اردو کے ادیب اورنثرنگار- قسط 5 – – مہدی ‘ ظفرعلی ‘ماجد دریاآبادی – – – پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

Share


قسط 5
اردو کے ادیب اورنثرنگار
مہدی افادی – ظفرعلی خان – مولانا عبد الماجد دریاآبادی

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

– – – – –
اردوکے ادیب اورنثرنگار- قسط 4 کے لیے کلک کریں
– – – – –

مہدی افادی ( ۱۸۷۰۔۱۹۲۱ء)
اردو نثر کو رومانی تحریک کی رنگینی ولطافت اور تابناکی سے روشناس کرانے والوں میں سجاد انصاری کے ساتھ مہدی افادی کا بھی نام لیا جاتا ہے ، وہ ایک منفرد انشا پرداز تھے اور فکری رویوّں کے اعتبار سے امتیازی خصوصیت کے حامل ادیب تھے ، انھوں نے عربی فارسی اوراردو زبانیں گھر پر سیکھیں اور ابتدائی انگریزی تعلیم مقامی اسکول میں حاصل کی اور پھر علی گڑھ میں تدریس کی منزلیں طے کیں ، مہدی افادی ایک ذہین انسان تھے اور غور وفکر کے عادی تھے ، اس لئے ان کی نظر نئے گوشوں پر پڑتی اور وہ ان پر اپنے منفرد انداز میں اظہار خیال کیا کرتے تھے

ان کی تحریروں میں ایک طرف شگفتگی اور شادابی ہے ، دوسری طرف عقلیت ہے ، ان دونوں کی آمیزش کی وجہ سے وہ اردو کے ممتاز اور صاحب طرز ادیب قرار دئے گئے ، انھوں نے’’ حکمائے یونان پر ایک سرسری نظر‘‘ کے نام سے ایک وقیع مضمون ۱۸۹۷ء میں شائع کیا تھا ، ان کے مضامین کا مجموعہ’’ افادات مہدی ‘‘ کے نام سے بہت پہلے شائع ہوچکا ہے ، وہ اردو ادب کے کلاسیکی روایات کا احترام کرتے ہوئے جدت کے پرستار تھے اور رومانیت پر اصرار کے باوجود عقلیت سے گریزاں نہیں تھے ، وہ علی گڑھ تحریک اور تہذیب الاخلاق سے بھی متاثر تھے ، ان کی تحریروں میں جذباتیت اور عقلیت اور رومانیت اور افادیت کا امتزاج نظر آتا ہے ، مہدی افادی سر سید کے ساتھ شبلی کے بھی پرستار ہیں اور شبلی کے طرز تحریر کو بہت پسند کرتے ہیں ، مہدی افادی نے بہت سے لوگوں کے اثرات کو قبول کیا ، وہ ناصر علی کی رنگین اور پر لطف نثر کے بھی دل دادہ ہیں اور شبلی کے بھی پرستار ہیں اور سر سید کے بھی قائل اور معترف ہیں ۔

