پروفیسراکرم باجوہ کی’’ نوشتہ تنقید ‘‘کا اجمالی جائزہ – – – – ڈاکٹراظہاراحمد گلزار

Share
 نوشتہ تنقید
SAMSUNG CAMERA PICTURES

پروفیسراکرم باجوہ کی’’ نوشتہ تنقید ‘‘کا اجمالی جائزہ

ڈاکٹراظہاراحمد گلزار

کسی بھی معاشرے کے تہذیب و تمدن ،رسوم و رواج اور جمالیاتی ذوق کی عکاسی اور مزاج کی ترجمانی اس کے شعر و ادب سے ہوتی ہے اور شعر و ادب کی راہیں متعین کرنے کے لئے تنقید کا سہارا لیا جاتا ہے۔ لہٰذا جس قدر تنقیدی شعور پختہ ہو گا اسی قدر قابل ذکر ادب کی ترویج عمل میں آئے گی۔تنقید نگاری کے سفر کا جائزہ لینے سے قبل ہم لفظ ’’تنقید‘‘ کے مختلف معانی اور مفاہیم پر غور کر لیتے ہیں۔تا کہ زیادہ بہتر انداز میں اس فنی موضوع کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا جا سکے ۔سید عبداللہ کے بقول:
’’تنقید کے معنی ہیں کھوٹا کھرا پرکھنا، اصطلاحاً کسی موجود مواد کی خوبی یا برائی حسن وقبح اور جمال و بد صورتی کے متعلق چھان بین اور اس پر فیصلہ دینا نقاد کے مد نظر ہوتا ہے۔‘‘(۱)

تنقید کھوٹے سکے الگ کرنے کو اور شعر کے عیب ظاہر کرنے کو کہتے ہیں۔اور اس کے ایک معنی دیمک کا لکڑی کے تنے کو کھوکھلا کرنے کے بھی ہیں۔ ’’نقد الطائر‘‘پرندوں کی چونچ مارنے کو کہتے ہیں جو تنقید اور تحقیق کے مشابہ ہے۔’’نقد الحیہ‘‘ سانپ کے ڈسنے کے معنی میں بھی آتا ہے جس سے ہم ایسے نقادوں کی رائے بھی مراد لے سکتے ہیں۔جو ذاتی پسند نا پسند اور تعصبات پر مبنی ہوتی ہیں۔ کلیم الدین لکھتے ہیں:
’’ تنقید کوئی کھیل نہیں جسے ہر شخص بہ آسانی کھیل سکے۔یہ ایک فن ہے۔‘‘(۲)
مختلف لغات میں تنقید کے بارے میں لکھی ہوئی تنقید کی مختلف تعریفیں درج ذیل ہیں۔وارث سرہندی ’’علمی اُردو لغت‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ تنقید کے معنی پرکھ، تمیز، کھوٹے کھرے میں تمیز، کسی کلام یا فن پارے پر غیر جانبدارانہ اظہار رائے،کلام کی خوبیاں اور خامیاں ظاہر کرنا۔‘‘(۳)
مولوی نور الحسن نیر ’’ نور اللغات‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’تنقید کے معنی کھوٹا کھرا پرکھنا، جانچ ،ایسی جانچ جو ضعیف اور مضبوط صورتوں کو الگ الگ کر دے اور جس سے اچھے بُرے کی تمیز ہو۔‘‘ (۴)
شان الحق حقی ’’ فرہنگ تلفظ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’تنقید کے معنی رائے زنی،جانچ،پرکھ،عملی یافنی قدرمتعین کرنے کا عمل نیز[ اصلاً] نقد،انتقاد۔‘‘(۵)
محمد عبداللہ خویشگی’’ فرہنگ عامرہ میں لکھتے ہیں:
’’ تنقید کے معنی پرکھنا کے ہیں۔‘‘ (۶)
اُردو تنقید کا زیادہ تر موضوع اُردو شاعری رہی ہے ۔دراصل ہر ادب میں تنقید کازیادہ تر موضوع شاعری ہی ہوتی ہے،کیونکہ ہر ادب میں شاعری پہلے وجود میں آتی ہے اور نثر بعد میں۔شاعری کے بعد ناول ،افسانے اور ڈرامے وغیرہ۔غفور شاہ قاسم، پاکستانی ادب۱۹۴۷ء سے تا حال میں لکھتے ہیں:
’’دنیا کی ہر زبان کے ادب کا وہ حصہ جو انسان اور انسانی زندگی کے بارے میں لکھا گیا مثلاً داستان، ناول، افسانہ، ڈرامہ،نظم اور غزل وغیرہ تخلیقی ادب کہلاتا ہے۔اس تخلیقی ادب کے بارے میں جو کچھ لکھا جاتا ہے اسے تنقیدی ادب کہا جاتا ہے۔‘‘(۷)
