کتاب : فکرونظر
مصنف : پروفیسر انیس الحق قمر
فون : 09890417577
پیش لفظ : محمد تقی
مدیر اعلیٰ روزنامہ ’’ورقِ تازہ‘‘، ناندیڑ
فون: 09325610858
اُردو ادب میں نثری اور شعری مجموعوں کے مسودوں پر کسی نقاد ، تبصرہ نگار یا پھر اُردو کے کسی پروفیسر سے مضمون لکھواکر ، اسے پکّی سیاہی میں چھپواکر کتاب میں شامل کرنے کی روایت سالہاسال سے جاری ہے۔ صاحب کتاب کو شاید یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ اگر اس کی تصنیف پر کسی نقاد کی رائے کتاب میں شامل نہ ہوگی تو اس کی تصنیف قارئین کو متوجہ نہیں کرسکے گی۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
تخلیق خود بولتی ہے کہ وہ کیا ہے؟ اور کیا نہیں ہے؟ بولتی تخلیق اور گونگی تخلیق میں ایک سمجھدار اور باذوق قاری آسانی سے فرق محسوس کرلیتا ہے۔ بولتی تخلیق کی یہ خوبی ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والے سے ہم کلام ہوتی ہے۔ پروفیسر انیس الحق قمرؔ اِن معنیٰ میں بڑے خوش نصیب تخلیق کار ہیں کہ ان کی تصنیف ’’فکر و نظر‘‘ میں شامل ہر تخلیق بڑی بولتی اور ہم کلام ہوتی نظر آتی ہے۔ اور کسی بھی مضمون پر ’’گونگی تخلیق‘‘ کا لیبل چسپاں نہیں کیا جاسکتا۔
میرے ہمدم دیرینہ اور مخلص دوست پروفیسر انیس الحق قمرؔ ناندیڑ کے یشونت کالج میں تقریباً ربع صدی سے بڑی خاموشی اور پورے اخلاص کے ساتھ اُردو زبان و ادب کی تدریس اور خدمت انجام دے رہے ہیں۔ وہ نہ صرف ایک اچھے نثر نویس ہیں بلکہ ایک انتہائی کامیاب ڈرامہ نگار بھی ہیں۔ ان کے تخلیق کردہ ڈراموں کا مجموعہ ’’ہمالہ کی چاندی پگھلتی رہے‘‘ شائع ہوکر ادبی حلقوں میں بے حد پذیرائی حاصل کرچکا ہے۔ ڈرامہ نگاری کے ساتھ ساتھ وہ اداکاری کے فن میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ اور ڈراموں کی ہدایت کاری میں بھی ان کو ملکہ حاصل ہے۔ انہوں نے کئی ڈرامے اسٹیج بھی کئے ہیں ۔ ان کو ہدایت بھی دی ہے اور ان میں اپنی عمدہ اداکاری کے جوہر دکھلاکر بھی خوب داد و تحسین حاصل کی ہے۔
’’فکر و نظر‘‘ یہ ان کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ میں نے تمام مضامین بڑے غور سے پڑھے ہیں اور اس نتیجے پرپہونچا ہوں کہ انیس قمرؔ نے ہر مضمون کو بڑی محنت اور عرق ریزی سے تحریر کیا ہے۔ یہ تمام مضامین جہاں قارئین کو نئی اور انوکھی معلومات فراہم کرتے ہیں ، وہیں انہیں غور و فکر کی دعوت بھی دیتے ہیں۔
’’ڈپٹی نذیر احمد اور ترجمۃ القرآن‘‘ اور ’’گلوبلائزیشن اور مشرق کی تہذیبی شناخت‘‘ انیس قمرؔ کے عمدہ ترین مضامین ہیں، جنہیں تنقیدی مضامین کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے ڈپٹی نذیر احمد کی معروف تصنیف ترجمۃ القرآن سے بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ نذیر احمد کا ترجمہ آسان ، سلیس اور بامحاورہ ہے۔ نذیر احمد کے طرزِ تحریر کے بارے میں انیس قمرؔ نے لکھا ہے کہ :
’’ ڈپٹی نذیر احمد کی آزاد طبع تحریر کی خصوصیت اس کی بے تکلفی اور بے ساختہ پن ہے ، اور یہ ان کا بلاشبہ کمال ہے کہ انہوں نے اس خصوصیت کو ترجمے میں بھی باقی رکھنے کی کوشش کی ہے۔‘‘
گلوبلائزیشن جس کا درست ترجمہ عالمگیریت ہے کے ظاہری معنیٰ پوری دُنیا کو ایک مارکیٹ (بازار) میں تبدیل کرنا ہے۔ گلوبلائزیشن کے ذریعے ملکوں کے درمیان کھڑی دیواروں کو منہدم کردیا گیا ۔ اور حکومتوں و سرمایہ دار تاجروں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ آزادانہ طور پر کسی بھی ملک میں جاکر اپنی مصنوعات فروخت کرکے ڈھیروں روپیہ کما سکتے ہیں۔
