-6-قسط
اردو کےادیب اورنثرنگار
قاضی عبد الغفار – خواجہ حسن نظامی
پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
– – – – –
– – – – –
قاضی عبد الغفار (۱۸۸۵۔۱۹۵۴ء)
قاضی عبد الغفار ایک صاحب طرز ادیب ، صحافی اور انشائیہ نگار تھے انھوں نے اردو نثرکو اپنے خاص اسلوب کی وجہ سے منفرد پہچان عطا کی ہے ، وہ اردو تحریک کے پر جوش کار کن تھے ، مراد آباد ان کا وطن تھا ، ابتدائی تعلیم کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں انھوں نے داخلہ لیا ، قاضی عبد الغفار کو شروع ہی سے صحافت سے دل چسپی تھی مراد آباد سے ایک رسالہ ’’نیّر عالم‘‘
شائع ہوتا تھا اس میں ان کی بعض تحریرں شائع ہوئی تھیں ،۱۹۱۳ء میں مولانا محمد علی جوہر نے اپنے اخبار ہمدرد میں اپنا اسسٹنٹ مقرر کرلیا ،
اس طرح سے قاضی عبد الغفار کو مولانا محمد علی کی تربیت سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا ، جب حکومت نے ہمدرد کو بند کردیا تو قاضی عبد الغفار کلکتہ آگئے اور وہاں سے انھوں نے روزنامہ ’’جمہور‘‘ جاری کیا ، انگریزی حکومت نے جمہور پر بھی پابندی عائد کردی تو قاضی عبد الغفار نے دہلی سے روزنامہ ’’صباح‘‘ جاری کیا ، یہاں ان کو حکیم اجمل خاں اور ڈاکٹر انصاری کی صحبت حاصل ہوئی اور جب خلافت کمیٹی کا وفد لندن جانے لگا تو ان کو اس وفد کا ایک رکن بنایا گیا ، وہ چودہ فروری ۱۹۲۱ء کو وفد کے ساتھ لندن پہنچے اور تقریبا ڈھائی مہینہ کے بعد ہندونستان واپس ہوئے ، یہ چونکہ مرادآباد کے تھے اور ہر شخص اپنا شہر اور اپنے شہر کی صنعت وحرفت عزیز ہوتی ہے اس لئے انھوں نے پیرس میں مرادآبادی برتنوں کی دکان کھولنے کی کوشش کی ، لیکن ایک ادیب اور دانشور تاجر اور ساہوکار نہیں بن سکتا ، چنانچہ انھوں نے برتنوں کی دکان بند کی ، بعد میں وہ ساہتیہ اکیڈمی کے رکن نامزد ہوئے اور انجمن ترقی اردو کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے اردو کی خدمت انجام دی ۔
قاضی عبد الغفار نے ایک صحافی کی حیثیت سے اپنے شناخت قائم کی تھی لیکن ان کا اصل مقام یہ تھا کہ وہ اردو کے صاحب طرز ادیب تھے ، ’’لیلی کے خطوط‘‘ ’’مجنون کی ڈائری ‘‘، ’’تین پیسے کی چھوکری‘‘، ’’پندار کا صنم کدہ‘‘، ’’سیب کادرخت‘‘ ، ’’نقش فرنگ‘‘،’’آثار جمال الدین افغانی ‘‘، ’’آثار ابو الکلام آزاد‘‘،اور ’’حیات اجمل‘‘ ان کی شاہکار کتابیں ہیں ، انھوں نے حیدرآباد سے پیام نام کا اخبار بھی نکالا تھا اور اس اخبار میں انھوں نے سر راہ کے عنوان سے طنزیہ اور مزاحیہ کالم بھی لکھنا شروع کیا تھا ، انھوں نے صحافت کے ذریعہ رائے عامہ کی رہنمائی کا کام انجام دیا ، ان کا طرز تحریر شگفتہ اور پر اثر ہوتا تھا ، لیلی کے خطوط قاضی عبد الغفار کا شاہکار تصور کیا جاتاہے ، ان خطوط میں حسن بیان اور شگفتگی غیر معمولی ہے ، اسی طرح سے مجنوں کی ڈائری بھی ایک اہم کتاب ہے ، ان کی تحریریں انشائیہ اور ادب لطیف کا اچھا نمونہ ہیں ، سوانحی ادب میں
بھی ان کے قلم کی کاوشیں نمایاں ہیں ، چنانچہ انھوں نے مولانا آزاد اور حکیم اجمل خاں اور جمال الدین افغانی کی سوانح قلم بند کی ہیں
خواجہ حسن نظامی (۱۸۷۸۔۱۹۵۵ء)
اردو کے صاحب طرز ادیبوں کی کوئی مختصر فہرست خواجہ حسن نظامی کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی ، وہ ایک زود نویس اور کثیر التصانیف ادیب تھے ، انھوں نے انشائیے ، سفرنامے اور روزنامچے لکھے ، تفسیر بھی لکھی ، صحافت سے بھی اپنا رشتہ قائم کیا ، ایک سوانح نگار اور مرقع نگار کی حیثیت سے بھی اپنی انفرادیت تسلیم کروائی ، ان کے اسلوب کی آب وتاب بدستور باقی ہے ، تصوف کے مشائخ کے خاندان سے ان کا تعلق تھا ، وہ گیروا لمبا کرتہ پہنتے تھے ، انھوں نے حلقہ نظام المشائخ قائم کیا اور نظام المشائخ کے نام سے رسالہ بھی جاری کیا ، اسی رسالہ میں ان کا سفرنامہ شام بھی شائع ہوا ، انھوں نے نثر کے مختلف اصناف میں اپنی تخلیقی یادگاریں چھوڑی ہیں ’’آپ بیتی‘‘، ’’بیگمات کے آنسو‘‘، ’’سیپارہ دل ‘‘، ’’بہادر شاہ ظفر کا روزنامچہ‘‘، ’’جگ بیتی کہانیاں‘‘ ، ’’چار درویشوں کا تذکرہ‘‘، ’’دلی کی جانکنی‘‘، ’’ سفرنامہء حجاز‘‘، ’’مصر وشام‘‘، ’’طب کی تاریخ ‘‘، ’’طمانچہ بر رخسار یزید‘‘وغیرہ ان کی تصنیفات ہیں ، انھوں نے ایک عام فہم تفسیر بھی لکھی ہے ، ان ایک اور تاریخی اور ادبی کارنامہ ’’فرعونی تاریخ‘‘ ہے ، انھوں نے اپنی آپ بیتی بھی لکھی ہے ، ’’میلاد نامہ‘‘ کے نام سے سیرت رسول ﷺ لکھی ہے اور حضرت عبد القادر جیلانی کی سوانح عمری بھی قلم بند کی ہے ، خواجہ حسن نظامی کے مضامین میں خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ معمولی سے معمولی چیز سے کوئی سبق لیتے ہیں اور لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں ، ان کی فکر رسا اور مشاہدہ زرخیز ہے ، مناظر قدرت سے بھی ان جذباتی وابستگی ہے وہ صبح دوپہر شام سردی و گرمی و برسات کی کیفیات اپنے خاص انداز میں بیان کرتے ہیں ، ان کی جمالیاتی حس بہت تیز ہے اور وہ فطرت کی رنگارنگی میں ڈوب کراس کے بوقلموں جلووں کی مصوری کرتے ہیں ، اور جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتے ہیں اس میں کوئی نہ کوئی عارفانہ نکتہ اور کوئی درس تلاش کرلیتے ہیں ، ان کا طرز نگارش سلیس ، عام فہم اور دل نشین ہے ۔