آتی ہے مجھ پر کیڑے چلتے ہیں پھر میں کیسے اس کے سامنے جا سکتی ہوں ‘‘وہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کے سسکنے لگی۔
—-
گلابی رنگت اور بھوری آنکھوں والی بے تحاشا خوبصورت سی لڑکی کا نام مریم رکھا تھا اس کے بابا نے ۔مریم یعنی پاک ،کہ بے شک ناموں کا اثر شخصیتوں پر پڑتا ہے۔چار بھائیوں کی اکلوتی بہن ہونے کے ناطے حد سے زیادہ لاڈ پیار نے اسے ضدی اور خود سر بنا دیاتھا،بڑے ہونے پر بابا نے اسے مہنگے ترین کالج میں داخل کرایا اور یہیں اس کی دوستی ہوئی سومیہ سے، وہ غیر مسلم تھی اور اس کی عادتیں بھی کچھ اچھی نہ تھی لیکن مریم کو جانے اس میں کیا نظرآیا تھا کہ وہ اس کی گرویدہ ہو گئی ،اور کب سومیہ نے اسے اپنے رنگ میں رنگ لیا مریم کو پتہ ہی نہیں چلا،پھر سومیہ کے ہی ورغلانے پر مریم نے بابا سے موبائل فون کی ضد کی تھی اور ہر بار کی طرح اس بار بھی بابا نے اس کی خواہش پوری کی تھی۔
اب سونے سے پہلے مریم کو ماما کے اس بوسے کی ضرورت نہیں تھی جو وہ روز رات کو مریم کی پیشانی پر دیتی تھیں جس کے بعد وہ آنکھیں بند کئے خیالوں کی انوکھی دنیا میں پہنچ جا تی تھی جہاں ڈھیر سارے رنگ ہوتے تھے اور بہت ساری پریاں ،جگنو اور خوبصورت تتلیاں۔وہ بدل گئی تھی کالج سے آنے کے بعد گھر میں بیشتر وقت وہ موبائل سے چپکی رہتی بھائیوں کے ہنسی مذاق اب اسے بور لگنے لگے تھے کہ اب اس کی دلچسپیوں کا محور کوئی اور ہی تھا۔
پھر سب سے پہلے اس کے چھوٹے بھائی بلال کو اس پر شک ہواتھا اورایک دن جب وہ باتھ روم میں تھی اس نے مریم کا سیل فون چیک کیا اور میسیج کے ان باکس پر جاتے ہی وہ ششدر رہ گیا اس کی معصوم بہن کب اس راہ پر چل نکلی کسی کو پتہ ہی نہیں چلا۔اس نے گھر میں سب کو یہ بات بتا دی ،ایک پل کے لئے تو بابا شاکڈ رہ گئے کسی کو بھی مریم سے یہ امید نہیں تھی۔
’’آخر کون ہے یہ ؟‘‘بابا صدمے سے باہر آئے تو ان کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔
’’رشبھ نا م ہے اس کامومو کی دوست سومیہ کا بھائی ہے‘‘،بلال نے بتایا۔
’’آج سے سومیہ اور موموکی دوستی ختم‘‘بھائیوں کا غیرت مند خون کھول رہا تھا۔لمحوں میں ان کا پیار غصے میں تبدیل ہو گیا تھا اور مریم ایک کونے میں مجرم بنی کھڑی تھی اس کے تو گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ پکڑی جائے گی۔پھر بابا نے اس کی شادی طے کردی اور مریم کے اوسان خطا ہو گئے ۔رشبھ سے اس کی دوستی اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ وہ اس کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔تب مریم نے موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے بابا سے معافی مانگ لی تھی اور شادی کے لئے بھی ہاں کر دی تھی اور بابا نے اس کے چہرے کی معصومیت پر یقین کرتے ہوئے اس کا موبائل تک واپس کر دیا تھا ۔
