مسلم طلبہ کی تعلیمی پسماندگی :اسباب و حل
مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ دار العلوم حیدرآباد
E-mail:
Mob: 07207326738
مسلمانوں کا مذہبی ،ثقافتی اور تاریخی سرمایہ اتنا شاندار ہے کہ دنیا کی کوئی قوم ان کی ہمسری نہیں کر سکتی ہے ،تاریخ گواہ ہے کہ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو وحی الہی کے ذریعہ پہلا درس تعلیم کا دیا ہے ،اس لئے کہ تعلیم وہ بنیادی عنصر ہے جس کے بغیر انسان ،انسانی اخلاق و اقدار سے آراستہ نہیں ہو سکتا ہے ،یہ وہ نسخہ کیمیا ہے جس کے پرے پسماندگی کا خاتمہ ایک ایسا خواب ہے جو کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ہے ،اعلی تعلیم( High Education) کے بغیر نہ تو غربت دم توڑ سکتی ہے اور نہ ہی مسلم قوم عزت و وقار اور ترقی کا معیار قائم کرسکتی ہے –
تعلیم ترقی کی وہ کلید ہے جس کے بغیر ترقی ، امن ، انصاف ، انسانیت نوازی کے دروازے کبھی وا نہیں ہو سکتے ہیں ،جو قوم جوہر تعلیم سے محروم ہوتی ہے وہ نہ تو سر اٹھا کر جی سکتی ہے اور نہ ہی جینے کا ہنر جانتی ہے ، تعجب ہے جس قوم کا ماضی اتنا شاندار تھااس کا حال اس قدر تاریک تر کیوں ہوگیا ؟
آج مسلسل دانشوران قوم کی طرف سے مسلمانوں کی پسماندگی کا رونا رویا جارہا ہے ، قوم و ملت کے لئے سوز دروں رکھنے والے اصحاب فکر و نظر کی طرف سے مسلم قوم کی ذلت و رسوائی کے مرثیے پڑھے جاتے ہیں ، علماء و مفکرین، ملی قائدین اور رہنماوں کی آنکھیں مسلمانوں کی زبوں حالی پر اشک بار نظر آرہی ہیں مسلمانوں کی پستی و پسماندگی کے دیگر اسباب کے ساتھ اگر غور کیا جائے تو اس کا بنیادی سبب مسلمانوں میں تعلیم کا فقدان ہے ، حکومتی ادارے ہوں یا پرائیوٹ تنظیمیں ہر طرف سے یہی شور وغل مچایا جاتاہے کہ اس وقت تک ملک ترقی نہیں کر سکتا ہے جب تک اس ملک کی بڑی اقلیت تعلیم کے زیور سے آراستہ نہ ہو جائے ، یہ امر واقعہ تو اپنی جگہ با لکل درست ہے
۲۰۰۴ء میں منموہن سرکار نے مسلمانوں کی پسماندگی کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جسے سچر کمیٹی کا نام دیا حاتا ہے ۲۰۰۹ء میں جسٹس راجندر سچر نے جو رپورٹ پیش کی وہ حیران کن بھی ہیں اور مسلمانوں کے لئے لمحہء فکریہ بھی، اس کمیٹی نے حکومت ، ریاستی حکومت ،اسی طرح مرکز اور ریاست کے ما تحت آنے والے تمام محکموں سرکاری و نیم سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں نیز مدارس کا جائزہ لیا تھا ،رپورٹ میں انہوں نے لکھا ہے کہ مسلمان بحیثیت مجموعی اس ملک میں انتہائی پسماندہ ہیں ،نہ تو معاشی طور پر مضبوط ہیں اور نہ ہی سماجی طور پر ،مسلمانوں کے تئیں ایک عام رجحان یہ ہے کہ مسلمان قدامت پسند ہیں اس لئے وہ اپنے بچوں کو صرف مذہبی تعلیم ہی دیتے سچر کمیٹی کی اس رپورٹ نے اسے بھی غلط ثابت کر دیا ہے کہ مدارس میں مسلمان بچے صرف چار فیصد پڑھتے ہیں یعنی مسلمانوں کی اکثریت مدارس