ڈاکٹرسیدمحی الدین قادری زور روحِ تنقید میں لکھتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے کے تہذیب و تمدن ،رسوم و رواج اور جمالیاتی ذوق کی عکاسی اور مزاج کی ترجمانی اس کے شعرو ادب سے ہوتی ہے اور شعرو ادب کی راہیں متعین کرنے کے لیے تنقید کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ لہذا جس قدر تنقیدی شعور پختہ ہو گا اسی قدر قابل ذکر ادب کی ترویج عمل میں آئے گی۔شعرو ادب کے فروغ اور ترقی کے لیے تنقید کی ضرورت نہایت اہمیت کی حامل ہے۔تنقید کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ خضرِ راہ بن کر مصنف کی رہبری کرے اور اس کی گمراہ قوتوں کو صحیح راستے پر ڈال دے۔(۸)تنقید خود تنقید نگار اور صاحب علم و ادب کے لیے بھی لازم ہے۔کیونکہ اس میں اصلاح اور ترقی کا پہلو مضمر ہے جہاں یہ لکھنے کو والوں جدید طرزِ نگارش سے ہمکنار کرتی ہے وہاں یہ پڑھنے والوں میں صحیح علمی و ادبی ذوق کے پیدا کرنے کا موجب بھی بنتی ہے۔تنقید کی اہمیت کے حوالے سے ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں:
’’ تنقید فنکار اور اس کی تخلیقات کے معیار کو بلند کرتی ہے اور اس کو صحیح معنوں میں ادب اور فن بناتی ہے ۔ تنقید بڑی ہی اہمیت رکھتی ہے اس کے بغیر ادب کے بہتے ہوئے چشمے میں روانی پیدا نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے خشک ہو جانے کے امکانات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہر ملک کے ادب میں ہر دَور اور ہر زمانے میں اس کا وجود ملتا ہے چاہیے اس کی صورت کچھ ہی رہی ہو۔‘‘(۹)
ادبی رسم و سلوک کا نام تنقید ہے یعنی تنقید کی تعلیم ادب تک رسائی حاصل کرنے کے آداب سکھاتی ہے ۔تنقید ادب پارے اور قاری کے درمیان معنوی فنی اشتراک پیدا کرتی ہے۔جدید ادب سے مراد وہ ادب نہیں جو زمانی طور پر ہم سے قریب ہو۔ بیسویں صدی میں بیخود دہلوی کی غزل قدیم اسلوب کا نمونہ ہے۔ اور آج سے بہت پہلے نظیر اکبر آبادی کی منظومات جدید ادبی تخلیقات ہیں۔جدت زمانی یا مکانی نہیں بلکہ ایک نقطہ نظر کا نام ہے۔ ایک اسلوب فکر سے عبارت ہے۔سید عابد علی عابد انتقاد ادبیات میں لکھتے ہیں:
’’ وہ ادب جدید ہے جو روایت کے ذخیروں کو ٹٹول کر صحت مند ،توانا اور زندہ عناصر کو اپنا ورثہ سمجھ کر قبول کرتا ہے۔‘‘(۱۰)
’’نوشتۂ تنقید ‘‘کا جائزہ:
ادب کے مراکز سے دور رہ کر پروفیسر اکرم باجوہ نے جو ادبی معرکے مارے ہیں وہ یقیناً قابل ستائش ہیں وہ ایک ہمہ جہت شخصت کے مالک ،ایک متحرک قلم کار ہیں ۔ وہ ان تنقید نگاروں کے ہراول دستے کا ایک ایسا سرخیل ہے جو خواب و خیال سے الفاظ کی تصویریں بناتا ہے ۔انھوں نے تنقید کے اصولوں اور ضابطوں کو ملحوظ رکھا ہے جو ایک اچھے نقاد کی ذمہ داری ہوتی ہے۔پروفیسر اکرم باجوہ ایک منجھے ہوئے محقق ہیں جنھوں نے اپنی گمشدہ تحریروں کو وقت کی گرد میں گم ہونے سے بچانے کے لیے اپنی تحریروں کی چھان پھٹک کی ،جو انھوں نے بہت پہلے مختلف کتابوں پر تبصروں اور دیباچوں کی صورت میں لکھے تھے۔
پروفیسر اکرم باجوہ کی یہ کتاب’’نوشتۂ تنقید‘‘نظمینہ پبلی کیشنز لاہور سے ۲۰۱۶ء میں شائع ہوئی۔اس تنقیدی کتاب میں کل اڑتیس تنقیدی مضامین شامل ہیں ۔پروفیسر اکرم باجوہ نے اہل قلم کے ان مختلف مجموعوں پر مکمل اور بے لاگ تبصرہ کر کے ثابت کیا ہے کہ ان کی فکر میں پاکیزگی اور اظہار خیال میں سادگی ہے۔