ظفرعلی خان (پیدائش ۱۸۷۰ )
ظفرعلی خان اردو صحافت کی تاریخ میں بلند مقام رکھتے ہیں ، وہ ایک طویل عرصہ اخبار ’’ زمیندار‘‘ کی اڈیٹر رہے اور حیدرآباد دکن مین ملازمت کے دوران ’’رسالہ دکن ریویو‘‘ اور ’’ستارہء صبح ‘‘ نکالا ، زمیندار وہ اخبار تھا جس میں نیاز فتحپوری ، مولانا غلام رسول مہر ، عبد اللہ عمادی اور عبد المجید سالک جیسے ادیب مضامین لکھا کرتے تھے ، مولانا ظفر علی خان شعلہ نوا مقرر تھے اور بدیہہ گو شاعر تھے اور اسی کے ساتھ سیاسی رہنما اور قومی مبلغ بھی تھے ، جب وہ اپنی پاٹ دار آواز سے تقریر کرتے تو دشت وجبل اور وادی وکوہسار گونج اٹھتے ، اپنی شعلہ نوائی اور گرم تقریروں کیوجہ سے زمیندار کئی بار بند ہوا لیکن ادھر زمیندار بند ہوتا ادھر قوم کے تعاون سے پھر نکل آتا ، زمیندار نے مسلمان قوم کو خود اعتمادی سکھائی ، صحافت کے وسیلہ سے ادب کے ساتھ فکاہات کا معیار بھی بلند کیا ، زمیندار ایک طویل العمر اخبار تھا لیکن مولانا ظفر علی خان کے انتقال کے بعد وہ بھی زندہ نہ رہ سکا ، وہ کانگریس ، تحریک خلافت ، اتحاد ملت اور مسلم لیگ سب کے روح رواں رہ چکے تھے ، ان زبان میں سادگی اور پر کاری اور تشبہات و استعارات کی رنگینی یہ ساری چیزیں موجود ہیں ، ان کی عبارتوں میں ادبیت کی شان ہے ، ’’حقائق ومعارف‘‘ ، ’’جواہر الادب‘‘، ’’حقیقت وافسانہ‘‘ ان کی کتابیں ہیں ، ان کے علاوہ ’’بہارستان‘‘ ’’نگارستان‘‘ اور ’’چمنستان‘‘ ظفر علی خان کے کلام کے مجموعے ہیں ۔

مولانا عبد الماجد دریاآبادی (۱۸۹۲۔۱۹۷۷ء)
مولانا عبد الماجد دریاآبادی اپنی علمیت ، اپنے صحافتی تبصرے اور فلسفیانہ بصیرت اور ادبی ژرف نگاہی کی وجہ سے ادبی دنیا میں فراموش نہیں کئے جاسکیں گے ان کی تصنیفات کا دائرہ بہت وسیع ہے ، وہ قرآن مجید کے مترجم اور مفسر بھی ہیں ، شروع میں ان کے قلم سے کئی کتابیں نکلیں جیسے فلسفہ جذبات اور فلسفہء اجتماع ، ان دونوں کو انھوں نے اپنی تصنیفات کی فہرست سے خارج کردیا تھا ، وہ ادیب بھی تھے اور مصلح اور مفکر بھی تھے ، کئی برس تک پہلے ہفتہ وار’’ سچ‘‘ اور پھر’’ صدق جدید‘‘ کے نام سے جریدہ نکالتے رہے ، جس میں ان کے شذرات بہت قیمتی ہوتے تھے اور پورے ملک میں پڑھے جاتے تھے ، وہ حیدرآباد کے دار الترجمہ سے بھی وابستہ رہے، انہیں فلسفہ اور منطق کی کتابوں کے مترجم کی حیثیت سے بلایا گیا تھا ، ان کی کتابوں میں ’’محمود غزنوی‘‘ ’’مکالمات برکلے ‘‘ ’’مبادی فلسفہ‘‘ اور ’’فلسفہ اور اس کی تعلیم‘‘ بہت اہم ہیں ، مولانا دریاآبادی کا خالص ادبی اسلوب ’’سفر نامہء حجاز‘‘ اور ’’محمد علی ذاتی ڈائری ‘‘ میں بہت نمایاں ہے ، ’’آپ بیتی‘‘ کے نام سے انھوں نے اپنی سرگزشت بھی لکھی ہے ، سیرت پر ان کے مضامین اور نشری تقریروں کا مجموعہ ’’مردوں کی مسیحائی ‘‘ کے نام سے شائع ہوگیا ہے ، ’’مقالات ماجد‘‘ اور’’ انشائے ماجد‘‘ بھی مولانا کے مضامین کے مجموعے ہیں ، انھوں نے’’ تفسیر ماجدی‘‘ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں لکھی ہے ، انھوں نے جو خاکے لکھے ہیں ان کا مجموعہ ’’معاصرین ‘‘ کے نام سے شائع ہوگیا ہے ، انھوں نے پوری زندگی علم وادب کی خدمت میں گزاری اور اردو ادب کی تاریخ میں ناقابل فراموش خدمات انجام دیں ۔انہوں نے خود نوشت ’’ آپ بیتی‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔

Share
Share
Share