وطن کی عظمت کاخواب تعبیر کرنے والی شخصیت
مولانا محمد علی جوہر
عزہ معین ۔سنبھل
جب ہم کسی اہم شخصیت پرگفتگو کرتے ہیں تو ان کی تمام تر خصوصیات کو ایک جگہ رقم کر دینا کسی طور ممکن نہیں ہوتا ۔ پھر جب وہ شخصیت محمد علی جیسی جامع حیثیت کی حامل ہو تو اس دشواری کا احساس ضرور رہتا ہے کہ کون سے پہلو کو نظر انداز کیا جائے اور کون سے پہلو کو سپرد قلم کیا جائے ۔مولانا قائد ملت ،صاحب طرز ظرافت نگار،مفکر اعظم ،بے باک مقرر، متقی اور دین دار شاعر، مجاہد آزادی اورمدبر صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین مبلغ بھی تھے ۔ الغرض کہاں کہاں اور کیا کیا نمایاں کریں ۔لیکن یہاں تحقیق کا تقاضا ہے کہ ایک ہی پہلو پر روشنی ڈالی جائے ۔ عہد حاضر کے ماحول کی مناسبت اور ان کی شخصیت کے حوالے سے حب الوطنی پر بات کرنا بلا شبہ بڑا روشن پہلو ہے ۔
دور حیات آئیگاقاتل قضا کے بعد
ہے ابتداء ہماری تیری انتہا کے بعد
مولانا محمد علی جوہرؔ تاریخ آزادی میں متعصب اذہان کا فراموش کردہ ایک اہم نام ہے۔ رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر ؔ رام پور کے متوطن تھے ۔ ۱۰ دسمبر ۱۸۷۸ء کو ان کی ولادت ہوئی ۔ بہادری وشجاعت میں خاندانی جاہ جلال مشہور تھا ۔ان کے دادا علی بخش کوہنگامہ غدر میں انگریزوں کی جان بچانے کے سبب مرادآباد میں بہت بڑی جاگیر بطور بخشش ملی تھی ۔ ان کے والد عبد العلی خاں صاحب رامپور کے نواب یوسف علی خاں ناظم ؔ کے مقربین میں سے تھے ۔محمد علی کے بچپن میں ہی ان کے والد کی وفات ہو گئی تھی اور تعلیم وتربیت کی ذمہ داری ان کی والدہ آبادی بانو بیگم عرف’’ بی اماں ‘‘نے بہ حسن و خوبی انجام دی۔پہلے بریلی پھر علی گڑھ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعدانکے بھائی مولانا شوکت علی نے انھیں انگلستان بھیج دیا ۔ وہاں سے ۱۸۹۸ء میں بی اے کی ڈگری لے کر واپس آئے پھر کچھ دن رام پور اور بڑودہ میں ملازمت کے سلسلے میں رہائش اختیار کی۔۱۹۱۰ ء میں ملازمت ترک کر دی اور کلکتہ تشریف لے گئے وہاں سے ہفتہ وار انگلش اخبار کامریڈ جاری کیا ۔ان کی سیاسی تحریروں کی وجہ سے حکومت نے انھیں نظر بند کر دیا۔ رہا ہونے کے بعد یہ صادق اور بے باک ادیب تحریک خلافت اور تحریک عدم تعاون وغیرہ میں پیش پیش رہے ۔۱۹۳۱ء میں باوجود بیمار ہونے کے اپنی قوم و ملک کی فلاح وبہبود کو مد نظر رکھتے ہوئے گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے انگلستان تشریف لے گئے او ر وہاں بھی انگریزوں سے وطن کا مطالبہ کرتے ہوئے فرمایا ۔
’’ اگر تم انگریز میرے ملک کو آزاد نہ کروگے تو میں واپس نہیں جاؤں گا اور
تمہیں میری قبر بھی یہیں بنانا ہوگی۔‘‘۱
اس کے کچھ عرصے بعد آپ نے لندن میں ہی انتقال فرمایا ۔
مولانا کی ہی انفرادی شخصیت تھی کہ جس نے جد و جہد آزادی کو وطن کی حدود سے نکال کر بر صغیر ایشیا اور یوروپی ممالک تک پہنچایا ۔جوہر نے اپنی تحریر و تقاریر سے ہندوستان میں ایسی روح پھونکی کہ ہندوستان میں ہمت و حوصلہ ،جرا ت وخود اعتمادی اور غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کا مصمم ارادہ ایمان کی پختگی کی طرح مستحکم ہو گیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ انسان صرف اللہ کی غلامی کے لئے پیدا ہوا ہے ۔محمد علی کا ماننا تھا کہ ملک کی بقا اور ترقی کے لئے مختلف مذاہب کے ماننے والے افراد کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جانا چاہئے ۔انھوں نے مسلمانوں کو حب الوطنی اور اسلامی پس منظر اور آیات قرآنی کی روشنی میں فرائض کو یاد دلایا ۔
