افسانہ
یہ عشق نہیں آساں – – – – – !
سید احمد قادری
Mob: 09934839110
مارننگ واک روز کا معمول تھا ریٹائر منٹ کے بعدسونی سونی زندگی میں مارننگ واک کی اہمیت بڑھ جا تی ہے، صبح سویرگھر سے نکل کر نیشنل پارک تک پہنچتے پہنچتے ہم ریٹائٹرڈ دوستوں کی تعداد پانچ سات تک ہوجاتی اور یہاں پہنچ کر دو مخصوص بنچوں پر ہم لوگ آمنے سامنے بیٹھ جاتے ‘خوش گپیاں ہوتیں ، اوران خوش گپیوں کے دوران کبھی سیاسی کبھی سماجی اور کبھی معاشرتی حالات پر طرح طرح کے تبصرے ہوتے اورہرکوئی اپنے تجربے اور مشاہدے کا بھرپور اظہار کرتا – – – – اس طرح اچھا خاصہ وقت گزر جاتا اور پھر وہی گھر’ جہاں کا سونا سونا ماحول‘ خاموش درودیوار‘ گم صم بیوی کا چہرہ اور انتظار۔۔۔ صرف انتظار۔ کسی کے فون کا۔۔۔ کسی کے کال بیل کا۔۔۔ کسی کے آنے کا۔۔۔‘‘
آج جب میں مار ننگ واک کے لئے ،نکلا تو راستے ہی میں فرہاد صاحب مل گئے، ذرا آگے بڑھا تو دیکھا پروفیسرغلام قادر اور جناب شاہد اختر سبک روی سے آگے بڑھ رہے ہیں ۔ہم دونوں بھی لپک کران کے ساتھ ہولئے‘ سلام کلام کے بعد خوش گپیوں کے ساتھ ہم لوگ نیشنل پارک پہنچے، وہاں قبل سے ہی بھائی رضوان کوثر ڈاکٹرحسین احمد اور جناب عبد القادر موجود تھے۔
جناب عبد القادر کے ہاتھ میں آج کا تازہ اخبار تھا اور موضوع بحث عشق و محبت تھا۔
میں چونک پڑا اس عمر میں یہ عشق و محبت کی باتیں۔۔۔؟
مجھے دیکھتے ہی عبدالقادر صاحب کہنے لگے۔
’’آئیے آئیے آپ ہی کا انتظار تھا‘‘
میں نے چونکتے ہوئے پوچھا’’یہ عشق و محبت میں مجھے کہاں گھسیٹ رہے ہیں میرا ان باتوں سے کیا تعلق‘‘۔
’’تعلق‘‘؟عبدالقادر نے میرے ادا کئے لفظ کو سوالیہ انداز میں دہرایا اور ایک زبردست قہقہہ لگایا اوران کے اس قہقہ میں میرے سوا سبھوں نے ساتھ دیا۔
ویسے تو صبح کے وقت ہم لوگ اسی طرح عام طور پر ہرچھوٹی بڑی بات پر ٹھہاکے لگانے کے عادی تھے۔ لا فٹرتھیریپی کا بھرپور مظاہرہ ہوتا۔ لیکن اس وقت ان لوگوں کا قہقہہ مجھے اچھا نہیں لگا ۔ ویسے میں سمجھ گیا، ان کے اس قہقہہ کے پس پشت کیا تھا۔ دراصل میں نے ایک دن نہ جانے کن جذباتی لمحوں سے معمور ہوکراپنے عشق کی وہ داستان سُنادی تھی، جس کی حسین وادیوں کو میں اب تک بھول نہیں پایا اس وادی کا ایک ایک رومان پرورمنظرمیری آنکھوں میں سمایا ہوا ہے۔ لیکن اُس دن تو ان لوگوں نے میرے عشق کی داستان کو بڑی سنجیدگی اور گہری دلچسپی سے سنی تھی۔ لیکن آج یہ میرے عشق کو اس انداز سے کیوں لے رہے ہیں۔
میرے چہرے پر ناراضگی کے نقوش پڑھ کر عبد القادر صاحب بول پڑے۔
’’ارے بھائی آپ خفا نہ ہوں دراصل آج کے اخبار کے پہلے ہی صفحہ پر ویلینٹائن ڈے کہاں اور کس طرح منایا گیا، اس کی تفصیل شائع ہوئی ہے کروڑوں روپئے کے تحفے تحائف، پھو لوں کے گلدستے فروخت ہوئے مختلف شہروں کے ریستوراں میں لا کھوں روپئے کی شراب کا رومانی جوڑوں نے لطف اٹھایا اور تو اور بڑے بڑے ہوٹلوں میں بڑے پیما نے پرلوسیلیبریشن (Love Celebration) منا یا گیا۔ اور۔۔۔
