محمد دانش غنی کا منفرد رنگ و آہنگ
ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلی
ڈگری کالج میں آنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں سال کے چار موسموں کے بجائے ایک ہی موسم ہوتا ہے اور وہ ہے سمینار کا موسم ۔ پورے سال سمینار کی بارش کہیں نہ کہیں ہوتی رہتی ہے اور اس کی گھن گرج ہمیں آواز دیتی رہتی ہے ۔ چنانچہ ۲۸ ؍ جنوری ۲۰۱۷ء کو گورنمنٹ ڈگری کالج بودھن ضلع نظام آباد ، تلنگانہ میں ایک روزہ قومی سمینار میں شرکت کا موقع ملا ۔ شہ نشین پر مہمانِ خصوصی کے جھرمٹ میں ایک انتہائی سنجیدہ ، باوقار ، با ذوق اور خوش لباس جوان رونق افروز تھا ۔
افتتاحی تقریب کے بعد مقالہ کی نشست میں وہ جوان سامعین کی کرسی پر جلوہ افروز ہوا ۔ خوش بختی سے میرے مخلص دوست ڈاکٹر محمد عبدالقدوس ( اسسٹنٹ پروفیسر ، گورنمنٹ سٹی ڈگری کالج حیدر آباد ) نے اس سے میرا تعارف کرا دیا کہ انہوں نے بچوں کے ادب پر تحقیق کی ہے ۔یہ سنتے ہی نو جوان میری طرف متوجہ ہوا اور اپنا تعارف کرایا کہ میں عبدالرحیم نشترؔ کا فرزند ہوں اور میرا نام محمد دانش غنی ہے ۔ میں نے انہیں بتایا کہ ڈاکٹر عبدالرحیم نشترؔ صاحب تو بچوں کے ایک اہم شاعر ہیں ۔ ابھی جو مقالہ میں پڑھنے جارہا ہوں اس میں بھی ان کا ذکر ہے ۔ اس کے بعد ان کی خصوصی توجہ مجھے حاصل ہوگئی ۔انہوں نے نشترؔ صاحب سے فون پر بات بھی کرائی ۔ نشترؔ صاحب کے لئے میں نے اپنی دوسری کتاب ’’ بچوں کے ادب کی تاریخ ‘‘ ان کے فرزند کے حوالے کی ۔ البتہ خواہش کے باوجود پہلی کتاب ’’ بچوں کا ادب اور اخلاق : ایک تجزیہ ‘‘ دینے سے قاصر رہا ۔ سمینار کے اختتام پر جب میں واپس سدی پیٹ لوٹنے لگا تو محمد دانش غنی نے اپنی کتاب ’’ رنگ و آہنگ ‘‘ جو تنقیدی اور تحقیقی مضامین پر مشتمل ہے نہایت ہی خلوص و محبت کے ساتھ مجھے عطا کی جس کو پڑھنے کے بعد اس کتاب پر لکھنا ضروری سمجھتا ہوں لیکن یہ میں پہلے ہی بتادوں کہ محمد دانش غنی کی طرح نہ میرا مطالعہ وسیع ہے اور نہ میرا کوئی رنگ و آہنگ ہے بلکہ میری بے رنگ اور بے ادب تحریرسے کچھ لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں ۔ محمد دانش غنی کے مضامین ملک و بیرون ملک کے ادبی رسالوں اور جریدوں میں شائع ہوچکے ہیں جن میں ماہنامہ نگار کراچی ، سہ ماہی دستک جرمنی اور ماہنامہ پرواز لیوٹن وغیرہ شامل ہیں ۔ گویا ان کی تحریریں سرحدوں کو عبور کرکے دور دراز ممالک کی اردو بستیوں میں اپنی فتح مندی کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں ۔
محمد دانش غنی کے مضامین کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں ادب ، صحافت ، تاریخ اور تنقید سے خصوصی دلچسپی ہے اور وہ اپنی معلومات ، مطالعات اور تاثرات کو لفظوں کے حسین پیکر میں تراشنے کا سلیقہ رکھتے ہیں ۔ اردو ادب کے علاوہ انہوں نے لائبریری سائنس سے بھی پوسٹ گریجویشن کیا ہے ۔ انہوں نے اس مجموعے میں کتب خانے سے متعلق دو مضامین ’’ کتب خانے اور ان کے فرائض ‘‘ اور ’’ ہندوستان میں کتب خانوں کی تحریک ‘‘ شامل کئے ہیں ۔ نیز بابائے لائبریری سائنس ڈاکٹر ایس آر رنگاناتھن کی شخصیت پر آخر میں شامل مضمون بھی اسی زمرے میں داخل ہے ۔پہلے مضمون میں کتب خانوں کی تقسیم ، کتابوں کی درجہ بندی ، فہرست سازی ، رسائل کے مضامین کی تلخیص اور ناظمِ کتب خانے کے فرائض وغیرہ پر جامع بحث کی گئی ہے ۔ دوسرے مضمون میں کتب خانوں کی تاریخ اور آغاز و ارتقا ، لائبریری سائنس کی تعلیم ، بابائے لائبریری سائنس ڈاکٹر ایس آر رنگاناتھن کی خدمات اور کارناموں کو بیان کیا گیا ہے ۔ آخر میں اسلامیات اور مشرقی علوم و ادب کی کتب کی درجہ بندی اور فہرست سازی پر سید محمود حسن قیصر امروہی کے کارناموں کی تفصیل بیان کی گئی ہے ۔ ہمارے ملک میں دینی مدارس کا وسیع جال ہے اور وہاں علم کے حقیقی شیدائی اور قارئین کی اچھی خاصی تعداد موجود رہتی ہے ۔ ضرورت ہے کہ دینی مدارس کے کتب خانے سید محمود حسن قیصر امروہی کی اسکیم اور درجہ بندی کے خاکے سے استفادہ کریں جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شائع ہوچکا ہے ۔ آج کے حالات کے تناظر میں ہندوستان میں ازسرِ نو کتب خانہ کی تحریک چلانے کی ضرورت ہے ۔ بیرونی ممالک میں بس اسٹینڈ ، ریلوے اسٹیشن ، ہوائی اڈے اور دوا خانوں وغیرہ میں لائبریری قائم ہے ۔ ضرورت ہے کہ پورے ہندوستان میں عوامی مقامات اور تفریح گاہوں میں بھی عوامی کتب خانے قائم کئے جائیں ۔ کتب خانے کی تاریخ پر محمد دانش غنی کی اچھی نظر ہے جس کا اندازہ ذیل کی تحریر سے کیا جاسکتا ہے :
’’ ہندوستان میں کتب خانوں کی تاریخ کا فی پرانی ہے ۔ نالندہ کا کتب خانہ اتنا بڑا تھا کہ دیڑھ ہزار اساتذہ اور نو ہزار طلبا کی علمی ضروریات کو پورا کرنے کے علاوہ بیرون ہند کے لوگوں کو بھی فیض پہنچایا کرتا تھا ۔ مسلمانوں کے ہندوستان آنے کے بعد جوں جوں علمی سرگرمیاں بڑھتی گئیں کتب خانوں کی بھی خاطر خواہ ترقی ہوتی گئی ۔ مغل بادشاہوں نے اپنے علمی و ادبی ذوق و شوق سے شاندار کتب خانے قائم کئے ۔ سلطان جلال الدین خلجی نے اپنے محل میں ایک شاندار کتب خانہ بنایا اور امیر خسرو کو اس کا مہتمم یا ناظمِ کتب خانہ مقر کیا ۔ دورِ جدید میں ریاستوں نے بھی کتب خانے قائم کئے جیسے حیدر آباد کا کتب خانہ ، رامپور اور بھوپال کے کتب خانے وغیرہ وغیرہ ۔ ‘‘
( ہندوستان میں کتب خانوں کی تحریک ، ص ۳۳ )
حیدر آباد میں سلطنتِ آصفیہ کے دور میں کتب خانۂ آصفیہ قائم کیا گیا جسے عالمی شہرت حاصل تھی جو آج اسٹیٹ سنٹرل لائبریر ی کے نام سے افضل گنج میں موجود ہے ۔ دوسرا کتب خانہ سالار جنگ میوزیم لائبریری ہے ۔ ان کے علاوہ جامعہ عثمانیہ کے احاطہ میں جامعہ کا کتب خانہ اور مخطوطات کا کتب خانہ موجو د ہے ۔ حیدر آباد کے کتب خانوں میں نادر و نایاب مخطوطات اور کتب کا وسیع ذخیرہ موجود ہے جس پر مفصل مضمون لکھا جاسکتا ہے ۔
مذکورہ بالا دونوں مضامین اور کتاب کا پہلا مضمون ’’ آزادئ ہند میں اردو صحافت کا کردار ‘‘ سے اندازہ ہوتا ہے کہ محمد دانش غنی کو اپنے اسلاف کے علمی ، ادبی اور تہذیبی ورثہ کا شعور اور ادراک ہے اور ان کا دل ان کی بازیافت اور حقیقت پسندانہ جائزہ لینے اور نئی نسل کو اپنے اسلاف کے روشن کارناموں سے واقف کرانے ، ان میں خود اعتمادی ، خود آگہی پیدا کرنے ، ان کی ذہنی و فکری تربیت اور جدید و قدیم کے صالح اقدار کو ان میں پیوست کرنے کے لئے بے چین ہے ۔ چنانچہ شعرا کی کہکشاں میں ان کی نظرِ انتخاب سب سے پہلے ایم نسیم اعظمی پر جاتی ہے جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ :
’’ ایم نسیم اعظمی تقلیدی شاعر نہیں ہے بلکہ ایک حقیقی شاعر ہیں جنہوں نے فکر و فن کی راہ پر اپنے تجربے اور مشاہدے کو اپنا کر اپنا ایک الگ مقام بنایا ہے ۔ ‘‘
