افسانہ : ناٹک
قمر الاسلام عثمانی
(ایک لڑکی کی کہانی، جس نے لوگوں کی نظروں میں آنے کے لیے ایک رات عجب تماشا برپا کیا)۔
گلی میں نیم اندھیرا تھا۔ لوگ خال خال آجارہے تھے۔ اچانک ہی پے در پے تین نسوانی چیخیں ابھریں اور اونگھتی ہوئی گلی انگڑائی لے کر بیدار ہوگئی۔ مکانوں کی کھڑکیاں اور دروازے دھڑا دھڑ کھلنے لگے۔ کوئی لڑکی دہلتی ہوئی آواز میں مدد کے لیے پکار رہی تھی۔ اس کی چیخوں کا ردعمل کچھ ایسا ہی تھا جیسے خطرے کا سائرن بجتا ہے۔ لوگ گھروں سے ابلنے لگے اور مجمع کی صورت میں لڑکی کے گرد جمع ہوگئے۔ فوراً ہی ماچس کی تین چار تیلیاں اور لائٹر جلے۔ مدّھم شعلے لڑکی کے جسم اور چہرے پر لرزنے لگے۔ بلاشبہ وہ ایک خوبصورت لڑکی تھی۔
عمر سترہ اٹھارہ رہی ہوگی۔ بے ترتیب لباس سے اس کا مخملیں جسم جھانک رہا تھا۔ سرمگیں اور بادامی آنکھیں خوف سے پھیلی ہوئی تھیں۔ لوگوں کو دیکھ کر اس کے چہرے پر اطمینان آثار پیدا ہوئے، خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتی ہوئی بولی:”آپ لوگ نہ آگئے ہوتے تو نہ جانے میرا کیا حشر ہوتا۔“
لڑکی کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ اس نے خوبصورت چہرہ دونوں ہاتھوں سے چھپالیا۔ ایک پستہ قد شخص گنبد نما توند لیے ہوئے آگے بڑھا اور لڑکی کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا:”روؤ نہیں اب تم بالکل محفوظ ہو۔“
لڑکی نے سر اٹھایا اور انگلی کے سرے سے بھیگے ہوئے رخسار پونچھنے لگی۔ محلّے کے حاجی صاحب آگے بڑھے اور لڑکی کے گیلے رخساروں کو تھپتھپاتے ہوئے سر پر ستانہ انداز میں بولے:
”اب تمہیں قطعاً فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ تم خود کو محفوظ سمجھو۔“
”تیسرے شخص نے لڑکی کو تسلّی دینے کی خاطر اس کے سفید اور گداز بازو کو دبوچ لیا اور زور صرف کرتا ہوا بولا:
”ہاں اب تمہارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ غلط نگاہ سے دیکھنے والوں کی ہڈیاں توڑ دی جائیں گی۔“
ایک اور شخص خواہاں تھا کہ لڑکی کے قریب جاکر اس کی پیٹھ پر تھپکی دے اور اس کی تسلی و دلجمعی کرے۔ مگر مجمع نے اسے موقع نہیں دیا۔ حاجی صاحب نے لڑکی کی طرف جھکتے ہوئے پوچھا:
”کہیں چوٹ تو نہیں آئی۔ بدمعاشوں نے زیادہ پریشان تو نہیں کیا؟“
لڑکی نے شلوار کا پائنچا اٹھاتے ہوئے کہا:
”میری پنڈلی میں چوٹ آگئی ہے۔ درد ہورہا ہے۔“
بے اختیار تمام لوگ جھکے اور لڑکی کی پنڈلی کا معائنہ کرنے لگے۔ لوگوں کے سر۔۔۔ انداز میں جھکے ہوئے تھے اور وہ انتہائی جانفشانی سے سفید اور بے داغ پنڈلی کئی زخم کوئی نشان تلاش کررہے تھے تاکہ خاطر خواہ علاج کیا جاسکے۔ مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔ لڑکی نے پائنچا اوپر کردیا۔ لوگوں کی کمریں اور خمیدہ ہوگئیں۔ اچانک ایک سخی نے لڑکی کی پنڈلی کو چھولیا اور ٹٹولتا ہوا بوجھل اورمخمور لہجے میں بولا:
”یہاں …… یہاں کچھ ورم معلوم ہوتا ہے۔ شاید اندرونی چوٹ ہے۔“
حسین علی نے جو محلے کے سب سے سینئر پنشنر تھے، ناک پر جمی ہوئی عینک کو اور مضبوطی سے جماتے ہوئے اور تشویشناک لہجے میں پوچھنے لگے ”کوئی زخم تو نہیں ہے؟“
اس شخص نے کوئی جواب نہیں دیا۔ سیدھا کھڑا ہوگیا۔ اس کی پیشانی پسینے سے بھیگی ہوئی تھی۔