ارے چھوڑئے جناب، آج کی کنزیومر سوسائٹی۔( Consumer Society) میں پیار محبت کے پاک رشتوں کو بھی Cash کرایا جارہا ہے۔ یہ مہنگے تحفے تحائف‘ شراب کے نشے میں دھینگامشتی۔ کیا یہی اظہار شق ہے، ارے یہ عشق نہیں‘ آوارگی ہے‘‘ پروفیسر رضوان کوثر نے عبدالقادر کی بات کا ٹتے ہوئے اپنی دانشورانہ رائے دی۔
’’آپ صحیح فرما رہے ہیں رضوان کوثر صاحب‘ عشق کیا ہے یہ عشق کر نے والا ہی بتا سکتا ہے۔ دل میں اُتھتے ہوئے سوز کا نام ہے عشق۔ ڈاکٹر حسین احمد نے بھی اپنے رومانی ہونے کا ثبوت دیا اور سوالیہ انداز میں مجھے دیکھنے لگے۔
میں یادوں کے گہرے سمندر میں ڈوب ابھررہا تھا، سبھوں نے میری جانب اس انداز سے دیکھا کہ وہ جاننا چاہتے تھے کہ عشق کے متعلق میری کیا رائے ہے۔
میں نے انہیں ما یوس نہیں کیا، اور بتایا کہ عشق ایک احساس، ایک جذبے کا نام ہے اس کی کوئی شکل و صورت نہیں اسے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے، معشوق کے چہرے کی تازگی اور شادابی کو دیکھنا ہے، تو کھلے ہوئے خوبصورت پھولوں کو دیکھو، اس کی آواز کوسننا ہوتو گرتے جھرنے کی مترنم آواز کو سنو، اس کی انگڑائیوں میں جو مدہوشی ہوتی ہے، اس کی اداؤں میں جو دلفریبی ہوتی ہے، اس کی مخمور نگاہوں میں جو سحر ہوتا ہے، اس کی آمد کے انتظار میں جواضطراب ہوتا ہے اور اس کے آتے ہی باغوں میں باد صبا کا احساس ہوتا ہے۔ پوری فضا ایک خاص خوشبو سے مہک اٹھتی ہے، اس کے صندلی جسم کی خوشبو ہواؤں میں بکھرجا تی ہے‘ دودھیا چاندنی میں نہایا اس کا پیکر۔ جس لمحہ شرماتے ہو ئے، گبھراتے ہوئے سامنے آکرکھڑا ہوجاتا ہے، ان لمحوں کو اپنی آنکھوں میں ‘اپنے دل و دماغ میں قید کرنے کو جی چاہتا ہے اور۔۔۔
’’ارے جناب آپ تو نثر میں شاعری کرنے لگے ،عشق کی کیفیات اور معشوقہ کی پرکیف تفصیلات نے تو ہم لوگوں کو جوانی کی یاد دلا دی‘‘
شاہد اختر صاحب نے میرے اظہاربیاں سے متاثر ہوتے ہوئے کہا۔
یہ جوانی اور بڑھاپا کہاں سے آگیا، عشق کی محسوسات کے لئے اورعشق کےلئے عمرکی بھی قید نہیں، ہاں سماج نے اسے ضرورعمر کی قید و بند میں جکڑدیا ہے، عشق کی انجانی لذتوں کو کبھی بھی کسی بھی لمحہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت میں آپ لوگوں سے مخاطب ہوں اور وہ خیالوں کی دہلیز سے اترکر میرے دل و دماغ میں اپنی دلفریب اداؤں کے ساتھ سماگئی ہے ۔میرے شانوں پررکھے اس کے پیار بھرے ہاتھ کا لمس، روح پر دست صبا ہو جیسے اور یہ باتیں صرف محسوس کرنے کی ہیں اور احساس کے لئے حسّاس ہونا ضروری ہے ۔جوانی یا بڑھاپے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ صرف ایک شعر آپ لوگ مظہرامام کا سن لیں، بس میری بات آپ لوگوں کی سمجھ میں آجائیگی ‘مظہر امام نے کہا ہے۔