پروفیسر اکرم باجوہ ’’نوشتۂ تنقید‘‘کے پیش لفظ میں اپنے دکھ اورکرب کا اظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں :
’’مجھے اس بات کا بھی اچھی طرح ادراک ہے کہ میری وفات کے بعد میری اولاد میں کوئی بھی میری کتاب شائع نہیں کرے گا۔میرے مسودات اور بیاضوں کو ردی میں فروخت کر دیا جائے گایا انھیں دیمک چاٹ جاے گی ۔ میں کئی ایسے مشاہیر شعرا اور ادبا کو جانتا ہوں جن کیے ساتھ یہی سلوک ہوا ہے۔ کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کی تصویر سے رنگ اُڑ جاتا ہیں اور اس پر بے حسی کی گرد جم جاتی ہے ،یہی دستور زمانہ ہے۔‘‘ (۱۱)
فن کار کا فن بلا شبہ لافانی ہوتا ہے لیکن اگر اس کی توقیر نہ کی جائے تو یہ نگینے ذرا سی ٹھیس سے ٹوٹ جاتے ہیں ۔پروفیسر اکرم باجوہ نے جس عرق ریزی سے اس فنِ تنقید کو نبھایا ہے وہ قابل ستائش ہے۔آگے چل کر وہ لکھتے ہیں:
’’میں نے سیب کی رنگت ،مہک اور شرینی سے حظ اٹھایا ہے ۔اس سے کیڑے تلاش نہیں کیے ،میں نے تخلیق کے باطن میں اتر کر لفظوں سے خوشبو کشید کی ہے، اس سے لطف اٹھایا ہے ،اس کے محاسن سے اپنے ذوق جمالیات کی تسکین کی ہے ۔اپنے جذبہ استحسان کی نمو کی ہے ،میں نے ایک الگ اسلوب تراشنے کی شعوری کوشش کی ہے تا کہ تنقید ایک فن پارے اور نثر لطیف کی شکل اختیار کر جائے۔‘‘ (۱۲)
’’نوشتہ تنقید‘‘میں شامل مضامین کو پڑھ لینے کے بعد ہماری اس بات کا جواب آسانی سے مل جاتا ہے کہ ہمیں یہاں تک آتے آتے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ لفظ کب باتیں کرنے لگتے ہیں ،خیال کس دم تصویریں بنانے لگتے ہیں ،معنی کیوں کر ہم آواز ہونے لگتے ہیں اور تنقید کیسے تخلیق کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر ’’ککلی‘‘ ڈالنے لگتی ہے ٹھیک اس دم جب ایک تخلیق کار الفاظ کی بزم سجانے کا اہتمام کرتا اور لفظوں سے ہم کلام ہوتا ہے۔میجر اسد محمود خان اپنے ایک مضمون’’لفظ و خیال و معنی، تنقیدکا نوشتہ ‘‘ میں پروفیسر اکرم باجوہ کی تنقید کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ اکرم باجوہ ایک ایسا مہان قلم کار ہے کہ جو لفظوں سے باتیں کرتا ہے ،خواب و خیال سے تصویریں تراشتا ہے، جو ایک ہاتھ میں تخلیق کا ہاتھ اور دوسرے میں تنقید کا ہاتھ تھام کر ’’ککلی‘‘ ڈالتا ہے یہاں یہ کہنے کا جواز بھی مل جاتا ہے کہ اکرم باجوہ بھی در اصل تخلیق کاروں کی اس قبیل کا فرد ہے کہ جس کے سامنے لفظ باتیں کرتے ،خواب و خیال تصویریں بناتے،معنی بولتے ہیں‘‘۔(۱۳)
پروفیسر اکرم باجوہ نے اصحاب دانش کے فن کو جس کسوٹی پر پرکھا ہے ان تمام مضامین کو دیکھ کر ان کی تنقیدی بصیرت اور صلاحیتوں کو ماننا پڑتا ہے کہ انھوں نے دریا کوکوزے میں بند کر دیا ہے۔ان تمام مضامین پر الگ الگ بحث کرنا قدرے مشکل کام ہے یہاں ہم چیدہ چیدہ مضامین کا جائزہ لیتے ہیں۔سب سے پہلے محمد علی ظہوری کے مجموعہ ’’نوائے ظہوری‘‘ سے ہم اپنے تحریر کا آغاز کرتے ہیں۔پروفیسر اکرم باجوہ ’’ زلف الہام کی خوشبو ‘‘کا عنوان دے کر محمد علی ظہوری کی نعت کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ ظہوری کی نعت کا قالب ملائم ،دیدہ زیب اور پُر کشش ہے اور اس کے خدو خال معصومیت سے آراستہ و پیراستہ ہیں۔اس میں صباحت بھی ہے اور نفاست بھی ،سادگی بھی ہے اور سلاست بھی اور آرزوئے وصال کے قرینے بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ظہوری کی سوچوں کا ہر صدف گوہر ہوگیا ہے اور ہر جذبہ فانوسِ حرم بن گیا ہے اور ان کی نعت میں تقدس ہے جسے چاندنی رات نے سوئے ہوئے معصوم بچے کی پیشانی پر بوسہ دے دیا ہو۔‘‘ (۱۴)
