شخصیت سازی
سیاہی
ماریہ ماہ وش
ابھی اپنے چھ سالہ بیٹے کو ایک قصہ سنا رہی تھی، قصہ سناتے سناتے کئ باتیں ذہن میں آئیں لیکن ان باتوں کا تعلق بیٹے کو سمجھانے سے قطعئ نہیں تھا۔ان باتوں کا تعلق بڑوں سے یعنی آپ اسے اور مجھ سے تھا۔ان باتوں کو سمجھنے سے پہلے قصہ پڑھ لیں جو میں بیٹے کو سنا رہی تھی۔
ایک مرتبہ کا ذکر ہے ایک ماں اپنے پانچ سال کے بیٹے کو ایک عالم دین کے پاس لے گئ اور اس کی شاگردگی میں کچھ عرصےکے لئے چھوڑ آئ۔
عالم دین نےبچے کو پہلے دن ایک ٹوکری دی جس میں کوئلے رکھے جاتے تھے۔ ٹوکری مکمل سیاہ تھی۔ بچے کو ٹوکری دی اور کہا جاؤ اور قریب دریا سے پانی ٹوکری میں بھر کر لاؤ۔ بچے نے استاد سے کہا اس میں پانی نہیں رہ سکے گا کیونکہ اس میں سوراخ ہیں آپ دوسرا برتن دیں میں اس میں پانی لے آؤں گا لیکن استاد نے کہا نہیں پانی تم اسی میں لاؤ۔
بچہ گیا پانی بھرا اور واپس پہنچا تو ٹوکری خالی تھی، استاد نے کہا جاؤ اسے بھر کر لاؤ۔
بچے نے عرض کیا استاد محترم آپ دوسرا برتن دیجئے میں اس میں پانی اس میں لے آؤں۔
استاد کا پھر وہی حکم تھا کہ ٹوکری میں پانی بھر کر لاؤ۔
بچہ چار و ناچار گیا پانی بھرا۔۔۔ جب پہنچا تو ٹوکری پھر سے خالی تھی۔ استاد نے پھر حکم دیا کہ جاؤ اور پانی لاؤ۔ بچے نے تھوڑی حجت کی لیکن استاد کا حکم بہرحال سر آنکھوں پہ تھا۔ دریا پہ گیا پانی بھرا اور واپسی کی راہ لی۔ پہنچنے پہ صورتحال وہی تھی۔ ۔۔ ٹوکری خالی تھی اور نراش بھی تھا اور تھکا ہوا بھی کہ اتنی محنت کررہا ہوں اور حاصل وصول ندارد۔
تھک کر ٹوکری ایک طرف رکھی اور بیٹھ گیا۔
استاد نے پیار سے قریب بلا کر بٹھایا اور سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے دریافت کیا کہ تم تھک گئے ہو صبح سے محنت کرتے کرتے؟ بچے نے اثبات میں سر ہلایا۔
استاد نے دریافت کیا کہ کیوں؟ بچے نے جواب دیا کہ میں صبح سے کئ بار پانی بھر کر لانے کی کوشش کئے جارہا ہوں آپ کے حکم پہ جبکہ میں جانتا بھی تھا کہ ٹوکری میں پانی نہیں لایا جاسکتا، لیکن ماں کا حکم تھا کہ استاد کا ہر حکم پورا کروں لیکن یہ سب بے سود رہا۔
استاد نے کہا نہیں یہ سب بے سود نہیں رہا۔
بچے نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ استاد نے کہا کہ میں بھی تمھاری طرح جانتا ہوں کہ ٹوکری میں پانی بھر کر نہیں لایا جاسکتا اگر پانی بھرنا ہی مقصود ہوتا تو میں تم کو دوسرا برتن دیتا لیکن تم کو پہلا سبق دینا مقصد تھا۔ بچے کی آنکھوں میں چمک تھی۔ استاد نے مزید کہا کہ ٹوکری پہ ذرا ایک نظر ڈالو۔ بچے نے دیکھا اور پوچھا جی استاد محترم میں نے دیکھ لی۔ استاد نے پوچھا کیا تم کو ٹوکری میں کوئ فرق نظر آیا؟ بچے نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے استاد کی جانب سوالیہ دیکھا استاد نے کہا جب میں نے تم کو پہلی بار ٹوکری دی تھی تو کیا وہ سیاہ نہیں تھی؟ بار بار پانی بھر کر لانے کی کوشش میں پانی تو نہ آسکا اور تم تھک بھی گئے۔
لیکن اس تمام مشق میں ٹوکری کی سیاہی دور ہوگئ اور وہ صاف ہوگئ۔
یہاں تک بچے کی سمجھ میں بات آگئ لیکن اس میں سبق کیا تھا وہ نہ سمجھ آیا۔ استاد نے کہا کہ کل جب تم قرآن کریم کی تلاوت کررہے تھے توتم نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ قرآن عربی میں ہے اور جب تک سمجھ نہیں آئے گاپڑھنے کافائدہ نہیں ہے۔ توبچے بات کوغور سے سنو بے شک قرآن عربی میں ہے اور سمجھ بھی نہیں آتا ہوگا لیکن روز پڑھنے سے دل کی سیاہی اور سختی ختم ہوجاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ٹوکری میں پانی لانا بے سود نہ ہوا اور بار بار کی مشق نے اس ٹوکری کی سیاہی کو دور کردیا۔ تو سوچو بچے جو کلام اللہ ہے کیا اس کوبناسمجھے پڑھنے سے فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا؟
یہاں تک تو تھی کہانی جو میں نے اپنے بیٹے کو سنائ۔ سوالات جو ذہن میں آئے وہ یہ تھے کہ ہم جو روزانہ اپنے مسائل کارونا روتے ہیں کیا یہ سب سیاہی کی وجہ سے ہیں؟ کیا اللہ کو بھولنے کی وجہ سے نہیں ہیں؟ بچے کو کھلونا ملے تو وہ خوش ہوتا ہے۔ اور دل کو کلام اللہ ملے تو سکون میں رہتا ہے۔ آزمائش شرط۔