افسانہ
دوسرا رخ
حمیراء عالیہ
ریسرچ اسکالر،لکھنؤیونیورسٹی
سارجنٹ بارٹن کافی دیر سے اس بچے کو دیکھ رہا تھا جو اپنی ماں سے سیب خریدنے کی ضد کر رہا تھا لیکن شایداس کی ماں کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ اپنے بچے کی اس اضافی خواہش کو پورا کر پاتی۔جنگ شروع ہو چکی تھی اور قیمتیں آسمان کو چھو رہی تھیں۔
سارجنٹ بارٹن کو یو ایس مرین جوائن کئے ہوئے دو مہینے ہو گئے تھے،گذشتہ ایک ہفتے سے فلوجہ کے اس علاقی کی سخت نگرانی کی جارہی تھی۔آج بھی معمول کے مطابق چار ٹرک پیٹرولنگ کر رہے تھے،جن میں سے تین امریکیوں کے اور ایک عراقی فوج کا ٹرک تھا۔حالات بظاہر نارمل نظر آرہے تھے،مائیکل ایک نو عمر لڑکے سے عربی میں گفتگو کرنے کی کوشش کر رہا تھا،اسکاٹ ایک دوکاندار سے الجھا ہوا تھا،ڈینئل اور ایرک ایک بلی کو پکڑ کر زبردستی چاکلیٹ کھلانے کی کوشش کر رہے تھے۔
بہت دفعہ منع کرنے کے بعد آخر اس عورت نے اپنے بچے کو جھڑک دیا۔
اس بچے کے چہرے پر پھیلتی مایوسی دیکھ کر بارٹن تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔
’’بچے کو سیب دو‘‘بارٹن نے ایک ڈالر دوکاندار کو پکڑایا،دوکاندار نے چن کر دو سرخ سیب نکالے اور بچے کو تھما دئے۔
بچے نے بڑی عجیب سی نظروں سے اپنے ہاتھوں میں پکڑے سیبوں کو دیکھا اور پھر اسے بارٹن کے منھ پر دے مارا۔بارٹن ہکا بکا رہ گیا۔
’’تم قاتل ہو،چلے جاؤ ہماری زمین سے‘‘وہ چیخ کر بولا اور دوڑتا چلا گیا۔
اتنی نفرت،اتنا غصہ ایک چھوٹے سے بچے کے ذہن میںآخر آیا کیسے؟؟؟وہ ششدر تھا۔
تو یہ بات سچ ہے ،جنگ کبھی آپ کو وہ نہیں دیتی جس کے آپ حقدار ہوتے ہیں ۔
جنگ بہت بری چیز ہے۔
اچانک پورا علاقہ فائر کی آوازوں سے گونج اٹھا،بارٹن نے مڑ کر دیکھا،کمانڈر سبھی کو ٹرک میں جانے کا اشارہ کر رہا تھا۔
کیا ہوا؟؟اس نے ٹرک میں بیٹھتے ہوئے ڈینئل سے پوچھا۔
’’ہماری چیک پوائنٹ پر حملہ ہوا ہے‘‘
وہ سب تیزی سے چیک پوائنٹ پہنچے۔
’’چیک پوائنٹ پر حملہ کدھر سے ہوا ‘‘؟؟ابھی وہ سب یہ سوچ ہی رہے تھے کہ بارٹن نے ایک تیز دھماکے سے اپنے آگے والے ٹرک کو فضا میں بلند ہوتے دیکھا۔وہ وحشت زدہ ہو کر اپنے ٹرک سے نیچے کودا،اس کے آگے والی ٹرک کی جگہ پر ایک بڑا سا سیاہ گڑھا تھا،بارود اور خون کی مہک سے اس کا ذہن چکرانے لگا۔
’’بارٹن ،نکلو یہاں سے،یہ ٹریک(جال) ہے‘‘مائیکل کی تیز چیخ اسے ہوش کی دنیا میں کھینچ لائی۔
اس سے قبل کہ وہ مائیکل کی بات پر عمل کرتا اس نے خود اپنے ٹرک کو بھی اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھا اور یکدم اسے محسوس ہوا جیسے اس پر جہنم کے دروازے کھول دئے گئے ہوں ،اس نے اپنی بائیں ٹانگ پر درد کی ایک تیز لہر محسوس کی اور وہ گرتا چلا گیا۔دھماکے نے اس کے بائیں پیر کو ٹخنوں سے الگ کر دیا تھا اس کا پورا جسم جھلس گیا تھا ،حیرت انگیزطور پر وہ مرا نہیں تھانہ ہی بیہوش ہوا تھا،وہ خود پہ قابو پانے کی پوری کوشش کر رہا تھا،یہ بارٹن کا پہلا آپریشن تھا اور اس نے بد ترین تباہی دیکھی تھی۔