ہر اچھی تحقیق میں تنقید مضمر ہوتی ہے اور اسی طرح ہر عمدہ تنقید میں تحقیقی کے عناصر موجود ہوتے ہیں۔جمیل احمدعدیل کے سفر نامے ’’چہچہاتے لہو کی صدا‘‘ کی تابانیوں ،فکرکی لطافتوں ،شعور کی تجلیوں اور روح کی گہرائیوں میں مچلنے والی تمناؤں کوحسین مرقع قرار دے کر یہ کہتے ہیں کہ یہ اجمالی تاثرات برگِ زیتون پر چمکتے قطروں کی رعنائی اور چہچہاتے لہو کی صداہیں۔سفر نامہ پر بات کرتے ہوئے پروفیسر اکرم باجوہ کے اپنے اندر کا موسم کیسے چہک اٹھتا ہے :
’’حرمین شریفین کا یہ مقدس سفر نامہ مسجد الحرام سے مسجد نبویﷺ تک رسائی کا اتنا بڑا اعزازہے جو رحمتِ یزداں کے بغیر کسی صورت ممکن ہی نہیں ،یوں لگتا ہے جیسے جمیل احمد عدیل رحمتوں کے نگر میں ہے۔رَب بزرگ و برتراور سرورِ کونین ﷺ کی رحمتوں نے اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ رکھا ہے ۔‘‘ (۱۵)
پروفیسر اکرم باجوہ تمام انسانی رویوں کو معاشرتی صورت حال اور انسانی نفسیات کے پس منظر میں دیکھتے ہیں۔ اور یہی ان کی تنقیدکی بنیاد ہے ۔وہ اسے فنکار کے فرائض میں شامل سمجھتے ہیں کہ فنکار معاشرتی انصاف کے مقصد کو ہمیشہ پیش نظر رکھے اور اپنے ہر عمل کو با مقصد بنائے۔ پھر وہ بجا طور پر یہ بھی سمجھتے ہیں کہ انسان کی مادی زندگی کو بہتر بنائے بغیر اس سے روحانی عظمتوں کی توقع غلط ہے۔ مادی زندگی میں انصاف ،اخوت ایمانداری اور خوش اخلاقی کی اقدار استوار ہوں گی تو روحانی زندگی ازخود اعلیٰ درجہ ہو جائے گی۔ڈاکٹر صفدر حسین برق کی کتاب ’’عشق رسول ﷺ کا مفہوم اور تقاضے‘‘ کو ایک ’’اجلی شہادت‘‘ قرار دیتے ہوئے خامہ فرسائی کرتے ہیں:
’’ڈاکٹر صفدر حسین برق نے عشق رسول ﷺ کے مقام کو زینہ بہ زینہ بیان کر کے نہ صرف سرکلارِ دو عالم ﷺ سے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کیا ہے بل کہ ہر مسلمان کو اتباع رسول ﷺ کا درس دے کر اس سے فیض یاب ہونے کی ترغیب بھی دی ہے۔‘‘ (۱۶)
ایک عظیم صوفی نے کہا ’’ ہمارے رسول ﷺ معراج پر گئے اور ایسے مقام پر پہنچے جہاں معبود اور عبد کے درمیان دو قوسوں کا یا اس سے بھی کم فاصلہ تھا۔ہمارے رسول و وہاں سے واپس آ گئے ،میں ہوتا تو کبھی واپس نہ آتا ،اتنا قریب پہنچ کر اللہ کی ذات میں گم ہو جاتا ‘‘۔۔ اس بات سے سوفی اور نبی ﷺ کا فرق واضح ہو جاتا ہے ۔صوفی کی زندگی کا مقصد ’’فنا فی الذاتِ الٰہی‘‘ جب کہ نبی ﷺ کا مقصد حیات دنیا میں واپس آ کر انسانیت کی ہدایت ہے۔ہمارا نعت گو شاعر جمال مصطفی ﷺکو بیان کرتا ہے تو محبانِ رسول ﷺ عشق رسول ﷺ کی منزل پر پہنچتے ہیں۔جب نعت کا شاعر کمال مصطفی ﷺ کو نطم کرتا ہے تو قاری کا ایمان مکمل اور یقین محکم ہوتا ہے ۔محمد نواز ایمن کے نعتیہ مجموعہ ’’کونین ثنا تیری‘‘ کو ’’سوچوں میں خوشبوئے حرا‘‘ قرار دے کے پروفیسر اکرم باجوہ اس پر یوں تبصرہ کرتے ہیں :
