افسانہ : کشمکش حیات
ڈاکٹر تہمینہ عباس
امینہ باجی کی انتہائی نازک حالت اور آئی سی یو میں ہونے کا سن کر ماہین کے ہاتھ پاؤں ہی پھول گئے۔ ابھی سال بھر پہلے ہی تو ان کا بریسٹ کینسر کا علاج مکمل ہوا تھا۔ کیموتھراپی کے دوران ان کی پلکیں، بال، بھنویں سب جھڑ گئی تھیں۔ محض 32 سال کی عمر میں وہ انتہائی عمر رسیدہ نظر آنے لگی تھیں۔ خدا خدا کرکے کیمو پوری ہوئی ان کے دو انتہائی سیریس آپریشن بھی ہوئے۔ ادویات کا کورس مکمل ہونے تک ایک قیامت تھی جو رفتہ رفتہ گھر کے مکینوں پر سے گزر رہی تھی۔ پچھلے سال ہی امینہ سے پانچ سال بڑی سفینہ جسے پانچ سال قبل کینسر تشخیص ہوا تھا اور علاج مکمل ہونے پر پانچ سال بعد جب دوبارہ ان کے وجود میں کینسر نے پنجے گاڑھے تو وہ پہلے ہی جھٹکے سے سنبھل نہ سکیں اور دو سال قبل اپنے خالق حقیقی سے جاملی تھیں۔
اتفاق سے امینہ اور سفینہ غیر شادی شدہ تھیں۔ گھر میں پیسے کی ریل پیل تھی اور اچھے وقتوں میں دونوں بہنوں کی گورنمنٹ جاب ہوگئی تھی۔ گھر کا ماحول بھی پرسکون تھا۔ چار بھائی تین بہنوں پر مشتمل یہ گھرانہ ایک آئیڈیل گھرانہ تھا۔ بڑی بہن اور بڑے بھائی کی وٹے سٹے میں خاندان کے ایک گھر میں شادی ہوگئی تھی۔ دوسرے نمبر کے بھائی کی خالہ زاد سے شادی ہوئی تھی جو گھر والوں کے مزاج سے بالکل الٹ ہونے کی وجہ سے ابتدائی دور میں ہی میکے جا بسی تھیں۔ جب کہ سب سے بڑے بھائی امان اپنے بیوی بچوں کے ساتھ امریکہ شفٹ ہوگئے تھے۔
بڑی بہن کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹی ماہین عطا کی تھی جس کی پرورش امینہ اور سفینہ دونوں کے ہاتھوں ہوئی تھی ۔کیونکہ بہنوئی ایک غیر ملکی ایئرلائن میں تھے اس وجہ سے بہن کو اکثر دوسرے ملک میں رہنا پڑتا، مگر ہر دوسرے تیسرے ماہ وہ پاکستان چکر لگا لیا کرتی تھیں۔ بڑی بہن آصفہ کی تمام تر توجہ اپنی بیٹی ماہین کی پرورش کی طرف رہتی۔ انہیں کبھی خیال نہیں آتا تھا کہ چھوٹی دونوں بہنیں جو اسکول ٹیچرز ہیں ان کی شادی کہیں ہوجائے۔ دو چار دفعہ پڑھے لکھے مگر معاشی طور پر تنگ دست لڑکوں کے خاندان سے رشتے آئے تو وہ بھائیوں کے معیار پر پورے نہیں اترے۔ بھائیوں کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اتنا پیسہ دیا ہے۔ یہ بہنیں ہم پر بھاری نہیں ہیں۔
بڑی بہن کی شادی ہونے تک اور اس کے کچھ عرصے بعد تک کی امینہ اور سفینہ خاندان کے شادی بیاہ میں آتی جاتی رہیں۔ عمدہ سے عمدہ کپڑا پہننا، اپنے آپ کو ٹیپ ٹاپ میں رکھنا اور ہر دم خوش نظر آنا بھی معاشرے کا منہ بند نہیں کرسکا۔ اسکول جاتیں تو غریب گھروں سے تعلق رکھنے والی خواتین اساتذہ طنز کرتیں کہ ایسے پیسے کا کیا اچار ڈالو گی جو تمہیں شوہر کی رفاقت نہ دے سکا۔ یا پھر تمہاری ماں تمہاری کمائی کھانا چاہتے ہیں یا بھائی بے غیرت ہیں جو بہنوں کی شادی ہی نہیں کرنا چاہتے وغیرہ۔ ان باتوں سے عاجز آکر سفینہ قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کے لیے تیار تھیں۔ ان سے بڑے دو بھائی بھی اس وجہ سے شادی نہیں کررہے تھے کہ کل کو یہ نہ سننا پڑے کہ جوان بہنوں کے ہاتھ پیلے کرنے کے بجائے بھائی خود بیاہ رچاکر بیٹھ گئے۔