کی تعلیم سے بھی دور ہے اور زیادہ تر مسلم بچے سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جہاں صرف برائے نام تعلیم دی جاتی ہے ،ان اداروں میں پڑھ کر ناخواندگی کا داغ تو مٹایا جاسکتا ہے، لیکن تعلیم کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا ہے۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ میں صاف ہے کہ مسلمان تعلیم میں سب سے پیچھے ہیں ،لیکن اگر منصفانہ جائزہ لیا جائے تو اب تک ذ رائع تعلیم کے سلسلے میں جو پیش رفت کی گئی ہے وہ انتہائی ناقص اور نا کافی ہے اس تعلیم او ر نظام تعلیم سے مسلم بچے ہر گز اس معیار تعلیم کو حاصل نہیں کر سکتے جس کی اس وقت ضرورت ہے اس لئے ذیل میں تعلیمی پسماندگی کے چند اسباب او راس کے حل کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اگر ان گزارشات پر سنجیدگی اور فہمیدگی سے غور کیا گیا اور ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی سعی کی گئی تو امید قوی ہے کہ مستقبل قریب میں تعلیم کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔
تعلیم کوعام کرنے اور تعلیم یافتہ معاشرہ تشکیل دینے میں سب سے مؤثرکردار والدین کا ہے ،تعلیم کے حوالے سے ان پر دو اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہیں ،اول یہ کہ شروع ہی سے بچوں کی تعلیم و تر بیت پر نظر ہو اور اپنی اوقات کا ایک حصہ بچوں کی نگرانی اور تعلیمی امور کی دیکھ بھال کے لئے مختص ہو تاکہ بچے اپنے والدین کی نگرانی میں اپنی ذمہ داری کو پورا کر سکیں ، دوسرے یہ کہ والدین کی اولین ترجیح اور پہلی ضرورت بچوں کی تعلیم ہو ، تعلیم کے حوالے سے ان کا شعور اس قدر بیدار ہو کہ وہ ہر مشکل اور پریشانی کو برداشت کرکے بچوں کو تعلیم دلانے کی فکر کریں ، عہد نبوی میں اس کی زریں مثالیں موجود ہیں ، آپ ﷺپر جو پہلی وحی آئی وہ تعلیم کے سلسلے میں تھی ،آپ ﷺ نے شعبہائے زندگی میں کام آنے والی تمام علوم و فنون کی تعلیم و ترغیب فرمائی ہے جضرت زید بن حارثہؓ کو آپ نے عبرانی زبان سیکھنے کا حکم دے کر تبلیغ دین کا مقدس فریضہ انجام دینے کے لئے علم لسانیات اور علم لغت کی تعلیم و ترغیب فرمائی ،جب آپ ﷺمدینہ تشریف لائے تو آپ کے ساتھ بے سہارا اور بے سروسامان مسلمانوں نے بھی ہجرت کی اس لئے ضرورت تھی کہ مسلمانوں کی رہائش کا انتظام کیا جائے ،بے گھر مسلمانوں کا کوئی مسکن تعمیر کیا جائے ، لیکن قربان جائیے آپ ﷺپر آپ نے سب سے پہلے ایک عبادت گاہ اور دینی مرکز کی حیثیت سے مسجد نبوی تعمیر فرمائی اور تعلیم و تربیت کے لئے ایک درس گاہ چبوترہ کی شکل میں قائم فرمایا جسے صفہ کہا جاتا ہے ۔
