انٹرنیٹ کے ذریعہ خرید و فروخت کے شرعی احکام – – – – مفتی امانت علی قاسمیؔ

Share

خرید و فروخت

انٹرنیٹ کے ذریعہ خرید و فروخت کے شرعی احکام

مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ دار العلوم حیدرآباد
E-mail:
Mob: 07207326738

سائنس وٹکنالوجی نے تجارت ومعیشت کے باب میں حیرت انگیز تبدیلی کی ہے، ماضی میں خریدوفروخت کے جو طور طریقے رائج تھے وہ آج بھی رائج ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ تجارت وخریدوفروخت کی بہت سی نئی شکلیں وجود میں آگئی ہیں، ماضی میں اگر کوئی شخص کسی غائب شخص سے کوئی سامان فروخت کرتا تھا تو اس کی دو صورتیں رائج تھیں، تحریر کے ذریعہ یاقاصد کے ذریعہ، لیکن آج انٹر نیٹ نے اس کی نت نئی شکلیں پیدا کردی ہیں، ہر ایک کا حکم جاننے کے لئے بیع کی حقیقت پر نظر کرنا ضروری ہے،

فقہاء نے بیع کی تعریف کی ہے مال کا تبادلہ مال سے کرنا اس میں دو بنیادی قید ہیں، عوضین یعنی مبیع اور ثمن کامال ہونا ضروری ہے اور آپسی رضامندی ضروری ہے، دوسرے کی رضامندی کے بغیر بیع کا انعقاد نہیں ہوتا ہے، دوسری طرف بیع کے انعقاد کے لئے فقہاء کے یہاں اصول ہے کہ بیع ایجاب وقبول کے ذریعہ منعقد ہوتی ہے خرید و فروخت کرنے والے میں سے پہلے کے قول کو ابجاب اور دوسرے کے قول کو قبول کہا جاتا ہے اور اس ا یجاب وقبول کا ایک مجلس میں پایا جانا ضروری ہے اور اتحاد مجلس کے ساتھ یہ ایجاب وقبول اگر عاقدین آمنے سامنے ہوں تو بالکل ظاہر ہے کہ ایک شخص بیع کا ایجاب کرے گا اور دوسرا قبول کرے گا اور دونوں ایک ہی مجلس میں ہوگا، لیکن اس کے علاوہ فقہاء نے غائب کی بیع سے بھی بحث کی ہے، فقہاء کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ عقد کے ایک فریق نے جب تحریر کے ذریعہ یاقاصد کے ذریعہ اپنی طرف سے خرید و فروخت کی پیش کش کی اور دوسرے شخص کے علم میں جب یہ تحریر آئی یاقاصد پیغام لے کر آیا اور اس نے اسی مجلس میں قبول کرلیا تو اس صورت میں بیع منعقد ہوجائے گی
علامہ ابن ا لہمام اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:جب اسے خط پہونچ جائے اور وہ اس کے مضمون کو سمجھ لے اور مجلس ہی میں کہے میں نے قبول کیا تو بیع منعقد ہوجائے گی۔
فقہاء کی تصریحات کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر دو شخصوں میں سے ایک نے دوسرے کو عقد بیع کی تحریری پیش کش کی اور صورت حال یہ ہے کہ دونوں مختلف جگہوں پر ہیں اور دوسرے شخص کو جس مجلس میں پیش کش پہونچی اور اس کے علم میں آئی اسی مجلس میں اس نے زبانی یاتحریری طور پر اس پیش کش کو قبول کرلیا تو بیع منعقد ہوجائے گا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ فقہاء کے یہاں ایجاب وقبول کی صحت کے لئے اتحاد مجلس جو شرط ہے اس کا مطلب حقیقی مجلس کا ایک ہونا نہیں ہے، بلکہ ایجاب وقبول کا ارتباط واتصال کا فی ہے، لیکن یہاں اس کی وضاحت ضروری ہے کہ نکاح کے باب میں یہ ارتباط اتصال کافی نہیں ہے، اس لئے کہ نکاح کا معاملہ شرمگاہ کی حلت وحرمت کا ہے جس میں احتیاط کی ضرورت ہے، اسی لئے فقہاء نے نکاح کے باب میں تنگی رکھی ہے اور بیع کے باب میں تساہل اور نرمی کا معاملہ کیا ہے۔