”کیا زمانہ آگیا ہے شرم و حیا بالکل مٹ گئی ہے۔ اگر یہی لیل و نہار رہے تو ہماری بہن بیٹیاں گھروں میں محفوظ نہ رہ سکیں گی۔“ حاجی صاحب غصے وار ہیجان کی کیفیت میں بولے۔
محلے کے ایک دکاندار نے اس موقع پر حاجی صاحب کی ہاں میں ہاں ملائی۔ اس کے گاہکوں کی کافی تعداد یہاں موجود تھی۔ اس نے سر ہلاتے ہوئے کہا:
”بے شک۔ یہ قریب قیامت کی دلیل ہے۔ قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہئے۔“
اسی وقت حسین علی مڑے اور لڑکی سے مخاطب ہوکر بولے:
”کون تھے وہ لوگ۔ تم نے پہچانا۔“
”نہیں تاریکی میں کچھ پتہ نہیں چل سکا۔“ لڑکی نے جواب دیا۔
”کچھ تو اندازہ لگایا ہوگا۔ بلند قامت یا پست۔ بوڑھے تھے یا جوان۔“
”میں کچھ نہیں جانتی۔ مجھے کچھ نہیں معلوم۔“ لڑکی پریشان روہانسی ہوکر بولی۔ ”مجھے جانے دیجئے۔“
حاجی صاحب مجمع کی طرف مڑے اور با آواز بلند بولے:
”ہمیں لڑکی کو اس کے گھر تک پہنچا کر آنا چاہیے۔“
بڑے بڑے بالوں اور پھول دار رنگین شرٹ والا ایک نوجوان آگے بڑھا اور مؤدّب لہجے میں بولا ”میں اس خدمت کے لیے حاضر ہوں۔“
حاجی صاحب نے بڑی خونخوار نظروں سے نوجوان کی طرف دیکھا۔ باقی لوگ بھی بڑی نفرت آلود اور خشمگیں نظروں سے نوجوان کو گھور رہے تھے۔ حاجی صاحب آہستہ سے کھانس کر بولے:
”نہیں یہ کام تمہارے لیے مناسب نہیں۔ اس کے لیے تو۔۔۔“
اسی وقت چار افراد میں کسی بات پر تو تو میں میں ہوگئی۔ وہ آپس میں بری طرح الجھ پڑے تھے۔ حاجی صاحب ذرا دیر تک ناگواری سے اس جھگڑے کو دیکھتے رہے۔ پھر لڑکی سے بولے۔ ”تمہارا گھر کہاں ہے؟“
لڑکی نے اداس ہوکر سر جھکالیا اور پاؤں کے انگوٹھے سے زمین کریدتے ہوئے بولی ”میرا کوئی گھر نہیں ہے۔“
”میرا مطلب تھا والدین کہاں رہتے ہیں؟“
”انہیں مرے ہوئے ایک عرصہ ہوگیا۔“
مجمع میں مسرّت اور اطمینان کی ایک لہر دوڑ گئی۔ وہ پر شوق نظروں سے لڑکی کو دیکھنے لگے۔
حاجی صاحب بیوی سے بہت ڈرتے تھے۔ وہ جانتے تھے اگر انہیں چند منٹ اور دیر ہوئی تو وہ بلائے بے درماں وہاں پہنچ جائے گی اور آڑے ہاتھوں لے گی مگر اس کے باوجود حاجی صاحب وہاں سے ہلنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ انہوں نے لڑکی سے پوچھا ”رات کو کہاں سوتی ہو؟“۔
”میں خالہ کے ہاں رہتی ہوں۔ مگر وہ مجھے بہت ستاتی ہیں۔ بری طرح پیٹتی ہیں اس لیے وہاں سے بھاگ آئی۔“
”عقل کے ناخن لو۔ چلو میں تمہیں چھوڑ آؤں۔“ حاجی صاحب بڑی ہمدردی سے بولے۔
”اب میں وہاں نہیں جاؤں گی۔“ لڑکی فیصلہ کن انداز میں بولی۔
ہپی نوجوان لپک کر آگئے آیا اور حاجی صاحب سے مخاطب ہوکر بولا:
”اگر وہ واپس جانا نہیں چاہتی تو آپ اسے کیوں مجبور کررہے ہیں۔ دو روٹیاں تو اسے کہیں بھی مل سکتی ہیں۔“
حسین علی نے لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوئے کہا ”میں اسے تھانے لیے جارہا ہوں۔ وہیں کوئی مناسب بندوبست کرسکیں گے۔“
لڑکی نے جھٹکے سے ہاتھ چھڑالیا اور وحشت کے عالم میں دو قدم پیچھے ہٹ گئی ”نہیں وہ مجھے کسی خیراتی ادارے میں بھیج دیں گے۔“
بہت سارے آدمیوں نے لڑکی کے خیال سے اتفاق کیا۔ ہپی نوجوان پھر آگے بڑھا اور بڑی ملامت سے لڑکی سے بولا ”تم چاہو تو میرے ساتھ چل سکتی ہو۔“
”یہ نہیں ہوسکتا۔ نوجوان لڑکی کا تمہارے ساتھ جانا مناسب نہیں۔“ بیک وقت کئی لوگوں نے اعتراض کیا۔
ایک موٹے تھل تھل آدمی نے جسے دیکھ کر کراہت ہوتی تھی، مربیانہ انداز میں کہا ”اگر لڑکی میرے ساتھ جانا چاہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔“