’’نواز ایمن ایک ایسا بخت رسا ،منجھا ہوا اور کہنہ مشق شاعر ہے جسے صاحبِ خلق ،پیکر اخلاق،خوش خصال ،خوش جمال نبی مکرم ﷺ ،خاتم الانبیا اور خیر البشرﷺ کی مدحت سے فکرو خیال کی چاندنی،پاکیزگی اور تازگی عطا ہوئی ہے ۔اس نے بر لبِ حسن ازل جیسی معطر تخلیق کے ذریعے اوراق دل پر روح پرور جذبوں سے ثنائے مصطفیﷺ کی ہے جس سے اس کی محراب جاں میں ایک نور سا در آیا ہے۔‘‘(۱۷)
پروفیسر اکرم باجوہ اپنے ایک مضمون ’’بین بجاؤ‘‘ میں ابدال بیلا کی کالم نگاری کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ابدال بیلا کے کالم نثری شہر آشوب ،نثری مرثیے اور نثری رجزیے ہیں۔ہماری تاریخ کے زخم ،ہمارے عہد کے چہرے کی خراشیں ،دل خراش المیے اور لرزا دینے والے سانحے ہیں۔پلکوں کی دہلیز پر ٹھہرے پتھر پتھر آنسو ہیں۔یہ کالم پہاڑوں پر بھاگتی اور آنکھ مچولی کھیلتی دھوپ نہیں ہیں بل کہ پتھروں کے زینے اترتا ہوا جھرنا اور ندی کا نتھرا ہوا پانی ہیں۔‘‘ (۱۸)
پروفیسر اکرم باجوہ نے پورے تنقیدی شعور سے ان مجموعوں پر سیر حاصل بحث کر کے ایک منجھے ہوئے نقاد کا حق ادا کیا ہے ۔ انھیں اپنے بیان پر مکمل دسترس ہے ۔ان کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ کسی بھی پہلو کا ذکر کرتے ہوئے وہ خشکی ،بے رنگی اور سقم کا شکار نہیں ہوتے بل کہ انھوں نے ہر قلم کار کی شخصیت کو جانچتے ہوئے جزئیات نگاری کی ہے ۔ان کی تنقید میں عہد حاضر کے کئی روشن اور نیم روشن امکانات سرگوشیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔پروفیسر اکرم باجوہ ،کلیم شہزاد کے شعری مجموعے ’’جب بارش کی پائل چھنکے‘‘ کو روشن حرفوں کے دروازے قرار دے کر یوں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں:
’’جب بارش کی پائل چھنکے‘‘ کی شاعری اپنے دامن میں تتلیوں کے حسین پردوں کے ٹوٹنے کا المیہ لے کر منظر عام پر آئی ہے ،اس میں ترنم ریزی بھی ہے اور کرب بھی، جمالیات بھی ہے اور اضطراب بھی۔جسم کے زندان کی کرب ناک اسیری بھی ہے اور خوشبو میں بھیگاہوا سانس بھی اور ہجر کے لمحوں کی کرچیاں بھی،شبنم سے بارش تک کا سفر بھی ہے اور خار مغیلاں کی نوک پر رقص بے خودی بھی،ایسے عالم میں شاعر اپنے سر پر دھوپ کا سائبان تانے کانچ کے شہر میں داخل ہو رہا ہے۔‘‘(۱۹)
صنف غزل اگر چہ مضامین رنگا رنگی ،موضوعات کی بو قلمونی اور ریزہ خیالی سے عبارت ہوتی ہے لیکن کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ شاعر زمین غزل پر موضوعات کا جنگل اُگانے اور مضامین نو کے انبار لگانے کے بجائے چند موضوعات کا انتخاب کرتا ہے اور ابھی پرُ مشق سخن کرتے ہوئے غزل کا حق ادا کر دیتا ہے ۔پروفیسر اکرم باجوہ اسلم کولسری کے مجموعہ ’’نخل جاں ‘‘ کو کولسری کی آنکھ سے تعبیر کرتے ہوئے یوں اظہار خیال کرتے ہیں:
’’نخل جاں ‘‘ اسلم کولسری کا نقش اول ہے جس نے اسے چشم زدن میں ادب کے ایوانوں میں لا کھڑا کیا ہے ۔اس نے اپنی جدید اور منفرد شاعری سے شہر ادب کو ورظہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ وہ ایک شان سے قریہ سخن میں داخل ہوا اور اسے دستار فضیلت عطا کی گئی ۔ اسلم کولسری نے رگِ جاں میں تحرک پیدا کرنے والے ایسے شعر کہے ہیں کہ قاری دم بخود رہ جاتا ہے اور اس کی تاثیر میں کھو جاتا ہے۔‘‘ (۲۰)