اپنے کمرے میں آتے ہی اس نے رشبھ کو فون کیا اور پوری صورت حال بتائی ،رشبھ پریشان ہو گیا تب مریم نے روتے ہوئے اس سے کہا کہ وہ کچھ کرے ورنہ وہ اپنی جان دید ے گی،تب رشبھ نے اسے تسلی دی ۔
’’تم رومت مریم ،میں تمہارے لئے کچھ بھی کرسکتا ہوں ،ایسا کرو تم میرے ساتھ ممبئی چلو ،وہا ں ہم دونوں شادی کر لیں گے اور آرام سے رہیں گے‘‘۔
’’رشبھ کیا تم میری خاطر مسلمان ہو سکتے ہو‘‘مریم نے آس بھرے لہجے میں پوچھاتھا۔
’’ہاں بالکل بس تم یہ بتاؤتم میرے ساتھ ممبئی چل رہی ہو یا نہیں ‘‘رشبھ نے کہا تو مریم حیران رہ گئی اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی آسانی سے مان جائے گا۔
اور پھر شادی سے صرف دودن پہلے رات کے سناٹے میں مریم خاموشی سے والدین اور بھائیوں کی عزت کو قدموں تلے روندتے ہوئے رشبھ کے ساتھ ممبئی چلی آئی ،ساتھ ہی وہ اپنی شادی کے سارے زیور بھی چرا کر لائی تھی۔
مریم کو ممبئی آئے ہوئے دو ہفتے ہو گئے تھے وہ اور رشبھ میاں بیوی کی طرح رہ رہے تھے لیکن حیرت کی بات تھی کہ رشبھ نے ابھی تک نکاح کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا تھا،ہاں مریم کے بار بار ٹوکنے پر اس نے اتنا بتایا تھا کہ وہ مسلمان ہو چکا ہے اور کچھ دنوں بعد جب اس کے کاغذات بن جائیں گے تو باقاعدہ نکاح بھی ہو جائے گا۔
پھر کچھ دنوں بعد ایک دن اس نے مریم سے تیار ہونے کو کہا اور بتایا کہ اس کے کچھ دوست ڈنر پر آرہے ہیں تب مریم نے پوچھا
’’دوست تمہارے آرہے ہیں تو میں کیوں تیار ہوؤں‘‘؟۔
’’اس لئے کہ وہ سب اپنی نئی نویلی بھابھی سے ملنا چاہتے ہیں ‘‘اس نے مومو کے گال چھوئے تو وہ شرما گئی۔
اوراس رات کی سیاہی مریم کو نگل گئی ،اسے لگا صدیاں گزر جائیں گی لیکن یہ رات کبھی ختم نہیں ہوگی رشبھ اسے اپنے دوستوں کے حوالے کر کے نجانے کہاں چلا گیا تھا اور اس کے دوستوں نے مریم کے وجود کی دھجیاں بکھیر دیں وہ اپنے ریزہ ریزہ وجود کو سمیٹ بھی نہ سکی ۔اس رات مریم کو پتہ چلا یہی رشبھ کا دھندا ہے وہ ماں بہنیں سب فرضی تھیں ،وہ دونوں تو اس کے دھندے کی ساتھی تھیں جو بھولی بھالی معصوم لڑکیوں کو ورغلا کر انہیں اس دلدل میں دھکیل دیتیں جس سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں تھی۔
اور اگلے دن اس پر ایک اور انکشاف ہوا تھا رشبھ مسلمان نہیں ہوا تھا اس نے جھوٹ بولا تھا اور تب مریم کوا حساس ہوا وہ کیا کر چکی ہے ۔یہ سوچ ہی اس کے شرم سے مرجانے کے لئے کافی تھی کہ اتنے دنوں تک وہ ایک غیر مسلم کے ساتھ رہی وہ بھی بغیر کسی رشتے کے،اسے اپنے وجود سے گھن آنے لگی،گناہ کا احساس اتنا زیادہ تھا کہ سوچ سوچ کر وہ پاگل سی ہونے لگی،اسے اپنے وجود میں کیڑے رینگتے ہوئے دکھائی دیتے۔اور آج ڈاکٹرصدیقی سے ملنے کے بعد وہ اچھی طرح جان چکی تھی کہ اسے کوئی بیماری نہیں ہے ،یہ تو اس کے لئے ایک سزا تھی اللہ کی جانب سے۔کاش والدین بچو ں کو موبائل دلانے سے پہلے ایک بار سوچ لیا کریں کہ آج جو چیز وہ کھلونا سمجھ کر دلا رہے ہیں وہ کل کو کہیں ان کے لئے بارود نہ ثابت ہو۔
