بانو قدسیہ:رومانویت اورروحانیت کا استعارہ
عبدالعزیزملک
تخلیق سے زیادہ مشکل اور کربناک عمل شاید اور کوئی نہ ہو ،لیکن اس کے باوجود انسان اس تجربے سے گزرتا رہاہے ۔ادب انسان کی انفرادی ذہانت کا تخلیقی اظہار ہے،جو زندگی کو توانائی اور طاقت بخشتا ہے۔ادیب اگر ارفع خیالات کو دلکش اور دلفریب پیرائے میں ڈھال کر قارئین کے اذہان کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو ایسا تخلیق کار مرتا نہیں بلکہ ابدی زندگی کی مسند پر متمکن ہو جایا کرتا ہے۔بانو قدسیہ بھی مذکورہ تخلیق کاروں کے زمرے میں شامل کی جا سکتی ہیں ۔ ۴فروری ۲۰۱۷ء کو یہ خبر بڑے افسوس کے ساتھ نشر کی گئی کہ بانو قدسیہ اب ہم میں نہیں رہی۔کچھ ادبی حلقوں نے اسے ناقابلِ تلافی نقصان تصور کیا تو کچھ نے کہا کہ اردو کی ادبی دنیا اجڑ گئی ۔ میرا جہاں تک خیال ہے کہ آج بھی اچھے لکھنے والے موجود ہیں اور آنے والے زمانوں میں بھی موجود رہیں گے، اس لیے ادبی دنیا کے اجڑنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ہاں ۔۔۔! ایک بات ضرور ہے کہ بانو قدسیہ کی کمی ضرور محسوس ہوتی رہے گی۔
بانو قدسیہ ادبی دنیا کی ایک ایسی ادیبہ تھیں جو نصف صدی سے بھی زائد ادب کے افق پر روشن ستارہ کی مانند چمکتی رہیں ۔ان کی کہانیوں میں تصوف اور رومان کا حسین امتزاج قارئین کو تا دیر متاثر کرتا رہے گا۔بانو قدسیہ کی کہانیوں کی مخصوص رومانی فضا جس میں ان کی انفرادیت رچی بسی دکھائی دیتی ہے، شروع سے لے کر آکر وقت تک قائم و دائم رہی۔ ان کا قلم جن دنوں اردو اور پنجابی کہانیاں تخلیق کر رہاتھا ،اس زمانے میں کہانی اپنے عروج پر تھی۔ ممتاز مفتی ، راجندر سنگھ بیدی ،عصمت چغتائی ،کرشن چندراور اس قبیل کے بیسیوں افسانہ نگار اپنا نام اور مقام پیدا کر چکے تھے۔قرۃالعین حیدر، عبداللہ حسین ، انتظار حسین ، احمد ندیم قاسمی،الطاف فاطمہ ،جمیلہ ہاشمی ،نثار عزیز بٹ،خالدہ حسین اورخدیجہ مستور جیسی ہستوں کے درمیان میں اپنا نام اور مقام پیدا کرنا یقیناًتخلیقی وفوریت اور ارفع تخیل کی حامل شخصیت ہی کر سکتی تھی۔ان کی کہانیوں کی جادوئی دنیا فکشن پسندوں کو نصف صدی سے زائد مسحور کرتی رہی اورکئی صدیاں مزید کرتی رہے گی۔ان کے افسانوں اور ناولوں کی دنیا میں رومان بھی ہے،جنسی حقیقت نگاری بھی اور انسانیت کے حق میں آواز بھی۔،مزید براں اعلےٰ معاشرے کی رنگ رلیاں ،ان کا منا فقانہ ر ویہ ،کھوکھلا پن اور غریب طبقے کے مسائل بھی بیان ہوئے ہیں۔ ان کی کہانیاں پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک درد مند اور حساس دل رکھنے والی محنتی خاتون تھیں ۔شہرت اور ادبی مقام و مرتبہ کے حصول میں ان کی ان تھک مساعی ، مسلسل محنت ،کام سے لگن اور ادب سے غیر مشروط وابستگی واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ان خصوصیات کی بدولت بانو قدسیہ نے اپنی زندگی میں ہی ایک لیجنڈ کی حیثیت حاصل کر لی تھی۔اتنی شہرت ،عزت اور پیاربہت کم ادیبوں کے حصے میں آتا ہے جو بانو قدسیہ کے حصے میں آیا۔نئے لکھنے والے بہت سے ایسے لکھاری ہیں جو بانو قدسیہ کے اسلوب اورخیالات کی پیش کش سے متاثر ہیں اور ان کے انداز میں تخلیق کرنے کے متمنی دکھائی دیتے ہیں ۔