میرے سب خواب تاروں کی طرح ٹوٹے، مگراس کا
گلوں کی اوس میں بھیگا ہوا پیکر نہیں بدلا
شعر سن کر سبھی خاموش ہوگئے ‘نہ جانے وہ شعر کی معنویت میں ڈوب گئے یا اپنے اپنے عشق کی قندیلیں روشن کرنے لگے۔
دیر تک خاموشی چھائی رہی۔ پھر اچانک خاموشی کو توڑتے ہوئے شاہد اختر گویا ہوئے۔
’’ ٹھیک ہے جناب ،، مگر یہ ویلینٹائن ڈے کیا ہےَ اورکیوں ہے؟
ویلینٹائن ڈے جو لوگ منا رہے ہیں وہ اس کی حقیقت سے واقف ہیں اور نہ ہی اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ رومن راجہ کلاڈیس کی یہ سمجھ تھی کہ چونکہ شادی کرنے سے مردوں کی طاقت، جسم‘ عقل اور قوت فیصلہ میں کمی آجاتی ہے، اس لئے اس کا حکم تھا کہ شادی کسی کو نہیں کرنا ہے۔ لیکن سینٹ ویلنٹائن نے اس حکم کے برخلاف ہزاروں فوجیوں کی شادی کرادی‘ اس حکم عدولی کی پاداش میں 14؍ فروری کو راجہ نے اسے پھانسی کی سزا دے دی۔ اس لئے اس کو یاد گار کے طور پر منایا جانے لگا۔ بعد میں اُسے (Love Celebration) لو سیلیبریشن کا نام دے دیا گیا اور مغربی تہذیب کی بھونڈی نقالی ہمارے نوجوان کر رہے ہیں۔ پیار و محبت ایک احساس ہے، دو جسم کا ملن پیارنہیں، Love Celebration کے لئے ہمارے یہاں تو مثالیں بھری پڑی ہیں، مجنوں فرہاد‘ قیس اور سب سے بڑھکر پوری دنیا کیلئے ہمارے یہاں محبت کی عظیم نشانی’ تاج محل ‘ہے۔‘‘
میری ان باتوں کو سننے کے بعد ایک بار پھر خاموشی طاری ہو گئی‘ بات کو آگے بڑھانے کا سراڈھونڈ نے لگے لوگ۔ لیکن اچانک غلام قادر کھڑے ہو گئے۔ اب چلا جا ئے ،کا فی دیر ہو گئی ہے۔
ان کے اٹھتے ہی سبھی لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے ‘ہم لوگ دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگے ، سبھوں کے دل و دماغ میں طرح طرح کے خیالات ڈوب ابھر رہے تھے، پھر ہم لوگ سڑک کے اس موڑ پر آگئے‘ جہاں سے ہم لوگوں کے راستے بدل جا تے ہیں‘ اچانک غلام قادر کی نظر آویزاں ایک بڑے سائن بورڑ پر پڑتی ہے۔ وہ اسے پڑھنے لگے‘ انھیں رک کر سائن بورڈ پڑھتے دیکھ کر، ہم لو گوں کی نگاہیں بھی اسی طرف اٹھ گئیں۔ بورڈ پر لکھا تھا۔
مور یہ کلنک۔ اَن چاہے گر بھ(حمل) سے چھٹکارا
راز کو راز رکھنے کا وعدہ، آج ہی ملیں
اس عبارت کو سبھوں نے پڑھا اور پڑھنے کے بعد عبدالقادر نے برجستہ کہا۔ ’’یہی ہے عشق کا ماحصل‘‘ اور یہ کہتے ہوئے سبھوں نے زور دار قہقہہ لگا یا۔
ان لوگوں کا یہ قہقہہ سن کر مجھے ایسا لگا جیسے ان لوگوں نے میرے عشق کو سر بازار ننگا کر دیا۔ میں گبھرا گیا ،تیز ہوتی دھوپ میرے بدن میں نوکیلے کانٹے کی طرح چبھنے لگی ا ور ایسا لگا جیسے میں کسی صحرا کے بیچ و بیچ کھڑا ہوں اور چاروں سمت سے ہواؤں کے مرغولے اٹھ رہے ہوں۔
میں تیز قدموں سے گھر واپسی کے لئے مڑ گیا!!
******