خاندان کی تقریبات میں دونوں بہنوں نے اسی وجہ سے آنا جانا چھوڑ دیا تھا کہ خاندان میں ان کی ہم عمر لڑکیوں کی شادی کو عرصہ گزر چکا تھا۔ اب تو ان کے بچے بھی جوان ہورہے تھے۔ سفینہ کو شروع شروع تو سینے میں درد اور گلٹی کی شکایت ہوئی اور سینے پر براؤن داغ پڑنے لگے۔ تکلیف بڑھنے پر ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے اسپتال کے بریسٹ کینسر ڈیپارٹمنٹ میں میموگرام، بائسپی اور ٹیسٹ کے لیے بھیج دیا۔ جہاں پہلے ہی مرحلے پر کینسر ڈائیگنوس ہوگیا۔ کینسر کا سن کر سفینہ کو ایک دھچکا سا لگا۔ پہلے جو تھوڑی بہت امید بھی تھی کہ شاید عمر کے کسی حصے میں شادی ہوجائے گی اب وہ رہی سہی امید بھی ختم ہوگئی۔
جذباتی آسودگی نہ ملنے کی وجہ سے سفینہ تقریباً 20 سال کی عمر سے ہی گھٹن کا شکار تھیں۔ دل میں یہ خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نفس کو جوڑے جوڑے پیدا کیا ہے۔ ان کا جوڑ بھی کہیں نہ کہیں ہوگا۔ مگر بریسٹ کینسر کی خبر نے تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ بھائیوں نے انتہائی لگن سے ہاسپٹل سے علاج کے مراحل پورے کیے۔ ہر کیمو کے بعد سفینہ کو ایسا محسوس ہوتا کہ اب ان کا دم نکل جائے گا۔ مگر خدا کو زندگی منظور تھی۔ ان کا دل چاہتا کہ کوئی تو ہو کہ جس کے سینے میں سر چھپا کر وہ اپنی زندگی کے اس المیے پر آنسو بہاسکیں۔ اسکول کی ساتھی اساتذہ میں سے کئی ایک نے ان سے بات تک کرنی بند کردی تھی کہ کہیں یہ چھوت کی بیماری تو نہیں جو انہیں لگ جائے۔ بال آئی برو اور پلکیں گرنے سے ان کی ہیئت اور بھی زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ علاج مکمل ہونے تک انھوں نے خود کو کمرے کی حد تک مقید کرلیا تھا۔ بلا ضرورت بھائی بہنوں سے بھی گفتگو نہ کرتیں۔
چھوٹی بہن، امینہ جو جذباتی گھٹن کے حوالے سے اسی کشتی کی سوار تھی۔ اسے علم تھا کہ سفینہ اب زندہ نہیں رہنا چاہتیں۔ سفینہ کو اب زندگی کا کوئی مقصد ہی نظر نہیں آتا۔ علاج مکمل ہونے کے بعد ڈاکٹرز نے پانچ سال تک میڈیسن استعمال کرنے اور ہر تین ماہ بعد اپنا چیک اپ کروانے کی تلقین کی تھی۔ مگر سفینہ کو پانچ سال تک کھائی جانے والی دوائی سے کوئی رغبت نہیں تھی۔ نہ تو انہیں کھانا اچھا لگتا نہ پہننا نہ لوگوں سے ملنا۔ شاید شوہر اور بچے ہوتے تو وہ ان کے لیے کوشش کرتیں کہ کس طرح زندہ رہ جائیں مگر اب زندگی کے تمام حوالے بے کار لگتے۔ بوڑھی والدہ کا بھی دم آخر تھا۔ بھائی اگر شادی کرلیتے تو بھابھیوں کو پیارے ہوجاتے۔ سفینہ کو اپنی ہر سانس ہی آخری سانس محسوس ہونے لگی تھی۔
