اردو کےادیب اورنثرنگار – قسط -7 – – مولاناآزاد’عابد حسین’

Share


قسط ۔ 7
اردو کےادیب اورنثرنگار
مولانا آزاد – عابد حسین – مسعود رضوی ادیب

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

اردو کے ادیب اور نثر نگار ۔چھٹی قسط کے لیے کلک کریں

مولانا ابو الکلام آزاد (۱۸۸۸۔۱۹۵۸ء)

مولانا آزاد کے والد کا نام خیر الدین تھا جو ہندوستان کی زبوں حالی کو دیکھ کر ہجرت کرکے سر زمین حجاز چلے گئے تھے وہیں مولانا آزاد کی پیدائش ہوئی ، بعد میں ان کے والد خیر الدین اپنے علاج کے سلسلہ میں کلکتہ آئے تو پھر واپس نہیں گئے ، مولانا آزاد نے ابتدائی تعلیم و تربیت مختلف اساتذہ سے یہیں کلکتہ میں حاصل کی ، مولانا آزاد نے بعد میں انگریزی بھی سیکھی اور اتنی سیکھی کہ انگریزی زبان کی علمی کتابوں کا مطالعہ کرنے لگے ، ان کی میز پر انگریزی زبان کی علمی کتابیں رکھی رہتی تھیں ، ۱۹۱۲ء میں مولانا آزاد نے ’’الہلال ‘‘ جاری کیا جو حق گوئی وبے باکی کا مرقع تھا ، اس میں انگریزوں کی سیاسی پالیسی پر سخت تنقیدیں کی جاتی تھیں ، الہلال حکومت مخالف موقف کی وجہ سے زندگی اور موت کی کشمکش سے گزرتا رہا ، بند ہوا تو بعد میں’’ البلاغ‘‘ کی شکل میں نمودار ہوا، ۱۹۲۷ء میں الہلال دوبارہ نکلا اور پھر کچھ عرصہ کے بعد مستقل طور پر بند ہوگیا ، مولانا کو قید وبند کی زندگی گزارنی پڑی ، ۱۹۱۶ء کو انہیں رانچی میں نظر بند کیا گیا اور چار سال کی نظر بندی کے بعد ۱۹۲۰ء میں انہیں رہا کیا گیا ۔
مولانا ابو الکلام آزاد بہت بڑے ادیب ، زبردست عالم دین ، بلند مرتبہ سیاسی قائد اور غیر معمولی خطیب تھے، الہلال اور البلاغ کے علاوہ کئی کتابیں مثال کے طور پر’’ تذکرہ‘‘ ،’’ ترجمان القرآن‘‘ ،’’ غبار خاطر‘‘ اور’’ کاروان خیال ‘‘ان کی یادگار تصانیف ہیں ،انھوں نے اپنی سیاسی زندگی کے نقوش ’’انڈیا ونس فریڈم‘‘ کے نام سے مرتب کئے ہیں جو ہندوستان کی آزادی کی تاریخ ہے ، الہلال میں مولانا نے جو آتشیں مقالات سپرد قلم کئے ان کا مجموعہ شائع ہوگیا ہے ، یہ مقالات مسلمانوں کو بیدار کرنے اور ان کے اندر سیاسی شعور پیدا کرنے کے لئے لکھے گئے تھے ، ترجمان القرآن قرآن کریم کی تفسیر ہے وہ بائیس پاروں تک مکمل ہوسکی ، اس میں سب سے طویل تفسیر سورہء فاتحہ کی تفسیر ہے ، غبار خاطر خطوط کا مجموعہ ہے ، مولانا ابو الکلام آزاد ایک نئے اسلوب کے بانی ہیں ، الہلال اور البلاغ میں ان کا اسلوب پر جوش اور ولولہ انگیز ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شعور کی بیداری کے لئے صور پھونکا جارہا ہے ، غبار خاطر کا اسلوب مختلف ہے اس میں شیرینی اور نغمگی ہے ، حسرت موہانی نے مولانا کی آزاد کی نثر کی ستائش کرتے ہوئے یہ شعر کہا تھا :
جب سے دیکھی ابو الکلام کی نثر
نظم حسرت میں بھی مزہ نہ رہا