بانو قدسیہ نے جس ماحول میں پرورش پائی وہ فن اور علم پرستوں سے بھر پور تھا ۔ گھریلوں ماحول سے بڑھ کر تعلیمی اداروں میں بھی ایسی فضا تھی جو لکھنے اور پڑھنے والوں کے موافق تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ بانو قدسیہ نے صوفی غلام مصطفیٰ تبسم ، غلام محی الدین اسد، ڈاکٹرعنایت اللہ اور آفتاب احمد جیسی شخصیات سے اکتساب کیا،جس نے ان کی زندگی میں سادگی،متانت اورنامعلوم کو معلوم میں بدلنے کا ڈھنگ عطا کیا۔وہ متجسس ذہن کی مالک ، دھیمی طبیعت ،خلوت پسند اور کم گوخاتون تھیں ۔ان تما م باتوں سے بڑھ کر اسے اشفاق احمد جیسی نابغۂ روز گار شخصیت کا ساتھ میسر آیا ،جس نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو مزید اُجاگر کیا۔ان کا پہلا افسانہ ’’واماندگئ شوق‘‘ ۱۹۵۰ میں ادبِ لطیف میں شائع ہوا اور اس کے بعد سے لے کر اب تک ان کی لگ بھگ ستائیس کتب منظرِ عام پرآچکی ہیں ۔ ان میں راجا گدھ، امر بیل ،توجہ کی طالب،آتشِ زیر پا،فٹ پاتھ کی گھاس ، دوسرا قدم،حاصل گھاٹ ، دوسرا دروازہ،آسے پاسے اور حاصل گھاٹ نمایاں ہیں۔ممتاز مفتی نے بانو قدسیہ کی شخصیت کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ’’ بانو ایک ست رنگی شخصیت ہے۔پرزم کی طرح اوپر سے بے رنگ،اند ر رنگوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔‘‘ان کی شخصیت کا یہی سحر ہے کہ اب وہ ادبی دنیا میں بانو قدسیہ نہیں بلکہ بانو آپا کے نام سے جانی جاتی ہیں۔
بانو قدسیہ کے فکشن کے بیشتر کردار انٹلیکچول سطح پر فائز نہیں ہیں بلکہ وہ عام آدمی کے روپ میں سامنے آتے ہیں جو ذہنی اور روحانی مسائل کو سلجھانے کی بجائے اپنے روز مرہ کے سماجی اور معاشرتی مسائل میں گھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔عورت کو بانو قدسیہ نے بالکل منفرد اور انوکھے انداز میں پیش کیا ہے۔وہ عورت کو کہیں بھی مرد کے خلاف بغاوت پرآمادہ کرتی دکھائی نہیں دیتی بلکہ وہ عورت کو عورت کے درجے پر رکھ کر مرد کو اس کا محافظ بننے کا درس دیتی ہے۔ان کے ہاں عورت کا وہ تصور نہیں جو فیمنز م میں دکھایا جاتا ہے، جس میں عورت مردانہ معاشرے کی اقدار کے خلاف صدا بلند کر کے اپنی ذاتی شناخت کی متمنی ہو۔وہ عورت کے مقام کو معاشرے میں نظر انداز بھی نہیں کرتی بلکہ سماج کی گاڑی میں عورت اور مرد کو دو پہیے گردانتی ہے جن کا اپنا اپنا مقام متعین ہے اور وہ ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں ۔بانو کے ہاں عورت مرد سے منسلک ہے اوراس کے ہمرکاب سفرِ زیست طے کرتے دکھائی گئی ہے۔ان کے افسانوں اور ناولوں میں نسوانیت اور تصوف کے عناصر جا بہ جا موجودہیں جن کو آسانی سے نشان زد کیا جا سکتا ہے۔تصوف کے سلسلے میں وہ قدرت اللہ شہاب سے متاثر ہیں جن پر انھوں نے ’’ مردِ ابریشم ‘‘ کے عنوان سے کتاب بھی تحریر کی ۔ان کے معروف ناول ’’ راجا گدھ ‘‘ میں حلال اور حرام کا جو تصور پیش کیا گیا ہے وہ بھی ان کے اسلامی تصوف سے متاثر ہونے کی بین دلیل ہے۔