بہر حال بیع میں ایجاب وقبول کے لئے اتحاد مجلس کا مقصد ارتباط واتصال ہے، اسی لئے غائب شخص سے بیع وشراء درست ہے، اس پس منظر میں موجودہ ٹکنالوجی کی دنیا اور اس میں پیدا ہورہی نت نئی صورتوں کو بھی دیکھنا چاہئے، انٹر نیٹ کے ذریعہ خریدو فروخت کی مختلف صورتیں ہیں، اس پر کلی طور پر جواز یا عدم جواز کا حکم نہیں لگایا جاسکتا ہے، بلکہ ہر صورت کا حکم علیحدہ علیحدہ اس کی نوعیت کے ا عتبار سے لگایا جائے گا۔
انٹر نیٹ پر خریدوفروخت کی ایک صورت یہ ہے کہ ایک شخص نے انٹرنیٹ پر خریداری کی پیش کش کی اور دوسرے فریق نے فوری طور پر انٹر نیٹ کے اسی رابطہ میں قبول کرلیا تو شرعا خریدوفروخت کا معاملہ مکمل ہوگیا، اور بیع کی صورت بیع بالکتابت میں داخل ہوکر درست ہوگی۔
ویڈیو کانفرنسنگ بھی انٹر نیٹ پر خریدوفروخت کی ایک صورت ہے جس میں خریدوفروخت کا معاملہ مائکروفون اور کیمرہ کے واسطہ سے ہوتا ہے اور فریقین اس طرح ایک دوسرے کی حرکات وسکنات سے واقف ہوتے ہیں جیسے ایک کمرہ میں اور ایک جگہ بیٹھے ہوں، خریدوفروخت کے اس معاملہ کو بیع بالکتابت تو نہیں کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی مائکرو فون اور کیمرہ کو اتحاد مجلس کا درجہ دیا جاسکتا ہے، بلکہ بیع کے معاملہ میں فقہاء نے جو تساہل اور نرمی کا معاملہ کیا ہے اسی کے پیش نظر ایجاب وقبول کا ا رتباط واتصال مان لیا جائے گا۔
انٹر نیٹ پر خریدوفروخت کی ایک صورت ای میل کے ذریعہ ہوتی ہے یعنی کوئی شخص کسی سامان کے خریداری کی اطلاع ای میل کے ذریعہ بھیج دیتا ہے جب دوسرے شخص کے پاس وہ میل پہونچے اور جس مجلس میں وہ میل پڑھے اسی مجلس میں اس کو قبول کرلے تو بیع کی یہ صورت بھی درست ہے اور یہ بیع بالکتابت ہے۔
آج کل آن لائن بزنس بھی عام ہوتا جارہا ہے جس میں خریدار اور بیچنے والے دونوں کو سہولت ہوتی ہے، بیچنے والے کو کسی دکان لگانے اور اس کا کرایہ دینے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، بلکہ وہ انٹر نیٹ پر ویب سائٹ بنا کر اپنی اشیاء کا مکمل تعارف دے دیتاہے اور سامان کا نمونہ بھی موجود رہتا ہے، خریدار اس سائٹ پر جاکر اپنی پسند کی چیز خرید لیتا ہے، بظاہر یہاں پر ایجاب وقبول کا معاملہ نہیں ہوتا ہے، بلکہ ہر سامان اپنی قیمت کے ساتھ وہاں درج ہوتی ہے خریدار کو ا گر وہ سامان اسی قیمت پر پسند ہے تو وہ خرید لیتا ہے پھر ثمن کی ادائیگی کی دو صورت ہوتی ہے: کبھی تو اسی وقت اپنے اکاؤنٹ سے ثمن ا دا کرنا ہوتا ہے اور مبیع گھر آجاتی ہے، لیکن آج کل آن لائن خریدوفروخت کو سہل ، قابل اعتماد او رعام کرنے کے لئے پیسے بھی پہلے نہیں لئے جاتے ہیں بلکہ جس وقت سامان لاکر دیتا ہے وہی بائع کا قاصد پیسے بھی وصول کرتا ہے اور اگر مبیع میں کوئی