اور کس وضع کی جویا ہیں عروسان بہشت
ہیں کفن سرخ شہیدوں کا سنورنا ہے یہی
ہو نہ مایوس کہ ہے فتح کی تقریب شکست
قلب مومن کا مری جان نکھرنا ہے یہی
نقد جاں نذر کرو سوچتے کیا ہو جوہرؔ
کام کرنے کا یہی ہے تمھیں کرنا ہے یہی
مولانامحمد علی جوہر کی تمام زندگی قید وبند اور قربانیوں کی بے مثال داستان ہے ۔ یہ فضا ان سے اتنی مانوس ہے کہ انھیں اب کسی اور طرف تسکین ملنے کی ا مید نہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ قید میں ہم آزادی حاصل کرنے کے لئے آئے ہیں لیکن ڈر ہے کہیں اسی کی خو نہ بن جائے ۔اور اب تو ملک و مذہب کا عشق ہماری ذات سے وابستہ ہے یہ چرس یا کوئی اور نشہ نہیں ہے کہ کم ہو جائے۔ ان کے اشعار دیکھئے ۔
گراں ہو اب تو شایدسیر گل بھی
کچھ ایسے ہو گئے خوگر قفس کے
ملی ہے قید ، آزادی کی خاطر
نہ پڑ جائیں کہیں دونوں کے چسکے
گھٹیں کیا حبِ ملک و عشقِ مذہب
نشے ہیں یہ بھی کیا چانٖڈو چرس کے
محمد علی جوہر ایک عظیم الشان مدبر ،منفرد اور دور اندیش مفکر اور بڑے مہذب انسان تھے۔ مذہب سے وابستگی ان کی گھٹی میں ملی تھی ۔یہ ان کی تحریروں و تقا ریر میں صاف طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔مذہب پر مستحکم یقین کے سبب ہی حب الوطنی کے جذبے پروان چڑھے تھے۔وہ خوب جانتے تھے کہ اپنے وطن سے محبت اور وفاداری اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایمان کا ہی ایک جزو ہے۔
گول میز کانفرنس میں جوہر نے تقریر میں اعلان کیا۔
’’میں کہتا ہوں کہ خدا نے انسان کو بنایا اور شیطان نے قوموں کو ،قومیت ،وطنیت ، انسانوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیتی ہے،لیکن مذہب انسانوں کو ایک دوسرے سے وابستہ کرتا ہے۔‘‘ ۲
حب الوطنی مولانا کی زندگی کا ایمان تھی اور انھوں نے اس کا ثبوت عملی طور پر دیا اپنے مذہب ،عقائد اور نظر یات سے اوپراٹھ کر انھوں نے ملک کو مقدم جانا ایک مرتبہ ایک مکتوب بنام مولانا نثار احمد صاحب کو لکھتے ہوئے کہتے ہیں ۔
’’ حج کے لئے جانے کی نیت رکھتا ہوں ڈر موصل کا ہے اگر وہاں جنگ چھڑ گئی تو ہندوستان میں رہ کر کام کرنا حج پربھی مقدم ہوگا ۔‘‘۳
وطن پرستی کے جذبے سے لب ریز ان کے اشعار لائقِ غور و فکر ہیں ۔اس مجاہد آزادی نے اپنا تمام تر سرمایہ وطن کے لئے قربان کردیا یہ حقیقت ہے کہ وہ ایک ایسے بطل جلیل تھے کہ ہندوستان کی تاریخ میں ان جیسی متحرک شخصیت کا ملنا ناممکن ہے ان کاشعر دیکھئے ۔
دل و جاں سونپ چکے ہم تجھے اے جان جہاں
اب ہمیں خوف ہی کیا اپنی گرفتاری کا
وطن کے لئے قربانی کا حوصلہ اور اصلاح معاشرت کی فکر ان کے کلام سے جھلکتی ہے۔ ملک کی خدمت کے لئے تمام اہل وطن کو پیغام دیتے ہوئے کہتے ہیں ۔
دوڑائیے وہ روح کہ ہر ذرہ جاگ اٹھے
اجڑے ہوئے وطن کو گلستاں بنائیے