غزوہ بدر میں سترکفار مکہ مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار کئے گئے اس وقت مسلمان سخت معاشی مشکلات سے دوچار تھے نہ ان کے پاس غذا کا کوئی معقول انتظام تھا نہ ضرورت کے مطابق لباس اور مناسب رہائش گاہ میسر تھی ،یہ ایک موقع تھا کہ آپ ﷺفدیہ کے طور پر اہل مکہ سے زیادہ سے زیادہ مال وصول کرکے مدینہ کی معیشت کو سہارا دیتے ، مسلمانوں کے لئے مناسب رہائش گاہ کا انتظام فرمادیتے ، لیکن آپ ﷺ نے اسیران بدر کا پہلا فدیہ یہ مقرر کیا کہ جو لکھنا پڑھنا جانتے ہوں وہ دس مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھادیں ، آپ ﷺ نے اپنے اس عمل سے امت کو تعلیم کی اہمیت کی زرین تعلیم دی ہے آپ ﷺ کا اسوہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ خواہ ہمیں بھوکا رہنا پڑے ،فاقوں کی تکلیف برداشت کرنی پڑے ، دووقت کے بجائے ایک وقت کھانے پر قناعت کرنی پڑے ، ہماری معیشت کمزور سے کمزور تر ہوجائے لیکن ہمیں ہر نازک سے نازک صورت حال میں اپنے بچوں کی تعلیم پر توجہ دینی چاہئے اور تعلیم کوہر ضرورت پر مقدم کرنا چاہیے ۔
آج ہندوستان کا مسلمان علم و تحقیق کے میدان میں بہت پیچھے ہے عالمی سطح پران شمار پسماندہ قوم(Back ward )میں ہو رہا ہے ، جہاں اس پسماندگی کے اور دیگر اسباب ہیں اس میں ایک سبب یہ بھی ہے کہ مسلم طلبہ احساس کمتری (lower confidence)کے شکار ہو چکے ہیں ،اس لئے اعلی مقابلاتی امتحان (High compatition)میں قدم رکھنے سے گبھراتے ہیں اس کم ہمتی اور احساس کم تری کا سبب کچھ بھی ہو لیکن واقعہ ہے کہ اس نے مسلم طلبہ کو راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے ، اس ملک میں جہاں مسلمانوں نے بہت سے فلاحی ادارے (Welfare Institutes)قائم کئے ہیں ، ضرورت ہے کہ ہر شہر اور ہر صوبے میں منظم طریقے پر اس طرح کے ادارے قائم کئے جائیں جو ان طلبہ کی ہر طرح اخلاقی مدد کر سکیں ، ان کو تعلیمی مشورے دے سکیں ، جس کے ذریعہ ان کے عزم و حوصلے جوان ہوں اور وہ ہر طرح کے اعلی مقابلاتی امتحان میں شریک ہو کر اعلی تعلیم حاصل کرسکیں اس سلسلے میں بعض کوتاہیاں طلبہ کی جانب سے بھی پائی جاتی ہیں ، بعض طلبہ اپنی معاشی صورت حال کو مد نظر رکھ کر بہت جلد اپنا تعلیمی سفر منقطع کر دیتے ہیں او راپنی معیشت کو مستحکم کرنے میں لگ جاتے ہیں ،ضروت ہے کہ ایسے طلبہ کو بھی حوصلہ دیا جائے کہ معیشت تو ایک نہ ایک دن بہتر ہو جائیگی لیکن تعلیم کا وقت دوبارہ نہیں ملے گا ، نیز آپ محنت و مجاہدہ کر کے بھی اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں ۔
ادھر چند سالوں سے حکومت نے بھی تعلیم پر خصوصی توجہ دی ہے اور جگہ جگہ اسکول قائم کرنے کا منصوبہ بنا یا ہے ، لیکن حکومت کی طرف سے قائم شدہ پرائمری اور سکینڈری اسکول کی ناقص کارکردگی بالکل کھل کر سامنے آچکی ہے ، جبکہ انہی اسکولوں میں بچوں کو بنیادی تعلیم دی جاتی ہے اس لئے ضرورت ہے کہ حکومت اس طرح کے اسکولوں کو مزید فعال اور کارگراور نظام تعلیم کو مستحکم بنائے تاکہ غریب و نادار بچے جو پرائیویٹ اداروں میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے ہیں اس اسکول کے ذریعہ اپنے م مستقبل کو تابناک اور بہتر بنا سکیں ۔