عیب ہے یامبیع پسند نہیں ہے تو بائع کا قاصد آکر مبیع واپس لے جاتا ہے اور ثمن اکاؤنٹ میں واپس کردیتا ہے،مبیع کے پسندنہ آنے یا عیب دار ہونے کی صورت میں واپسی کا اختیار رہتا ہے اور اس سلسلے میں مکمل ہدایت دے دی جاتی ہے کہ مبیع پسند نہ آنے یا عیب دار ہونے کی صورت میں حمل ونقل کا صرفہ کس کو اور کس قدر برداشت کرنا ہوگا، بظاہر اس میں کسی قسم کے نزاع کا احتمال نہیں رہتا ہے، بیع کی یہ صورت بیع تعاطی کی ہے، اس لئے کہ بائع نے سامان کو بیع کے لئے پیش کیا ہے، لیکن ایجاب وقبول کا مکمل مفہوم یہاں پر نہیں پایا گیاہے، بلکہ مشتری کی طرف سے صرف قبول ہے جیسے ہم اخبار کی دکان پر جاکر پانچ روپئے رکھ کر ایک اخبار خرید لیتے ہیں بیع کی یہی صورت یہاں پائی جارہی ہے اور یہ درست ہے۔بعض آن لائن خریدوفروخت کے طریقے سے معلوم ہوتا ہے کہ بیع کی یہ صورت بیع بالکتابت میں داخل ہے، اس لئے کہ اگر خریدار کو سامان پسند آیا تو وہ خریدنے کا آپشن دبا دیتا ہے جس پر بائع کی طرف سے منظوری آتی ہے اور یہ میسیج دیا جاتا ہے کہ آپ کا سامان اتنے دنوں میں آپ کو پہونچ جائے گا، گویا خریدار نے بیع کا تحریری ایجاب کیا اور بائع کی طرف سے تحریری قبول پایا گیا، لہٰذا یہ بیع بالکتابت کی صورت ہے اور درست ہے۔
انٹر نیٹ پر آن لائن خرید و فرخت کی ایک صورت فاریکس ٹریڈنگ کی ہے ،فاریکس ٹریڈنگ کاشرعی حکم معلوم کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ فاریکس ٹریڈنگ میں آدمی بلا واسطہ خود خریداری نہیں کرسکتا ہے ،بلکہ کمپنی جو بروکر کا کام انجام دیتی ہے اس کا واسطہ ضروری ہے اور خریدوفروخت کے تمام مراحل بروکر کمپنی کے واسطہ سے پایہ تکمیل کو پہونچتے ہیں،یہ کمپنی ہر خریدوفروخت پر ۵۰ یا ۶۰ ڈالر کمیشن لیتی ہے، خریدار کو خواہ نفع ہو یا نقصان کمپنی کے طے شدہ کمیشن کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے، نیز اس کاروبار میں صرف ۱۰ ؍فیصدرقم بروکر کمپنی کو ادا کرنا ضروری ہوتا ہے، باقی ۹۰؍ فیصد قیمت ادا کرنا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی کمپنی کی طرف سے اس کا مطالبہ کیا جاتا ہے، مثلا ایک شخص ۱۰؍ہزار ڈالر بروکر کمپنی کوجمع کروا کر اپنا اکاؤنٹ کمپنی کے پاس کھول لیتا ہے تو اس کو ایک لاکھ ڈالر خریداری کی اجازت مل جاتی ہے، کاروبار کا طریقہ کا ریہ ہے کہ آدمی فاریکس کا رکن بن جاتا ہے کمپنی دس ہزار میں سے دو ہزار ڈالر اپنے پاس بطور بیعانہ رکھ لیتی ہے، تاکہ اگر بالفرض خریدوفروخت میں نقصان ہونے لگے تو اس میں سے پورا کیا جاسکے ،رکن بننے کے بعد کمپنی والے اس کی رہنمائی کرتے ہیں کہ کس وقت کون سی چیز خریدنا مناسب اور نفع بخش ہے، اس کاروبار میں خریدوفروخت کی جانے والی ہر شئ کی خریداری کی کم سے کم مقدار مقرر ہوتی ہے جس کو فاریکس ٹریڈنگ کی اصطلاح میں لاٹ (Lot) کہتے ہیں، فروخت ہونے والی اجناس میں عام طور پر کپاس، چینی اور گندم جب کہ زر میں سوناچاندی شامل ہیں، سونے کی