ان کی وطن پرستی غیر ممالک میں بھی سند قائم کر چکی ہے۔ سب سے زیادہ قابل توجہ وہ واقعہ ہے جو مفتی فلسطین امین الحسینی صاحب نے ظاہر فرمایا ہے ایک روز رات کو بہت دیر کے بعدامین الحسینی صاحب کا مسجد الحرام کے اندر خانہ کعبہ کے پاس سے گزر ہوا دیکھتے کیا ہیں رات کی اس تاریکی میں غلاف کعبہ پکڑے ہوئے ایک شخص خانہ کعبہ میں ،صاحب خانہ سے مصروف راز و نیاز ہے ۔اس کی آواز بیٹھی ہوئی ہے گریہ گلوگیر ہے ،گردن سجدے میں جھکی ہوئی ہے اور وہ گڑگڑا کررو رو کر عرض کررہا ہے کہ اے کارساز عالم مجھے تو جہنم میں جھونک دے،میری کسی آرزو کو پو را نہ کر،لیکن ایک ان آنکھوں کے سامنے احیاء خلافتِ راشدہ کرکے وہ مبارک اور مسعود زمانہ پھرواپس دلادے جس کو کانوں نے سنا ہے مگرآنکھیں اب تک محروم ہیں ۔ہندوستان کو آزادی عطا فرما ،تاکہ وہ پنجہ اغیار سے آزاد ہو کر اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے۔مفتی صاحب کا بیان ہے کہ میں حیرت سے یہ عجیب وغریب منظر دیکھ رہا تھا جب اس شخص نے اپنی پیشانی سجدے سے اٹھائی تو دیکھتا کیا ہوں کہ یہ تو محمد علی ہے جس کا نورانی چہرہ آنسؤوں سے تر ہے ۔
اس اقتباس سے پتہ چلتا ہے کہ مولانا و طن کے کتنے دلدادہ تھے ۔دعاؤں میں جو سپردگی وطن ہے اسے صرف اللہ والا ہی محسوس کر سکتا ہے جسے جنت اور جہنم کی صحیح معلومات ہو ، اس کی نعمتوں کا اعتراف ہو۔انھوں نے اسلام کو کبھی کسی ایک ملک کی حدود تک قید نہیں کیا اور نہ ہی ان کا یہ نظریہ اسلام ہے کہ ہند یا پاکستان تک اس کے تقدس کو قائم کیا جا سکتا ہے۔انھوں نے واضح کیا کہ مسلمان اپنے مذ ہب کی پابندی کرتے ہوئے کبھی بھی اس بات کو برداشت نہیں کریگا کہ اس کا پڑوسی بھوکا سوئے ، یا ایک مسلمان کی ذات سے اس کے ہم سائے کو کوئی بھی کسی بھی طرح کی مشکل اٹھانی پڑے ۔کیونکہ ہم سائے کو تکلیف دینے والے کے لئے شریعت میں فرمایا ہے کہ اس کی شفاعت نہیں کی جائے گی ۔ہندو مسلم بھائی چارے کے لئے ان کی زندگی ایک شفاف آئینہ ہے۔انھوں نے اپنے مضامین ،اپنی تقاریر وغیرہ کے ذریعہ عوام ہند کو اس طرف متوجہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ انھوں نے ایک مضمون ہمدرد میں لکھا تھا ۔
’’اسلام ہر گز حبِ وطن اور غیر مسلموں کے ساتھ آزادی اور حریت اور بنی نوع انسان کی خدمت میں تعاون کرنے کے خلاف نہیں اور اس معنی میں ہر مسلم کو ملک پرور محب وطن بننا لازمی ہے ۔ا ور خدا نہ کرے کہ وہ دن آئے کہ مسلمانانِ ہند…..غیر مسلم بھائیوں سے نفرت کو اپنے دل میں جاگزیں ہونے دیں ۔‘‘ ۴
الغرض مولانا ایک ایسے محب وطن ہیں جن کا ذکر ہماری تاریخ کے صفحات میں ایک غازی اور مجاہد آزادی کی حیثیت سے شامل ہے ۔ان کی شخصیت لاتعداد خوبیوں کی حامل ہے ۔اور ان کی حب الوطنی قابلِ فخر ہے ۔ ہر عہد کی حریت پسند عوام کے لئے ہمیشہ ہی تقلید کا سبب بنی رہے گی
——-
مآخذات۔
۱۔ کلام جوہرؔ ۔ از ۔عبد الماجد دریا بادی
۲۔ سیرت محمدعلی ۔رئیس احمد جعفری ندوی
۳۔ سیرت محمد علی
۴۔ سیرت محمد علی
——-
Izza Moin
۲ thoughts on “محب وطن مولانا محمد علی جوہر – – – – عزہ معین”
تحریک خلافت سیاسی نقطہ نظر سے ایک فاش غلطی تھی
بہت خوب