عالمگیریت مغربی دُنیا کا وہ خوشنما اور خیالی سبز باغ ہے جس کے سپنے دکھا کر مغربی ممالک کے سرمایہ دار حکمران ، مشرق اور افریقی غریب ممالک کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ عالمگیریت دراصل نجی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے۔ انیس قمرؔ نے عالمگیریت کے معنیٰ و مفہوم اور اس سے ہونے والے نقصانات کو بڑے مؤثر انداز میں سمجھانے کی حتی المقدور کوشش کی ہے اور مشرقی عوام کو قبل از وقت باخبر کردینے کی کامیاب مساعی کی ہے۔ یہ ایک مشکل اور غیر ادبی موضوع ہے ، جس پر اُردو والے قلم اُٹھانے سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن انیس قمرؔ نے شاید اپنی سماجی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اپنے قومی فریضے کی تکمیل کی خاطر اس موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے۔ جو اس بات کا ثبوت بھی فراہم کرتا ہے کہ ادیب نہ صرف یہ کہ بہت حساس ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے اطراف و اکناف اور اپنے سماج کا باریک بینی سے مشاہدہ بھی کرتا ہے۔
مضمون ’’اُردو ادب اور تانیثیت‘‘ میں مصنف نے مختلف ادوار میں اور مختلف تہذیبوں میں عورت کی سماجی حیثیت کو تاریخی حوالوں سے بیان کیا ہے۔ یہ تبانے کی کوشش کی گئی ہے کہ عورت کا ہردور میں استحصال ہوتا رہا ہے۔ لیکن سائنسی علوم اور صنعتی انقلاب نے عورت کو نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل بنایا بلکہ اسے بڑی حد تک نڈر اور بے باک بھی بنادیا۔ مضمون میں اُردو شاعرات اور فکشن نگار خواتین کا مختصر خاکہ بڑی عمدگی سے کھینچا گیا ہے۔ ۱۹۶۰ء کے بعد ابھرنے والی اُردو شاعرات اور ان کے فن کے بارے میں مصنف رقمطراز ہیں :
’’ ان شاعرات نے اپنی شاعری کے ذریعے مرد اساس معاشرے سے بغاوت کا اعلان کردیا۔ اب وہ اپنی بے بسی ، مجبوری اور حیا کی تمام دیواریں توڑ کر ایک نئے پیکر میں ابھر کر سامنے آرہی ہیں۔‘‘
’’اُردو کے غیر مسلم مثنوی نگار‘‘ ایک بہت ہی عمدہ اور تحقیقی مضمون ہے۔ جس میں ساٹھ کے قریب غیر مسلم مثنوی نگاروں اور ان کی مثنویوں کی فہرست دی گئی ہے۔ اُردو کے نئے ریسرچ اسکالروں کے لئے یہ مضمون بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کو ادبی دُنیا اسلام پسند شاعر تسلیم کرتی ہے۔ اس لئے کہ ان کی فکر کا سر چشمہ قرآن مجید ہے۔ انہوں نے مختلف مذاہب اور نظریۂ حیات کے ساتھ ساتھ مغربی مفکرین کے نظریات کا بھی بہ نظر غائر مطالعہ کیا تھا۔ اپنے زمانے پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ اقبال نے نئے مغربی نظریات اور افکار کا تنقیدی جائزہ بھی لیا تھا۔ لیکن اسلامی افکار کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ ’’اقبال اور جدیدیت‘‘ یقیناًچونکا دینے والا عنوان ہے۔ انیس قمرؔ نے اس عنوان پر بڑی احتیاط سے قلم اُٹھایا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اقبال جدیدیت کے قائل تھے۔ انیس قمرؔ اپنے مضمون میں رقمطراز ہیں :
’’ جہاں تک ہیئت کا سوال ہے ، اقبال نے نہ کوئی آزاد نظم کہی اور نہ نظم معریٰ ، انہوں نے روایتی اسالیب کو باقی رکھا۔ اس وقت جبکہ اُردو شاعری داغؔ کے اثر سے محض تزئین کاری ، آرائش و ظاہری رکھ رکھاؤ تک محدود تھی اقبال کی ایسی شعری تنظیم جس میں علامت سازی ، معاصر دُنیا اور اس کے مسائل سے دلچسپی اور اُس کا اس طرح اظہار جس میں Involvement کے ساتھ ساتھ Detachment اور شائستگی کی کیفیت بیک وقت پائی جائے، اقبال کی جدیدیت کا جواز فراہم کرتی ہے۔‘‘