بھائی ہر تین ماہ بعد پابندی سے انہیں چیک اپ کے لیے ہسپتال لے جاتے اپنی حالت کے پیش نظر انہوں نے بھائیوں کے مشورے سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی درخواست دے دی تھی۔ گورنمنٹ کے اداروں میں جس سست رفتاری سے دفتری مراحل طے ہوتے ہیں اس کا اندازہ بھائیوں کو بھی تھا۔ اسکول پرنسپل نے یہ عنایت کردی تھی کہ ہر ماہ تنخواہ میں سے ایک معقول حصہ لینے کے بعد ہر ہفتے دو ہفتے بعد آکر انہیں حاضری لگانے کی اجازت تھی۔ عام طور پر ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ایمرجنسی کی چھٹی کی درخواست ٹیبل پر دھری رہتی جسے پرنسپل صاحبہ بوقت ضرورت اسکول کے معائنے کی صورت میں استعمال میں لے آیا کرتی تھیں۔ جہاں تک دیگر خواتین اساتذہ کا تعلق تھا وہ لوگ امینہ کے اسکول نہ آنے پر خوش تھیں کیونکہ ان کا بیماری سے حال دیکھ کر اور معاشی اعتبار سے مستحکم پوزیشن دیکھ کر ان خواتین کواختلاجی کیفیت ہوجایا کرتی تھی ان کی اسکول کی ایک ساتھی تو برملا کہا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ بھی کسے کوں کو نوازتا ہے جو نہ کھاسکتے ہیں اور نہ جان پر لگاسکتے ہیں۔
امینہ کو دیکھ کر اکثر ان کی ساتھی ایسے امیر کبیر گھرانوں کے قصے چھیڑ دیتیں جو کروڑوں کی جائیداد رکھنے کے باوجود بھی نہ اچھا کھاسکتے تھے اور نہ پہن سکتے تھے بلکہ آئی سی یو میں اپنی زندگی کے آخری دن پورے کررہے تھے۔ یہ باتیں درحقیقت ان ہی کو سنانے کے لیے کی جاتی تھیں اور ان باتوں کے ان کے ذہن پر خاطر خواہ اثرات بھی ہوا کرتے۔ اسکول سے آنے کے بعد بہت دنوں ان کی طبیعت مضمحل رہتی۔ ان کو اپنی زندگی ہر صورت تاریک دکھائی دیتی۔ چاہنے کے باوجود کہیں کسی روشنی کا گزر یا جھونکا نہ تھا۔
بھائیوں کا یہ ایثار بھی انھیں اچھا نہیں لگتا کہ بھائیوں نے بہنوں کی وجہ سے شادی نہ کی تھی۔ کیا تھا وہ بھی خود غرض لوگوں کی طرح اپنی دنیا الگ بسا لیتے۔ مگر ایسا نہ تھا۔ زندگی کی کشمکش جاری تھی۔ سفینہ نے آہستہ آہستہ متواتر کھانے والی دوائیاں بھی ترک کردی تھیں۔ بھائی پوچھتے کہ دوائیاں کھالیں تو وہ مسکرا کر ٹال دیتیں۔ اندر مایوسی کی کیفیت ہو تو ہوا میں پلنے والے جراثیم بھی بیماری بن کر لگ جاتے ہیں وہ تو پھر کینسر جیسے موذی مرض سے لڑ کر اٹھی تھیں۔ آہستہ آہستہ انھوں نے تین ماہ بعد والے ڈاکٹری معائنے کے لیے جانا بھی ترک کردیا۔ ان کا خیال تھا کہ علاج تو مکمل ہوگیا تھا اب کیا ضرورت تھی ہسپتالوں کے چکر لگانے کی۔ بھائیوں نے بھی ان کی کیفیت دیکھ کر ان سے دوا علاج سے متعلق سوالات کرنے ترک کردیے تھے۔
چار سال کس طرح گزرے یہ شاید سفینہ سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا۔ امینہ اس تمام دور میں سفینہ کے سائے کی طرح ساتھ رہی تھیں۔ امینہ سفینہ کی بہ نسبت خوش امید تھیں۔ انہیں پتا نہیں کیوں یقین تھا کہ کوئی خوابوں کا شہزادہ نہ بھی آئے تو کوئی عام سا زمینی شخص انہیں ضرور بیاہ کر لے جائے گا۔ بیس سال کی عمر تک یہ خوش امیدی ان کا حق بھی تھی اور ضرورت بھی۔ یہ ہی وجہ تھی کہ وہ اپنے ماموں زاد جو عام سی شکل و صورت کے مالک تھے اور معمولی سرکاری نوکری پر ملازم تھے سے جذباتی توقعات وابستہ کر بیٹھی تھیں۔ گو کہ امینہ اور ان کے ماموں زاد دونوں ہی جانتے تھے کہ یہ رشتہ دولت اور طبقاتی کشمکش کی بھینٹ ضرور چڑھ سکتا ہے مگر اس کے باوجود دونوں نے ایک دوسرے سے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔
دو دفعہ ممانی جان نے امینہ کی والدہ کے سامنے دست سوال بھی دراز کیا مگر اماں جان نے ٹال دیا۔ کچھ دنوں سے امینہ کو سینے میں مسلسل درد کی شکایت ہورہی تھی۔ سفینہ سے کہا تو انھوں نے بریسٹ سرجن کو دکھانے کا کہا۔ تمام ٹیسٹ ہونے کے بعد علم ہوا کہ امینہ کے سینے میں بھی کینسر نے پنجے گاڑھنے شروع کردیے تھے۔ امّاں جان پر یہ سن کر قیامت گزر گئی۔ ابھی بڑی بیٹی کی فکر اپنی جگہ ہی تھی کہ امینہ کی بیماری اور کیمو تھراپی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مگر اسی دوران سفینہ پر کینسر کا دوبارہ حملہ ہوا اور اس حملے کے پہلے ہی جھٹکے میں انھوں نے ہمت ہاردی۔
بڑے بھائی اسپتال لے کر گئے تو ڈاکٹر نے کہا کہ ویسے تو ان کی کنڈیشن زیرو ہے مگر آپ کہیں تو ہم انہیں وینٹی لیٹر پر لے آتے ہیں اس طرح کچھ عرصے مزید زندہ رہیں گی۔ بڑے بھائی کو علم تھا کہ سفینہ میں اب کچھ بھی نہیں۔ اس لیے انتہائی مستحکم لہجے میں کہا کہ اگر وینٹی لیٹر کے بنا اگر ان کی سانس بحال ہے تو ٹھیک ہے، وگرنہ ڈیڈ باڈی ریلیز کردیں۔ ڈاکٹر ان کا اس حد تک حقیقت پسندانہ نقطۂ نظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ کوئی بڑے بھائی کے دل سے پوچھتا کہ سفینہ کے انتقال پر وہ کس قدر سکون محسوس کررہے تھے۔
پچھلے پانچ سال جو جسمانی روحانی اور اخلاقی اذیت سفینہ نے برداشت کی تھی اس کے سب سے بڑے گواہ بڑے بھائی جان تھے۔ جب وہ راتوں کو جلے پیر کی بلی کی مانند سفینہ کو بے قراری کی حالت میں ٹہلتا ہوا دیکھتے تھے تو ان کے اپنے اندر بے اطمینانی اور اضطراری کیفیت پیدا ہوجاتی تھی۔ اس وقت تو سفینہ حالت سکون میں تھیں۔ اب کوئی سفینہ کو بے قراری کی کیفیت میں مبتلا نہیں کرسکتا۔ میت وصول کرتے ہوئے اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنواتے ہوئے بڑے بھائی جان سے سوچا۔
سفینہ کی موت کا گھر کی زندہ رہ جانے والی تینوں خواتین پر مختلف اثر ہوا۔ امّاں جان سفینہ کی موت کا ذمے دار خود کو محسوس کرنے لگیں۔ جبکہ امینہ کے اندر زندہ رہنے کی اک امنگ تھی رفتہ رفتہ وہ امنگ اور حوصلہ ان کے دل سے بھی ختم ہونے لگا۔
ماہین جو بچپن سے ہی اس گھر میں رہی تھی۔ اس کی اسکولنگ اور زندگی کے تمام مراحل اسی گھر میں طے پائے تھے، رفتہ رفتہ اسے یہ صاف ستھرا سجا سجایا گھر، اب مقبرے یا اہرام مصر کی طرح محسوس ہونے لگا تھا جہاں بنی سنوری ممیاں اپنے اپنے مقامات پر موجود زندہ ہونے کی منتظر تھیں۔