اس کے چاروں طر ف گاڑیوں کے ٹکڑے اور فوجیوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں ۔فلوجہ کی سخت زمین خون سے نرم ہورہی تھی،بارود کی ناگوار مہک اسے پاگل کر رہی تھی،وہ یہاں سے بھاگ جانا چاہ رہا تھا لیکن مجبور تھا،وہ ریزہ ریزہ ہو چکا تھا۔پتہ نہیں وہی زندہ بچا تھا یا کوئی اور بھی ۔۔۔۔۔۔اس نے پوری قوت جمع کر کے اپنی گردن گھمائی اور تھرا گیا۔
کچھ فاصلے پر مائیکل کی لاش پڑی ہوئی تھی،مائیکل جسے یونٹ کے ساتھی ہیرو کہہ کے پکارتے تھے،وہ نرم مزاج لڑکا جو فطرت سے پیار کرتا تھا،اس کے خوبصورت چہرے کو دھماکے نے مسخ کر دیا تھا،اس کا بازو اس کے شانے سے جدا ہو چکا تھا،بے اختیار بارٹن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ،وہ ہرگز اس موت کا حقدار نہیں تھا جو اسے ملی تھی۔
بارٹن نے نظری گھمائیں ،اس کے دائیں بائیں ہر طرف آدمیوں کی لاشیں تھیں،لیکن نہیں وہ آدمی نہیں تھے ۔۔۔۔۔۔وہ سب لڑکے تھے،خواب اور خواہشیں رکھنے والے لڑکے جنہیں ان کے ملک نے جنگ کی دلدل میں دھکیل دیا تھا۔
ولیم اسکاٹ جو انجینئیر بننا چاہتا تھا اب کچھ فاصلے پر خاک و خون میں نہایا ایڑیاں رگڑ رہا تھا،ڈینئیل اور ایرک، جو اپنا میوزک بینڈ بنانا چاہتے تھے موت کی دھن نے انہیں سلا دیا تھا،ڈینئیل کی انگلیاں بڑی مہارت سے پیانو بجاتی تھیں مگر جنگ نے اس کے ہاتھوں میں بندوقیں تھما دیں ۔
اور وہ خود سارجنٹ فلپ بارٹن اس وقت اتنی لاشوں کے درمیان اپنی موت کا انتظار کر رہا تھا،دو مہینے قبل جب وہ یہاں آیا تھا تب اس کی پیاری بیوی ایمی نے ایک ننھے بچے کو جنم دیا تھا،اس نے ابھی تک اپنے بیٹے کو نہیں دیکھا تھا۔اسے یاد آیا گزرے ہوے سال کا کرسمس۔۔۔۔۔۔جب ان دونوں نے ساری رات سمند کے کنارے گزاری تھی،بارٹن نے ایمی سے ساری زندگی ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا تھا،اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہمیشہ ا یمی کی حفاظت کرے گا،وہ اس کی زندگی تھی جو اب اس سے دور۔۔۔بہت دور تھی۔
تب ہی اچانک اسے یاد آیا چند دنوں بعد کرسمس آنے والا تھا،اور اس نے ابھی تک ایمی کو کرسمس کاڑد نہیں بھیجا تھا،اسے احساس ہوا ایمی بہت شدت سے اس کے کارڈ کا انتظار کر رہی ہوگی،وہ ہر روز آنکھوں میں انتظار اور خوف لئے پوسٹ مین کی راہ تکتی ہوگی۔
کیا عراقی بیویاں بھی اسی طرح اپنے شوہروں کے خطوط کا انتظار کرتی ہونگی؟؟اس نے سوچا۔لیکن نہیں ۔۔۔شاید انہیں اس تکلیف سے نہیں گزرنا پڑتا ہوگا۔
جیسس کرائسٹ پلیز!میری مدد کرو۔میں ایمی کی آس کو توڑنا نہیں چاہتا۔میری مدد کرو پلیز۔اس نے دایاں بازو ہلانے کی کوشش کی اور وہ کراہ اٹھا۔وہ ایمی کو ایک آخری خط لکھنا چاہتا تھا۔
بارٹن نے اپنے سر کو ذرا سا گھمایا،کچھ دور پر ایک فاختہ مری ہوئی تھی اس کی گردن اس کے جسم سے الگ ہو گئی تھی اور اس کا بایاں پیر خون سے لتھڑا ہوا تھا،بارٹن کو وہ فاختہ بالکل اپنے جیسی محسوس ہوئی۔
’’پیاری فاختہ!کیا تم میر ی مدد کروگی‘‘؟؟
’’ہاں کیوں نہیں سارجنٹ‘‘۔
’’مجھے ایمی کو خط لکھنا ہے، بتاو میں کیا کروں‘‘ ؟؟
’’تم میرے پروں کا استعمال کر سکتے ہو‘‘۔
’’اوہ شکریہ ننھی فاختہ،لیکن میں کیا لکھوں‘‘؟
’’تم اسے لکھو یہاں کی جلتی ہوئی آگ کے بارے میں ،فضا میں ہمہ وقت رہنے والی بارود کی خوشبو کے بارے میں ، ڈر سے سہمے ہوئے بچوں کے بارے میں ،اور اپنی ختم ہوتی ہوئی زندگی کے بارے میں‘‘۔