پروفیسر اکرم باجوہ نے تنقید میں چبے چبائے لفظوں اور رٹے رٹاؤں جملوں کو دہرانے کے بجائے جمالیات کے عقلی اور فلسفیانہ اصولوں کی مدد سے ادب میں افادیت کے پہلو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنے تنقیدی شعور سے کام لے کر فکر،وجدان ، ہمہ گیریت اور استدلال کے نئے نئے پھول کھلائے ہیں۔محمود غزنی کا شعری مجموعہ ’’نہ وہ خم ہے زلف یار میں ‘‘کو مہذب غزل کا ارتقا گردانتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:
’’محمود غزنی نے ہر لمحہ بدلتی کیفیتوں اور نئی اشکال میں ڈھلتی حالتوں کو شعر کا جو پیکر عطا کیا ہے وہ کبھی زمزمے میں ڈھل کر مسرور کرتا ہے اور کبھی چبھن بن کر سوگوار کرتا ہے ۔کبھی آنکھوں میں جذب ہو جاتا ہے ۔اس میں شعور کی ایک مسلسل رو اور ادراک کی تیز لہر ہے ۔‘‘(۲۱)
پروفیسر اکرم باجوہ نے جہاں تنقید کے لوازمات کا خیال رکھا ہے وہاں تخلیق کے مندرجات کو بھی سنبھال رکھا ہے۔ ان کے مضامین پڑھنے سے یہ عقدہ وا ہو جاتا ہے کہ الفاظ کب باتیں کرنے لگتے ہیں۔انھوں نے فیاض تحسین شاعری کا تجزیہ ’’رزق ہوا‘‘ کے حوالے سے کیا ہے شاید اس لیے کہ غزل کے ہر شعر میں فیاض خود موجود ہے ۔اسی ’’رزق ہوا‘‘کا اعجاز ہے کے کہ نظم کی طرح وہ اپنی غزل میں دوسروں سے الگ نظر آتا ہے۔ انھیں فیاض ،اس کی نظم ،اس کی غزل اچھے لگتے ہیں ۔یہ تاثر خالصتاً ان کا ذاتی ہے۔پروفیسر اکرم باجوہ نے لفظوں کی حرمت اور تقدس کو پامال نہیں ہونے دیا ۔فیاض تحسین کا شعری مجموعہ’’رزق ہوا‘‘ کو ’’جنگل میں پگڈنڈی‘‘ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’فیاض تحسین نے اپنے اندر کے سچ اور زندگی کی مثبت اقدار کے فروغ کو اپنا مرکز و محور جانا ہے ۔اس نے جدید حرفوں کے دائروں میں پرانے موسموں کو مقید کیا ہے ۔‘‘ (۲۲)
جس طرح شبنم کی آرسی میں عکس گل ،گل سے بھی زیادہ حسین لگتا ہے ،جس طرح بہتے پانی میں چاند کا ٹھہرا عکس ،چاند سے کہیں زیادہ دلکش لگتا ہے ،بالکل اسی طرح غزل کے آئینے میں فطرت کا عکس ،فطرت سے زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے ۔پروفیسر اکرم باجوہ نوشی گیلانی کی شاعری میں فطرت کے حسن کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔’’محبتیں جب شمار کرنا‘‘کی شاعرہ نوشی گیلانی نے جب وادئ شعرو اب میں قدم رکھے تو اسے کئی طرح کے تیروں کا نشانہ بننا پڑا مگر اس نے اپنا حوصلہ قائم رکھا اور اس نے مشکلوں میں ہمت نہ ہاری۔اکرم باجوہ نے اسے ’’مسافتِ شہر ہنر‘‘ کے نام سے یوں لکھا ہے :
’’ نوشی گیلانی کی شعری کائنات نے بے آبرو لفظوں کو لباس حرمت عطا کیا ہے اور وہ کسی ہاتھ کی ریکھاؤں میں جذب ہو کر جاگ رہی ہے ۔اس کی شاعری میں جلتے بجھتے جذبوں کا ایک جہان آباد ہے ۔ایک رنگا رنگی اور پھوار ہے ۔اس کا لہجہ بڑا نرم ،دھیما،مدھر اور کومل ہے ۔‘‘(۲۳)
’’موم کی مریم اور قطبی تارا‘‘کے عنوان سے پروفیسر اکرم باجوہ جب اظہار خیال کرتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے خیالوں پر ناچتے ہوئے دھنک رنگوں کی حکمرانی ہے ۔الفاظ اپنے وجود کی آپ گواہی ہیں ۔’’موم کی مریم اور قطبی تارا‘‘کی ابتدائی سطروں میں لکھتے ہیں:
’’جب شیلف میں سوئی ہوئی کتابیں جاگ اٹھیں ،دودھ سے لبریز کٹوروں میں بچے کی بھوک تیرنے لگے ،سرما کی چاندنی راتیں گلابی ہونے لگیں سنگریزے گلِ تر کی طرح مہکنے لگیں ،تہذیب کا اثاثہ کھنڈروں میں تبدیل ہونے لگے،مردہ لمحوں سے کونپلیں پھوٹنے لگیں ،لہروں میں ارتعاش پیدا کرنے والا چاند کھڑکی کے راستے اندر اتر آئے، ریت کے ٹیلوں پر دھند کی چادر تن جائے،لحن شریں سے زمزموں کی آبشار گرنے لگے،کسی کا ہاتھ چراغ کی لو پر بادبان بن کر چھا جائے ،پانی کے باطن میں کگمگاتے ہوئے طلسماتی چراغ رقص کرنے لگیں اور الفاظ احرام باندھ کر کھڑے ہو جائیں تو ’’موم کی مریم‘‘ تخلیق ہوتی ہے۔‘‘ (۲۴)
’’نوشتہ تنقید ‘‘میں پروفیسر اکرم باجوہ نے مختلف صنف ادب پر لکھنے والوں پر قلم اٹھایا ہے ۔انھوں نے مختلف شاعروں ، ادیبوں ،افسانہ نگاروں ،سوانح نگاروں ،خاکہ نگاروں کے ذہنی آفاق کو بڑی احتیاط سے چھوا ہے اور جو کچھ اخذ کیا ہے اسے پوری امانت اور سچائی سے لکھ دیا ہے۔’’نوشتہ تنقید ‘‘ایک بے لاگ اور غیر جانبدار انہ رائے کا بے باک اظہار ہے ۔انھوں نے کسی سے رعایت نہیں برتی ،انصاف کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔
پروفیسر اکرم باجوہ کا عقیدہ ہے کہ سچی اور معیاری تخلیق سے منسلک انسان ،اشتراکِ حسن کاری میں ،خالق کائنات سے مماثلت رکھتا ہے ۔اچھا تخلیق کار ،حرف و صوت اور رنگ و سنگ کے وسیلے سے حسن کو آشکار کرتا ہے ،خیر کی علامت کو وجود دیتا ہے۔سچ کی تفہیم اور پرچار کا اہتمام کرتا ہے ۔چوں کہ خدا ،حسن ،خیر اور صداقت کی انتہا کا نام ہے۔اس کے لیے تخلیق کار ایک طرح سے ،اپنے انداز میں خدا کے نام کو دوام دینے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔
پروفیسر اکرم باجوہ کی تخلیقی ذات میں عالم ،زبان دان،شاعر،نقادسبھی ایک خاص ترکیب اور توازن میں یک جا ہیں ۔ انھیں ہر دم جوہر قابل کی تلاش رہتی ہے ۔ان کی بے رحم کسوٹی پر اترنے والا شخص جہاں مل جائے ،جب مل جائے،اس کی کھل کر تعریف کرتے ہیں۔وہ اپنے وسیع مطالعے میں آنے والی کتابوں اور شخصیتوں کے محتاط پارکھ ہیں۔وہ عصر حاضر کے علم و ادب کے محسنوں کی پہچان رکھتے ہیں ۔
پروفیسر اکرم باجوہ کی تنقید روایتی ترقی پسند تنقید سے اس لیے مختلف ہے کہ اس کا تصور ادب و شعر سماجی حقائق کے ساتھ ساتھ ذوق جمال کے ساتھ مشروط ہے۔وہ فنی اصولوں کی حرمت کے قائل نہیں اور یہی ان کے متوازن ہونے کی دلیل ہے۔پروفیسر اکرم باجوہ جس طرح سے ایک متوازن مزاج نقاد ہیں اسی طرح یہی رویہ ان کی تحقیق میں بھی ملتا ہے اوران کے ہاں عیب جوئی نام کو بھی نہیں ۔وہ کسی مسئلے کے بارے میں حتمی رائے تک پہنچنے سے قبل خاصی احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ان کی تحقیق کا انداز سائنٹیفک ہے وہ تنقید و تحقیق دونوں میں دلائل سے اپنی بات کو قابل اعتبار اور موثؤ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