( ایم نسیم اعظمی کا شعری مزاج ، ص ۴۵ )
ایم نسیم اعظمی ، روشن ضمیر ، راہی فدائی ،عبداللہ کمال ، مجروح سلطانپوری ، مظہر امید اور ڈاکٹر شفیق اعظمی کو چھوڑ کر باقی تمام شعرا و مصنفین کا تعلق ریاستِ مہاراشٹر کے علاقے ودربھ یا کوکن سے ہے ۔ محمد دانش غنی نے اپنے مضامین کے ذریعے ان قلم کاروں کو حیاتِ جاودانی عطا کی ہے اور انہیں اعتبار و استناد سے نوازا ہے ۔ جن میں شاہد کبیر ، مدحت الاختر ، عبدالرحیم نشتر ، سید یونس ، وکیل نجیب ، محبوب راہی ، منصور اعجاز ، قمر الدین خورشید اور عاجز ہنگنگھاٹی شامل ہیں ۔ محمد دانش غنی کی تنقید کا نمونہ دیکھئے جو انہوں نے شاہد کبیر کی شاعری کے بارے میں کہا ہے :
’’ مندرجہ بالا اشعار کی مانوس فضا اپنی سوندھی مہک کی وجہ سے آج بھی بھلی معلوم ہوتی ہے ۔ شعر کی تازگی اور شگفتگی اسی کا نام ہے کہ وہ صبح و شام کے تغیر کے باوجود اپنی تاثیر قائم رکھتا ہے ۔ شاہدؔ کا دل نشیں اسلوب اور روزمرہ کی زبان اور دیہی زندگی کے علائم سے سجے ہوئے جاں گداز متحرک پیکر اور خوبصورت منظر اپنے وقت کی رومانی شاعری کا اعادہ کرتے ہوئے مروجہ شاعری کے زبان و اسلوب سے بہت کچھ نکھرے ہوئے لگتے ہیں ۔ اس شاعری میں زمین کی خوشبو ہے ، یہ شاعری اپنے اطراف سے جڑی ہوئی ہے اور اپنے ماحول سے رچی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ شاعر کے اپنے تجربوں کے مخصوص رویے اور ردِ عمل کا اظہار بھی کرتی ہے ۔ ‘‘
( شاہد کبیر : ودربھ کی ایک جدید آواز، ص ۵۴ )
مذکورہ بالا اقتباس سے محمد دانش غنی کے تنقیدی اسلوب کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کی تنقید بہ یک وقت اسلوبیاتی ، تاثراتی اور نفسیاتی نہج لئے ہوئے ہے ۔ تنقید کا کام ادب کی تشریح و تفہیم ، اس سے حظ و لطف اندوزی ، اس کی لفظی و معنوی خوبیوں اور خامیوں کو خلوص و سچائی کے ساتھ پرکھناہے اور محمد دانش غنی نے پورے خلوص و ہمدردی اور انصاف کے ساتھ اپنی ذمہ داری اد ا کی ہے ۔
محمد دانش غنی نے عبدالرحیم نشترؔ کو دو حیثیت سے متعارف کرایا ہے ۔ جدید شاعر کی حیثیت سے ، جس مین ان کی جدید غزلوں اور نظموں کا کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ دوسرے بچوں کے شاعر کی حیثیت سے ۔ نشترؔ صاحب دونوں حیثیتوں سے کامیاب شاعر ہیں ۔ وہ ودربھ کے جدید شاعروں میں پہلی معتبر آواز ہیں ۔ انہوں نے اپنی غزل میں عصری معنویت کو نئے طریقے سے پیش کیا ہے جس میں ایک نئے جمالیاتی معیار کی کشش ہے اور ان کی نظمیں بھی آج کے سلگتے ہوئے آتش فشاں مسائل کی ترجمانی کرتی ہیں ۔
عبدالرحیم نشترؔ بچوں کے شاعر کی حیثیت سے بھی امتیازی خصوصیت کے مالک ہیں ۔ انہوں نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ان کی ذہنی نشوونما کے لئے بہترین شعری ادب تحریر کیا ہے ۔ ان کی نظموں کے چار مجموعے ’’ بچارے فرشتے ‘‘ ، ’’ کوکن رانی ‘‘ ، ’’ موتی چور کے لڈو ‘‘ اور ’’ گل چھرے ‘‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آ چکے ہیں ۔محمد دانش غنی کے خیال میں بچوں کے لئے انہوں نے ہلکی پھلکی اور عام زبان استعمال کی ہے ۔ ان کی نظموں میں نغمگی کے ساتھ روانی بھی ہے ۔ ان کی نظموں کے موضوعات بچوں کو اخلاقی تعلیم دینے کا وسیلہ ہیں ۔ محمد دانش غنی نے بچوں کے ایک اہم شاعر شفیق اعظمی کو بھی متعارف کرایا ہے ۔ان کے مطابق شفیق اعظمی صاحب بچوں کو فطری اور نفسیاتی انداز میں ان کے معصوم و سادہ ذہن میں اچھی اچھی اور مفید و نیک باتیں پہنچانے کے ساتھ ساتھ ان باتوں پر عمل کی ترغیب و تحریک بھی دیتے نظر آتے ہیں ۔