’’بس کرو ننھی فاختہ، میں مرنا نہیں چاہتا،میں زندہ رہنا چاہتا ہوں اپنی پیاری بیوی کے ساتھ،اپنے بیٹے کو کھیلتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں ،میں ان سے بہت محبت کرتا ہوں ،میں ساری زندگی ایمی کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں ‘‘۔
’’تم نے اپنی زندگی خود چنی ہے بارٹن۔معصوم عراقیوں کی زندگی تباہ کرنے کے بعد تم خود اپنے گھر پر کیسے آرام کر سکتے ہو؟تم چاہتے تو اپنے باپ کی طرح ایک عام شہری کی زندگی بسر کر سکتے تھے،لیکن یہ خاک اور خون تم نے خود اپنے لئے منتخب کیا ہے‘‘۔
’’کیوں کہ مجھے اپنے ملک پر یقین ہے مجھے نہیں معلوم کیوں؟لیکن میں اس پر یقین کرتا ہوں ،حالانکہ بدلے میں آج تک مجھے کچھ نہیں ملا‘‘۔
’’تمہارا اندھا یقین تمہارے ڈر کو نہیں مٹا سلتا سارجنٹ‘‘۔
’’ٹھیک ہے میں بہت خوفزدہ ہوں کیوں کہ میں جوان ہوں اور اتنی جلدی مرنا نہیں چاہتا‘‘۔
’’تو اس ڈر کو محسوس کرو سارجنٹ،عراقی بھی اتنی جلدی مرنا نہیں چاہتے،وہ بھی اپنے بچوں کو ہنستا کھیلتا دیکھنا چاہتے ہیں ۔وہ بھیء اپنے گھروں میں سکون سے جینا چاہتے ہیں ۔لیکن تم لوگوں نے ہماری زندگی جہنم بنا دی سارجنٹ۔اس بچے کے ڈر کو محسوس کرو جسے دھماکوں کی آواز سونے نہیں دیتی۔اس ماں کے درد کو محسوس کروجو خود اپنے بچوں کی لاش کو غسل دیتی ہے ۔اس باپ کے کرب کو محسوس کروجو اپنے ہاتھوں سے اپنی اولاد کومنوں مٹی تلے دفنا دیتا ہے۔تم لوگ جنگ نہیں قتل کرتے ہو،محسوس کرو سارجنٹ‘‘۔
بارٹن کو بے اختیار اس مری ہوئی فاختہ سے خوف آنے لگا،اس نے بے ساختہ اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔بے شک یہاں جو کچھ ہو رہا تھا اسے جنگ کا نام نہیں دیا جا سکتا تھا،کیونکہ جنگ دو طرفہ ہوتی ہے ،،ٹریننگ کے دوران اسے عراقی دہشت گردی کی جو تصویر دکھائی گئی تھی ،یہاں کی صورت حال اس سے بالکل مختلف تھی،اسے افسوس ہوا اپنے ملک کی غلط بیانی پر لیکن اس ساری تصویر میں اس کی اور اس جیسے چند اور فوجیوں کی جگہ کہاں تھی؟؟ چند لمحوں بعد اس نے آنکھیں کھولیں ،فاختہ اب بھی اپنی جگہ پڑی ہوئی تھی،ساکت و جامد۔
’’خدا کے لئے مجھے بتا دو میں اسے کیا لکھوں‘‘؟اس نے التجا کی۔
’’تم بس اسے وہی لکھو جو تم اسے آخری بار کہنا چاہتے ہو‘‘۔
بارٹن نے اس مری ہوئی فاختہ کا ایک پر نوچا اور اپنے پیر سے بہتے خون میں اسے ڈبو دیا۔پھر اس نے پاس گرے ہوئے راکٹ کے چھوٹے سے ٹکڑے کو اٹھایا ،وہ راکٹ جو تباہی اور بربادی کا سامان تھا،جس نے بارٹن اور اس کی بٹالین کو لوتھڑوں میں تبدیل کر دیا تھا ،اسی راکٹ کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے پر سارجنٹ بارٹن اپنے خون سے محبت کا پیغام لکھ رہا تھا۔
اور پھر جب امریکی فوجی اپنے ساتھیوں کی لا شیں اٹھانے آئے تو انہوں نے دیکھا بارٹن کے ہاتھوں میں خون سے سرخ ایک پر دبا ہوا تھااور وہیں پر راکٹ کا ٹوٹا ہوا ٹکڑا گرا ہوا تھا،فوجی نے اسے اٹھا کر دیکھا،اس پر تحریر تھا:
’’میری ایمی!یہاں اس زمین پر میں تنہا سو رہا ہوں لیکن تمہاری محبت قیامت تک میرے ساتھ رہے گی‘‘
فلپ بارٹن۔