دورحاضرکا المیہ
اردو زبان کا تلفظ اور تحریری لاپرواہی
عزہ معین ۔سنبھل
اردو زبان کے ارتقاء کے متعلق سنجیدہ اور غیر سنجیدہ مختلف نظریات قائم کئے گئے ہیں ۔ ناقدین ومحققین نے تواریخی اسناد کی بنیاد پر زبان اردو کی پیدائش کے لئے مختلف علائق کے بابت اپنے اٹل فیصلے صادر کئے ہیں ۔لیکن تمام بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اردو ،دکن ،پنجاب ،بہار ،ا ڑیسہ یا پھر نواح دہلی میں بہرحال اس کی پیدائش اسی ملک میں ہوئی۔ یہ ایک بین الاقوامی زبان ہے ۔عالمی زبانوں میں یہی زبان ہے جس نے ہر ملک کی ثقافت اور رنگارنگی سے عناصر حاصل کئے ۔کم و بیش تمام ہی زبانوں سے الفاظ اس زبان میں شامل کئے گئے ہیں ۔ جس کی وجہ سے اس زبان میں لچک اورشگفتگی ہے۔ یہ ایک مستقل زبان کی حیثیت رکھتی ہے ۔لیکن مشاہدے سے یہ بات ثابت ہے کہ مقبولیت اپنے پہلو میں اختلافی عناصرکو سمیٹ لیتی ہے ،وہی تعصبانہ رویہ ہمیشہ اردو کے ساتھ رہا ہے ۔ دنیا کی کسی زبان میں اردو جیسی حلاوت اور شیرینی نہیں ہے ۔کیا خوب کہا گیا ہے ۔
وہ اردو کا مسافر ہے یہی پہچان ہے اس کی
جدھر سے بھی گزرتا ہے سلیقہ چھوڑ جاتا ہے
اردو زبان کے ساتھ جو غیر منصفانہ رویہ اختیار کیا جا رہا ہے ، اس کی طرف خود اردو ادب سے منسلک اشخاص کی بے توجہی جس پیمانے پر بڑھ رہی ہے وہ قابل افسوس ہے ۔ آج اردو جو بھی حالت اختیار کر رہی ہے ہم سبھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کی وجہ کیا ہے ۔اردو پڑھنے والے سمجھنیے والے عاشقان اردو اس کے لئے کیا قربان کر ر ہے ہیں ۔اردو کو ختم کرنے کے لئے عالمی پیمانے پر کیا تگ و دو کی جا رہی ہے ۔اسے ایک مخصوص فرقے کی زبان کا نام دے کر سوتیلا کردار اس کے سامنے روا رکھاجا رہا ہے ۔ اب اگر ہم خود ہی اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے تو اس مغلیہ زبان کو کس انجام پر دیکھنگے ،اس بات کی وضاحت کے لئے الفاظ کی ضرورت نہیں ۔باہر کے لوگ تو جو کر رہے ہیں وہ توکر ہی رہے ہیں ۔لیکن کیا ہم خود اس زبان کا حق ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں؟یقیناًہیںِ ، بس تھوڑ ا اس کی طرف التفات کی نظر چاہئے ۔ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے جن کے لئے دور حاضر میں کچھ محبان اردو کاوشیں کر رہے ہیں ۔مثلا اردو رسائل و اخبارات کی خریداری ،اپنے گھر وں میں اردو کے مطالعے کا ماحول بنانا،آس پاس ،معاشرتی طور پر اس کے رواج کے لئے زبان اردو کا استعمال وغٰیرہ اس کے علاو ہ سب سے ضروری اور اہم بات ؛ آج ہم دیکھ رہے ہیں ،کہ جو کتابیں شائع ہو رہی ہیں وہ برقی ہوں، سرکاری اسکولوں میں مفت تقسیم کی جارہی نصابی کتابیں ہوںیا پھر نجی اداروں میں رائج نصابی کتابیں ،الغرض ان میں زیادہ تر کتابوں کی کمپوزنگ کس قدر خراب ہے ،تحریری غلطیوں میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ اردو سے پوری طرح واقفیت نہ ہونا ، یا پھر حصول روزگار کے لئے کیا جا رہا کمپوزنگ کا کام ہو۔ دوسرے ذرائع پہ نظرکریں تو ہم سبھی آنلائن مطالعے کی اہمیت سے اچھی طرح واقف ہیں ۔معتبر ویب سائٹس کے قطع نظر متعدد ویب ایسی ہیں جنھیں تشکی دیا جا رہا ہے لیکن خاطر خواہ دھیان نہیں دیاجا رہا۔نتیجہ تحریر میں بے پناہ غلطیاں ہو رہی ہیںَ ۔ آج جبکہ ہمارے وسائل اور سہولیات بمقابلے ماضی کے ہر طرح کے تقاضوں سے مبرا ہیںِ ،ہم جدید تر آلات سے مزین ہیںِ ،ٹائپنگ کرنا بہت آسان ہو گیا ہے پھر کیوں ہمارے جدید ایڈیشن اس قدر اغلاط سے بھرے ہوئے ہیں ۔
آپ پرانی کتابیں دیکھئے بمشکل تمام ایک آدھ غلطی مل سکے گی،اور جتنا میرا مطالعہ ہے تو وہ بھی نہیں ۔پرانی کتابیں راقم الحروف کے مطالعے میں رہی ہیں لیکن وہاں ایسی فاش غلطیاں نہیں ملتیں ۔اب کمپوزنگ آسان ہے ،اریز کرنے کی کوئی دشواری نہیںِ ،’’گوگل کی ،،سے استفادہ کر سکتے ہیں ،قلم دوات سے لکھنے کی جو مشقت تھی ،اس کا تصور ہی احساس کے لئے کافی ہے کہ کتنا وقت اور دقت طلب مسلہ رہا ہوگا ،آج یہ سب ماضی کی پارینہ باتیں بن چکی ہیں ۔جدید تر سہولیات نے ہمیں کاہل اور سست بنا دیا ہے۔جہاں تلفظ خراب سے خراب تر ہوتا جا رہا ہے وہیں محرر کی لاپر واہیاں حد سے تجاوز کرتی جا رہی ہیں ۔نیٹ پر اپلوڈ کی جا رہی کتابوں میں یہ غلطیاں عام بات ہو تی جا رہی ہے ۔یہی بات ہمارے لئے باعث فکر ہے ۔کیونکہ مستقبل میں ای کتابوں کو جو اہمیت حاصل ہونے والی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔جس طرح سے لیپ ٹاپ ،موبائل ،انٹڑنٹ کا استعمال بڑھ رہا ہے وہ اس بات کا پیش خیمہ ہے کہ اب ہمارے عہد میں طالب علم کی کتابوں کی الماریاں نہیں بلکہ پاکٹ لائیبریری ہوا کرے گی ۔کتابوں کو پڑھنے کے لئے اب صرف ڈیٹا خرچ کیا جائیگا ۔اگلی نسل کا ادب آنلائن دستیاب ہوگا ۔جس کے لئے بہت ساری ویب سائٹ اپنے کام کا آغاز کر چکی ہیں ۔ لیکن جو بزرگ اردو کی فلاح و بہبود چاہتے ہیں ان میں بیشتر انٹر نٹ سے نابلد ہیں اور اس المیہ سے بہت حد تک ناواقف بھی ۔مسنجنگ (پیغامات ) کے ذرائع ،سوشل سائٹس پرٹائپنگ وغیرہ کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ آج بہت سارے الفاظ اپنی اصل ہییت کو تبدیل کر چکے ہیں ۔بڑے بڑے عالم فاضل سوشل میڈیا گروپس میں بنا روک ٹوک کے الفاظ کا غلط تلفظ اور املا تحریر کیا جا رہا ہے،اس ضمن میں اور بھی غلطیاں دھڑلے سے رائج ہو رہی ہیں۔حال ہی میں لفظ متاثر کو مطاصر لکھ کر ایک صاحب نے اپنی دانست میں امپریس کرنے کی کوشش کی ۔ہمارے وضاحت کرنے پر کہنے لگے یہ اردو ہے اس میں عربی کی طرح لفظ اثرسے متاثر اور تاثر وغیرہ قاعدے قانون کی پاسداری ضروری نہیں ۔ہمیں بہت غصہ آیا۔ اور موصوف دوستوں کی فہرست سے کالعدم کی سیر کو بھیج دئے گئے بہر حال یہ صرف یہیں تک نہیں ہے بلکہ ہر جگہ حالت محبوب زوال پذیر ہے ،والی شکل نظر آررہی ہے ۔ اردو میں دوسری زبانوں کے الفاظ سیدھے سیدھے رائج نہیں کئے گئے ہیں۔بلکہ بگڑی شکلیں خود بہ خود در آئی ہیں ۔ لیکن اب وہ ایک معتبر حیثیت اختیار کع چکی ہیںَ ۔لیکن تبدیل ہوتا تلفظ و تحریری املا غلط سمت کی طرف لئے جا رہا ہے ۔
ساغر خیامی کیا خوب کہ گئے ہیں ؛ طوطے کو ت سے لکھا تھا خانہ خراب نے ۔
ایک طرف اگر ہم پرانی کتابوں میں دیکھیں مثال کے طورپہ علامہ شبلی کی تصنیف مقالات شبلی میں بہت سارے الفاظ کی شکل و صورت جدا ملیگی مثلا ۔ان کو ،’’اون،،اس کو،’’ اوس،،جس میں سے کچھ الفاظ اب بھی رائج ہیں جیسے ؛’’خوش ‘‘،’’بالکل‘‘ وغیرہ ۔تو ہو سکتا ہے اب رواج بدل جائے ۔دور انہی الفاظ کو اپنا لے ۔عوامی رواج بھی اپنی الگ پہچان کے ساتھ قائم ہو ہی جاتے ہیں۔یہ بھی ناممکن نہیں ہے کہ اردو کا املا جس قدر اب تک بدل چکا ہے آگے کواور بھی شکل بدل کر سامنے آئے ۔لیکن پھر ہم اپنی زبان کا حسن کھو دینگے ۔جس طرح ہم کسی ماہر اردو کی زبان سن کر مبہوت ہو جاتے ہیں ۔شدید خواہش ہوتی ہے کہ کاش ہم بھی اردو کو اس کی اصل شکل میں سیکھ لیں ،اس طرح آنے والی نسلوں میں ہماری زبان کے لئے کشش نہیں بچیگی ۔تبدیلی کی صورت میں الفاظ کی اہمیت کم ہی ہوگی۔
اس صورت حال سے نبرد آزمائی انتہائی ضروری ہے ۔ہمیں سب سے پہلے نئی ٹائپ شدہ کتابوں پہ نظر کرنی ہے ،اگر کوئی کتاب کمپوز نگ کرکے اپلوڈ کی جا رہی ہے تو کیا وجہ ہے کہ حد درجہ تحریری غلطیاں مل رہی ہیں ؟ بلا شبہ محرر کی لا پرواہی۔یا کاہلی ۔جس کی وجہ سے محرر کمپوزنگ کرنے کے بعد نظر ثانی کرنے کی ناقابل محسوس محنت کو طبیعت پر بوجھ سمجھتا ہے۔یا پھر اسے احساس ہی نہیں ہے کہ یہ غفلت کتنی بڑ ی الجھن کا پیش خیمہ ہے ایسی تحریریں نظر انداز کرنے والے اصحاب قاری کے لئے تو اکتاہٹ کا کام کرتے ہی ہیںِ ،آنے والے وقت میں محقق کے لئے جو جال بچھا رہے ہیں ان کے خراب نتائجی تصور سے بھی انجان ہیںِ ، بلا شبہ یہ طالب علم کے لئے بہت بڑی درد سری کا سامان ہے ۔ مستقبل کی فکر تو وہی جانیں ۔دراصل تو یہ حالیہ قارئین کے لئے ہی زہر کے مماثل ہیں نصف سے زائد طلباء اپنے ادبی ذوق کی تسکین ،اپنی نصاب سے متعلق کتابوں کا مطالعہ انٹرنٹ کے ذریعہ (آنلائن یا پی ڈی ایف کتابیں ) کرتے ہیں ۔ کیونکہ انٹرنٹ کی سہولت ہر قصبے ،ہر گاؤں کو میسر ہے لیکن لائیبریری کی دستیابی صرف بڑے شہروں تک محدود ہے ۔اور ہر شہر میں مطلوبہ کتاب بھی دستیاب ہونا مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے ۔جہاں کچھ شہروں میں کتب خانے ہیں بھی تو ان کی حالت اس قدر خستہ ہے کہ بندہ کتاب چھوتے ہوئے بھی کانپ جائے ۔