اب یہ اذیت سہنا اس کی برداشت سے باہر ہو چکا تھا وہ مرجانا چاہتی تھی لیکن موت بھی جیسے اس سے ناراض تھی،اور تب اس نے خود کشی کا فیصلہ کرلیا،اس نے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ وہ حرام موت کو گلے لگانے جا رہی ہے بس وہ کسی طرح اس عذاب سے چھٹکارا پانا چاہتی تھی جو اس پر مسلط ہو گیا تھا ۔تب اس نے ایک دن نوکرانی سے چپکے سے تیزاب منگوایا کہ سارا قصور اسی خوبصورت چہرے کا تھا اس کے عوض اسے نوکرانی کو اپنی سونے کی انگوٹھی دینی پڑی۔
اور ایک رات جب رشبھ سورہا تھا وہ چپکے سے اٹھی اور تیزاب کی پوری بوتل اپنے اوپر انڈیل لی ،اس کے حلق سے ایک تیز چیخ نکلی اور پھراس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ہوش آیا تو خود کواسپتال کے بیڈ پر پایا رشبھ اسے چھوڑ کر فرار ہو چکا تھا،وہ بچ گئی تھی شاید ابھی اس کی سزا ختم نہیں ہوئی تھی ،یہیں اسے پتہ چلا کہ اس کے بھاگ جانے کے صدمے نے اس کے والدین کی جان لے لی ،وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی اسے لگا اس نے اپنے ماں باپ کو قتل کر دیا۔
اور ایک دن اس نے ہمت کرکے نرس سے آئینہ مانگا،اور اپنے چہرے پر نظر ڈالتے ہی اس کا دل بند ہونے لگا ۔اف خدایا!!اتنی بھیانک سزا۔۔۔۔۔۔مریم نے بے ساختہ آنکھیں بند کر لیں، دور کہیں ذہن میں چند الفاظ رقص کرنے لگے؛
کبھی ہم خوبصورت تھے
کتابوں میں بسی خوشبو کی مانند سانس ساکن تھی
بہت سے ان کہے لفظوں سے تصویریں بناتے تھے
آنسو اس کے گالوں پر ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرنے لگے،اب اس چہرے کو دیکھ کر کون خوشبو کی باتیں کر ے گا۔
نئے دن کی مسافت جب
کرن کے ساتھ آنگن میں اترتی تھی
تو ہم کہتے تھے امی!تتلیوں کے پر بہت ہی خوبصورت ہیں
اور اب لفظ خوبصورتی اس کے لئے خواب ہو گیا تھا وہ رو رہی تھی ،ماتم کر رہی تھی۔
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
کہ ہم کو تتلیوں کے جگنووں کے دیس جانا ہے
اور اب اسے ماتھے پہ بوسہ دینے والی ہستی بہت دور جا چکی تھی ،اب وہ آنکھیں بندکرے گی تو کبھی بھی رنگوں اور تتلیوں کے دیس نہیں جا پا ئے گی،اسے اس کے آگے جیسے کچھ یاد ہی نہیں آرہا تھا۔
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
اب اسے کوئی ماتھے پہ بوسہ نہیں دے گا ،لوگ اس سے دور بھاگیں گے،اب وہ کبھی بھی سکون کی نیند نہیں سوپائے گی کہ اسے اپنے جسم پر رینگتے کیڑوں کو برداشت کرناہوگا،اور تب اچانک ہی وہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر بری طرح رو پڑی کہ اسے اب ساری زندگی رونا تھا۔
One thought on “افسانہ ۔ کبھی ہم خوبصورت تھے – – – – – حمیراء عالیہ”
بہت عمدہ افسانہ ہے. کاش لڑکیاں ایسا قدم اٹھاتے ہوئے ایک بار اپنے ماں باپ اور مستقبل کے بارے میں سوچ لیس کریں.