ملک کی آ زادی کے بعد ہندوستانی مسلمان جن مصائب و مشکلات سے دو چار ہوئے اس میں معاشی پسماندگی اور تعلیمی انحطاط سرفہرست ہے ، یہ دو نوں ایسے کاری زخم ہیں جس کی آج تک بھر پائی نہیں ہو پائی ہے ، تعلیمی پسماندگی کے خاتمہ کے لئے ہر طرف سے کوشش جاری ہے اور تعلیمی بیداری مہم کی وجہ سے طلبہ متوجہ ہو رہے ہیں ، لیکن غربت و افلاس نے اایسی چادر تان لی ہے کہ مسلم طلبہ اعلی تعلیمی اخراجات برداشت کر نے سے قاصر ہیں اور مسلم طلبہ کی ایک بڑی اکثریت کے لئے اعلی تعلیم کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ایسی صورت حال میں حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ اعلی تعلیم کے لئے (Donation)کو ختم کرے یا اس میں تخفیف کرے اور ملی تنظیموں اور رفاہی اداروں کا فرض ہے کہ وہ مسلم طلبہ کی تعلیم پر توجہ دیں اور اپنے بجٹ کا خطیر حصہ ان کی تعلیم کے لئے صرف کریں اور ان طلبہ کی جو اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کی (Donation) کے ساتھ دیگر تمام ضروریات کی کفالت کریں ، ادھر جمعیۃعلماء ہند نے مسلم طلبہ کے وظائف کا اعلان کیا ہے جو بہت خوش آئند بات ہے، لیکن ضرورت اس سے زائد کی ہے ،جس طرح مولانا ولی رحمانی صاحب نے رحمانی تٹھتی کا بیڑا اتھایا ہے ضرورت ہے کہ اس طرز کے مختلف ادارے ہر شہر میں قائم کئے جائیں اور سول سروسیز امتحان کی تیاری کرائی جائے او راس کے تمام اخراجات کو برداشت کیا جائے اور کچھ ذہین اور قابل طلبہ کا انتخاب کرکے اس کی مکمل کفالت کی جائے ۔
وقف بورڈ کے ذمہ داروں کو بھی اس جانب توجہ دینی چاہئے مسلمانوں کی جائدادیں اور اوقافیں اس کی زیادہ مستحق ہیں کہ اس کو مسلم طلبہ کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے میں خرچ کیا جائے اگر اوقاف کا تھوڑا حصہ بھی اس مہم میں صرف کیا گیا تومسلم سماج میں تعلیم کا منظر نامہ بدل سکتا ہے ، مسلم طلبہ میں تعلیم کو عام کرنے اور تعلیم یافتہ معاشرہ کی تشکیل میں ایک آسان اور ممکنہ فارمولہ یہ بھی ہے کہ ہمارے سرمایہ دار حضرات انفرادی طور پر غریب و نادار بچوں کی تعلیم پرتوجہ دیں اور ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق اپنی بستی اور گلی سے ایک یا دو بچے کی تعلیمی ذمہ داری قبول کرکے ان کے تمام اخراجات بر داشت کریں عجب نہیں کے چند سالوں میں ملک میں تعلیمی نقشہ تبدیل ہو جائے ۔
یہ چند ادنی گزارشات ہیں اگر ان کو بروئے کار لایا گیا تو مسلم قوم کی تعلیم میں حیرت انگیز تبدیلی پیدا ہوگی اور ان شاء اللہ جہالت و تاریکی کے مہیب اندھیرے علم و تحقیق کی روشنی سے منور ہوں گے ، بس ضرورت ہے کہ تبصروں سے گریز کرتے ہوئے عملی اقدامات کئے جائیں اور جو شخص خیرخواہانہ جذبے سے مسلم سماج کے لئے جو کرسکتا ہو کر گز رے انشاء اللہ بہتر اور مفید سے مفید تر نتائج سامنے آئیں گے ۔