ڈاکٹر عابد حسین (۱۸۹۵۔۱۹۷۸ء)
جامعہ ملیہ اسلامیہ کو مسلمانوں کے لئے ایک مستحکم ادارہ اور ایک مینارہ نور اور نئی نسل کے خوابوں کی تعبیر بنانے کے لئے کئی اشخاص نے انتھک کوششیں کیں ، ان شخصیات میں ڈاکٹر ذاکر حسین اور پروفیسر مجیب کے ساتھ ڈاکٹر عابد حسین کا نام بھی لیا جاتا ہے ، ڈاکٹر عابد حسیں بہت بڑے مفکر ، سحر طراز انشا پرداز اور فلسفی تھے ، انھوں نے مسلمانوں کے طرز فکر کو عصری رجحانات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ، ان کو اسلام کی تہذیب کے ساتھ ہندوستان کی قومی تہذیب کا بھی شعور تھا اور اس موضوع پر ان کی کتاب ’’قومی تہذیب کا مسئلہ‘‘ بہت بلند پایہ علمی اور فکری کتاب ہے ، اسی طرح سے انھوں نے ہندوستان میں حالیہ دور کی وہ تاریخ لکھی ہے جو مسلمانوں کے ارد گرد گھومتی ہے اور یہ کتاب ’’ہندوستانی مسلمان آئینہ ایام ‘‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہے ، اس کتاب میں انگریزوں کے عہد اقتدار اور مختلف سیاسی کشمکش اور مسلمان شخصیتوں کا اس میں رول ، مسلمانوں کی آزمائش کا دور اور مسلمان قائدین ، ان تمام موضوعات پر بہت تفصیلی اور فکر انگیز گفتگو کی گئی ہے ، اسلوب عالمانہ اور اسی کے ساتھ انشا پردازانہ ہے ، جن لوگوں کو عہد حاضر میں اس ملک کے اندر مسلمانوں کی تاریخ جاننی ہو ان کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہئے ۔
۱۹۴۹ء میں ڈاکٹر عابد حسین کو جامعہ کا پرنسپل مقرر کردیا گیا ، ۱۹۴۸ء میں انھوں نے ایک ہفت روزہ اخبار ’’نئی روشنی ‘‘ کے نام سے جاری کیا جس کا مقصد مسلمانوں کی خود اعتمادی بحال کرنا تھا ، یہ اخبار ۱۹۵۰ء تک جاری رہا ، کئی سال تک وہ علی گڑھ میں جنرل ایجوکیشن نصاب کے وہ ڈائرکٹر رہے ، ۱۹۶۸ء میں پنڈت جواہر لال نہرو نے انہیں آل انڈیا ریڈیو میں اپنا ادبی مشیر نامزد کیا اور پھر ۱۹۶۷ء میں ڈاکٹر ذاکر حسین کی مدد سے انھوں نے ’’اسلام اینڈ دی ماڈرن ایج‘‘کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اور اسی نام سے انگریزی میں ایک سہ ماہی رسالہ نکالا ، اردو میں اسلام اور عصر جدید کے نام سے ایک سہ ماہی رسالہ وہ نکالتے رہے ، انہیں پدم بھوشن کا خطاب بھی دیا گیا ، ان کی علمی دل چسپیاں متنوع تھیں ، انھوں نے کئی ادبی تخلیقات کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا ، وہ ادب پاروں کی روح کو اردو میں منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے ، وہ ایک فلسفی تھے اور سماجی مفکر بھی تھے اور ان کے مضامین میں بہت زیادہ شگفتگی اور دل کشی کا عنصرموجود ہے ، مزاح اور طنز وظرافت سے متعلق بھی ان کی تحریریں ہیں ، جسے پڑھ کر تبسم نمودار ہوتا ہے ، انھوں نے تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں ، ڈاکٹر عابد حسین کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو نثر کو فروغ دیا ۔

مسعود حسن رضوی ادیب (۱۸۹۳۔۱۹۷۵ء)
مسعود حسن رضوی ادیب ایک سر برآوردہ ادیب اور نقاد اور محقق ہیں ، انھوں نے لکھنؤ کی تہذیب اور یہاں کے ادبی کارناموں کو متعارف کروانے میں اہم رول ادا کیا ، میر انیس کے فن کی تفہیم وتحقیق سے متعلق ان کی کئی کتابیں ہیں جیسے روح انیس ، شاہ کار انیس اور رزم نامہ انیس، وہ لکھنؤ یونیورسٹی میں استاد رہے اور یونیورسٹی کی مجلس عاملہ کے رکن بھی رہے ، ۱۹۷۰ء میں انہیں پدم شری کا خطاب ملا ، ان کی کتابوں کی تعداد تیس سے اوپر بتائی جاتی ہے جن میں بعض کتابوں کی حیثیت تحقیق کی ہے اور بعض کتابیں تنقید سے متعلق ہیں ، ان کی مشہور کتابوں میں ’’مجالس رنگین‘‘، ’’فیض نیر‘‘ اور ’’متفرقات غالب‘‘ اور ’’آب حیات کا تنقیدی مطالعہ ‘‘ اور ’’تنقید کلام غالب‘‘ اور ’’نگارشات ادیب‘‘ اور ’’سلطان عالم واجد علی شاہ ‘‘ ہیں ، ان کی وہ کتاب جو اردو زبان وادب اور شاعری کا پاکیزہ ذوق پیدا کرنے میں بہت معاون ہے اور جو بہت زیادہ مقبول بھی ہوئی ہے وہ ان کی کتاب ’’ہماری شاعری‘‘ ہے ، انھوں نے اردو شاعری پر لگائے الزامات کا جواب بہت شائستہ اور مہذب انداز میں دیا ہے ، مسعو دحسن رضوی کا شمار نہ صرف بلند پایہ نقاد میں ہوتا ہے بلکہ انھوں نے اردو شاعری کی خوبیوں اور محاسن پر بہت اچھے انداز میں روشنی ڈالی ہے ، الطاف حسین حالی نے مقدمہ شعر وشاعری میں اردو شاعری پر جو تنقیدیں کی تھیں ان کا جواب لیکن بہت ہی شائستگی کے ساتھ مسعود حسن رضوی نے دیا ہے ، حالی نے کہا تھا کہ اردو شاعری گل وبلبل کی شاعری ہے ، مسعود حسن رضوی نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ گل وبلبل در اصل زندگی کی علامتیں ہیں جن کے وسیلہ سے غزل گو شعراء نے دریا کو کوزہ میں بند کرنے کی کوشش کی ہے۔

Share
Share
Share