پروفیسر اکرم باجوہ کے نزدیک ان تخلیق کاروں کا ادب ،احترام اور اتباع ہم پر فرض ہے جنھوں نے واقعی علم و تہذیب کے حسن میں اضافہ کیا ہو۔وہ اس فرض سے کبھی نہ خود غافل ہوئے ،نہ اپنے ساتھیوں کو غافل ہونے دیا۔وہ لوگ جو ہمیں مٹی کے کم قیمت دیے لگتے ہیں پروفیسر اکرم باجوہ کوان دیوں کی لَو میں ماہتابوں کی وسعت نظر آتی ہے ۔پروفیسر اکرم باجوہ کی یہ کتاب ’’نوشتہ تنقید ‘‘کی ایک خوبی اس کی شستہ اور رواں زبان ہے ۔اتنی خوبصورت اور بول چال کی زبان میں لکھنے کا یہ تجربہ پروفیسر اکرم باجوہ کو اپنے دور کے دوسرے لوگوں سے ممتاز کرتا ہے۔ہمیں فخر ہے کہ ہمارے درمیان ایک شخص موجود ہے جو ہر دم ہاتھ میں قلم تھامے رہتا ہے اور علیم و خبیر کے فضل سے اس عالم کو یہ بھی خبر ہے کہ قلم کی حرمت اور طاقت کیا ہے ؟

حوالہ جات

۱۔ ڈاکٹر سیدعبداللہ:’’ اشارات تنقید‘‘(مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد) ۱۹۸۶ء، ص۷
۲۔ کلیم الدین احمد:’’اُردو تنقید پر ایک نظر‘‘(پورب اکاڈمی،اسلام آباد)۲۰۱۲ء، ص ۱۴
۳۔ وارث سرہندی:’’علمی اُردو لغت‘‘(علمی کتب خانہ،لاہور)۱۹۷۲ء،ص ۴۷۰
۴۔ مولوی نورالحسن نیر:’’ نوراللغات‘‘( سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور)۱۹۸۹ء ص ۹۶۶
۵۔ شان الحق حقی:’’فرہنگ تلفظ‘‘(مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد)۲۰۱۲ء، ص۳۲۱
۶۔ محمد عبداللہ خویشگی:’’فرہنگ عامرہ‘‘(مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد)۱۹۸۹ء، ص۱۷۰
۷۔ غفور شاہ قاسم:’’پاکستانی ادب۱۹۴۷ء سے تا حال‘‘(بک ٹاک، لاہور)۱۹۹۵ء، ص ۱۰۵
۸۔ ڈاکٹرسیدمحی الدین قادری زور:’’روحِ تنقید‘‘( مکتبہ معین،لاہور) ۱۹۶۰ء، ص ۱۰۳
۹۔ ڈاکٹرعبادت بریلوی:’’ اُردو تنقید کا ارتقاء‘‘( ا نجمن ترقی اُردو پاکستان،کراچی) ۱۹۸۰ء، ص ۸۲،۸۳
۱۰۔ سیدعابد علی عابد:’’انتقاد ادبیات:’’( سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور)۱۹۹۴ء، ص ۲۵۲
۱۱۔ پروفیسر اکرم باجوہ:’’نوشتہ تنقید‘‘(نظمینہ پبلی کیشنز،لاہور)۲۰۱۶ء،ص ۲۵
۱۲۔ ایضاً،ص ۲۶
۱۳۔ میجر اسد محمود خان:’’لفظ و خیال و معنی، تنقیدکا نوشتہ ‘‘مشمولہ’’نوشتہ تنقید‘‘ از پروفیسر اکرم باجوہ(نظمینہ پبلی کیشنز،لاہور)۲۰۱۶ء،ص ۲۵
۱۴۔ پروفیسر اکرم باجوہ:’’زلف الہام کی خوشبو‘‘ مشمولہ’’نوشتہ تنقید‘‘(نظمینہ پبلی کیشنز،لاہور)۲۰۱۶ء،ص۳۱
۱۵۔ پروفیسر اکرم باجوہ:’’چہچہاتے لہو کی صدا‘‘ مشمولہ’’نوشتہ تنقید‘‘(نظمینہ پبلی کیشنز،لاہور)۲۰۱۶ء،ص۳۳
۱۶۔ پروفیسر اکرم باجوہ:’’اجلی شہادت‘‘ مشمولہ’’نوشتہ تنقید‘‘(نظمینہ پبلی کیشنز،لاہور)۲۰۱۶ء،ص۳۷
۱۷۔ پروفیسر اکرم باجوہ:’’سوچوں میں خوشبوئے حرا‘‘ مشمولہ’’نوشتہ تنقید‘‘(نظمینہ پبلی کیشنز،لاہور)۲۰۱۶ء،ص۳۹
۱۸۔ پروفیسر اکرم باجوہ:’’بین بجاؤ‘‘ مشمولہ’’نوشتہ تنقید‘‘(نظمینہ پبلی کیشنز،لاہور)۲۰۱۶ء،ص۴۴
۱۹۔ پروفیسر اکرم باجوہ:’’روشن حرفوں کے دروازے‘‘ مشمولہ’’نوشتہ تنقید‘‘(نظمینہ پبلی کیشنز،لاہور)۲۰۱۶ء،ص۱۰۲
۲۰۔ پروفیسر اکرم باجوہ:’’کولسری کی آنکھ‘‘ مشمولہ’’نوشتہ تنقید‘‘(نظمینہ پبلی کیشنز،لاہور)۲۰۱۶ء،ص۱۰۷
۲۱۔ پروفیسر اکرم باجوہ:’’مہذب غزل کا ارتقا‘‘ مشمولہ’’نوشتہ تنقید‘‘(نظمینہ پبلی کیشنز،لاہور)۲۰۱۶ء،ص۱۳۰
۲۲۔ پروفیسر اکرم باجوہ:’’جنگل میں پگڈندی‘‘ مشمولہ’’نوشتہ تنقید‘‘(نظمینہ پبلی کیشنز،لاہور)۲۰۱۶ء،ص۱۳۵
۲۳۔ پروفیسر اکرم باجوہ:’’مسافت شہر ہنر‘‘ مشمولہ’’نوشتہ تنقید‘‘(نظمینہ پبلی کیشنز،لاہور)۲۰۱۶ء،ص۱۸۹
۲۴۔ پروفیسر اکرم باجوہ:’’موم کی مریم اور قطبی تارا‘‘ مشمولہ’’نوشتہ تنقید‘‘(نظمینہ پبلی کیشنز،لاہور)۲۰۱۶ء،ص

Share
Share
Share