ایک خوش پوش اور اسمارٹ نوجوان لڑکی سے بولا ”میں تمہیں سیکریٹری کی حیثیت سے اپوائنٹ کرنے کے لیے تیار ہوں۔“
لڑکی نے سر اٹھا کر اس نوجوان کی طرف دیکھا۔ اس کی نگاہوں میں پسندیدگی تھی۔ لڑکی کے تیور اور تاثرات بدلتے دیکھ کر مجمع کو سانپ سونگھ گیا۔ ہپی نوجوان نے دیکھا معاملہ خراب ہوا چاہتا ہے۔ چنانچہ لڑکی کے بولنے سے پہلے وہ خوش پوش نوجوان سے مخاطب ہوا ”اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ تم لڑکی کو کسی مصیبت میں نہیں پپہنچا دوگے؟۔“
حسین علی نے فوراً اس پر صاد کیا ”ہاں ہاں، بالکل درست کہتا ہے، کسی کی پیشانی پر تو کچھ لکھا نہیں ہوتا ہم سب کو مل کر اس لڑکی کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔“
حاجی صاحب جو اب کچھ ڈھیلے اور ٹھنڈے پڑگئے تھے اور اس سرد جنگ سے بور ہوچکے تھے با آواز بلند لوگوں سے مخاطب ہوکر بولے ”اس لڑکی کو خود ہی کوئی فیصلہ کرلینے دو۔“ پھر لڑکی سے مخاطب ہوکر بولے ”کیا تم میرے ساتھ چلنے پر آمادہ ہو؟“
”نہیں ہرگز نہیں۔“ لڑکی کے بولنے سے پہلے کئی لوگ چیخ اٹھے۔ ہپی نوجوان طنزیہ لہجے میں بولا ”حاجی صاحب آپ مجھے بلڈ پریشر کے مریض معلوم ہوتے ہیں۔ اپنا علاج کرائیں۔“
حاجی صاحب سخت برا فروختہ ہوگئے۔ منہ سے جھاگ چھوڑتے ہوئے بولے ”میں جو کچھ کررہا ہوں رضائے الٰہی کے مطابق کررہا ہوں۔“
حسین علی دانت پیستے ہوئے بولے ”ہم سب خدا کی رضا کے لیے یہی کام کرنے کو تیار ہیں۔“ وہاں سبھی انسان دوستی اور خدا کی رضا جوئی کے حوالے دے رہے تھے۔ سرد جنگ گرما گرم جنگ میں تبدیل ہوا چاہتی تھی۔ کہ ایک کانسٹیبل عورتوں، بچوں اور مردوں کی بھیڑ کو چیرتا ہوا لڑکی کے قریب پہنچ گیا۔ چند منٹ تک وہ لڑکی اور مجمعے کو گھورتا رہا۔ پھر آنکھیں سکڑ کر تحکمانہ لہجے میں بولا ”یہاں آدھی رات کو کیا ناٹک کھیلا جارہا ہے؟۔“
مقدمہ کانسٹیبل کے سامنے پیش ہوا۔ کانسٹیبل فوراً لڑکی کو لے کر تھانے روانہ ہوگیا۔ سب کی زبانیں تالو سے لگ گئیں۔ وہ تصویر حیرت بنے ایک دوسرے کو دیکھتے رہ گئے۔ کانسٹیبل اور لڑکی کافی دور چلے گئے تو محلے کے دکاندار نے بڑی حسرت سے کہا۔
”کیسی خالص لڑکی تھی۔ ملاوٹ سے بالکل پاک۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔
متواتر کئی سڑکوں اور محلوں سے گزرنے کے بعد لڑکی کی ایک آہنی دروازے کے سامنے کھڑی ہوگئی اور کانسٹیبل کی طرف مڑ کر بولی:
”مجھے ایک رشتے دار کا مکان یاد آگیا ہے۔ یہ آہنی دروازے والا۔“
کانسٹیبل نے چبھتی ہوئی نظروں سے لڑکی کو دیکھا اور دروازے پر نصب اطلاعی گھنٹی کا بٹن دبایا۔ کچھ دیر بعد دروازہ کھلا اور ایک معمر عورت دروازے پر نمودار ہوئی۔ کانسٹیبل کو دروازے پر دیکھ کر وہ حیرت زدہ نظر آنے لگی۔ پھر کانسٹیبل کے پیچھے کھڑی ہوئی لڑکی پر نظر پڑتے ہی اس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔ غصے سے چیخ کر بولی ”کہاں مر گئی تھی تو اتنی دیر ہوگئی۔“
”کیا آپ انھیں پہچانتی ہیں؟“ کانسٹیبل نے لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عورت سے پوچھا۔”ارے یہ میری ملازمہ ہے۔ کم بخت دو گھنٹے سے انڈے لینے گئی ہوئی تھی۔“
کانسٹیبل احمقوں کی مانند آنکھیں پھاڑ کر لڑکی کو دیکھنے لگا۔ پھر سر جھکا کر جلدی سے آگے بڑھ گیا۔