ویسے بھی اگر پورے ضلع میں ایک لائیبریری مل جائے تو غنیمت ہے ۔بک اسٹال بھی گاہ گاہ ہی نظر آتے ہیں جن پر نصابی کتابیں خریدنے والوں کی تعداد کتنی ہوتی ہے یہ آپ اور ہم سب جانتے ہیں ۔اب وہ زمانہ ہے کہ لوگ کتابوں پر سرمایہ خرچ کرنے کی جگہ لباس کو ترجیح دیتے ہیں ۔آج ہمارے نزدیک وضع ہی قابل فخر و احترا م سجھی جاتی ہے ۔یہ ہی ماحول و معاشرے کا تقاضہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ تعلم جیسے شعبے میں جسے خدمت خلق کا استعارہ مانا گیا ہے ،بد عنوانی پھیل گئی ہے ۔عوامی خدمت کے لئے کئے جا رہے کام نظر کا دھوکہ ثابت ہو ریے ہیں ۔ایسی شخصیات گاہ گاہ ہی ملتی ہیں جو بنا کسی جواز کے خدمت خلق میں مشغول ہیں ۔جن پیشوں کو محض عوامی فیض کے لئے مخصوص کیا گیا ہے وہ بھی مادی دنیا کی حصولیابی میں مصروف ہیں ۔
الغرض کوئی بھی شعبہ ہو اس کے کام کرنے والے سرمائے کی حصولیابی کو ہی اول مقصد بنائے ہوئے ہیں ۔اور زیادہ سے زیادہ کام،کم وقت میں انجام دینا تاکہ اس کے بدلے زیادہ سے زیادہ رقم بنا سکیں اب اس جلد بازی میں جو کام بھی انجام دیا جاتا ہے وہ اپنے اندر بہت ساری خامیوں کو لئے ہوئے ہوتا ہے ۔سو تحریری غلطیاں اپنے عروج پر ہیں ۔بہرحال اس سب کے نتائج بہت برے ہیں جو بظاہر نظر بھی آرہے ہیں ۔دھیرے دھیرے معیاری زبان کوجاننے سمجھنے والی شخصیات گزرتی جا رہی ہیں ۔ نئی نسل اردو کی جگہ انگلش کے مطالعہ میں غرق ہے اردو سے بے بہرہ اس کی اغلاط کو تو کیا سمبھالینگے خود اردو پڑھ لیں یہی بہت ہے۔اب جو تھوڑے بہت واقفیت رکھنے والے صاحبان ہیں،انھیں تلفظ کی پریشانی کے ساتھ ساتھ محرر کی جلد بازی یا لاپرواہی کا بھی خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔دوسری طرف آج ٹکنالاجی کے زمانے میں بڑھتی مصروفیت بھی اسکی ایک اہم وجہ ہے ۔لیکن اگر ہم مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی بھی کام کرتے ہیں تو اس طرح کی اغلاط سے بہت حد تک محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ کہنا چاہونگی کہ جو حضرات اردو جاننے والے ہیں تھوڑا احتیاط کرلیںِ ، زیادہ نہیں تو۲۴ گھنٹے میں صرف ادھ گھنٹہ اس جہان کی سب سے شیریں زبان کے لئے وقف کر دیں۔ نئی کمپوزنگ کی اغلاط پر توجہ دیں ۔اور آخر میں ان سے مخاطب ہوں جو ویب سائٹس کے آنر ہیں۔آنلائن کتابیں صحت متن میں کسی بھی طرح کی لاپرواہی سے مبرا ہوں کوشش کریں کہ نطر ثانی کے بنا کوئی بھی کتاب اپلوڈ نہ کی جائے ۔ بے حد شکریہ۔
—-
izza moin
sambhaL 2443O2
M.A.URDU,JRF
۳ thoughts on “اردو زبان کا تلفظ اور تحریری لاپرواہی – – – – – عزہ معین”
شاندار تحریر
ماشاءاللہ۔۔۔۔عزہ معین صاحبہ نے بڑے سلیقہ سے اردو زبان و ادب سے متعلق اہم نکات پیش کءے ہیں۔۔۔خوشی ہوئ مضمون کو پڑہ کر۔۔۔۔اللہ سلامت رکھے
Thanks