اس ناول میں وہ قاری کو احساس دلاتی ہیں کہ رزقِ حرام پر پرورش پانے والی قوم روحانی اور اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہو جاتی ہے، جس کا نتیجہ دیوانگی کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے اس ناول پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’اس ناول میں بانو قدسیہ نے انسان کی تخلیق، اس کے ذہنی و فکری ارتقا، اس کی جنسی نفسیات،اس کی تہذیب ، مذہب اور تصوف کے حوالوں سے کائنات میں اس کے مقام سے بحث کی گئی ہے، مگر ان سب باتوں کا تانا بانا وہ فکری لحاظ سے تصوف اور روحانیت سے جوڑ دیتی ہیں اور اپنے ایک اہم کردار پروفیسر سہیل کی وساطت سے قاری پر تاثر چھوڑتی ہیں کہ ہمارے تما م تر معاشرتی عوارض کا حل روحانیت میں پوشیدہ ہے اور یہ کہ ہماری بد اعمالیوں اور مغربی فلسفوں نے ہماری روح پر جو زخم ڈالے ہیں ان کا علاج فرائیڈ کے نسخوں میں نہیں ملے گا کیوں کہ ان کا طریقِہ علاج رو حانیت کو انسانی ذات سے خارج کر کے وضع کیا گیا ہے۔‘‘
اس ناو ل کے تمام نمایاں کرداد اپنے ضمیر کے سامنے مجرم ہیں، خود ہی اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں ، خود ہی اپنے گواہ ہیں اور خود ہی فیصلے صادر کرتے ہیں ۔ یہ تما م کردار علامتی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں اور معاشرے کے مجموعی رویوں کے نمایندہ بن کر سامنے آتے ہیں ۔ناول میں پرندوں کی تمثیل سے اپنے نظریے کو تقویت بخشنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس طرح پروندوں کی مجلسِ آرائی ہمیں فرید الدین عطار کی ’’ منطق الطیر‘‘ میں ملتی ہے یا برطانوی شاعر جیفری چاسر کی نظم ’’پارلیمنٹ آف فاؤل‘‘( Parlement of Fouls) میں ،جہاں پرندوں کی نوک جھونک سے انسانی رویوں پر طنز کے عنصر کو نمایاں کیا گیا ہے۔ بانو قدسیہ نے جو اس ناول میں پرندوں کی کانفرنس کا ذکر کیا ہے وہ فرید الدین عطار اور جیفری چاسر کی تحریروں سے اخذ شدہ دکھائی دیتا ہے ۔اس کانفرنس میں جو نمایاں مقام ’’راجا گدھ ‘‘کو دیا گیا ہے وہ پورے ناول کی بنت کاری میں کلیدی حیثیت رکھتاہے اور استعاراتی اور علامتی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ رزق حرام کمانے والوں کی علامت جو خود محنت نہیں کرتے بلکہ دوسروں کی کمائی پہ ہاتھ صاف کرتے ہیں ۔اس ضمن میں ناول کا ایک ا قتباس ملاحظہ ہو:
’’ہر وہ شخص جس کی روح میں حرام مال پہنچ رہا ہو، چہرے بشرے سے راجا گدھ بن جاتا ہے، اس کی آنکھیں دھنسی ہوئی ، چہرہ سبزی مائل پیلا ، بال بکھرے ہوئے اورہڈیاں نمایاں ہوتی ہیں ۔‘‘
گدھ اپنی خوراک کے لیے مردار پر لپکتا ہے اور اس کے مقابل اگر عقاب کو رکھ کر دیکھا جائے تو کسبِ حلال اور کسبِ حرام کا فرق نمایاں ہو جاتا ہے۔حرام اور حلال کے تصور کو منطقی اور استدلالی بنانے کے لیے مصنفہ نے اسے نسلیات میں جین کے تصور سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔مختصراً اس ناول میں بانو قدسیہ روحانیت اور تصوف کی قائل دکھائی دیتی ہیں اور سیکولر نظریے کو رد کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ تلاش کا دائرہ روحانیت سے جتنا دور ہوتا جائے گا اس کے نتائج اتنے ہی خراب ہوتے جایں گے۔
راجا گدھ اور اس کا موضوع بانو قدسیہ کی مجموعی تخلیقی کائنات کے موضوعات کا احاطہ کرتا نظر آتا ہے جس میں رومانویت بھی ہے اور روحانیت بھی۔ اس کا فکشن منفرد اسلوب کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ اردو کے دیگر فکشن نگاروں سے انوکھے خدو خال بناتا نظر آتا ہے۔ رومانویت اور روحانیت کے امتزاج سے وہ ایسی فضا تخلیق کرنے پر قدرت رکھتی ہیں کہ قاری اس کے سحر سے باہر نہیں آ سکتا۔
——