سفینہ کے انتقال کے بعد اکثر دونوں بھائیوں کے کانوں میں ان کی آوازیں گونجا کرتیں۔ کبھی کبھی انہیں یہ دھوکہ محسوس ہوتا کہ سفینہ کہیں سے آرہی ہیں یا کہیں جارہی ہیں۔ اس گھمبیر ہونے والی صورت حال میں کسی نے اس بات کا احساس تک نہیں کیا کہ ایک ہفتے قبل ممانی جان نصیر کی شادی کا کارڈ دے گئی تھیں۔ امینہ اور اس کی بیماری اور طبقاتی کشمکش سے عاجز آکر نصیر نے اپنی خالہ زاد سے شادی کی حامی بھرلی تھی۔ وہ جو اک امید تھی کہ صحتیاب ہونے کے بعد امینہ کو بغیر اپنا لیں گے اب وہ امید بھی ختم ہوئی۔ سفینہ کی موت کا صدمہ تازہ ہی تھا کہ نصیر کی شادی کی صورت میں اک اور جذباتی دھچکا امینہ کو لگا۔ ان کا جی چاہتا کہ وہ اماں جان کے سامنے سینہ پیٹ پیٹ کر روئے اور کہیں کہ اماں جان آپ اس پیسے کو ہمارے مقبروں پر لگایئے گا۔ ہم تو جلد ہی ان مقبروں کے اندردفن ہونے والے ہیں۔
امینہ کا علاج مکمل ہونے کے بعد انھوں نے ہر تین ماہ بعد ڈاکٹری معائنے اور ادویات کے استعمال سے انکار کردیا۔ بھائیوں اور اماں جان نے بے حد سمجھایا۔ مگر مزید علاج جاری رکھنے کے لیے وہ کسی طرح تیار نہ تھیں۔ تھک ہار کر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ ماہین کبھی بھی ان سے کہتی کہ خالہ جان آپ آخر زندہ کیوں نہیں رہنا چاہتیں۔ سولہ سالہ ماہین کی اس بات پر امینہ متانت سے مسکرا کر رہ جاتیں۔ انہیں لگتا کہ اس بات کا جواب فضول ہے۔ آخر وہ زندہ رہیں تو کیوں؟ گھر میں صفائی، ستھرائی کھانا پکانے اور دیگر امور کے لیے ماسیاں موجود تھیں ۔ان کا بظاہر اس گھر میں کوئی مصرف بھی نہیں رہا تھا ۔کوئی ہمدم و دمساز ہوتا کہ جس کی بانہوں میں وہ رو کر اپنی بھڑاس نکال سکتی،دو چار ننھے منے بچے ہوتے کہ جن کے کاموں میں وہ اپنی بیماری سے کڑنے کی بھرپور کوشش کرتیں ،جب ایسا کچھ تھا ہی نہیں ،گھر میں فطرت سے بغاوت جاری تھی ،دونون بھائی بھر پور جوانی میں رنڈوے جیسی زندگی بسر کر رہے تھے ۔سفینہ اپنی پوری زندگی رہبانیت میں گزار گئی تھیں ،اور اب امینہ کے ساتھ بھی وہ ہی سلسلہ جاری تھا تو ایسی زندگی جو دین فطرت کے خلاف ہو ،جہاں نکاح سے پہلو تہی اور اجتناب کیا جائے،اور جہاں پیسہ ہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہو تو وہاں کیا رہ جاتا ہے ۔یہ وجہ تھی کہ امینہ کے آئی سی یو میں ہونے کی خبر سن کر ماہین کالج سے سیدھی اسپتال پہنچ گئی تھی اسے احساس تھا کہ کوئی ان ہونی ہونے والی ہے ۔امینہ نے اسے آئی سی یو میں دیکھ کر آکسیجن ماسک میں مسکرانے کی کوشش کی پھر ہاتھ کے اشارے سے اسے قریب بلایا ان کی سانس اکھڑ رہی تھی وہ سسکتے ہوئے ان کے قریب گئی تو انھوں نے ماسک ہٹاکر ٹوٹتے ہوئے لہجے میں اسے آکری وصیت کی ’’ بیٹا کبھی فطرت سے لڑنے کی کوشش نہ کرنا ،نکاح ضرور کر لینا ورنہ دین فطرت سے ہٹ جانے والواں کا انجام ہم جیسا ہوتا ہے ‘‘۔ان کی اکھڑتی ہوئی سانس اور چند لمحوں میں قفس عنصری سے پرواز کر جانے والی روح نے نے ماہین کو چیخ چیخ کر رونے پر مجبور کردیا۔