عصرِ حاضر میں الیکٹرانک میڈیا میں اُردو کا استعمال تیزی سے ہونے لگا ہے۔ قدیم اور جدید ہزاروں اُردو کتب اب انٹرنیٹ پر بھی پڑھی جارہی ہیں۔ اُردو کتب کو انٹرنیٹ پر محفوظ کرنے کا کام تیزی سے جاری ہے۔ سینکڑوں اُردو ویب سائٹس وجود میں آچکی ہیں جن کے ناظرین میں اُردو بولنے والوں کے مقابلے غیر اُردو داں ناظرین کی تعداد زیادہ ہے۔ انیس قمرؔ نے ’’جدید ذرائع ترسیل و ابلاغ ‘‘ میں اُردو زبان اور اس کے ادبی مقام کو تلاش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ جدید ذرائع ترسیل و ابلاغ اُردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت اور ترقی میں اہم رول انجام دے رہے ہیں۔ یہ بات بڑی حد تک درست معلوم ہوتی ہے۔
’’مکتوب نگاری کی روایت ۔ ایک جائزہ‘‘ ، ’’مولانا آزاد ۔ ایک ہمہ جہت شخصیت ‘‘ اور ’’مانوس اجنبی ۔ اسرارالحق مجازؔ ‘‘ وغیرہ مضامین Informative ہیں۔ پھر بھی یہ مضامین نئے انداز سے سوچنے پر ضرور مجبور کرتے ہیں۔ ’’مکتوب نگاری کی روایت ‘‘ یہ مضمون تو بلاشبہ بڑا ہی تحقیقی ہے۔ جس میں مغربی مفکرین افلاطون اور ارسطو سے لے کر مولانا آزاد کے مجموعہ مکاتیب ’’غبار خاطر‘‘ تک مکتوب نگاری کے ارتقاء کی تقریباً تقریباً تاریخ قلمبند کردی گئی ہے۔
’’ ہندوستانی سنیما اور اُردو‘‘ فلم شائقین کے لئے دلچسپی کا موضوع ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہندوستانی فلموں کی کامیابی اُردوہی کی مرہونِ منت رہی ہے۔ ہندوستانی فلموں کا سنہرا دور (Golden Era) ۱۹۵۰ء تا ۱۹۸۰ء پر محیط ہے۔ اس دوران جو بھی فلمیں بنتی تھیں ان میں نوے فیصد فلموں کے ٹائیٹل ، مکالمے اور نغمے وغیرہ اُردو ہی میں ہوا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے یہ سب فلمیں باکس آفس پر ہٹ اور کامیاب رہتی تھیں۔ یہ اور بات ہے کہ انڈین سنسر بورڈ ان فلموں کو ہندی سرٹیفکیٹ جاری کرکے اُردو کے ساتھ ہمیشہ ناانصافی کرتا رہا ہے۔ اسی بات کو انیس قمرؔ نے تفصیل اور حوالوں سے ثابت کیا ہے۔
یہ فطری بات ہے کہ فنکار میں تخلیقی شعور کے ساتھ ہی تنقیدی شعور بھی پروان چڑھتا رہتا ہے۔ شعور ایک نفسیاتی عمل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فنکار کے تخلیقی عمل کے ساتھ ہی تنقیدی عمل کو بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ بیان میں روانی ، واقعات میں تسلسل اور خیالات میں ندرت ہے۔ رعایت لفظی (Word Economy) اور الفاظ کا مناسب استعمال انیس کی تحریروں کی خصوصیت ہے۔ فیض احمد فیضؔ کے بارے میں وہ لکھتے ہیں :
’’فیضؔ نے صرف اپنے مشاہدے ہی کو شعر کے پیکر میں نہیں ڈھالا ۔ بلکہ تاعمر مجاہدہ بھی کرتے رہے۔‘‘
اسرارالحق مجازؔ کی زندگی کے کوائف پر روشنی ڈالتے ہوئے مصنف اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ میر تقی میرؔ اور مجازؔ کی زندگی کے حالات میں بڑی حد تک مماثلت ہے۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
’’ مجازؔ کی زندگی کے کوائف پر روشنی ڈالیں تو یہ حیرت انگیز احساس ہوتا ہے کہ مجازؔ کی زندگی اور خدائے سخن میر تقی میرؔ کے حالات زندگی میں بڑی حد تک مماثلت نظر آتی ہے۔ دونوں ہی نے تمام عمر محرومیوں کا سامنا کیا۔‘‘
خدائے سخن میر تقی میرؔ اور ترقی پسند شاعر مجازؔ کی زندگی کے حالات میں مماثلت کا ذکر اُردو کے نامور نقادوں کے یہاں بھی ملتا ہے۔ بہرحال انیس قمرؔ کو اپنے مافی الضمیر کو مؤثر انداز میں بیان کرنے پر ملکہ حاصل ہے۔ ان کا اندازِ بیان بہت سادہ اور سیدھا ہے۔ اسی لئے قاری کو مصنف کے مافی الضمیر تک رسائی حاصل کرنے میں کوئی پریشانی یا دقت پیش نہیں آتی۔
صفحات : 128
قیمت : 150 روپیے
پبلشر : تخلیق کار پبلشرز ۔ نئی دہلی
حصول کتاب : مکان نمبر 97-2-6 محلہ سیداں ۔ ناندیڑ ۔ 431604
۔۔۔۔۔۔
Md. Taqui