دورِ حاضر میں بچوں کے سب سے بڑے اور مقبول و معروف ناول نگار وکیل نجیب کو بھی محمد دانش غنی نے اپنی کتاب میں ’’ سچا اور اچھا فنکار ‘‘ کے عنوان سے جگہ دی ہے اور انہیں کرشن چندر اور سراج انور کے بعد بچوں کا تیسرا اہم ناول نگار قرار دیا ہے جو حق بجانب ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ وکیل نجیب صاحب نے بچوں کے ناول نگار کی حیثیت سے قابلِ رشک خدمت انجام دی ہے ۔ وہ بچوں کی ناول نگاری کی تاریخ میں اپنی تخلیقی قوت اور فنی صلاحیت کا بھر پور استعمال کر کے امتیازی مقام حاصل کر چکے ہیں ۔ انہوں نے تاحال بچوں کے لئے تحیر و استعجاب سے بھر پور سولہ ناول لکھ کر ادبِ اطفال کی جدید تاریخ میں قابلِ فخر اور لائقِ تحسین کارنامہ انجام دیا ہے ۔ وکیل نجیب صاحب کی ناول نگاری کے تعلق سے محمد دانش غنی رقم طراز ہیں :
’’ وکیل نجیب کے ناولوں سے ا ن کی تخلیقی قوت کا پتہ چلتا ہے ۔ و ہ پاس پڑوس سے کہانی چنتے ہیں ۔ ان کی نگاہ اپنے ماحول کا جائزہ لیتی رہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ناولوں میں ان کا اطراف ایک جیتے جاگتے منظر کی طرح نمودار ہوتا ہے ۔انہوں نے اپنے ناولوں میں تخلیقی قوت اور فنی صلاحیت کا پورا پورا استعمال کیا ہے ۔ اس لئے وہ فضا آفرینی اور تاثر جگانے میں زیادہ کامیاب ہیں ۔ ان کی کہانیاں پڑھتے وقت محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی فلم چل رہی ہے اور سین ایک کے بعد ایک نظروں کے سامنے آتے چلے جارہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ناول کا ہر باب تجسس جگاکر قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ۔ ‘‘
( سچا اور اچھا فنکار ، ۷۳ )
مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ محمد دانش غنی نے بچوں کے چند ادیب و شاعر کو متعارف کرا کے ایک مقدس فریضہ اور جرأت مندانہ کام انجام دیا ہے ۔ ان سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ بچوں کے ایک ممتاز شاعر کے لائق فرزند کی حیثیت سے بچوں کے بہت سے اہم اور گمنام قلم کاروں کو ادبی و تنقیدی دنیا سے متعارف کرائیں گے ۔ انہوں نے اپنی اس کتاب میں مظہر امید کی افسانہ نگاری اور سرسید احمد خان کا اتحاد پسندانہ رویہ کا بھی بھر پور جائزہ لیا ہے ۔
غرض ’’ رنگ و آہنگ ‘‘ کے تمام مضامین اختصار و جامعیت کے حامل ہیں جو محمد دانش غنی کی پختہ کاری ، گہرے تنقیدی شعور اور لفظیات پر غیر معمولی قدرت کی دلیل ہیں ۔ پوری کتاب حسنِ تنقید اور استحسانِ ادب کی عمدہ مثال ہے جو فن کاروں کی لفظی و معنوی خوبیوں کو خلوص و صداقت کے دلکش رنگ و آہنگ کے ساتھ اجاگر کرتی ہے ۔ رنگ و آہنگ کے لیے مصنف سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
Prof. Mohd.Danish Gani
Dept. of Urdu
Gogate Jogalekar College
Ratnagiri – 415612
Mobile No. 9372760471
***
ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلی
Dr Syyed Asrar-ul-Haque Sabeli
Dept. of Urdu
Govt. Degree and P.G. College,
Siddipat – 502 103 (Telangana)
Mobil No. 09346651710