شرارتی اردو
ماہ وش خان بنگش
اردو زبان سے واقفیت رکھنے والے اس مضمون کے عنوان سے موضوع کو بھانپ چکے ہوں گے کہ قرطاس ابیض کیسے سیاہ ہونے جارہا ہے۔ گئے وقتوں کا قصہ ہے، حالانکہ ہے تو فدویہ کےبچپن کا لیکن جو زمانہ گذر رہا ہے اس سے محسوس ہوتا ہے گویا پتھر کے دور سے ہوں۔
خیر جناب قصہ کچھ یوں ہے کہ جب فدویہ کازمانہ طالب علمی کا آغاز ہوا اور اردو سے شناسائ حروف کی اشکال و اسماءحروف سے شروع ہوئ،جوکہ امر صریح تھا۔
روزانہ کی بنیاد پہ کچھ حروف کی اشکال اور ان کے نام سے ازبر کروائے جاتے۔
جس وقت یہ عمل رونما ہورہا ہوتا تھا تو ایسامحسوس ہوتا تھا کہ جیسے یہ حروف ہمیں گھور گھور کے دیکھ رہے ہیں اور پیغام دے رہے ہیں کہ ابھی تو تم ہم کو فرداً فرداً دیکھ لو کیونکہ ہم مجبور ہیں لیکن کچھ عرصے کے بعد جب ہم ( مل کر لفظ بن جائیں گے) تمھارے دماغ کی چولیں ڈھیلی کر دیں گے۔
سبق کا آغاز ہوا تو الف کچھ مسکین سا محسوس ہوا یہاں الف کا نام استعمال کیا ہے آگے صورتوں (اشکال) سے کام لیا جائے گا۔ تو الف کچھ مسکین سے محسوس ہوا کیونکہ اس کا صرف ایک ہی دوست تھا ــــــــــــ” آ ” ۔ لیکن ب،پ،ت،ٹ اور ث کی جماعت نظر آئ ۔ اف یہ جماعت تو کافی زور آور بھی تھی خود کو معنیٰ دینے کے لئے رعب سے الف کوخود سے منسلک کیا اور ” اب ” بنے اور اس لفظ پہ خوب دہشت گردی کی ” آ "سے مخاطب ہوئے کہ اب تم نہ مانے تو برا ورنہ بناؤ ـــ آب ۔ کہ جس میں زندگی کیِ” آس” ۔۔ ہے۔
ابتدا۶ میں یہ دہشت گردی دیکھ کر سوچنے پہ مجبور ہوئے کہ "ے ” تک پہنچنے پہ کیا کیا تحس نحس ہوگا۔
ث کے بعد جو فوج ملی وہ اسی فوج کے” ج” سے شروع تھی لشکرمیں چار جوان تھے ج،چ،ح اور خ ۔ یہ سب تھےتو ہم شکل لیکن ان کے نام مختلف تھے۔ یا الہیٰ ننھے ننھے ذہنوں پہ ایسی مار کیوں؟ سفر آگے بڑھا دوبستیاں ایک ہی قبیلے کی ملیں
اول الذکر قبیلہ میں حروف کی تعداد تین تھی د،ڈ،ذ اور بعدالذکر قبیلہ چار حروف پہ مشتمل تھا ر،ڑ،ز اور ژ۔ اولذکر قبیلہ نسبتاً معصوم معلوم ہوا کیونکہ اشکال بھی ملتی تھیں اور نام بھی جیسے عمران، کامران اور ثمران۔ لیکن جناب جتنا معصوم پہلا قبیلہ تھا دوسرا اتنا ہی گنجلک لگا خاص آخری حرف” ژ ” نام سے ہی بارعب تھا۔ اس کے بعد کاسفر تیزی سے گذرا دو(2) دو (2) دوستوں پہ مشتمل قافلہ رہا، س،ش۔ ص،ض۔ ط،ظ۔ ع،غ۔ ف،ق۔ ک،گ۔ ہاں یہ جو”ط” اور” ظ” تھے نا یہ ہمیں عجیب الخلقت محسوس ہوئے البتہ ع اور غ میں ص اور ض کی طرح رعب سا محسوس ہوا۔ف اور ق توبہن بھائ لگے۔ ک اور گ جڑواں تھے ممی نے نشانی کےطور پہ گ پہ ایک اضافی لیکر لگا دی تھی، یہ خیال جانے کب ذہن سے نکلا۔ بچپن بھی نا۔
ل،م،ن ،و،ہ ،ھ،۶ توشاید سیاحت کی غرض سے آئے ہیں۔ ہمیں تو یہی تاثر ملا کیونکہ کوئ ان کے ساتھ نہیں تھا، یاپھر شاید کسی حادثے کا شکار ہوگئے۔ "ی” اور "ے” تو امی ابو تھے سب حروف کے۔
جب یہ سبق مکمل ہوا تو ذہن میں کئ سوالات تھے، پہلا سوال تو یہ تھا کہ ایک ہی نام کے حروف کو بار بار الگ الگ صورتوں میں کیوں رکھا ہے جیسے ح، ہ،ھ۔ بھلا کیا منطق ہوسکتی ہے اس میں؟
اب ہاتھی کو اپنے عظیم الجثہ قدامت کےبعد بھلا کیا فرق پڑتا ہوگا کہ دنیا والے اس کا نام ھاتھی لکھ رہے ہیں یا حاتھی۔ وہ توبہرحال جو ہے سو ہے۔
اچھا سیب کے معاملے کو لیتے ہیں پلیٹ میں ثابت سیب ہے یا صابت سیب ہے یا سابط یاپھر صابط، کھانے والا اسے پلیٹ میں چھوڑے گا ہی نہیں تو بحث بھی نہیں رہے گی۔ ( شیطانی مسکراہٹ )
قصہ مختصر ان حروف کے ساتھ اور ان کے گنجلک وجود سے نبرد آزما ہوتے ہوئے مزید پیچیدگیوں کے میدان جنگ ( حروف اور ان کی تشکیل) میں بمعہ شمشیر وتیغ و تبر و تشیہ وڈھال سے لیس کود پڑے اورابھی تک حالت جنگ میں ہیں۔ اس کا اندازہ آخری جملے سے ہوگیاہوگا۔
۔۔۔۔۔۔
ماہ وش خان بنگش