ایک لاٹ ۱۰۰۰ایک ہزار اونس پر مشتمل ہوتی ہے ایک لاٹ کی قیمت مثلا دس ہزار ڈالر ہوتی ہے جب کوئی آدمی ایک لاٹ خریدنا چاہتا ہے تو وہ کمپنی سے رابطہ کرتا ہے اس کے آرڈ پر کمپنی اس کے لئے ایک لاٹ خرید لیتی ہے اور اس کی اطلاع خریدار کو دے دیتی ہے، اس کے بعد جیسے ہی خریدی گئی جنس کی قیمت بڑھنے لگتی ہے کمپنی خریدار کو مطلع کرتی ہے اور خریدار اپنی مرضی کے مطابق کمپنی کو اس چیز کے بیچنے کا آرڈ دے دیتا ہے، جب کمپنی خریدار کے آرڈ رپرلاٹ فروخت کرتی ہے تو حاصل شدہ نفع میں سے اپنا کمیشن کاٹ لیتی ہے، بقیہ نفع فروخت کنندہ کے اکاؤنٹ میں چلا جاتا ہے اور اگر خریدی گئی جنس کی قیمت کم ہونے لگے تو بھی کمپنی خریدار کو اطلاع کرتی ہے، تاکہ زیادہ خسارے سے بچنے کے لئے پہلے ہی لاٹ فروخت کردی جائے، نیز اس کا روبار میں خریدی گئی چیز کو خریدار اپنے شہر میں بھی منگوا سکتا ہے، لیکن سفری اخراجات اور ٹیکس وغیرہ کی بنا پر اسی مارکیٹ میں خریدار وہ چیز فروخت کردیتا ہے۔
یہ کاروبار مکمل طور سے انٹر نیٹ پر گھر بیٹھے ہوتا ہے اس میں حسی طور پر خریدار کسی جنس پر اور فروخت کنندہ کسی کرنسی پر قبضہ نہیں کرتا ہے، بلکہ اسکرین پر اس کے اکاؤنٹ میں صرف SHOW (دکھایا) کیا جاتا ہے کہ فلاں آدمی ایک لاٹ کا مثلا مالک بن گیا، دوسری طرف فروخت کنندہ کے اکاؤنٹ میں صرف رقم کی منتقلی دکھائی جاتی ہے اور آخر میں نفع اور نقصان کا فرق برابر کرلیا جاتا ہے۔
فاریکس ٹریڈنگ کی مکمل صورت سامنے آنے کے بعد اس کا حکم بھی آسانی سے معلوم ہوسکتا ہے ، فتاویٰ عثمانی میں فاریکس سے متعلق ایک سوال ہے، جس میں فاریکس ٹریڈنگ کی مزید وضاحت ہے، خریدوفروخت کی مذکورہ صورت کئی وجوہ سے ناجائز ہے۔
(۱) اس میں زیادہ تر کرنسی کی خریدوفروخت ہوتی ہے اور یہاں پر خریدنے والا پوری رقم ادا نہیں کرتا ہے، اسی طرح بیچنے والا بھی صرف نفع کی رقم ہی ادا کرتا ہے، ظاہر ہے کہ سونے چاندی میں یہاں دونوں جانب سے قبضہ نہیں پایا جاتاہے، یعنی دونوں جانب سے رقم دین ہے، لہٰذا یہ بیع الکالی بالکالی میں داخل ہے جس سے حدیث میں منع کیا گیا ہے۔ عن ابن عمر أن النبيﷺ نہی عن بیع الکالي بالکالي ہو النیسءۃ بالنسیءۃ.(۴۱)
(۲) تجارت کی اس صورت میں مشتری جو سامان خریدتا ہے اس پر قبضہ کاتحقق نہیں ہوتا ہے، نہ مشتری کی چیز علیحدہ کی جاتی ہے اور نہ ہی بیچنے کے علاوہ اس میں کسی قسم کے تصرف کا اختیار پایا جاتا ہے، یہاں صرف اسکرین پر مبیع کے تعلق سے نفع یا نقصان کی مقدار دکھادی جاتی ہے، ظاہر ہے کہ اس میں غرر اور دھوکہ کا امکان ہے، بہت ممکن ہے کہ جس چیز کی خریدوفروخت ہورہی ہو حقیقت میں اس چیز کا وجود ہی نہ ہو، اگر چہ اطمینان دلانے کے لئے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ مشتری سامان اپنے پاس منگانے کا اختیار رکھتا ہے، لیکن کمپنی کو بھی معلوم ہے منگانے کے صرفہ کی بنیا دپر کوئی بھی مبیع کو اپنے پاس نہیں منگائے گا، اس طرح گویا ایک معدوم چیز کی بیع ہوتی ہے اور اس پر نفع یا نقصان کا مدار رکھاجاتا ہے،خریدوفروخت کی اس صورت میں غرر اور دھوکہ کا قوی امکان ہے۔
(۳) خریدوفروخت کی اس صورت میں عام طور پر اشیاء منقولہ کی بیع ہوتی ہے اور خریدنے والا سامان پر قبضہ کرنے سے پہلے ہی اس کو فروخت کردتیا ہے اور قبضہ سے پہلے بیع بالاتفاق ناجائز ہے، یہاں تخلیہ کا مفہوم بھی نہیں پایا جاتا ہے، اس لئے کہ قبضہ یا تخلیہ کا مفہوم یہ ہے کہ مبیع بائع کے ضمان سے نکل کر مشتری کے ضمان میں داخل ہوجائے اور مشتری کے لئے بلا کسی رکاوٹ کے اس پر قبضہ کرنا ممکن ہو، ظاہر ہے اس بیع میں قبضہ کا مفہوم نہیں پایا جارہا ہے، گویا انسان جس چیز کا مالک نہیں ہے اور جس چیز کے تسلیم وتسلم پر اس کو قدرت نہیں ہے اس کی بیع کررہا ہے
(۴) بروکر کمپنی ممبر سے کمیشن وصول کرتی ہے وہ یا تو ضمانت کی فیس ہے یا رقم کا معاوضہ ہے جو خریدار کی طرف سے بیچنے والے کو ادا کرتی ہے، پہلی صورت میں یہ اجرت علی الکفالہ ہے اور کفالت پر اجرت ناجائز، ولا یجوز أخذ الأجر علی الکفالۃ لأنہا من عقود التبرعات اور دوسری صورت میں یہ قرض پر نفع حاصل کرناہے جو کہ سود ہے اور دونوں طریقے ناجائز ہیں۔
(۵) مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے فوریکس ٹریڈنگ کو ناجائز قرار دیا ہے او رعدم جواز کی مختلف وجوہات میں ایک وجہ جوا اور سٹہ بھی قرار دیا ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
اس کاروبار میں جب کوئی لاٹ خریدی جاتی ہے تو وہ خریدار کو متعین اور الگ کرکے حوالے نہیں کی جاتی، بلکہ اس کے اکاؤنٹ میں تحریر کردی جاتی ہے، پھر جب وہ خریدار آگے کسی شخص کو فروخت کرتا ہے تو اس وقت اگر اسے نفع ہو تو صرف نفع واپس کردیا جاتا ہے اور اگر نقصان ہو تو اس سے وہ نقصان طلب کرلیا جاتا ہے، خلاصہ یہ کہ پوری خرید کردہ لاٹ تحویل میں نہیں دی جاتی، بلکہ کاغذی طور پر اس کے اکاؤنٹ میں منتقل کردی جاتی ہے اور آخر میں نفع اور نقصان کا فرق برابر کردیا جاتا ہے جو سٹے کی ایک قسم ہے۔
اس کاروبار میں زیادہ تر کرنسی کی خریدوفروخت ہوتی ہے اور یہاں خریدار جو کرنسی خریدتا ہے وہ غیر معین کرنسی ہوتی ہے، کیوں کہ کرنسی میں تعیین قبضہ سے ہوتی ہے اور قبضہ یہاں متحقق نہیں ہے
(۶) کاغذی کرنسی کو علماء عرب نے سونے چاندی کے حکم میں رکھا ہے اس کاروبار میں زیادہ تر کرنسی اور سونے چاندی کی بیع ہوتی ہے، ایسی صورت میں یہ بیع صرف ہے جس میں عوضین پر قبضہ ضروری ہے، جب کہ یہاں یہ صورت مفقود ہے اور برصغیر کے علماء کے نزدیک یہ اگر چہ سونا چاندی کے حکم میں نہیں ہے، لیکن عوضین میں سے کسی ا یک پر قبضہ ضروری ہے، جب کہ یہاں قبضہ کا تحقق بالکل مفقود ہے، اس لئے کہ یہاں کاروبار صرف کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی اسکرین پر ہوتا ہے۔
——–

Share

One thought on “انٹرنیٹ کے ذریعہ خرید و فروخت کے شرعی احکام – – – – مفتی امانت علی قاسمیؔ”

Comments are closed.

Share
Share